25 نومبر 2020 - 10:22
 قبلۂ اول کا خدا حافظ، قبلۂ موجود بھی یہود کے چنگل میں!؟

ہم کہتے تھے کہ مسلمانو جاگ جاؤ قبلۂ اول کو خطرہ ہے لیکن مسلمان نہیں جاگے اور آج نیتن یاہو حجاز شریف بھی پہنچ گیا ہے اور اب کہنا پڑے گا کہ مسلمانو! اب تو جاگ جاؤ، مسجد الحرام اور مکہ و مدینہ کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ "لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ وَ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ؛ (المائدہ، 82)  
یقیناً آپ یہودیوں اور مشرکین کو ایمان والوں کا شدید ترین دشمن پائیں گے"۔

"وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ؛ (البقرہ، 120)
اور ہرگز خوش نہیں ہونگے آپ سے یہودی اور عیسائی، جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ ہو جائیں"۔

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ؛ (المائدہ، 51)
اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جس نے تم میں سے ان سے دوستی کی تو وہ ان ہی میں سے ہے۔ یقینا اللہ ظالموں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا"۔

ہم کہتے تھے کہ مسلمانو جاگ جاؤ قبلۂ اول کو خطرہ ہے لیکن مسلمان نہیں جاگے اور آج نیتن یاہو حجاز شریف بھی پہنچ گیا ہے اور اب کہنا پڑے گا کہ مسلمانو! اب تو جاگ جاؤ، مسجد الحرام اور مکہ و مدینہ کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔
کچھ عرصے سے مسلم ممالک پر مسلط یہودی کٹھ پتلیوں نے غاصب یہودی ریاست (نام نہاد اسرائیل) کے ساتھ حالات معمول پر لانے کی دوڑ میں شامل ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ اب پاکستان تک بھی پہنچا ہے اور لفافہ خوروں نے اعلانیہ طور پر جرأت کرکے پاکستان کے ٹی وی چینلوں پر یہود کے چیلوں [بنی سعود، بنی نہیان اور بنی خلیفہ] کی طرف کے دباؤ کو بہانہ بنا کر پاکستان کے امن و سکون کو یہودیوں کے سپرد کرنے کے لئے تگ و دو کا آغاز کیا ہے۔ گوکہ یہودیوں کی غاصب ریاست کے ساتھ تعلق بنانے کا مسئلہ سب سے پہلے سنہ 1980 کے عشرے میں اٹھا تھا اور جمعیت علمائے اسلام کے ایک مولوی صاحب اجمل قادری نے اس شجرہ ممنوعہ کا پھل چننے کے لئے اچھل کود کا آغاز کرلیا تھا جو بعد کے زمانوں میں بھی دہرایا گیا؛ اور جیسا کہ ہم جیسوں نے بارہا کہا تھا کہ غاصب ریاست کو تسلیم کروانے کا عمل عمران خان کے دور میں ہی شروع ہوگا، ہم نے دیکھا کہ سب سے پہلے عمران خان نے کہا کہ "ہم پر اپنے قریبی دوستوں کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے شدید دباؤ کا سامنا ہے" اور پھر سستے داموں بکنے والے قلم اور چینلز، اینکرز اور صحافی بھی میدان میں آئے اور اس دباؤ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے لگے تاکہ پاکستانی عوام کے اندر بھی کسی قسم کی مزاحمتی سوچ نہ پنب سکے۔ گوکہ مسلمین کے شدید ترین اور بدترین دشمن کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے کچھ عواقب اور نتائج ضرور ہوسکتے ہیں اور جو دشمن کے مورچے میں بیٹھتا ہے وہ بخوبی جانتا اور سمجھتا ہے کہ جس طرح کہ اس نے امت کے امن و سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہے اسی طرح اس کی اپنی سلامتی بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
جن لوگوں نے یہودی ریاست کو تسلیم کیا ہے اور جو اسے تسلیم کرنے کے لئے پر تول رہے ہیں وہ محاذ مزاحمت، قبلہ اول (مسجد الاقصی) کے پاسداروں اور قبلۂ موجود (خانۂ کعبہ) کے جان نثاروں کے نزدیک خائن اور غدار ہیں اور کچھ اینکروں اور کچھ روپے پیسے لے کر خدا تک کی نفی کرنے والوں کی غیر علمی تجزیوں اور محض خیالی تصورات کی بنا پر مسلمانوں کی غیرت چھیننے کی کوشش کرنے والوں کی بےبنیاد باتوں اور سعودی-نہیانی دھمکیوں کو دین اسلام کے دشمنوں کے ساتھ سازباز کرنے کا جواز بنانے والوں کے بچگانہ تبصروں سے دین اسلام کے مسلمات نہیں بدلے جاسکتے۔
کچھ عرصہ قبل راقم نے صدر فرانس کی طرف سے توہین رسالت پر اپنے ایک مضمون کا عنوان "مغرب میں اعلی سرکاری سطوح پر توہین رسالت/ کیا وحدت مسلمین کی ضرورت کے لئے "کافی دلیل" نہیں ہے؟" رکھا تھا اور آج میرے خیال میں اس سے بھی زیادہ قوی دلیل میدان میں کھڑی مسلمانوں کو اتحاد و یکجہتی کی دعوت دے رہا ہے اور ہماری غیرتوں کو للکار رہا ہے اور اللہ کی طرف سے بھی مسلمانوں پر حجت تمام کی جارہی ہے۔
آج حرمین شریفین کے جھوٹے خادموں نے حجاز سے نکال باہر کیے جانے والوں کو سرزمین وحی میں بلوایا ہے اور ان کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں کی ہیں اور ان ملاقاتوں میں امریکی وزیر خارجہ بھی شریک رہا ہے۔ اور ساتھ ہی بدنام زمانہ موساد کے سابق سرغنے "ڈینی یاتوم" نے ریڈیو اسرائیل کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملاقاتیں عرصۂ دراز سے جاری و ساری ہیں۔ اور یہودی ریاست کے سربراہان اور اداروں کے سرغنے اس سے پہلے والی ملاقاتوں کے لئے عورتوں کا لباس پہن کر عرب ریاستوں میں جاتے رہے ہیں اور راتوں کو کیمروں اور آنکھوں سے دور ان کے ساتھ ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ اس نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے حرمین پر مسلط حکمرانوں بالخصوص ولیعہد محمد بن سلمان کے ساتھ یہودی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی ملاقات بہت اہمیت رکھتی ہے۔
پاکستان میں یہودی ریاست کے لاؤڈ اسپیکر بننے والے صحافی اور اینکرز بھی اس جیسی ملاقاتوں اور امارات اور بحرین کے حکمرانوں کی خیانت کو جواز بنا کر پاکستانی حکمرانوں کو ان کی پیروی کرنے کی تلقین کررہے ہیں۔ ان لوگوں کے ہاں ایٹمی مسلم ملک پاکستان - جس کی آبادی نصف عرب ممالک کی آبادی سے بھی زیادہ ہے ـ کی اپنی کوئی عالمی اور علاقائی حیثیت نہیں ہے اور اس کو پیٹ کی خاطر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوٹی چھوٹی عرب ریاستوں کا دست نگر رہنا چاہئے اور اس کا کوئی بھی اپنا عزم و ارادہ نہیں ہونا چاہئے اور اسے اپنی خودمختارانہ پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس ملک کو بھیڑ بنانا چاہتے ہیں جس میں شیر بننے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔
کچھ ٹکوں کے لئے ٹی وی کے اسکرین پر ظاہر ہوکر مسلمانوں کے تمام مسلمات کی نفی کرنے والے ہوش کے ناخن لیں اور یاد رکھیں کہ اب جو اس 22 کروڑ مسلمانوں کے ملک میں قرآنی آیات کو متنازعہ بنانے کی اعلانیہ کوششیں شروع ہوئی ہیں تو انہیں احتیاط سے کام لے تل ابیب میں پناہ لینے کی ضرورت ہے۔
کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیلؑ!
خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز
۔۔۔۔۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے!
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشمر
۔۔۔۔۔۔
ابو اسد

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۱۰