اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |
خبیث صہیونی ریاست خطے میں ـ فلسطین سے لے کر
لبنان، شام اور یمن تک ـ ایک سالہ جنگ اور جرائم کے ارتکاب کے باوجود، نہ
صرف اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکی ہے بلکہ مسلسل زوال اور بربادی کی طرف بڑھی ہے۔
فوجی لحاظ سے ظاہری کامیابیوں کے باوجود اسے آج اندرونی طور پر سماجی سیاسی اور
معاشی لحاظ سے اور بین الاقوامی سطح پر انتہائی شکست کھا گئی ہے اور اس کا مستقبل
تاریک ہو چکا ہے اور وہ 76 سال قبل کے مرحلے میں پہنچ گئی ہے اور اسے آج 1948 کی
طرح اپنے وجود خطرے میں لڑھکتا نظر آ رہا ہے۔ فارن افیئرز نے ان ہی حقائق کی رو سے
"اسرائیل کی شکست کا تضاد: کسی ملک کی فوجی کامیابی اس کی سیاسی ناکامی کو
کیونکر جنم دیتی ہے" کے عنوان سے ایک مفصل رپورٹ لکھی ہے۔ رپورٹ اسرائیلی
اخبار ہاآرتص کے چیف ایڈیٹر آلوف بین نے لکھی ہے۔ انھوں نے اس بات کی وضاحت کی ہے
کہ مقبوضہ فلسطین کے یہودی آبادکار ایک سال کے بعد مایوس کیوں ہیں اور ذلت کیوں
محسوس کرتے ہیں؟ بین نے لکھا ہے کہ اسرائیلی سید حسن نصراللہ کی شہادت سے پھولوں
نہ سما رہے تھے کہ ایران نے میزائل حملہ کرکے ان کی سرمستی اڑا کر رکھ دی اور ان
کا میٹھا ہوتا ہؤا ذائقہ تلخ کر دیا۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطے اور مقبوضہ فلسطین میں قیام امن کا واحد راستہ
غزہ اور مغربی کنارے میں خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔
ذیل کا متن فارن افیئرز کی مفصل رپورٹ کا خلاصہ:
گذشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس کو ـ جو کہ
اسرائیل کی طاقت کی علامت سمجھے جاتے تھے ـ شکست دی۔ یہ ادارے برسوں سے جانتے تھے
کہ حماس حملے کی تیاریاں کر رہی ہے لیکن ان کا خیال تھا کہ حماس میں ایسی کسی
کاروائی کی ہمت و جرات نہیں ہے۔ اسرائیلی ادارے اور بنیامین نیتن یاہو اور عام
اسرائیلی آبادکار سمجھتے تھے کہ جنوبی سرحدیں مستحکم اور ناقابل تسخیر ہیں ایسی کہ
حماس موجودہ صورت حال کو چیلنج نہیں کرے گی۔ لیکن حماس نے وہی کچھ کیا جس کا
اسرائیل کو یقین نہیں تھا۔ حماس کے حملے کے بعد ہفتوں تک ہر اسرائیلی کی زبان پر
یہی جملہ تھا کہ "سب کچھ بدل گیا ہے"، لگتا تھا کہ اسرائیلی آبادکار
اپنی خوداعتمادی کھو گئے ہیں اور سلامتی، سیاسی اور سماجی صورت حال کے سلسلے میں
ان کے تصورات چور چور ہوتے نظر آ رہے تھے۔ شکست اور ناکامی اور جنوب میں رہنے والے
آبادکاروں کی نجات کے لئے پہنچنے میں تاخیر کی وجہ سے اسرائیل کی فوجی قیادت بھی
مکمل طور پر غیر معتبر ہو گئی تھی۔
جنگ کے ایک سال بعد
نیتن یاہو نے متحدہ جنگی کابینہ تشکیل دی، جس میں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی
جماعتوں کو بھی نمائندگی دی گئی۔ اس کابینہ نے چند ہی دنوں میں ڈھائی لاکھ ریزرو
فوجیوں کو غزہ پر حملہ کرنے کے لئے بلایا اور ابتدائی دھچکے کے ازالے کے بعد کینہ
پروری سے کام لیتے ہوئے جوابی کاروائی کا آغاز کیا، غزہ کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا،
20 لاکھ افراد کو غزہ کے اندر ہی کے گھر کر دیا اور 40 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا
قتل عام کیا۔ غزہ کے ایک تہائی حصے پر قبضہ کرنے کے باوجود، بہت سے اسرائیلی
موجودہ صورت حال کو شکست کا مصداق سمجھتے ہیں۔ امریکہ نے اپنی پوری طاقت اسرائیل
کے پلڑے میں ڈآل دی لیکن اسرائیل کامیاب نہ ہو سکا۔ حماس کے راہنما یحییٰ نے
ہتھیار نہیں ڈالا اور تقریبا 100 اسرائیلی یرغمالی غزہ میں لاپتہ ہیں، اور نیتن
یاہو کے بقول ان میں سے نصف افراد ابھی زندہ ہیں۔
چنانچہ اسرائیل کو ایک المناک صورت حال کا سامنا ہے، عالمی سطح پر روزافزوں
تنہائی کا شکار ہے، اس کا معاشی مستقبل تاریک ہے، جس کی وجہ سے مایوسی اور ناامیدی
نے اسرائیلی فوج اور آباکاروں کو گھیر لیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ طوفان الاقصی کے دوسرے دن جو سیاسی اور سماجی صورت حال پیدا
ہوئی تھی، حیرت انگیز حد تک، آج بھی اسی طرح ہے، شمال اور جنوب سے بھاگے ہوئے
اسرائیلی اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکتے۔ آس پاس کے دشمنوں کے خلاف اسرائیل کی
جنگ اسرائیلی یہودیوں کو ایک بیرونی دشمن کے مقابلے میں نہ صرف متحد نہیں کر سکی
ہے بلکہ ریاست میں نیتن یاہو کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان سماجی اور سیاسی
دراڑیں وسیع تر اور اختلاف کہیں زیادہ گہرے ہو چکے ہیں اور نیتن یاہو کا دائیں
بازو کا اتحاد فلسطینی ریاست کے قیام کی تحریک کے حامیوں کو کچلنےاور اسرائیل کے
سیاسی اور سماجی قیادت، جمہوری اداروں اور لبرل دھاروں کے راہنماؤں کو ہٹانے کی
شدید کوششوں میں مصروف ہے۔
شمالی محاذ
اسرائیلی فوج نے 17 ستمبر کو، اسی صورت حال میں، اپنے خطرناک ترین دشمن یعنی
حزب اللہ پر گستاخانہ حملوں کا آغاز کیا؛ وہی حزب اللہ جس نے اسرائیل پر حماس کے
حملے کے ایک دن بعد، شمال میں دوسرا محاذ کھول دیا تھا۔ اسرائیل نے اپنے دیرینہ
دشمن اور حزب اللہ کے قائد سید حسن نصر اللہ کو قتل کر دیا اور جنوبی لبنان پر
زمینی حملے کا آغاز کیا۔ اسرائیل کے مین اسٹریم کے ذرائع ابلاغ نے اس حملے کو اپنی
خوداعتمادی بحال کرنے اور دنیا کو یہ جتانے کا ذریعہ قرار دیا کہ اسرائیل اب بھی
ہوشیار، طاقتور، ٹیکنالوجی کے میدان میں متاثر کن اور قابل تحسین ہے۔ لیکن جیسا کہ
غزہ کی جنگ اسرائیل کو خطرے میں ڈالنے
والے بہت سے حقائق تبدیل نہیں کر سکی یہ نیا محاذ بھی کسی تبدیلی کا باعث نہیں بنے
گی، سوا اس کے اسرائیل اپنی داخلی سیاست کے دائرے میں فلسطینیوں کے حوالے سے اپنی
پالیسیوں کو بدل دے۔
امریکہ اور یورپ نے غزہ پر اسرائیلی حملے کی علامتی مخالف ضرور کی لیکن عمل
میں اسے وہ سب کچھ کرنے دیا جو وہ کرنا چاہتا تھا اور انہوں نے ابھی تک امن کے لئے
کسی بھی سنجیدہ اقدام سے گریز کیا ہے، وہ نیتن یاہو کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں
جو کہتا ہے کہ امن کے قیام کی باتیں قبل از وقت ہيں!
مغرب کی طرف سے اس جنگ میں اسرائیل کی ہمہ جہت حمایت کے باوجود، آج اسرائیلی
محسوس کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر تمام معاشروں میں الگ تھلگ اور تنہا ہو چکے ہیں۔
یہ احساس ایک لحاظ سے حقیقی ہے اور بہت ساری فضائی کمپنیوں نے اسرائیل کی طرف جانے
والی پروازیں معطل کر رکھی ہیں، اور اسرائیل کریڈٹ ریٹنگ کے لحاظ سے بہت حد تک
نیچے گر چکا ہے لیکن ایک لحاظ سے یہ احساس مسلط کردہ ہے اور وہ یوں کہ مین اسٹریم
کے عبرانی ذرائع ابلاغ فلسطین کے حق میں دنیا بھر کے شہروں اور یونیورسٹیوں میں
ہونے والے مظاہروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، گوکہ وہ نیتن یاہو کے اس دعوے کو
بھی قبول کرتے ہیں کہ یہ مظاہرے "یہود دشمنی" (Antisemitism) کا مظہر ہیں!!! اسی طرحیہ دعویٰ بھی اس صورت حال
کو ہوا دیتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کُشی اور جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے (اور اس حوالے سے بین الاقوامی عدالتوں
میں کچھ مقدمات کی سماعت بھی ہو رہی ہے) گوکہ ان [حقائق] کو اسرائیل کے اندر شر
انگیز پروپیگنڈا قرار دیا جاتا ہے!!!
اور ایران میدان
میں آتا ہے
لبنان پر حملے
کے بعد اسرائیلیوں کی خوداعتمادی بحال ہونے جا رہی تھی۔ حزب اللہ نے 7 اکتوبر کے
بعد ثابت کرکے دکھایا تھا کہ وہ ـ حماس کی حمایت کی غرض سے اسرائیل کے شہروں،
ہوائی آڈوں اور بجلی گھروں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی
فوج اپنی نفری دو محاذوں میں بانٹنے پر مجبور ہوئی تھی۔ سات اکتوبر کے حملے سے ذلت
و شکست محسوس کرنے والے اسرائیلی سمجھنے لگے تھے کہ حزب اللہ پر حملہ 1967 کی چھ
روزہ جنگ کی یاد دلا رہی ہے جس میں اسرائیل نے فضائی قوت کی برتری کی وجہ سے بڑی
تیزرفتاری سے کامیابی حاصل کی تھی۔ نیتن یاہو نے [عجلت زدگی میں] اعلان کیا کہ
"اسرائیل کامیاب ہو رہا ہے اور ہم حزب اللہ کے حامی ایران پر عنقریب ایسا ہی
حملہ کریں گے!!!"، اسرائیل کی وزارت تعلیم نے مذہبی اسکولوں میں بچوں کے لئے
ناچ گانے کے پروگراموں کا اعلان کیا اور سیکولر اور لبرل یہودی بھی اگرچہ سر عام
ناچ گانے سے پرہیز کر رہے تھے لیکن وہ بھی خوش تھے اور اپنے "بہادر پائلٹوں
اور زیرک جاسوسوں" کی تعریف کر رہے تھے جنہوں نے کامیابی کے اس احساس کے
اسباب فاہم کئے تھے۔
لیکن یہ سرمستی
زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکی اور بہت جلد برباد ہوگئی۔ ایران نے بڑی تعداد میں
میزآئل بھیج کر [شہید اسماعیل ہنیہ، شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید جنرل نیل
فروشان کے قتل پر] جوابی حملہ کیا اور دہشت گردوں [شہادت پسند مجاہدین] نے تل ابیب
ریلوے اسٹیشن میں چھ اسرائیلیوں [یعنی یہودی آبادکاروں] کو ہلاک کر دیا۔
لبنان کے خلاف
نوزائیدہ زمینی کاروائیاں بھی پہلے ہی [ناکام ہو چکی ہیں اور] فوجی ہلاکتوں کے
لحاظ سے ـ پچھلے فضائی حملوں اور خصوصی کاروائیوں کے مقابلے میں ـ بہت مہنگی ثابت
ہو رہی ہیں۔ فطری امر ہے کہ اگر اسرائیل [موجودہ صورت حال سے بھاگ نکلنے کے لئے]
وسیع پیمانے پر علاقائی جنگ کا آغاز کرتا ہے جس میں ایران کا بھی کردار ہو تو یہ
اسرائیل کو تیزرفتار اور پائیدار کامیابیاں حاصل کرنے سے محروم کرے گی۔ اور
اسرائیلیوں کی شکست کا احساس اتنا عظیم ہے کہ حزب اللہ ہی نہیں بلکہ ایران کے خلاف
ممکنہ کامیاب کاروائیاں بھی اسے بدل نہیں سکتیں۔ چنانچہ اسرائیلیوں کے لئے یہ
حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ 7 اکتوبر کے بعد ان کے آس پاس کے بڑے حقائق بدل چکے
ہیں چنانچہ ان کی حکمت عملی کو بھی اسی تناسب سے بدلنا چاہئے۔
جنگ بندی کی
ضرورت
حماس کے حملے
[اور طوفان الاقصیٰ] کے ایک سال بعد، اسرائیل اپنے نقصانات کا سوگ منا رہا ہے اور
اس کے بہت سے مناظر مسلسل نشر ہو رہے ہیں۔ اسرائیل اپنی معاشی پوزیشن کھو رہا ہے
اور ریاست کے لبرل سائنسدان اور دانشور بڑے پیمانے پر اسرائیل چھوڑ کر [اور الٹی
نقل مکانی کرتے ہوئے اپنے آبائی ملکوں میں] جا رہے ہیں۔ حکومت آبادکاروں میں
یکجہتی کا احساس ابھارنے میں بالکل ناکام ہے بلکہ اپنے ہی معاشرے میں انتشار اور
تفرقہ پھیلانے کی اپنی پالیسی پر کاربند ہے۔
اسرائیل فوج اور
ریزرو فورسز طویل ترین اور مبہم ترین جنگ کی وجہ سے فرسودگی سے دوچار ہیں، اور اگر
بین الاقوامی عدالتیں اسرائیلی حکام کی گرفتاری کا حکم نہ بھی دیں، اس ریاست کو
پھر بھی غزہ کی تباہ کاریوں اور قتل عام کی وجہ سے اپنی کھوئی ہوئی آبرو، اور
اخلاقی نتائج اور عدیم المثال بدنامی کے ساتھ مشرق وسطی اور پوری دنیا میں، رہنا
ہوگا۔
اسرائیل کو سید
حسن نصر اللہ کے قتل کی وجہ سے سرشاری اور مدہوشی سے باہر نکلنا چاہئے اور ایران
کے خلاف تباہ کن جنگ کا آغاز کرنے کے بجائے اپنی موجودہ "کامیابیوں" پر
اکتفا کرکے امریکہ کی ثالثی میں جنوبی اور شمالی محاذوں پر جنگ بندی کو آخری شکل
دے کر اپنے قیدیوں کو رہا کروا دے، غزہ کی تعمیر نو کے عمل کو آسان کر دے، اور
قومی اندمال (National healing) کے عمل کا آغاز
کرے۔ جنگ کو، مکمل کامیابی کے حصول کی بیہودہ کوششوں کے تسلسل میں جنگ کو طول دینے
سے صرف اور صرف جانی اور مالی نقصانات پر منتج ہوتی ہیں؛ حتیٰ اگر ـ نیتن یاہو کی
امیدوں کے مطابق ـ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ برسراقتدار آئے ـ غزہ اور لبنان
عشروں سے اسرائیل کے لئے دلدل ثابت ہوئے ہیں۔ اسرائیل کو پرانی غلطیاں دہرانے سے
اجتناب کرنا چاہئے، بلکہ اسے مزید نقصانات کا سد باب کرنے کے لئے سودے بازی سے کام
لینا چاہئے۔
فلسطینی ریاست
کا قیام
اگر اسرائیل میں
ایک ذمہ دار حکومت ہوتی اور ریاست کے طویل مدتی تزویراتی مفادات کو نظر میں رکھتی،
تو وہ اسرائیل ـ فلسطین امن مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کر چکی ہوتی اور اس موقع
کو دو ریاستی سمجھوتے کی طرف آگے بڑھنے کے لئے غنیمت سمجھتی مغربی کنارے اور غزہ
میں ایک فلسطینی ریاست کے کے لئے ایک معتبر راستے کی فراہمی وہ واحد راستہ ہے جس
پر گامزن ہو کر فلسطین کو علاقائی ممالک کے نزدیک قابل قبول بنایا جا سکتا ہے اور
سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا امکان پیدا کیا جا سکتا ہے؛ لیکن اسرائیل کا
المیہ یہ ہے کہ اس کی موجودہ حکومت اس ریاست کو مخالف سمت میں لے کر جا رہا ہے۔ نیتن یاہو سمجھتا
ہے کہ اس کا تاحیات مشن یہ ہے کہ فلسطین کی قومی تحریک کو کچل دے اور فلسطینیوں کے
ساتھ کوئی ارضی یا سفارتی مصالحت سے اجتناب کرے۔ نیتن یاہو اور اس کے سیاسی اتحاد
کی اعلانیہ پالیسی بحیرہ روم سے دریائے اردن تک ایک یہودی ریاست کا قیام جس میں
اگر ضرورت پڑے تو فلسطینیوں کو کم از سیاسی حقوق دے دیئے جائیں گے، اور اس کی
ترجیح یہ ہوگی کہ غیر یہودیوں کو کوئی سیاسی رعایت نہ دی جائے، حتیٰ وہ غیر یہودی
افراد جو اسرائیلی شہریت کے حامل ہیں۔
اسرائیلی 7 اکتوبر کے گہرے
مفہوم کو دیکھنے اور اس کے اسباب و عوامل
کو جانچنے اور غزہ کی جنگ سے پہلے ہی کے غیر مستحکم صورت حال کو سمجھنے، معاشی ترقی
کی لہر پر سوار ہوکر مسئلہ فلسطین کو "مینج کرنے‘‘ کی پالیسی میں خود فریبی
کا اعتراف کرنے اور خطرات کو سمجھنے کے بجائے، یوں جتانا چاہتے ہیں کہ "فلسطینیوں
کا کوئی وجود ہی نہین ہے"، اور یوں وہ منظم اور گہری نسل پرستی اور اپارتھائیڈ
(نسلی امتیاز) کو تسلیم کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور انہیں ممکنہ طور پر غزہ یا حتی
جنوبی لبنان پر مستقل قبضہ کرنے اور اندرونی سطح پر مذہبیت اور مطلق العنانیت کی
طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے، جنگ کے ایک سال بعد، [نہ صرف اسرائیل کی سلامتی
کی کوئی ضمانت فراہم نہ کی جا سکی بلکہ آج] اسرائیل کو درپیش طویل المدت خطروں میں
اضآفہ ہؤا ہے، اور اضافہ ہو رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکتہ: مذکورہ مضمون ایک
صہیونی صحافی آلوف بین نے لکھا ہے؛ اس نے تنقیدی لب و لہجے میں صہیونی مفادات خطرے
میں پڑنے کا مرثیہ کہا ہے، چنانچہ اس کے تمام مندرجات سے ابنا کا متفق ہونا ضروری
نہیں ہے۔ یہ مضمون مختلف زاویوں سے صہیونیوں کی شکست کے اعترافات سے مالامال ہے،
اور اس کے ترجمے اور اشاعت سے ابنا کے قارئین و صارفین کو صہیونیوں کی بنیادی
کمزوریوں اور ان کی نسل پرستیوں اور اسلام دشمنیوں کی مختلف جہتوں سے آشنا کرنا،
مقصود تھا۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110