اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
ہفتہ

9 اپریل 2011

7:30:00 PM
235763

خطے میں اسلامی نشاة ثانیہ:

کشمیرکےمقتول عالم دین: قرضاوی جواب دیں کہ انھوں نےایک ہی موضوع کے لئےدو قسم کے فتوے کیوں دیئے؟

مولوی شوکت شاہ کل ہی کشمیر میں نامعلوم دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہوگئے ہیں۔ وہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کی جمعیت اہل حدیث کے سربراہ تھے۔ انھوں نے 24 مارچ کو تقریب نیوز ایجنسی کو ایک انٹرویو دیا تھا جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:

٭ امریکہ عوامی انقلابات کی سمت بدلنا چاہتا ہے٭ امت اسلامی کو لیبیا پر مغربی حملے کی پیش نظر استکباری اور صہیونی سازشوں کا ادراک کرنا چاہئے۔ سوال: آپ عرب ممالک کے عوامی انقلابات کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟جواب: ان ممالک کے عوام اپنے حکام سے ناراض ہیں اور اپنے حقوق کے حصول کے لئے سڑکوں پر آئے ہیں لیکن لیبیا میں کرنل قذافی نے عوام کی خلاف فوج استعمال کرکے ثابت کیا ہے کہ مغرب، دنیائے اسلام میں بہت بڑا فتنہ پھیلانے کے درپے ہے کیونکہ عوام کی اصلی اور بنیادی آواز دب گئی تو نیا موضوع سامنے آیا چنانچہ جو بھی کسی بھی صورت میں مغرب اور اس کی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے وہ در حقیقت صہیونی اور اسلام دشمن پالیسیوں کا حامی ہے۔ لیبیا میں مداخلت کرکے امریکہ نے عوام انقلاب کی سمت اور اس کے رخ کو بدل دیا ہے۔ وہ یوں کہ انقلاب درحقیقت مسلمانوں کا تھا اور اس کا مقصد نظام حکومت کی تبدیلی تھا اور جب نظام تبدیل ہوتا تو پہلی ترجیح اسلامی حکومت کا قیام ہوتی تا ہم اس اسلامی حکومت کی نوعیت قدرے مبہم تھی اور دشمن نے اس حقیقت کا بروقت ادراک کیا کہ اسلامی نظام جس شکل میں قائم ہوجائے گا مسلمانوں کو قوت ملے گی چنانچہ اس نے بالواسطہ مداخلت کا آغاز کیا تا ہم اس نے اپنی مداخلت سے ثابت کیا کہ اس کی یہ جنگ اسلام کے خلاف ہے۔ چنانچہ تمام مسلمانوں کو اپنی ہویت اور تشخص کے تحفظ کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور انہیں دشمن کو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ میں واضح اور اعلانیہ طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو بھی امریکہ اور اس کے حلیفوں کے ساتھ سمجھوتہ کرے گا یا ان کی حمایت کا اعلان کرے گا و در حقیقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اور صہیونیت کے مفاد میں کام کررہا ہے اور امریکہ کا حامی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان انقلابی عوام کا ساتھ دیں اور اسلامی تحریکوں کو تقویت پہنچانے کے لئے کوشاں رہیں۔ سوال: کیا اس وقت علمائے اسلام کے فرائض میں کوئی خاص اضافہ ہوا ہے؟جواب: جی ہاں! علمائے اسلام پر اس دور میں بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ علماء کو اتحاد و یکجہتی کا ثبوت دینا چاہئے اور تدبیر کے ساتھ دوست اور دشمن کے درمیان اپنے موقف کا اعلان کرنا چاہئے۔ میں اس شخص کو حقیقی مسلمان قرار دینے سے قاصر ہوں جو دوست اور دشمن کی تمیز نہ کرسکے۔ علمائے اسلام کو فقہ، مسلک اور قومیت کی قید سے آزاد ہوکر امت اسلامی کے تشخص اور اتحاد امت کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور اگر ایسا کرتے ہوئے ان کے ذاتی مفاد کو نقصان پہنچتا ہو تو اس نقصان کو برداشت کرلیں اور امت اسلامی کے معاشرتی اور اجتماعی مفاد کے لئے کام کریں۔ ذاتی مفاد کی قربانی دیں، انفرادی طور پر نقصان اٹھائے لیکن اجتماعی اور عمومی نقصان ناقابل قبول ہے۔سوال: بعض لوگوں نے بحرین کے انقلاب کو اہل سنت کے خلاف قرار دیا ہے جبکہ وہ دوسرے ممالک میں اٹھنے والے انقلابات کو شیعہ مخالف قرار نہیں دے رہے، اس تضاد کا سبب کیا ہوسکتا ہے؟جواب: مسلکی، فقہی اور فرقہ وارانہ عنوانات کے تحت امت مسلمہ کے اندر اختلاف ڈالنے کی ہر کوشش در حقیقت دشمنان اسلام کی کارستانی ہے اور اس کی مذمت ہونی چاہئے۔ مسلمانوں کو اپنے اسلامی تشخص کا تحفظ کرنا چاہئے۔ مسلمانوں کو امت کے درمیان ہونے والے افتراق و انتشار کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہئے۔ لیبیا پر امریکی حملے سے قبل ہم اسلامی مسالک و مکاتب میں موجودہ اختلافات کے حوالے سے بحرین میں بھی ان اختلافات کا احتمال دے سکتے تھے لیکن لیبیا پر امریکی حملی کے بعد واضح ہوگیا کہ پورا مغرب اسلام کے خلاف متحد ہوگیا ہے اور ان حالات میں مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرنا چاہئے خواہ وہ بحرین میں ہوں خواہ کسی اور ملک میں۔ مسلمانوں کو جان لینا چاہئے کہ عرب ممالک میں صہیونیوں کی سازشیں پس پردہ جاری و ساری ہیں چنانچہ تمام مسلمانوں کو اپنی ذمہ داریون کا احساس کرنا چاہئے اور اللہ کے دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملانا چاہئے۔ مصر میں امریکہ نے مداخلت نہیں کی لیکن وہاں کی صورت حال سے بھی امریکہ راضی نہیں ہے وہ مسلمانوں کے درمیان فتنہ انگیزی کرنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مسلمان آپس میں دست بگریباں ہوں اور وہ آکر ان کے مادی اور قدرتی وسائل ـ جو خدا نے مسلمانوں کو عطا کئے ہیں ـ کو لوٹ کر لے جائے اور اپنی قوت میں اضافہ کرے۔سوال: مصر میں امام خامنہ ای اور شیخ الازہر نے عوامی انقلاب کی حمایت کردی اور یہ بات امت اسلامی کی روحانی تقویت کا باعث بنی لیکن انقلاب بحرین میں ہم نے دیکھا کہ شیخ القرضاوی نے اس انقلاب کو فتنہ قرار دیا؛ آپ کے خیال میں اس عجیب موقف کا سبب کیا ہے؟جواب: بعض اوقات حالات کا رخ ایک سمت ہوتا ہے اور اسی سمت کے حساب سے فتوے بھی جاری ہوتے ہیں اور جب حالات تبدیل ہوجائیں تو فتوے میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ میرے خیال میں ان ہی علماء (یعنی قرضاوی اور ان کے ہمفکروں) سے ہی پوچھنا چاہئے کہ جب حالات مختلف ممالک میں ایک ہی جیسے تھے تو آپ نے مسلمانوں کے ایک جیسی تحریک کو درست قرار دیا اور دوسرے مسلمانوں کی اسی قسم کی تحریک کو فتنہ قرار دیا؟ ان ہی کو جواب دینا چاہئے کہ ایک ہی موضوع کے لئے انھوں نے دو قسم کے فتوے کیوں جاری کئے؟