اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، جامعۂ الزہراء کی پروفیسر صغریٰ فہیمی نے قیام سید الشہداء(ع) کے پس منظر
اور آنجناب کی تحریک کے اہداف کے بارے میں کہا: یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امام
حسین(ع) کا قیام سیاسی تھا، چنانچہ قیام عاشورا اور سیاست کو ایک دوسرے سے قابل
تفکیک نہیں ہیں۔ اور یہ کہ اس قیام کے لئے کوئی ایک ہدف متعین کرنا ممکن نہیں ہے،
چنانچہ نہیں کہا جاسکتا کہ امام کا کوئی دوسرا ہدف نہیں تھا۔ جیسا کہ بعض لوگوں نے
آپ کا مقصد حکومت کا قیام، بعض نے شہادت، اور سید بن طاؤس جیسے علماء نے آپ کے
قیام کا مقصد شہادتِ عرفانی میں خلاصہ کرکے باقی اہداف و مقاصد کی سراسر نفی کی
ہے۔
امام حسین(ع) نے معاویہ کے دور میں قیام نہیں کیا؟
پروفیسر فہمی نے کہا: امام حسین(ع) کی طرف سے حکومت اسلامی کے قیام کا مسئلہ یزید کے زمانے میں ہی سامنے نہیں آیا۔ جس وقت آپ صلح امام حسن(ع) کے تحت معاویہ کے ساتھ جنگ بندی کی حالت میں تھے، اور کبھی ان کے درمیان زبانی کلامی یا مراسلاتی جھگڑا بھی رہتا تھا، کوفہ سے آپ کے لئے خطوط آتے تھے اور آپ کو اس شہر کی امامت کی دعوت دی جاتی تھی۔ یعنی اسی زمانے سے حکومت اسلامی کے قیام اور کوفیوں کی دعوت جیسے مسائل موجود تھے، لیکن امام اسلامی معاشرے کو جانتے تھے، اور قیام سے اجتناب کرتے تھے تاکہ [صلح کی خلاف ورزی کا الزام آپ پر نہ لگے اور] اگر اس سلسلے میں کچھ کرنا ہؤا تو معاویہ کے بعد اور يزید کے زمانے میں انجام پائے۔ یزید کو امت جانتی تھی اور امام حسین(ع) کی کیاست دیکھئے کہ آپ نے اپنا قیام اس وقت تک مؤخر کیا کہ ظلم و جہل کی اس علامت کے خلاف انقلاب کا ماحول انتہا تک پہنچ جائے۔
امام محض شہادت کے خواہاں نہیں تھے
انھوں نے کہا: بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ امام کی عزیمت کا واحد مقصد شہادت سے عبارت ہے، اور یہ درست نہیں ہے، کیونکہ اگر آپ محض شہادت کے خواہاں ہوتے تو مدینہ اور مکہ میں بھی شہادت کے لئے ماحول آمادہ تھا اور یزیدی کارکزار، جاسوس اور کرائے کے قاتل دونوں شہروں میں آپ کے قتل کے درپے تھے، لیکن آپ اپنے اور اپنے گھر والوں کی جان کی حفاظت اور حرم مکہ کی بے حرمتی کا سد باب کرنے کی غرض سے وہاں سے باہر نکلے اور مسلم(ع) کو کوفیوں کی دعوت کے پیش نظر، کوفہ روانہ کیا۔ چنانچہ اس سوال سے قطع نظر کہ "کیا امام جانتے تھے کہ شہید ہونگے یا نہیں"، یہ کہنا کہ امام صرف شہادت پانے کے لئے کوفہ کی طرف عزیمت کر گئے، درست نہیں ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے یہ آپ کا بہترین انتخاب تھا۔
شاید تاریخ آپ پر سوال اٹھاتی اگر کوفہ نہ جاتے
انھوں نے کہا: کچھ لوگ پوچھتے ہیں، کہ امام(ع) کوفہ کیوں گئے؟ کیا آپ اپنی شہادت اور اپنے اہل خانہ کی اسیری سے بے خبر تھے؟ جواب یہ ہے کہ کوفہ کی صورت حال اور مکہ کے حالات کے پیش نظر، اگر آپ کوفہ نہ جاتے تو شاید تاریخ آج آپ پر تنقید کرتی کہ کوفیوں نے آپ کو حکومت اسلامی کی تشکیل کی دعوت دی لیکن آپ نے ان کی دعوت کو نظر انداز کیا۔ چنانچہ امام کی عزیمت ایک قسم کا اتمام حجت ہے، کہ آپ اپنا فریضہ ادا کرنا چاہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔
عرض مترجم:
بہت سوں کا سوال ہے کہ بہت سوں کی مخالفت کے باوجود امام حسین(ع) کوفہ کیوں گئے؟ لیکن یہ پوچھتے ہوئے کوئی یہ تاریخ سے استفسار نہیں کرتا کہ امام کو مدینہ سے اور پھر مکہ سے کیوں نکلنا پڑا؟ حجازیوں نے آپ کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟ آپ کے حجازی ساتھی ـ سوا آل ابی طالب کے ـ راستے ہی سے واپس کیوں ہوئے؟، اور یہ کہ کسی بھی دوسرے اسلامی شہر سے آپ کو دعوت نامہ کیوں نہیں ملا؟، اور صرف کوفہ نے آپ کو دعوت کیوں دی؟
بہر حال یہ حقیقت ہے کہ عالم اسلام میں صرف شہر کوفہ تھا جس نے امام حسین(ع) کو دعوت دی۔
تو پھر تاریخ کو کس پر ملامت کرنا چاہئے، کوفہ ہی کیوں قصوروار ٹہرایا جاتا ہے، کیا اس کے پیچھے کوئی خاص بات کوئی خاص ہاتھ نہیں ہے؟
امام کو اپنی شہادت کا یقین تھا، اور آپ نے اپنے سفر کے دوران کئی بار فرمایا تھا کہ یزیدی آپ کو ضرور شہید کریں گے، یعنی آپ جہاں بھی جاتے امت کی بے حسی اور جبر کے حکمرانوں کے خوف کے باعث شہید کئے جاتے، لیکن اگر کوفہ نہ جاتے تو یہ سوال تاریخ میں ثبت ہو جاتا کہ آپ کوفہ جاتے تو شاید شہید نہ کئے جاتے! تو آپ کوفہ کیوں نہیں گئے؟
بہرحال، عاشورا کے اہداف کے حصول کے لئے تمام ائمۂ معصومین (علیہم السلام) نے کوششیں کی ہیں اور جان و مال کی قربانیاں دی ہیں اور آج بھی انتظار ہے وارث حسین(ع) کا جو آئیں گے اور عاشورا کے تمام مقاصد کو حاصل کر لیں گے۔ ان شاء اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110