یہ ناممکن ہے کہ میں ایران کے
اسرائیل کے ساتھ قرار دوں
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
ذیل کے ویڈیو کلپ میں اردنی نیوز چینل
"رؤیا" پر ہونے والے مناظرے کی روداد پیش کی گئی ہے۔ اس مناظرے میں کئی اردنی اور غیر اردنی تجزیہ کار فلسطین اور غزہ میں اسلامی
جمہوریہ ایران کے کردار پر بحث کر رہے ہیں؛ لیکن دو کے درمیان تو باقاعدہ مناظرہ
چھڑ گیا ہے، ایک کا بیانیہ بالکل صہیونی اور یہودی بیانیہ ہے جس کو بہت سے عرب اور
مسلم ممالک نے اختیار کیا ہے اور وہ یہ فلسطین میں جاری مقاومت کا فلسطین کی آزادی
سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ سب تو ایران کے اشارے پر ہو رہا ہے جبکہ وہ سب جانتے
ہیں کہ صرف ای سفید جھوٹ ہے اور خوئے بد را بہانہ بسیار کا مصداق ہے ورنہ فلسطینی
جو اپنی سرزمین پر اپنے دفاع کے لئے لڑ رہے ہیں وہ کسی کے پراکسی کیسے ہو سکتے ہیں؟؟؟؟
اس مناظرے کا دوسرا فریق بھی ایک اردنی تجزیہ کار ہے جو انصاف کا دامن نہيں چھوڑتا
اور اس قصے کی اصل حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے؛ پڑھئے اور ویڈیو دیکھئے:
محمد نامی اسرائیل نواز
تجزیہ کار:
ایران کا پراجیکٹ مسئلۂ
فلسطین کو اپنے ایک بازو کے طور پر استعمال کر رہا ہے!
وہ فلسطین کی آزادی کے
درپے نہیں ہیں، اور اسے آزاد بھی نہیں کرائیں گے، اور اپنی پوری قوت سے اسرائیل پر
حملہ نہیں کریں گے [یعنی یہ درست ہے کہ اس نے اسرائیل
پر حملے کئے ہیں لیکن یہ کمزور حملے تھے = بنی
اسرائیلی بہانے!]
اس پراجیکٹ میں وہ [امام] خمینی کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے انقلاب برآمد
کرنے کے لئے ہر وسیلے کو بروئے کار لائیں گے [یہ نہیں
بتا رہے ہیں کہ ایران فلسطین کی حمایت کرکے اپنا انقلاب کہاں برآمد کرے گا جبکہ
فلسطین میں انقلاب جاری ہے]۔
حالانکہ ہم عربوں کے پاس
کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ [تو کیا اردن، مصر، امارات،
مراکش وغیرہ نے اسرائیل کو کسی حکمت عملی کے بغیر تسلیم کیا ہے]۔
باضمیر اردنی تجزیہ کار:
یقین کریں میں ایرانیوں سے
بہت اختلاف رکھتا ہوں، لیکن واجب ہے کہ ہم سمجھیں! میں ذاتی طور پر صرف ایک نظریئے
پر یقین رکھتا ہوں۔ وہ یہ اس امت کا کوئی بھی دشمن نہیں ہے جو امت کے خلاف استعماری،
جارحانہ، قبضے کے کسی پراجیکٹ پر عمل پیرا ہو، اگر کوئی ہے تو وہ یہی صہیونی دشمن
ہے۔ جومغرب کے نیزے کی انی ہے اور یہ دشمن پورے مغرب اور اٹلانٹک [کے دو ساحلوں] کی طرف سے [پراکسی
کے طور پر] ہمارے خلاف نبرد آزما ہے۔ اسرائیل وہ ہے کہ اگر آپ اس پر ایک
گولی چلائیں تو وہ ایک ہزار گولیاں چلا کر جواب دے گا۔ اور اگر وہ آپ پر ایک ہزار گولیاں
چلا دے تو آپ کو ایک گولی بھی نہیں چلانے دے گا۔
چنانچہ میری رائے یہ ہے کہ
ایران کی طرف سے کوئی قابضانہ منصوبہ وجود نہیں رکھتا۔
فلسطینی کیس میں تمام عربی
سرکاری ادارے اس مسئلے کو ترک کر چکے ہیں، وہ اس مسئلے سے منہ موڑ چکے ہیں، اور اس دشمن کے ساتھ تعلقات استوار کئے اور
فلسطینی فائل کو حزب کر دیا اور اس دشمن کے ساتھ پینگیں بڑھا دیں۔
اچھا تو ایران میدان میں آیا
اور اس مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لیا، اب یہ باتیں کہ ایرانی سچا ہے، ایران سچا نہیں
ہے، ایران ایران نے مدد کی ہے یا مدد نہیں کی ہے، کرنا ۔۔۔
اچھا تو جب آپ نے فلسطین
سے منہ موڑ لیا اور ایران نے آ کر اسے اپنے ہاتھ میں لیا اور زندہ رکھا، تو آپ کو
تنقید نہیں کرنا چاہئے!
آپ نے خود اس کو چھوڑ کر
نظر انداز کر دیا، اب آپ مدعی نہیں بن سکتے۔
ایران خطے میں ایک بڑا ملک
ہے، ترکیہ خطے میں ایک بڑا ملک ہے، اور وہ دونوں ایک عرب پراجیکٹ کے غیر حاضر ہونے
کی وجہ سے، فلسطین کے مسئلے میں فعال ہیں۔ [البتہ ترکیہ
زبانی کلامی فلسطین کا حامی ہے اور عمل میں صہیونیوں کو سازوسامان، تیل اور اسلحہ
بنانے کے لئے خام مال فراہم کررہا ہے، معلوم نہيں ان صاحب کا ترکیہ کی سرگرمیوں کا
تذکرہ کس حوالے سے کیا؟] کوئی دوسرا بھی ہوتا تو وہ ہماری خالی جگہ کو پر
کر دیتا۔ ہم نے خود فلسطین سے پسپا ہوگئے۔ عرب ممالک کا رسمی اور سرکاری نظام فلسطین
سے پسپا ہو گیا۔
یہی نہیں بلکہ 2006ع کی [33 روزہ] جنگ میں ان ہی عرب ممالک نے صہیونی دشمن کے
ساتھ رابطہ کیا اور کہا کہ "ہمیں حزب اللہ کے شر سے محفوظ کرو"۔
شیعہ ایران جو ـ جو آج
تسلسل کے ساتھ ہماری تنقید کا نشانہ بن رہا ہے ـ فلسطینی مقاومت کا اصل اور بنیادی
حامی ہے جبکہ فلسطینی مقاومت مکمل طور پر سنی ہے۔
ایران نے صہیونی دشمن کو
اپنے ملک سے نکال باہر کیا اور تہران میں واقع ان کے سفارت خانے میں عرب مسلم سنی
فلسطینی کو تعینات کر دیا اور سنی فلسطینی کو تہران میں جگہ دی۔ ایسا نہیں ہے کہ
فلسطینی شیعہ اور ایرانی اسی وجہ سے ان کی حمایت کر رہا ہے۔
اگر آپ مقاومت سے تعلق
رکھنے والے انسان ہیں تو آپ کو مقاومت کے تئیں ایران کی امداد کی وضاحت ضروری نہیں
ہے۔
کئی کئی بار حسن نصراللہ ـ
یہ سید الشہداء ـ کہا کرتے تھے کہ شیعہ اور سنی کی بحث کو چھوڑ دو! ہماری جنگ ایران
کے ساتھ مذہبی اور دینی جنگ نہيں ہے؛ اصل بات یہ ہے کہ ہم عربوں نے خود ہی اپنے بنیادی
اور مرکزی مسئلے کی طرف پیٹھ پھیر دی۔
محمد نے کہا:
ہم مختلف آراء کو احترام کی
نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ میں ایران سے نفرت نہیں کرتا لیکن میرا نظریہ یہ ہے کہ ایران
کا ایک پراجیکٹ ہے اور ایران کا ہاتتھ شام، عراق اور لبنان کے عربوں کے خون سے
رنگا ہؤا ہے! ایران ملوث ہے اس میں، یہ واضح ہے! میں آپ [چینل] کے مہمان کے اس خیال
کا بھی احترام کرتا ہوں کہ انھوں نے نصر اللہ کو سید الشہداء قرار دیا لیکن میرا خیال
ہے کہ ان کا نہ شہداء سے کوئی تعلق تھا نہ ہی دین اسلام سے، جو ناراض ہوتا ہے،
ناراض ہو جائے! [= صہیونی بیانیہ]
ایران کا ہاتھ امریکہ کے
تعاون سے، صدام اور عراقیوں کے خون سے رنگا ہؤا ہے۔
باضمیر اردنی:
مجھے حقیقتا افسوس ہے کہ
سن رہا ہوں کہ سید حسن نصراللہ کا اسلام اور شہادت سے کوئی تعلق نہیں ہے، واقعا
مجھے افسوس ہے! پہلی بات یہ ہے کہ کون شہید ہے، اس کا فیصلہ رب العالمین کرتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ میرے خیال
میں یہ سید حسن نصر اللہ ہی تھی جنہوں نے اس صہیونی دشمن کے خلاف جدوجہد میں ہماری
ـ سب کی ـ برائیوں اور عیبوں [اور ۔۔۔] کو چھپا رکھا ہے۔
حزب اللہ کا کردار شام میں
یہ تھا کہ انہوں نے کہ ایک عظیم سازش سے نمٹنے کے لئے شام کی مدد کی جب دو لاکھ بیرونی
مسلح افراد کو شام میں داخل کیا گیا تھا، دو لاکھ مسلح افراد۔ میں اپنے اس کلام کی
پوری ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ کس نے ان لوگوں کو شام میں داخل کیا؟ کس نے انہیں پیسہ
دیا؟ کس نے انہیں تربیت دی اور کس نے انہیں مسلح کیا؟
محمد: یعنی ایران کا ہاتھ
کسی کے خون میں بھی نہیں رنگا؟
باضمیر اردنی:
مجھے اپنی بات جاری رکھنے
دیجئے!
حزب اللہ کس لئے شام میں
داخل ہوئی؟ اس لئے کہ شام کامیاب ہوجائے، کیونکہ وہاں کا فتنہ ایک انقلاب نہیں تھا
بلکہ ایک سامراجی امریکی اور صہیونی پراجیکٹ تھا!
ان بظاہر مسلمان گروپوں کے اپنے زخمیوں کا علاج مقبوضہ طبریہ کے ہستپالوں میں
کراتے تھے! نصر اللہ شام میں داخل ہوئے تاکہ وہ دہشت گرد لبنان میں داخل نہ ہونے
پائیں۔
محمد: میں کہتا ہوں کہ ایران
اور اسرائیل ایک ہی محاذ میں کھڑے ہیں کیونکہ دونوں عربوں کے دشمن ہیں!! جی ہاں
دونوں ایک ہی محاذ میں کھڑے ہیں اور ہمیں نہيں بھولنا چاہئے کہ عراق کے موجودہ
حکام امریکی ٹینکوں پر سوار ہوکر بغداد میں داخل ہوئے تھے۔ یعنی عراق کے موجودہ
حکام ایران سے امریکی ٹینکوں پر سوار ہو کر عراق میں داخل ہوئے!!
اینکر: ایک منٹ میں جواب دیجئے:
باضمیر اردنی: یہی آخری
جملہ جو آپ نے کہا کہ عراق کے موجودہ حکام امریکی ٹینکوں پر سوار ہو کر بغداد میں
داخل ہوئے، تو درست ہے ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں! لیکن امریکی ٹینک ایران سے
عراق میں نہیں آئے دوسرے ملکوں سے آئے! مجھے کھل کر بات کرنے دیجئے۔
- وہ عرب ممالک تھے؟
- جی ہاں وہ عرب ممالک تھے،
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ
اگرچہ میں ایران کے ساتھ اختلاف رائے رکھتا ہوں اور ان سے کئی مرتبہ بحث بھی کر
چکا ہوں، لیکن محال ہے ناممکن ہے محال ہے، لیکن کسی بھی ملک کو اس لئے صہیونی دشمن
کے ساتھ ایک محاذ میں کھڑا نہيں کرسکتے کہ اس سے آپ کی رائے مختلف ہے!
۔۔۔۔۔۔۔
110
