اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ کے مطابق امریکی ماہر سیاسیات جان میئر شیمر (John Mearsheimer) نے مشہور صحافی اور مصنف کرس ہیجز (Chris Hedges) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
وہ [اسرائیلی] واضح طور پر حزب اللہ کے ساتھ جنگ
میں الجھ گئے ہیں، کیونکہ حزب اللہ حماس کی حمایت کر رہی ہے۔ اور حزب اللہ نے شمالی
اسرائیل پر راکٹ اور کچھ میزائل برسا کر حماس کی حمایت کی، جس کی وجہ سے 60 سے 70
ہزار کے درمیان اسرائیلی شمالی سرحدی علاقوں کو چھوڑ کر "وقتی طور پر"
مرکزی اسرائیل سکونت پذیر ہوئے۔ چنانچہ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ نیتن یاہو کی
حکومت انہیں شمال میں اپنے گھروں میں پلٹانے کی پابند ہے۔ لہذا وہ حزب اللہ کو
شمالی اسرائیل پر راکٹ برسانے سے روکنا چاہتا تھا۔
حزب اللہ نے کہا: وہ واحد عمل جو ان میزائلوں کا
راستہ روک سکتا ہے یہ ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ یا نسل کُشی بند کر دے، اور فطری
طور پر [صہیونی-یہودی فطرت کی رو سے] اسرائیلیوں نے یہ تجویز مسترد کردی کیونکہ وہ
غزہ میں نسلی صفایا کرنے میں مصروف ہیں۔
چنانچہ اسرائیل نے فیصلہ کیا کہ حزب اللہ کے
ساتھ اپنی گرہ دوسرے طریقے سے کھول دے۔
انہوں نے سب پہلی حکمت عملی جو اپنائی وہ حزب
اللہ کے قائدین کو منظر سے ہٹانا تھا اور نصر اللہ اور حزب اللہ کے کچھ اعلی سطحی
کمانڈروں کو قتل کر دیا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ حکمت عملی بالکل غیر مؤثر رہی۔ پھر
انہوں نے جنوبی لبنان کے شہروں اور بستیوں حتی کے بیروت کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا
اور بہت سارے عوام کا قتل عام کیا۔ اس 'تعزیری مہم!' کا مقصد یہ تھا کہ حزب اللہ
ہاتھ اوپر اٹھا کر ہتھیار ڈال دے اور جنوب سے پسپا ہو جائے۔ یہ مہم بھی کامیاب نہ
ہوسکی۔
چنانچہ اب وہ تیسری حکمت عملی کی طرف چلے گئے جو
جنوبی لبنان پر زمینی فوج کے ذریعے جنوبی لبنان پر جارحیت کرنے سے عبارت تھی اور
کئی ہفتوں سے زمینی کاروائیوں میں مصروف رہے لیکن یہ حکمت عملی بھی جواب دے گئی۔
اگر آپ ہر روز اسرائیلی ذرائع سے با خبر ہوں تو
دیکھیں گے کہ حزب اللہ اب تک بدستور روزانہ 135 سے 140 یا حتی 150 تک میزائل داغ
کر اسرائیل کے اندر بھیج رہی ہے۔ چنانچہ وہ [اسرائیلی] اس مشکل کے حل کرنے سے بھی
بے بس ہو چکے ہیں اور یہ حکمت عملی بھی مسئلے کو حل نہیں کر رہی ہے۔ اور میں اضافہ
کرنا چاہوں گا کہ یہ غزہ کی مشکل کو بھی حل نہیں کر رہی ہے۔ اور ایران پر فوجی
حملہ کرکے بھی وہ اپنی مشکلات کو حل نہيں کر سکیں گے۔
یہ سارے مسائل ہمیں بتا رہے ہیں کہ اسرائیل
انتہائی شدید مشکل میں گھرا ہؤا ہے (Israel is in
deep trouble) اور چونکہ ہم [امریکیوں] نے بھی اپنا ہاتھ اسرائیلوں کے ہاتھ میں
دیا ہے، ہم بھی شدید مشکل میں گھر چکے ہیں۔
سوال: آپ نے کہا 'deep trouble' اس کو ہمارے لئے ذرا واضح کیجئے کہ یہ عظیم مسئلہ اسرائیل کے لئے
اور ہمارے لئے کیا معنی رکھتا ہے؟
میئر شیمر: میں اسرائیل سے شروع کروں گا۔ اسرائیل
نے ہمیشہ کہا ہے کہ اس کا آخری آپشن ـ جسے وہ مجبور ہو کر اپنائے گا ـ طویل مدت
اور فرسودہ کر دینے والی جنگ ہے۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل تیزرفتار جنگ کی طرف
راغب تھا کہ مثال کے طور پر چھ روز تک جاری رہے، سنہ 1967ع کی جنگ کی طرح۔ علاوہ
ازیں اسرائیلی ہمیشہ زور دے کر کہتے تھے کہ وہ ان تمام جنگوں میں خود ہی لڑنا
چاہتے ہیں۔ [کیونکہ اس زمانے میں ان کا تجربہ یہ تھا کہ ایسی جنگ میں نہ کوئی
اسرائیلی مرتا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی بڑا نقصان پہنچتا ہے] اور وہ دوسرے کسی بھی
ملک سے وابستہ نہیں ہونا چاہتے۔
جو کچھ آج دکھائی دے رہا ہے، آپ دیکھیں، میرے خیال
میں وہ تین الگ الگ جنگوں میں الجھے وہئے ہیں جن کے خاتمے کے آثار دکھائی نہیں دے
رہے ہیں؛ اور کم از کم [اب تک] ایک سال تک طویل ہو چکی ہیں؛ اور اس کا مطلب یہ ہے
کہ اسرائیلی بری طرح مشکل میں پھنس چکے ہیں، کیونکہ ان میں سے کسی بھی جنگ میں تیزرفتاری
سے ـ اور فیصلہ کن انداز سے ـ کامیاب نہیں ہو سکتے۔
علاوہ ازیں، بالکل واضح ہے کہ اگر اس جنگ کی کیفیت
پر نگاہ ڈالیں، تو اسرائیلی بری طرح امریکیوں سے وابستہ ہیں۔
وہ نہ صرف اسلحہ تیار کرنے کی صنعتیں بنانے میں
امریکیوں سے وابستہ ہیں بلکہ وہ اپنے دشمنوں سے لڑنے کے لئے بھی امریکی فوجیوں سے
بھی وابستہ ہیں۔
آپ کو یاد ہے کہ جب 14 اپریل کو ایران نے اسرائیل
پر حملہ کیا [= آپریشن وعدہ صادق-1] تو امریکہ نے ایرانی میزائلوں اور ڈرون طیاروں
سے ـ اسرائیل کے ذاتی دفاع ـ میں بنیادی کردار ادا کیا۔
اور ان دنوں اسرائیل کی طرف سے ایران پر حملے کا
انتظار ہے [واضح رہے کہ یہ انٹرویو ایران پر اسرائیل کے شرمناک حملے سے ایک دن قبل ریکارڈ
کیا گیا تھا] اور ایران بھی اسرائیل پر حملہ کرے گا، تو اگر ایران انتقامی کاروائی
کرے تو ہم نے اس بار پہلے سے زیادہ فورسز وہاں تعینات کر لی ہیں تاکہ اسرائیل
"اپنا دفاع" کر سکے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اسرائیل خود ایران کے میزائل حملے
سے نہیں نمٹ سکتا۔
۔۔۔۔۔
110
