اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

7 نومبر 2024

4:17:35 PM
1502343

سید حسن نصراللہ کی ولایت پذیری زَبان زَدِ خاص و عام تھی / معاشرے کو مقاومتی فکر کی ضرورت ہے، آیت اللہ رمضانی

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے کہا: سید حسن نصراللہ اور مقاومت کے مجموعے کی ولایت پذیری زَبان زَدِ خاص و عام تھی۔ وہ اہل وِلا تھے اور ولائی نظام میں اپنے عہد و پیمان کے پابند تھے۔ وہ حقیقی معنوں میں ولایت پذیر اور پیرو ولایت تھے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، سید حسن نصراللہ کی شہادت کا چہلم اور محاذ مقاومت کے راہنماؤں کی تکریم کی مجلس بعنوان "آغازِ نصر اللہ"، عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے زیر اہتمام اور بین الاقوامی اور حوزاتی اداروں کے تعاون سے، امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کے حرم مطہر میں منعقد ہؤا اور نوجوانوں، طلباء اور ایران میں مقیم بین الاقوامی ثقافتی کارکنوں نے اس مجلس میں بھرپور شرکت کی۔

عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکریٹری جنرل آیت اللہ رضا رمضانی نے اس موقع پر شرکائے مجلس نیز امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کے پوتے حجت الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی کا شکریہ ادا کیا اور کہا: سید حسن نصراللہ حقیقی مؤمن تھے اور عقلی، فطری اور شہودی ایمان کے حامل تھے اور انھوں نے شہودی (اور وجدانی) نظام میں قدم رکھا۔

انہونے سورہ سباء کی آیت 46 کا حوالہ دیا جہاں ارشاد ہؤا ہے:

"قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ؛

کہئے کہ میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں، وہ یہ کہ تم اللہ کے لئے دو دو مل کر اور اکیلے اٹھو اور پھر غور کرو کہ اس تمہارے رفیق (رسول) میں کوئی دیوانگی نہیں ہے مگر تمہیں ہوشیار کرنے والا اس عذاب کے پہلے جو بہت سخت ہو گا"۔

انسان کے لئے دو قیام ہیں، ایک فردی قیام ہے یعنی یہ کہ وہ توحیدی نگاہ اور حقیقتِ توحید تک پہنچے، اللہ کے لئے اور اللہ کی طرف متحرک ہو جائے۔ اور دوسرا قیام اجتماعی قیام اور قیام عدل ہے۔ سید حسن نصراللہ نے فردی قیام بھی کیا اور اجتماعی قیام بھی کیا۔ مؤمن، مسلمان اور موحّد تھے اور انھوں نے محور مقاومت میں جہد و کوشش کی اور مقاومت کے قائد بن گئے۔ سید حسن نصراللہ قرآن و عترت کی جامع وکامل اور عمیق پیروکار تھے۔ ان کی فکر مقاومتی فکر تھی۔ 

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) نے کہا: آج کچھ لوگ جہاد اور مقاومت کی آیات کو ترک کرنے [اور ترک کرانے] کی کوشش کر رہے ہیں اور مبینہ طور پر رحمانی اسلام پر مبنی سوچ کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ ہمیں یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ انسان رحمانی اسلام کے ذریعے امن و صلح تک پہنچ سکتا ہے۔ مؤمن انسان کو دشمنوں کے مقابلے میں اپنا موقف واضح کرنا چاہئے، کیونکہ قرآن کا فرمان ہے کہ دشمنوں کو حقیقی معنوں میں دشمن کے طور پر دیکھو اور انہیں صحیح طور پر پہچان لو۔ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے ہمیں تمام دشمنوں کی پہچان کرائی اور فرمایا کہ ہم استکبار اور صہیونیت کو سنجیدہ امر کے طور پر لیں۔ فلسطین کا مسئلہ خطے اور مسلمانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پوری دنیا کے حریت پسندوں کا مسئلہ ہے۔ اور دنیا کے تمام تر حریت پسندوں اور آزادی خواہوں کو چاہئے کہ فلسطین کے مسئلے پر توجہ مبذول کریں۔ یہ ایک غلط تصور ہے کہ ہم دشمنوں کے ساتھ مصالحت کریں۔ وہ مصالحت کو نہیں سمجھتے؛ ان سے بات کرنے کی زبان صرف اور صرف اور صرف مقاومت اور استقامت کی زبان ہے۔ وہ پوری انسانی برادری کو استعماری اور تسلط پسندانہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب ان کے خادم [اور غلام] ہو جائیں۔ ان کی نگاہ نسل پرستانہ ہے۔ فلسطین اور غزہ اس وقت ایک بین الاقوامی قیدخانہ ہے۔ 

آیت اللہ رمضانی نے کہا: شہید سید حسن نصراللہ کی فکر مقاومتی فکر تھی۔ انسانی معاشرہ اس فکر کا محتاج ہے۔ وہ ایسی شخصیت تھے جو امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) سے متاثر تھے اور ان کی ولایت پذیری زَبان زَدِ خاص و عام تھی۔ سید حسن نصراللہ اور مقاومت کے مجموعے کی ولایت پذیری زَبان زَدِ خاص و عام تھی۔ وہ اہل وِلا تھے اور ولائی نظام میں اپنے عہد و پیمان کے پابند تھے۔ وہ حقیقی معنوں میں ولایت پذیر اور پیروِ ولایت اور فتح پر یقین کامل رکھتے تھے۔ اس شہید نے جہاد کے عظیم میدان میں خوف کو خوفزدہ کر دیا اور ان کے مقابلے میں بزدل لوگ تھے۔ سید حسن نصراللہ کی شجاعت سچی اور صادقانہ تھی۔ وہ اپنے اس شجاعت میں سچے تھے۔ وہ حقیقی معنوں میں مجاہد تھے، مجاہد فی اللہ بھی تھے اور مجاہد فی سبیل اللہ بھی۔ وہ اللہ کی جانب سے معنوی اور روحانی طور پر ہدایت یافتہ تھے۔ 

انھوں نے کہا: قرآن کریم اور احادیث میں مقاومت کا نظریہ کشورکشائی، تسلط پسندی اور طمانیت و تسکین کے لئے نہیں ہے، بلکہ مقاومت کا نظریہ، قرآن و عترت کی رو سے، مطلق العنانیت، زور و زر، ظلم و جبر اور استکبار و سامراجیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ استکباری اور سامراجی نظام اور مستکبرین اور سامراجی محاذ حق کے خلاف کھڑے ہو گئے، وہ مستکبرین جو تاریخ کے دوران انبیائے الٰہی کے مقابلے میں آئے اور شکست سے دوچار ہوئے۔ لبرل نظام ایسا نظام تھا جو دین کو محدود کرنا چاہتا تھا اور کمیونسٹ نظام دین کو مٹانا چاہتا تھا۔ تاریخ اسلام میں بھی مستکبرین دوسری روشوں سے دین میں تحریف کرنا اور اسے مٹانا چاہتے تھے۔ 

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے کہا: اگر اسلام کو عقل و فطرت کی بنیاد پر متعارف کرایا جائے ہم نرم جنگ کے فاتح ہونگے۔ اگر ہم نرم جنگ میں فتح یاب ہوئے تو جنگ کے دوسرے میدانوں میں فاتح ہونگے۔ نوجوانوں اور اقوام عالم پر لاز ہے کہ اسلام کے اس فہم کی پیروی کریں، نہ اس فہم کی جو تل ابیب کی تائید و تصدیق کرتی ہے اور اس کو تسلیم کرتی ہے، اس فہم کہ پیروی نہ کریں کہ مطلق امن و سلامتی تک پہنچنا چاہتی ہے۔ 

آیت اللہ رمضانی نے دین اسلام میں کامیابی کے [الٰہی اور قرآنی] وعدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امیرالمؤمنین امام علی (علیہ السلام) نے نصر اور فتح المبین کا وعدہ دیا ہے، کہ جب آپ(ع) نے [ناکثین کے خلاف] جنگ جمل کے دوران پرچم محمد بن حنفیہ کو عطا کیا تو فرمایا:

"تَزُولُ الْجِبَالُ وَلَا تَزُلْ عَضَّ عَلَى نَاجِذِكَ أَعِرِ اللَّهَ جُمْجُمَتَكَ تِدْ فِی الْأَرْضِ قَدَمَكَ ارْمِ بِبَصَرِكَ أَقْصَى الْقَوْمِ وَغُضَّ بَصَرَكَ وَاعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ؛ [1]

پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں مگر تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا. اپنے دانتوں کو بھینچ لینا . اپنا کاسیہ سر اللہ کو عاریت دے دینا. اپنے قدم زمین میں گاڑ دینا. لشکر کی آخری صفوں پر اپنی نظر رکھنا اور (دشمن کی کثرت و طاقت سے) آنکھوں کو بند کر لینا اور یقین رکھنا کہ فتح و نصرت خدائے سبحان ہی کی طرف سے ہوتی ہے"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 - تصویری رپورٹ-1 

- تصویری رپورٹ-2  

یہ بھی دیکھئے: 

- شہیدسیدحسن نصراللہ کے چہلم پر سیکریٹری جنرل حزب اللہ لبنان شیخ نعیم قاسم کی اہم تقریر







[1]۔ نہج البلاغہ، خطبہ 11۔