19 جولائی 2023 - 20:32
 دفاعِ حق کے وقت خاموش رہنے والا شخص گونگا شیطان ہے۔۔۔ امام موسیٰ صدر

قیام حسینی کا فلسفہ بہت سوں نے بیان کیا ہے، لیکن "اصلاح" کا ہدف ایک انوکھی خصوصیت کا حامل ہے / امام موسیٰ صدر کا کہنا تھا کہ حسین(ع) راہ اصلاح کے شہید ہیں، چنانچہ اگر ہم آپ کے نانا کی امت کی اصلاح کی کوشش کریں گے، تو گویا ہم نے آپ کی مدد کی ہے اور اگر خاموش رہیں یا اصلاح میں رکاوٹ بنیں تو آپ کو چھوڑ گئے ہیں اور یزید کے مددگار بن گئے ہیں۔

عزائے حسینی کے ایام فلسفۂ عاشورا دوبارہ غور کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ تصور کہ معاشرہ رسول خدا(ص) کے وصال کے صرف 50 سال بعد اس قدر منحرف ہؤا کہ یہ المیہ رقم کیا گیا، ایک جان لیوا تصور ہے؛ ایسا المیہ جس میں دین کے نام پر اور پیغمبر(ص) کی جانشینی پر قبضہ کرنے کی غرض سے، زمانے کی پاک ترین ہستیوں کو قربان گاہ لے گیا، اور حضور اکرم (ص) کے برحق جانشینوں کو "فتنہ گر" اور "خارجی" کا لقب دیا گیا، اور "ظاہری مسلمان دلوں" کو فریب دیا۔

جو سطور آپ پڑھ رہے ہیں وہ ـ ایران کے شہر کے قم کے علمی گھرانے میں پیدا ہوکر، علم حاصل کرنے کے بعد لبنان کی مجلس اعلیٰ اور تحریک أمل کے بنیاد رکھنے والے نامی گرامی مسلمان مفکر ـ امام موسیٰ صدر کی کتاب  "سفر شہادت" سے مأخوذ ہیں:

ان کے خیال میں محرم کے ایام انتخاب اور صف بندی کے ایام ہیں، انہیں امید تھی کہ عاشورا اور ایام عزا حرکت اور اٹھنے ابلنے کے دن ہوں۔ وہ سیدالشہداء(ع) کے عقیدتمند کہلوانے والوں سے کہتے ہیں: "میں اس امام بارگاہ کو امامبارگاہ نہیں سمجھتا، سوا اس کے اسرائیلی دشمن سے لڑنے کے لئے دلیروں کی تربیت کرکے انہیں فارغ التحصیل کرے"۔

عاشورا؛ حق و باطل کی ابدی جنگ کا تسلسل

حسین(ع) 70 افراد کے ساتھ 20000 کے لشکر کے سامنے کھڑے ہو گئے جن کے پیچھے لاکھوں سپاہی موجود تھے، اور ایک تشہیری مشینری بھی جو مسلمانوں کو فریب دیتی تھی، حسین(ع) کو خارجی کہتی تھی یہاں تھا کہ شہروں نے شہادت حسین(ع) پر جشن بپا کیا۔ یہ وہ ماحول ہے سج میں سب نے امام معصوم اور ان کے پیغمبر کے جانشین کے خلاف صفیں باندھ لیں۔

حسین(ع) نے اسی بنا پر حالات کا جائزہ لیا، جان گئے کہ دستیاب قوت اور مادی حساب و کتاب سے کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے چنانچہ رسول اللہ(ص) کے زبانی کہہ دیا "خدا نے چاہا ہے کہ تجھے مقتول دیکھ لے، اور خدا نے چاہا ہے کہ اہل حرم کو اسیر دیکھ لے"۔

امام اُس ماحول میں اس خطاب کے ساتھ اپنی تحریک کا آغاز کرتے ہیں، اور مدینہ میں بنی ابی طالب(ع) کو لکھتے ہیں کہ "جان لو تم میں سے جو بھی میرے ساتھ آئے گا، مارا جائے گا، اور جو نہیں آئے گا کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوگا"۔

امام موسیٰ صدر اپنی تقاریر کو لمحۂ شہادت سے نہیں بلکہ اس سے سے نہیں بلکہ اس سے پہلے کے ایام ـ اور شہادت کے لئے ان کے ارادے ـ سے شروع کرتے ہیں، اور ایک عظیم فیصلے کے منطقی اسباب و دلائل کے بارے میں بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں: "ہم اہل بیت(ع) اللہ کی خوشنودی کو اپنی خوشنودی سمجھتے ہیں اور اس کی طرف کی بلاؤں پر صبر کرتے ہیں"۔

امام موسیٰ صدر کے لئے حسین(ع) آغاز روز شہادت سے نہیں ہوتا بلکہ سیدالشہداء کی حرکت کا آغاز انسانی تاریخ کی ابتداء اور حق و باطل کے معرکے کے آغاز سے ہوتا ہے جو ہمیشہ جاری رہا ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ان کے خیال میں حسین(ع) کا خطاب تقدیر ساز ہے جو کہتا ہے: "فیصلہ کرو، کس محاذ میں کھڑا ہونا چاہتے ہو"۔

کہتے ہیں: "امام حسین(ع) نے دیکھا کہ جنگ کمیتی لحاظ سے غیرمتوازن ہے، تو اس کی کیفیتی جہت کو بڑھایا، اور اس کو معنویت و اخلاق اور انسانی حسن کی جہت عطا کی"۔

عاشورائی ذمہ داری

سید موسیٰ صدر کا خیال ہے کہ حسین(ع) کی ایک ذمہ داری ہے جو خاندان وحی اور نسل نبوت کا فرزند ہونے کے ناطے ان پر عائد ہوئی ہے، ادھر یزید نے دین کو اپنی دنیا کا بازیچہ بنایا ہے، کہتے ہیں: "اگر حسین(ع) نہ ہوتے، دین کہ نہ پہچانا جاتا، کیونکہ بہت ساری راہوں اور روشوں سے اپنا چہرہ چھپا دیتا، اور یزید حکم پر حکم اور فرمان پر فرمان جاری کرکے، دین کے چہرے پر ڈالے گئے پردوں کے پیچھے ہی، اس [دین] کو مکمل طور پر نابود کر سکتا تھا"۔

وہ بیعت سے امام حسین(ع) کے انکار اور آپ کے زمانے کے لوگوں کو متعارف کروا کر ایک قوی استدلال قائم کرکے کہتے ہیں: "حسین(ع) کی جنگ فرد پر منحصر نہیں ہے"، اور حق و باطل کا معرکہ صدیوں سے جاری ہے اور جاری رہے گا۔ وہ اپنے سامع و قاری کو حقیقتِ حسین(ع) کے ادراک کی دعوت دیتے ہیں: "دفاعِ حق کے وقت خاموش رہتا ہے وہ ایک گونگا شیطان ہے"۔

زیارت؛ اٹھان اور حرکت کے لئے تجدید عہد

سید موسیٰ صدر زیارت امام حسین(ع) کو حرکت اور اٹھان کا منصوبہ سمجھتے ہیں: "زیارت امام حسین(ع) کا مقصد عاشورا کو متحرک کرنا اور اس واقعے کو گوشہ نشینی کی قید سے آزا کرانا اور اس ماضی اور حال سے الگ کرنے کی کوششوں کی مخالفت کرنا ہے، کیونکہ پورا خطرہ اسی میں ہے کہ عاشورا صرف یادوں کی محافل تک محدود ہوجائے، اور واقعۂ کربلا صرف کتب، سیرت نگاری یا محض اخروی اجر و ثواب کے لئے "ذکر" کا موضوع بن جائے"۔

گریہ و بکاء؛ جدوجہد کا محرک

امام موسیٰ صدر گریہ و بکاء کو جدوجہد کے لئے محرک سمجھتے ہیں: "ہم امام حسین(ع) کے لئے بہت روتے ہیں، لیکن کبھی بھی رونے میں رک نہیں جاتے، ہمارا رونا غم و حزن اور باطل سے غیظ و غصے اور جذبۂ انتقام کی تجدید ہے"۔

شب تاسوعا میں امام حسین(ع) کا رویہ

وہ شب تاسوعا کے دوران امام حسین(ع) کے رویے کا درست تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "امام حسین(ع) نے اس شب اپنے اصحاب، اہل بیت اور خواتین کو ایک اٹل معرکے میں عزت و وقار کے ساتھ داخلے کے لئے تیار کرنے کی کوشش کی۔ امام گریہ و زاری اور خواری، بے چارگی اور ڈر خوف کو مکمل طور پر ان سے دور کرنا چاہتے تھے"۔

عزّت؛ عاشورا کا روشن پیغام

وہ "عزّت" کو عاشورا کے روشن پیغامات میں سے ایک گردانتے ہیں جس کا خاکہ حسین(ع) اور خاندان حسین(ع) نے روز عاشورا مکمل طور کھینچ لیا، اور جو بھی اپنے خطاب یا تحریر میں ـ ان باتوں کے بیچ، جنہیں وہ آل رسول(ص) سے نسبت دیتا ہے ـ اس عزت سے دور ہوجائے، وہ حسین کی بات نہیں کر رہا ہے بلکہ یزیدیوں کی صف میں کھڑا ہے"۔

عزائے حسین(ع)؛ مردوں اور خواتین کی تربیت

امام موسیٰ صدر کہتے ہیں؛ "عاشورا اور امام حسین(ع) اور سیدہ زینب(س) کے لئے عزاداری، مردوں اور خواتین کی تریبت کے لئے کوششوں کا آغاز ہے"۔

"قیام عاشورا کے بعد، اور پوری تاریخ میں، یہ انقلاب صحرا اور ریگستان کی ریت کے بیچ سے پورے عالم اسلام میں منتقل ہؤا، سال بہ سال، نسل بہ نسل، اور صدی بہ صدی، منتقل ہؤا، یہاں تک کہ آج ہمارے سامنے ہے اور ہم اس سے فیضیاب ہو رہے ہیں اور ہر روز ہم اس سے ایک نئی بات، ایک نئی اصلاح، ایک نیا موقف، ایک نئی تحریک، ایک نیا انقلاب، ایک صالح عمل اور تاریکی، اور ظلم کو دفع کرنے کی راہ میں مکمل اور کارآمد ایثار و قربانی اور باطل کو دور ہونے کی ایک نئی روش سیکھ لیتے ہیں"۔

ان کا خیال ہے کہ "ہم قافلۂ حسینی میں شامل ہیں، اور تاریخ کی بنیاد اسی انداز سے رکھتے ہیں، جیسا کہ حسین(ع) چاہتے ہیں"۔

گریہ و بکاء اور مجالس کا انعقاد کافی نہیں ہے!

امام موسیٰ صدر کو امید ہے کہ "ہمارا یہ روز عاشورا، ہمارے یہ ایام، زندہ حسینی ایام ہوں"۔ وہ یہی چاہتے تھے، وہ یہی سفارش کرتے تھے، کہ رونا کافی نہیں ہے۔ حسین راہ اصلاح کے شہید ہیں، چنانچہ اگر ہم آپ کے نانا کی امت کی اصلاح کی کوشش کریں گے، تو گویا ہم نے آپ کی مدد کی ہے اور اگر خاموش رہیں یا اصلاح میں رکاوٹ بنیں تو آپ کو چھوڑ گئے ہیں اور یزید کے مددگار بن گئے ہیں۔

وہ بہ آواز بلند کہتے ہیں: اے بھائیو! اپنی صفوں کا انتخاب کرو: صف حسین یا صف یزید؟!

..........................

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

..........................

110