عالمی اہل
بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا کے مطابق، المیادین سیٹلائٹ چینل کی اخباری ویب گاہ نے
اپنی اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے "فتاح ہائپر
سونک" میزائل کی رونمائی کا جائزہ لیا ہے اور لکھا ہے کہ ایران کی یہ فوجی پیشرفت
کے توسط سے امریکہ اور اس کے حلیفوں ـ بشمول جعلی صہیونی ریاست ـ کے لئے واضح
پیغام ہے جس کی وجہ سے ان کی صفوں پر خوف اور آشفتہ حالی کی کیفیت طاری ہوئی ہے۔ اور
دوسری طرف سے علاقائی فوجی اتحاد کی باضابطہ تشکیل سے قبل، اس میزائل کی نقاب
کشائی، نئی ترتیب (New order) میں، علاقائی سلامتی کو یقینی
بنانے کے حوالے سے، تہران کی طاقت کا مظہر ہے۔
امریکہ دھمکی دے، ایران پیشقدمی کرے
المیادین نے اپنی رپورٹ میں لکھا:
عرصۂ دراز سے ایران پر لائے جانے والے مسلسل دباؤ کے باوجود، یہ بدستور جما ہؤا ہے اور نہ صرف پسپا نہیں ہؤا بلکہ اپنی دفاعی صلاحیتوں کی ترقی پر زور دے رہا ہے۔ امریکہ نے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں جوہری مذاکرات کے دوران، ایران کی دفاعی صلاحیت ـ خاص کر اس کی میزائل قوت ـ کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی، لیکن تہران نے اسے دو ٹوک الفاظ میں ٹھکرا دیا۔ ادھر تہران نے اپنی فوجی طاقت ـ خاص طور پر میزائلوں کی ترقی ـ کے حوالے سے کسی بھی قسم کے مذاکرات یا دباؤ کو مسترد کیا اور ادھر اس نے فوجی صلاحیتوں کی نقاب کشائی کی رفتار کو تیز تر کردیا، حالانکہ امریکہ نے ایران کے آگے رکاوٹیں کھڑی کرنے اور اسے مشکل حالات سے دوچار کرنے کے سلسلے میں کسی بھی اقدام سے دریغ نہیں کیا تھا۔
امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے مشترکہ جامع منصوبۂ عمل (JCPOA) کے تحت ہونے والے مذاکرات میں، ایران پر فوجی صلاحیت اور ڈرون طیاروں کی صلاحیت کے حوالے سے متعدد الزامات لگائے، جس کا پہلا مقصد ایران کی فوجی صلاحیت کو محدود کرنا تھا۔ لیکن نتیجہ یہ ہؤا کہ ایران نے اپنا عزم مسلط کر دیا؛ اور یہ ایسی حقیقت ہے جسے تسلیم کرنے سے واشنگٹن بھاگ نہیں سکتا۔ تہران نے اپنی فوجی مصنوعات کے تجربوں اور طاقتور فوجی مشتقوں کے ذریعے ثابت کرکے دکھایا کہ اس کے پاس دنیا کی جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی وافر مقدار میں موجود ہے، حالانکہ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ایران کا جوہری کیس نئی تبدیلیوں سے گذر رہا ہے! اور یہ وہی چیز ہے کہ ایران بیان کرنا چاہتا ہے؛ یعنی یہ کہ میزائل پروگرام کا جوہری مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ایران نے اپنے اوپر لگی ہوئی ظالمانہ پابندیاں اٹھوانے کے لئے ابھی تک کوئی غلط بیانی بھی نہیں کی ہے اور دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ وہ جوہری مذاکرات کو - کسی قسم کے دباؤ کے تحت ـ قبول نہیں کرتا، اور دباؤ کے تحت کوئی رعایت نہیں دیتا۔ امریکہ بھی اس موقف سے آگاہ ہے چنانچہ اس نے مذاکرات کے پچھلے دور کے بالواسطہ مذاکرات کے اختتام سے پہلے، کچھ شرطیں رکھیں اور کچھ بہانوں کا سہارا لیا۔ یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس نے جوہری مذاکرات کی تکمیل کو ایران کی فوجی ترقی کو محدود کرنے سے مشروط کیا، اور ناکام رہا؛ اور واشنگٹن آج ـ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی صلاحیت کے مسئلے کے جوہری مذاکرات کے ایجنڈے میں اندراج کے بغیر ـ اس ملک کی فوجی طاقت کے مظاہرے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔
ایران نے جوہری معاہدے کی بحالی کے بارے میں بات چیت کے آغاز سے قبل ذیل کے چار موضوعات پر تاکید کی تھی:
1۔ امریکہ ضمانت دے کہ کسی وقت بھی جوہری معاہدے سے الگ نہیں ہوگا؛
2۔ ایران پر لگی تمام پابندیوں کو اٹھایا جائے؛
3۔ معاہدے حوالے سے معاہدے کے فریق کی کارکردگی جانچنے (Fact checking) کا امکان فراہم کیا جائے؛
4۔ بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی (IAEA) کی طرف سیاسی طرز کے الزامات کے تمام کیسز کو بند ہونا چاہئے۔
تل ابیب کا خوف اور تہران کے پیغامات
المیادین نے عالمی سطح پر ایران کی فوجی طاقت کی پوزیشن کے بارے میں لکھا:
گلوبل فائر پاور کی درجہ بندی کے مطابق، سنہ 2022ع میں ایران دنیا کی طاقتور ترین افواج کے چودہویں درجے پر ہے۔ ایسا ملک جو علاقے میں سب سے بڑے اور متنوع ترین میزائل کے ذخیرے کا مالک ہے جن میں طویل فاصلے، درمیانی فاصلے اور کم فاصلے پر مار کرنے والے میزائل شامل ہیں۔
المیادین نے ایران کے ہائپر سونک میزائل کی نقاب کشائی پر عبرانی [صہیونی] ذرائع ابلاغ کے رد عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا: یہ جدید ترین صلاحیتں اسرائیل کو بدحواس کر رہی ہیں؛ یہ وہ حقیقت ہے جو فتاح ہائپر سونک کی رونمائی کے بعد [پہلے سے زیادہ] آشکار ہوئی۔ اسرائیلی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ صہیونیوں کے سیکورٹی ادارے ایران کی نئی فوجی صلاحیتوں سے خوفزدہ ہو گئے ہیں۔ صہیونی چینل 12 کے عسکری تجزیہ نگار نیر دوری (Nir Dvori) نے کے کہنے کے مطابق، اصل مشکل یہ ہے کہ یہ میزائل خلائی حدود میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور ایک جست سے آسمان کی طرف روانہ ہوتا ہے، اور اس کا جست کی تشخیص، مشاہدہ اور اس کا سد باب کرنا، بہت دشوار ہے۔
دوسری طرف سے اسی چینل کے دوسرے تجزیہ نگار اوحد ہیمو (ohad hemo) کا کہنا تھا کہ ایران نے کئی علاقوں سے اپنے میزائلوں کا رخ ہماری طرف کر دیا ہے، اسرائیل ایک بار دیکھ رہا ہے کہ ایران کا یہ اقدام بھی ان اقدامات میں سے ایک ہے جو وہ تسدیدی قابلیت (Deterrence capability) میں اضافے کے لئے کر رہا ہے۔ عبرانی اخبار معاریو نے بھی لکھا ہے کہ فتاح ہائپر سونک میزائل کی رونمائی اسرائیل کے لئے ایک پیغام اور کھلی دھمکی ہے۔
المیادین نے اس روداد میں مضمر ایرانی پیغامات کے بارے میں لکھا:
صدر اسلامی جمہوریہ ایران، ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے فتاح ہائپر سونک میزائل کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہم جانتے ہیں ہماری حصول یابیوں سے غیظ میں مبتلا ہیں، چنانچہ ہم ان سے کہتے ہیں کہ "غصے سے مر جاؤ" کیونکہ یہ حصول یابیاں ایرانی عوام کی شادمانی کا باعث ہیں۔ ایرانی میزائل بناتے ہیں اس لئے کہ دشمنوں کے مقابلے میں اپنی حفاظت کریں، اس لئے کہ دشمن کے ذہن میں ایران پر حملے کا خیال بھی نہ آ سکے۔
المیادین نے مزید لکھا: اسرائیل ایران کی فوجی اور فنی صلاحیتوں میں اضآفے سے ہمیشہ خوف و تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔ صہیونی اخبار ہا آرتص نے اسرائیلی حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ "ایران اپنے میزائلوں کی ٹیکنالوجی کو خلائی پروگرام میں بھی استعمال کر سکتا ہے، ایٹمی وارہیڈز کے حامل بیلسٹک میزائلوں میں بھی استعمال کر سکتا ہے اور یہ اس علاقے میں [اسرائیل کے لئے] حقیقی خطرہ ہے"۔
المیادین نے لکھا ہے کہ اسرائیل کو ایران کے جوہری سمجھوتے میں کسی بھی قسم کی پیشرفت، بھی، تشویش محسوس ہوتی ہے، اور اسرائیل کی سب سے بڑی فکرمندی ہی جوہری سمھوتہ ہے؛ کیونکہ صہیونی ذرائع عارضی جوہری سمجھوتے سے اپنے حکام کی شدید تشویش کو تسلسل کے ساتھ اپنے تبصروں موضوع بناتے آئے ہیں۔ صہیونی چینل "کان Kann" کے سفارتی نامہ نگار امیچائے اسٹین (Amichai Stein) نے بھی اس حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے اور لکھا ہے: "اب جبکہ ایرانی وزیر خارجہ نے ہفتے کے آخر میں مغربی فریقوں کے ساتھ رابطے اور بات چیت کی ہے تو اسرائیل ایک نئے جوہری معاہدے کے انعقاد سے بہت زیادہ خائف ہے"۔
ایران کی قیادت میں علاقائی سلامتی سے تل ابیب کی تشویش!
المیادین نے لکھا نے ایران کی ترقی اور فوجی صلاحیتوں میں اضافے کی وجہ سے تل ابیب کے حکام کی گھبراہٹ اور بے چینی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسرائیلی حکام نے ایران کے حوالے سے مختلف ممالک سے اپیلیں کی ہیں اور مختلف ممالک کے دورے کئے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیونی حکام بہت زیادہ گھبرا گئے اور اپنا چین و سکون کھو بیٹھے ہیں؛ کیونکہ اگر ایران کی کامیابی کی صورت میں، اسرائیل ـ جوہری سمجھوتے کے حوالےسے ـ خود کو تنہا دیکھ رہا ہے؛ اسی وجہ سے [شیخیاں بگھارتے ہوئے] یہ جتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ "طاقت استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے!"۔ دفاعی اور عسکری شعبوں میں ایران کی صلاحیتوں میں اضافہ صہیونی غاصبوں کے لئے بدستور، خوف و تشویش کا سرچشمہ ہے۔
المیادین نے اپنی رپورٹ کے آخر میں لکھا ہے: جو مسئلہ صہیونی غاصبوں کے لئے ان سارے مسائل سے بھی بڑھ کرباعث تشویش ہے وہ یہ ہے کہ ایران نے فتاح ہائپر سونک میزائل کی رونمائی کی تقریب سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کے بعد منعقد کی ہے، کیونکہ ایران اس وقت خطے کے ممالک کو یہ پیغامات منتقل کر رہا ہے کہ وہ خلیج فارس کی سلامتی کے تحفظ کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، اور اور اس نے یہ پیغام اپنی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل شہرام ایرانی کے ذریعے منتقل کیا ہے اور وہ یہ کہ "ایران عنقریب امارت، قطر، بحرین، عراق، پاکستان اور بھارت کے ساتھ، بحری اتحاد قائم کرنے کا عزم رکھتا ہے"۔ [اور ظاہر ہے کہ اس اتحاد میں شمولیت کی مسلمہ شرط صہیونیوں کے ساتھ کسی بھی اتحاد سے علیحدگی ہے جیسا کہ امارات نے پہلے ہی امریکی-صہیونی بحری اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے، چنانچہ یہ مجوزہ اتحاد صہیونیوں سمیت مسلمانوں کے تمام دشمنوں کے لئے مزید تشویش کا باعث ہوگا اور ان مغربی طاقتوں کی شکست کا موجب ہوگا جنہوں نے اسلامی دنیا میں اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور تنازعات کی بنیاد پر استوار کیا ہے]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110