اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
بدھ

16 جون 2010

7:30:00 PM
183207

سیدحسن نصرااللہ کا ٹی وی انٹرویو:

حزب االلہ کے خلاف الحریری کیس کے پس پردہ، سازش کا انکشاف

سید حسن نصر االلہ نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں الحریری قتل کیس کے لئے تشکیل پانے والی عالمی عدالت میں حزب االلہ کے خلاف ـ کیس کی سماعت کے پس پردہ ـ ہونے والی سازشوں پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق حزب االلہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر االلہ نے المنار ٹی وی کے پروگرام "ماذا بعد" (آگے کیا؟) نامی پروگرام میں حاضر ہوکر الحریری کے قتل کی تفتیش کرنے والی عالمی عدالت میں حزب االلہ کے بعض کارکنوں کو بلائے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: یہ درست ہے کہ چند ہفتے قبل بین الاقوامی اٹارنی آفس کی طرف سے ہمارے بعض بھائیوں سے رابطہ کیا گیا۔ ان افراد میں سے بعض حزب االلہ کے اراکین ہیں اور بعض ہمارے اور حزب االلہ کے قریبی ہیں؛ گذشتہ کئی ہفتوں میں ہمارے 12 افراد کو اٹارنی آفس کی جانب سے کال ائی اور وہ مزید چھ افراد کو بلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں ان تفصیلات میں نہیں جاؤں گا کہ یہ افراد حزب االلہ سے منسوب ہیں یا پھر ہمارے دوست ہیں۔ یہ البتہ پہلی بار نہیں ہے کہ یہ مسائل پیش آرہے ہیں۔ اس سے قبل بھی ایسا ہوا ہی 2008 کے آخری مہینوں ـ اور سات مئی کے واقعات رونما ہونے اور چار افسروں کی رہائی کے دنوں کے قریب ـ بھی ان افراد کو بلایا گیا تھا۔ اس زمانے میں ہمارے بعض بھائیوں اور بہنوں کو بلوایا گیا۔ سنہ 2009 میں بھی اسی طرح کے کئی بلاوے آئے لیکن جو بات زیادہ قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ 2008 اور 2009 میں ان بلاوؤں کے بعد موجود بلاوؤں کی طرح شور و غل بپا نہیں ہوا تھا جس کے ہم حالیہ ہفتوں میں گواہ ہیں۔ اس بات پر بھی تأکید کرنا چاہوں گا کہ سنہ 2005 میں بہت سے لبنانیوں کو عدالت میں بلایا گیا تھا مگر حزب االلہ کا ایک فرد بھی نہیں بلایا گیا تھا۔س: کیا حزب االلہ کے راہنماؤں کو بھی بلایا گیا؟ج: سابقہ مراحل میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی لیکن حالیہ ہفتوں میں بعض افراد بلائے گئے۔ میں یہ بتانے سے معذور ہوں کہ کیا یہ افراد مشہور  ہیں یا غیر مشہور۔ ان افراد میں سے ایک ثقافتی معاملات سنبھالتا ہے اور دوسرا جہادی مسائل میں سرگرم عمل ہے اور فلسطینی برادران کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات ہیں، عدالت میں بلائے گئے۔ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ کیا حزب االلہ کے سینئر اراکین بھی بلائے جائیں گے یا نہیں! لیکن کسی بھی بات کا امکان موجود ہے۔ ہم اٹارنی آفس سے کہیں گے کہ ان تحقیقات کو عدل و انصاف کی رعایت کی خاطر خفیہ رکھے۔ ہم ان سے جب یہ درخواست کررہے ہیں تو خود بھی پابند ہیں کہ بلائے گئے افراد کے نام افشاء نہ کریں۔

ہم نے فیصلہ کیا کہ آج کی گفتگو میں تمام موضوعات پر بات چیت نہ کریں اور جب مناسب ہوگا ان مسائل کا اعلان کریں گے۔ اس مرحلے میں افراد کے ناموں کو خفیہ رکھنا ہے بہتر ہوگا۔

س: کیا ان افراد پر کوئی الزام بھی لگایا گیا ہے؟

ج: ہم تحقیقاتی کمیٹی کی تحقیقات اور ذرائع ابلاغ میں اچھالی جانے والی باتوں کے درمیان فرق کے قائل ہیں۔ اب تک حزب االلہ اور عالمی اٹارنی آفس کے نمائندوں کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ اٹارنی آفس نے ہم سے کہا ہے کہ ان افراد کو گواہوں کی حیثیت سے بلایا جارہا ہے اور ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔

س: کیا ذرائع ابلاغ نے الزامات کے بارے میں بھی کچھ لکھا ہے؟

ج: ذرائع ابلاغ، سیاسی راہنما، بیرونی ممالک کے سفراء اور جاسوسی ادارے لبنان اور بیروں ملک بعض الزامات کی تشہیر کررہے ہیں؛ کبھی سیاسی اور تشہیراتی الزامات کے بارے میں بات کرتے ہیں اور کبھی بین الاقوامی عدالت سے متعلق امور کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ اور یہ کہ ان دو مسائل کے درمیان تعلق ہے۔ اس وقت سیاسی اور تشہیراتی الزامات اچھالے جارہے ہیں اور ہم بھی ان باتوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کیس کا رخ آخر کار حزب االلہ کی طرف یا حزب االلہ کے قریبی افراد کی طرف مڑ جائے گا۔ بعض لوگ یہ دعوی کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ حزب االلہ اس قضیئے میں ملوث ہے اور بعض لوگ کہنا چاہتے ہیں کہ حزب االلہ سے تعلق رکھنے والے افراد اس کیس میں ملوث ہیں۔

سب سے پہلے فرانسیسی اخبار لوفیگارو نے اگست 2008 میں صہیونی ریاست کے ساتھ حزب االلہ کی 33 روزہ جنگ کے بعد اس بارے میں اظہار خیال کیا تھا۔ جس کے بعد جرمن اخبار اشپیگل نے لوفیگارو کے حوالے سے وہی باتیں دہرائیں۔ اس کے بعد 2009 میں کویتی اخبار "السیاسیہ" نے اس بارے میں ایک مضمون لکھا۔ اس روزنامے نے اس بارے میں 2005 میں بھی ایک طویل افسانہ لکھا اور 2009 میں بھی لبنان کے پارلیمانی انتخابات کے وقت ایک مضمون لکھا جس میں اس نے نئے ناموں کا اضافہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد فرانسیسی روزنامے "لومونڈ" نے 2010 میں ایک مضمون کے ضمن میں حزب االلہ کو ملزم ٹہرانے کی کوشش کی۔ ان مضامین میں بعض لبنانی شخصیات سمیت بین الاقوامی عدالت کے بعض اہلکاروں کے حوالے سے اظہار خیال کرنے کی کوشش کی گئی۔ میں آج تک ان سب باتوں کو سیاسی اور تشہیراتی الزامات ہی سمجھتا ہوں اور کوئی نئی بات نہیں ہے۔

14 فروری 2005 شہید رفیق حریری پر دہشت گردانہ حملے کے چند ہی گھنٹے بعد، لبنان سے بھی اور دنیا سے بھی بعض صدائیں سنائی دینے لگیں جو لبنان ـ شام مشترکہ انٹیلجنس سسٹم کو اس قتل کا ذمہ دار ٹہرا رہی تھیں اور یہ لہر پانچ مرتبہ اٹھی۔ یہ الزامات سعد حریری کے دورہ شام تک جاری تھے۔

س: کیا اس کیس میں اب تک حزب االلہ کے کسی راہنما پر کوئی الزام لگایا گیا ہے؟

ج: بین الاقوامی عدالت کی اٹارنی آفس کی طرف سے آج تک کوئی الزام نہیں لگا اور کسی فرد کو بھی الزام لگا کر نہیں بلایا گیا لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔ سیاسی الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم وہ فریق ہیں جس کو طویل عرصے سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ شہید حریری کے قتل کے ایام میں لبنان کے مشہور سیاستدان شام پر الزامات لگا رہے تھے اور بعض عرب ممالک نیز بعض بین الاقوامی قوتیں بعض فوجی افسروں پر الزام لگا رہے تھے۔ اس زمانے میں اسرائیل حکام کا کہنا تھا کہ حزب االلہ نے حریری کو قتل کیا ہے۔ اسرائیلی روزنامے بھی اس آگ کو ہوا دے رہے تھے۔

یہ ایک فطری سی معمولی سی بات ہے کیونکہ صہیونی ریاست اور شام و حزب االلہ کے درمیان متعدد مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد، ابتدائی چند گھنٹوں میں امریکہ میں فعال صہیونی ذرائع ابلاغ نے حزب االلہ کو مورد الزام ٹہرایا مگر ان کا یہ الزام قابل قبول نہ ٹہرا۔ البتہ اس الزام کی عدم قبولیت کا سبب امریکہ کی انصاف پسندی نہیں تھی بلکہ یہ حملے ایک سیاسی منصوبے کے تحت انجام پائے تھے جن کے تحت افغانستان اور عراق پر قبضہ کرنا اور خلیج فارس کے علاقے میں مغربی موجودگی کے امکانات فراہم کرنا تھے۔ جب امریکہ نے القاعدہ پر الزام لگایا پھر بھی اسرائیلیوں نے اپنا الزام واپس نہیں لیا اور بعض صہیونیوں نے الزام لگانا شروع کیا کہ 11 ستمبر کے حملے القاعدہ اور حزب االلہ کے تعاون سے عمل میں آئے ہیں۔ صہیونی جاسوسی ادارے "موساد" کے لئے کام کرنے والے بہت سے جرائد و روزناموں نے لکھا کہ شہید حاج عماد مغنیہ نے ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقے یا افغانستان اور ایران کے سرحدی علاقے میں اسامہ بن لادن کے ساتھ ملاقات اور بات چیت کی ہے۔

2006 سے قبل سیاسی صورت حال کی بنا پر شام اور اس کے حلیفوں کو نشانہ بنایا جارہا تھا اور کوشش ہو رہی تھی کہ شام کو تنہا کیا جائے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ موسم گرما 2006 میں جنگ شروع ہوئی اور اس جنگ کا مقصد لبنان کی اسلامی مزاحمت کا خاتمہ تھا؛ اور ایک مقصد یہ تھا کہ لبنان میں ـ بالخصوص جنوبی لبنان اور بالاخص دریائے لیطانی کے جنوبی علاقے ـ میں آبادی کا ڈھانچہ تبدیل کرنا تھا۔

اس جنگ میں اسلامی مزاحمت متعدد عوامل کی بنا پر فتحیاب ہوئی اور اسرائیلیوں کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔ کوشش کی گئی کہ اسلامی مزاحمت کے خلاف تشہیراتی مہم چلا کر لبنان میں فرقہ وارانہ لڑائی کے اسباب فراہم کئے جائیں لیکن ہم اس مرحلے سے بھی گذر گئے۔ چنانچہ اس وقت مزاحمت کو ہمیشہ کی نسبت کئی گنا زیادہ نشانہ بننا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ مزاحمت کے اندرونی اور علاقائی اثرات واضح ہیں اور مزاحمت کو لبنانیوں کے لئے باعث اعزاز و افتخار بن کر رہنا ہے کہ مزاحمت اس علاقے میں سرگرم عمل ہے اور اس مسئلے میں کوئی عیب نہیں ہے۔ لبنانی اپنی تاریخ کے دوران ہمیشہ ایک کمزور ملک رہا ہے مگر آج علاقے میں حاضر و فعال ہے۔ حزب االلہ کے دشمن ـ اس جماعت کی تأسیس سے لے کر اب تک ـ اس جماعت کو بدنام کرنے کی لاکھ کوششیں کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ہم پر منشیات کی اسمگلنگ، دہشت گردی اور منی لانڈرنگ اور ساہوکاری جیسے الزامات لگائے مگر انہیں ان الزامات سے کوئی فائدہ نہ ملا۔

میرا خیال ہے کہ اسلامی مزاحمت کے خلاف ان کا آخری ہتھیار شہید حریری کا قتل کیس ہے۔ بعض اندرونی اور بین الاقوامی جرائد و رسائل اور بعض سیاسی اور سیکورٹی حکام بھی کہتے ہیں کہ تفتیشی کمیٹی حزب االلہ کی بعض شخصیات پر الزامات لگانے کی راہ پر گامزن ہے۔ ان لوگوں کے پاس جو اطلاعات ہیں ان کی بنیاد بھی بین الاقوامی عدالت اور متعلقہ اٹارنی آفس ہے۔