اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ
ابنا ـ کے مطابق، سیدالمقاومۃ الاسلامیہ جناب شہید حسن نصر اللہ کی شہادت اور
طوفان الاقصی کی سالگرہ کے موقع پر ویبینار "نصر اللہ کا مشن" منعقد ہؤا۔
اس موقع پر ویبینار کے
منتظم نے ذیل کی تمہید پیش کرکے ویبینیار کا باقاعدہ آغاز کیا:
بِسْمِ اللَّهِ
الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الم * غُلِبَتِ الرُّومُ *
فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ.
ناظرین محترم! ہم آپ کے
سامنے نصر اللہ مشن ویبینار پروگرام کو لئے حاضر خدمت ہیں۔ سب سے پہلے میں اپنے
معزز مہمانان گرامی قدر کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اپنی گوناگون مصروفیات کو
چھوڑ کر ہمارے لئے وقت نکالا۔ اس کے بعد آپ تمام شرکاء کا بھی تہہ دل سے ممنون و
مشکور ہوں کہ آپ لوگ شہید مقاومت اور فلسطین کے مظلومین سے اظہار یکجہتی کرتے
ہوئےاس پروگرام میں شریک ہوئے۔
تو میں بغیر کسی تمہید کے،
ایک سوال، کہ جو عموما دانشور نما افراد اٹھاتے ہیں نجی محفلوں کی حد تک یا سوشل میڈیا
میں، [کی طرف اشارہ کرتا ہوں] کہ وہ بارہا یہ کہتے ہیں کہ آخر حماس کو ایسی کیا
مجبوری آ پڑی تھی کہ [اس نے] طوفان الاقصی جیسا آپریشن شروع کیا؛ جنگ کا آغاز ہو گیا؛
اس کا اگر سادہ الفاظ میں جواب دینا چاہیں، تو [وہ] یہ ہے کہ اس طرح کے سوالات وہی
لوگ اٹھاتے ہیں، جو مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو، [اور اس کی] نوعیت کو نہیں سمجھتے ہیں،
یا ان کی نگاہ میں غاصب اور مظلوم دونوں برابر ہیں۔ ان کی نگاہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
لیکن ہم اگر تھوڑی تفصیل کی طرف جائیں، کہ طوفان الاقصی آپریشن کیوں ہؤا اور حماس
نے اس راستے کو انتخاب کیوں کیا؟ یقینا فلسطین کا مسئلہ، جو دہائیوں سے چلتا آ رہا
تھا، وہ یقینا مدهم ہو چکا تھا۔ عرب حکمران فلسطین کے مسئلے کو پس پشت ڈال کر
اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے جا رہے تھے، جو اسرائیل کو رسمیت دینے کے
لئے ایک بنیادی عمل تھا۔
صدی کی ڈیل کا جو فارمولا
تھا؛ گریٹر اسرائیل کو اسی کی بنیاد پر پروان چڑھنا تھا، ایسے حالات میں حماس اگر
طوفان الاقصی کی کاروائی نہ کرتی، تو اسرائیل نہ صرف ایک چھوٹا سا رسمی ملک بن
جاتا بلکہ ایک وسیع اور عریض ملک بننے جا رہا تھا اور اس کے بعد اگر فلسطینی اسرائیل
کے خلاف اٹھ کھڑے ہو جاتے، تو بھی بہت سے عرب حکمران، جو آج بالکل خاموش تماشائی
بنے ہوئے ہیں، وہ اسرائیل کی کمان سے، خود فلسطینی مظلوموں کے خلاف لڑتے، پھر حماس
کو ایک غاصب، خونخوار اور درندہ صفت گروہ کے خلاف لڑنے کے بجائے مسلمانوں سے لڑنا
پڑتا، اس قدر وسیع پیمانے پر یہ سازش اور یہ گیم کھیلی گئی تھی حماس کے خلاف۔ لہذا
حماس مجبور تھی کہ مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کو اقوام عالم، مخصوصا مسلم امہ پر واضح
کرنے اور اسے اجاگر کرنے کے لئے، کوئی اقدام اٹھائے۔ لہذا حماس نے یہی اقدام اٹھایا
جو طوفان الاقصی کی شکل میں ہمارے سامنے آیا، جو کہ ایک عمدہ اور بہترین اقدام
تھا۔ اس آپریشن کی اہمیت کو اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں تو دیکھیں کہ ابھی اقوام عالم
اور پوری دنیا اسرائیل، امریکہ [اور برطانیہ] سمیت، ان کے تمام تر اتحادی ممالک کے
مظالم سے باخبر ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ خود امریکہ کے اندر، برطانیہ کے اندر، یورپی
ممالک کے اندر، [رائے عامہ] ان ممالک کے حکمرانوں اور اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات
کے خلاف سے اٹھائے ہوئے ہے۔ تو یہی وجہ تھی کہ حماس نے اس طوفان الاقصی آپریشن کو
شروع کیا۔
باقی مسئلہ فلسطین کو ـ جو
دب گیا تھا، اسے ایک گروہ کا مسئلہ بنا کر، ختم کرنا چاہتے تھے ـ اجاگر کر دیا پوری
دنیا کے لئے۔ اور پھر اس کی اہمیت کو دیکھ کر، شہید راہ مقاومت سید حسن نصر اللہ
نے سب سے پہلے اس تحریک کی حمایت کر دی اور یہ اعلان کر دیا کہ جب تک قدس کو آزادی
نصیب نہیں ہوتی ہے، ہم حماس کے ساتھ ہیں اور ساتھ نبھائیں گے۔ اور آپ نے بارہا کہا
کہ ہمارے پاس دو راستے ہیں: یا ہم قدس کو آزاد کرائیں گے، ہمیں فتح نصیب ہوگی؛ اگر
ہمیں فتح نصیب نہیں ہوتی ہے، تو اس [اسرائیل] کو [من مانیاں کرنے کے لئے] آزاد نہیں
چھوڑیں گے اور ایک کربلا بنائیں گے۔
یقینا آج، الحمد للہ حماس
اس مشن پر قائم ہے، اور یقینا ان شاء اللہ مسلم امہ کو اس کی آزادی کی نوید ملے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
دیکھئے:
- شہید حسن نصر
اللہ کی شہادت اور طوفان الاقصی کی سالگرہ کے موقع پر ویبینار - 2