اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
بدھ

10 اگست 2011

7:30:00 PM
258885

منتظر: مری معاہدے پر عملدرآمد پاراچنار کرم ایجنسی میں امن کی ضمانت

معاہدہ مری ایک تاریخی معاہدہ ہے، جس میں تین فریق ہیں دو فریق مقامی آبادی سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ تیسرا فریق حکومت ہے۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ جن کا آپس میں مسئلہ اور تنازعہ ہے وہ دونوں راضی ہیں، جبکہ حکومت اس کو عملی کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ یعنی تیسرا فریق راضی نہیں۔ اگر وہ راضی ہو جائے تو مسئلہ ہی ختم۔ آپریشن کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ یعنی میرے خیال میں مری معاھدہ ایک تاریخ ساز کردار ادا کر سکتا ہے۔

ابنا:

آئی ایس او کے سابق صدر جناب مسرت حسین منتظر پاراچنار کے ایک اہم سیاسی رہنما ہیں، وہ تحریک حسینی کے دو بار صدر رہ چکے ہیں اور اب بھی تحریک حسینی کی مذاکراتی کونسل کے رکن ہیں، ان کا شمار ملک کے نامور مذھبی و سیاسی رہنما اور معروف عالم دین سابق سینیٹر علامہ سید عابد حسین الحسینی کے بااعتماد ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ پاراچنار کے سیاسی حالات پر خوب نظر رکھتے ہیں۔ پاراچنار کے سیاسی حقوق کی خاطر متعدد بار جیل کاٹ چکے ہیں۔ پاراچنار کے تازہ ترین حالات کے متعلق اسلام ٹائمز نے ان سے گفتگو کی ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔سوال: کرم ایجنسی میں موجودہ آپریشن کے متعلق آپکا کیا خیال ہے۔ حکومت کے اس سے کیا اھداف ہو سکتے ہیں، اور جنرل اطہر عباس کی طرف سے آپریشن کی تکمیل کے عندیے کے بعد، حکومت نے اس سے کونسے مقاصد حاصل کئے ہیں۔؟ جواب: جس طرح سے فاٹا کے دوسرے علاقوں میں کئی سال سے آپریشن جاری ہے اور کئی بار اسکی تکمیل کے اعلانات بھی ہو چکے ہیں، مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا، میرے خیال میں کرم ایجنسی کا بھی یہی حال ہو گا۔ جس طریقے سے وسطی کرم کے آپریشن کی تکمیل کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہراً تو نہیں لگتا کہ یہ کوئی بڑا آپریشن ہوا ہے۔ البتہ آرمی نے اگر اپنے کچھ مقاصد پورے کئے ہوں، اسکے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ سوال:بعض ذرائع کے مطابق وسطی کرم کی نسبت لوئرکرم اور ضلع ھنگو میں آپریشن زیادہ ضروری تھا۔ جبکہ آپریشن ایف آر (وسطی کرم) میں میں ہو رہا ہے۔ آپ کے خیال میں آپریشن کے لئے درست پوائنٹ کیا ہو سکتا تھا۔؟ جواب: جن علاقوں میں ابھی تک دہشتگردی، قتل و غارت گری کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ جیسا کہ توت کس، بگن، مندوری، صدہ، ششو اور چارخیل، دہشتگردوں کے اصل اڈے ان علاقوں میں ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں لگتا کہ یہاں کوئی آپریشن عمل میں آیا ہے اور یہی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ انکے علاوہ حتٰی ضلعی انتظامیہ کے علاقوں ٹل تا ھنگو، جہاں سینکڑوں افراد دہشتگردی کا نشانہ بنے ہیں۔ ان میں بھی آپریشن کی امیدیں نظر نہیں آ رہی ہیں۔ سوال:جرگے، مری معاھدے کی باتیں اکثر میڈیا پر ہو رہی ہیں۔ اس جرگے کی مقامی طور پر کیا اہمیت ہے اور یہ کہ اس جرگے اور معاھدے سے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں نیز کیا مذکورہ معاھدہ فریقین کے لئے قابل قبول ہو سکتا ہے۔؟ جواب: جرگہ عوام کو مطمئن رکھنے، باہر کی دنیا کو دھوکہ دینے اور اپنی سرگرمی دکھانے کی ایک حکومتی چال ہے۔ جس سے کوئی نتیجہ برآمد ہونے والا نہیں۔ البتہ پانچ سالہ جنگ کے دوران جرگے نے ایک تاریخی معاہدہ کیا ہے۔ جس میں تین فریق ہیں۔ دو فریق مقامی آبادی سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ تیسرا فریق حکومت ہے۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ جن کا آپس میں مسئلہ اور تنازعہ ہے۔ وہ دونوں راضی ہیں جبکہ حکومت اس کو عملی کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ یعنی تیسرا فریق راضی نہیں۔ اگر وہ راضی ہو جائے تو مسئلہ ہی ختم۔ آپریشن کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ یعنی میرے خیال میں مری معاھدہ ایک تاریخ ساز کردار ادا کر سکتا ہے۔ سوال: ٹل پاراچنار راستے کا نہ کھلنا، کیا طالبان کی قوت کی دلیل ہے یا انتظامیہ کی ناکامی، یا دونوں۔؟ جواب: اگر حکومت اور پاکستانی فوج جیسا مضبوط ادارہ بھی راستہ نہیں کھول سکتا تو ایسا ملک ایک دن کے لئے قائم نہیں رہنا چاہئے۔ میرے خیال میں جس دن حکومت چاہے راستہ کھل سکتی ہے۔ راستے کا نہ کھلنا سرکاری اھداف کا نتیجہ ہے۔ سوال: کرم کے موجودہ حالات کے پیچھے کیا عوامل ہیں اور ایسے عوامل کے اھداف کیا ہو سکتے ہیں۔؟ جواب: بعض مسائل پر صرف تبصرہ کیا جاسکتا ہے۔ اصل اھداف تو بعد میں واضح ہو جائیں گے۔ مگر موجودہ ملکی مسائل تو ملک کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ چنانچہ یا تو ہمارے پالیسی ساز ادارے بیرونی ہاتھوں میں چلے گئے ہیں یا پھر پالیسی ساز ادارے مکمل ناکام ہو گئے ہیں کیونکہ ان حالات سے ملک کو بے حد نقصان پہنچ رہا ہے۔ ملک بدنام ہو رہا ہے۔ اقتصادی، تعلیمی اور اخلاقی لحاظ سے معاشرہ ڈوب رہا ہے۔ چنانچہ نہ صرف کرم پاراچنار بلکہ پوری ملکی پالیسی انتہائی خطرناک موڑ پر ہے۔ سوال: امن کو یقینی بنانے کے لئے فریقین کے لئے قابل قبول شرائط کیا ہو سکتی ہیں۔ نیز کرم میں امن لانے کے لئے آپ کی کیا تجاویز ہیں۔؟ جواب: امن لانے کے لئے آج ہی مری معاھدہ عملی کر کے دکھائیں، امن ہی امن ہے۔ اس سے بہتر تجویز کوئی نہیں ہے کیونکہ تین سال ہوئے اس پر دونوں فریق راضی ہیں بلکہ پر زور مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ مری معاہدہ عملی کرایا جائے۔ تو اب یہ سوال حکومت سے کیا جائے کہ جب فریقین راضی ہیں تو آپ کیوں راضی نہیں۔ سوال: آخر میں کرم کے مسائل و مشکلات کے حوالے سے حریت پسند انسانوں اور امن پسند مسلمانوں کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے۔؟ جواب: پاراچنار کی مشکلات کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا کہ ہم جن طاقتوں کے درمیان انکے مقاصد کی خاطر پسے جا رہے ہیں اور قربان ہو رہے ہیں۔ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ بہر حال اتحاد و اتفاق، شائستگی اور اسلامی اقدار کا پاس رکھ کر تا دم آخر دفاع وطن و ناموس پر ہر قربانی کے لئے آمادہ رہیں اور دعا و مناجات اور اپنے مولا امام زمانہ سے توسل رکھا جائے۔ انشاء اللہ ہر صورت میں کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ اور ہمیشہ باعزت رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔

/110