2 نومبر 2024 - 11:30
ایران کے وجود کو خطرہ ہؤا تو ہم اپنی جوہری ڈاکٹرائن بدل دیں گے، سید کمال خرازی

ایران کی بیرونی روابط کی تزویراتی کونسل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ: ہم جوہری اسلحہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور ممکن ہے کہ اپنے میزائلوں کی رینج بھی بڑھا دیں۔ قطعی طور پر مناسب موقع پر صہیونی جارحیت کا مناسب جواب دیں گے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ایران کی بیرونی روابط کی تزویراتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر سید کمال خرازی نے یکم نومبر 2024ع‍ کو لبنانی چینل المیادین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ لبنان میں صہیونیوں کے اندازے غلط تھے، وہ سمجھتے تھے کہ غزہ اور لبنان پر حملہ کرکے حماس اور حزب اللہ کو نابود کر سکیں گے، اور حماس اور حزب اللہ کے راہنماؤں کو شہید کریں گے تو یہ عوامی تحریکیں بجھ کر رہیں گی۔ یہ ان کے غلط اندازے تھے۔ صہیونیوں کے اندر بھی کئی لوگ ان غلط اندازوں کا اعتراف کرتے ہیں کیونکہ مقاومت اور حریت پسندی کی فکر کو فوجی کاروائیں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر سید کمال خرازی نے حزب اللہ کے نئے سیکریٹری جنرل کے طور پر شیخ نعیم قاسم کے انتخاب پر مبارک دی اور ان کی کامیابی کی دعا کرتے ہوئے کہا: یقینا حزب اللہ ان کی قیادت میں پوری قوت کے ساتھ اپنا کام جاری رکھی گی۔ شہید سید حسن نصر اللہ کی ایک پالیسی یہ تھا کہ انھوں نے اپنی جانشینی نیز تحریک کے دوسرے راہنماؤں کی جانشینی کے لئے افراد کی تربیت کی تھی جو فوری طور پر سابقہ شہید راہنماؤں کی جگہ میدان میں آئے۔ اسی پالیسی کی برکت سے حزب اللہ آج پوری طاقت سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور اس حوالے سے صہیونی عزائم خاک میں مل چکے ہیں۔

انھوں نے حالیہ صہیونی حملے کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: ایران کے فضائی دفاعی نظام نے زیادہ تر صہیونی میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کر دیا۔ صہیونیوں نے ہمارے 200 میزائلوں سے ہونے والے حملے کے جواب میں ہم پر حملہ کیا، جو ایک غیر متناسب جواب تھا۔ کیونکہ ہمارے فضائی دفاعی نظام نے بیشتر میزائلوں کا راستہ روک لیا، جس کی وجہ سے اسرائیل کے اندر بھی اس حملے پر بڑی تنقیدیں ہوئیں، کیونکہ ان کی توقعات اس سے کہیں بڑھ کر تھیں۔ چنانچہ ان کا جواب ہمارے حملے کے برابر نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا: اس میں شک نہیں ہے کہ مقاومت اور حریت پسندی کی فکر فوجی کاروائیوں سے ختم نہيں ہؤا کرتی۔ صہیونیوں کا حساب کتاب غلط تھا اور ان کے اندازے ابتدا ہی سے غلط ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ غزہ اور لبنان پر حملہ کرکے حماس اور حزب اللہ کو نابود کر سکیں گے، اور حماس اور حزب اللہ کے راہنماؤں کو شہید کریں گے تو یہ عوامی تحریکیں بجھ کر رہیں گی۔ یہ ان کے غلط اندازے تھے۔ صہیونیوں کے اندر بھی کئی لوگ ان غلط اندازوں کا اعتراف کرتے ہیں کیونکہ مقاومت اور حریت پسندی کی فکر کو فوجی کاروائیں سے ختم نہیں کیا جا سکتا؛ یہ ایک انسانی تجربہ ہے۔ چنانچہ حماس اور حزب اللہ کے مجاہدین پوری قوت سے اپنی کاروائیاں جاری رکھی ہوئے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ حزب اللہ کے قائد سید حسن نصر اللہ شہید ہوگئے لیکن حزب اللہ قائم و دائم ہے اور اب شیخ نعیم قاسم ان کے جانشین کے طور پر منتخب ہوئے جو تین عشروں سے حزب اللہ کے راہنماؤں میں سے ایک ہیں اور حزب اللہ کے تمام امور سے واقفیت رکھتے ہیں۔ یقینا ان کی قیادت میں حزب اللہ پوری قوت سے اپنا کامجاری رکھے گی۔

ہم جنگ کے لئے تیار ہیں

سید کمال خرازی نے اس سوال کے جواب میں کہ ـ آپ کا ملک وعدہ صادق-2 اور وعدہ صادق-2 اور پھر اسرائیلی جارحیت کے بعد، تسدید (Deterrence) کے مرحلے سے عملی طور پر جنگ کے مرحلے میں داخل ہؤا ہے اگر ایران کے جوابی اقدام کے بعد، جنگ شروع ہو جائے تو ایران کیا اس کے لئے تیار ہے؟ ـ کہا: ہم جنگ کے لئے تیار ہیں۔ اگرچہ ہم پورے خطے میں جنگ پھیلنے کے خواہاں نہیں ہیں۔ ہم نے اسرائیل پر حملے کرکے اپنی تسدیدی صلاحیت کو ثابت کرکے دکھایا ہے چنانچہ اسرائیل دوبارہ ہماری کاروائی کا جواب دے گا تو فطری طور پر جواب دیں گے۔

شہید سید حسن نصر اللہ ایک مقتدر، دانا و حکیم، شجاع اور عوامی قائد تھے

انھوں نے اس سوال کے جواب میں ـ کہ آپ نے شہید سید حسن نصراللہ سے ملاقاتیں کی ہیں، آپ اس عظیم انسان، عظیم کمانڈر کے بارے میں جنہوں نے مظلومین بالخصوص فلسطینی کاز کے لئے پامردی، ایمان اور صداقت کو ثابت کرکے دکھایا اور آج راہ قدس کے سیدالشہداء بن گئے ہیں؟ ـ کیا کہیں گے؟ ـ کہا: شہید سید حسن نصر اللہ ایک مقتدر، دانا و حکیم، شجاع اور عوامی قائد تھے۔ ان ہی خصوصیات کی بنا پر وہ عالم اسلام کے ایک عظیم سیاستدان بن چکے تھے۔ فطری امر ہے کہ ان کا چلا جانا ایک عظیم نقصان ہے، سب کے لئے، بالخصوص لبنانیوں کے لئے، جن کی سلامتی کی ذمہ داری حزب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آزادی بخش تحریکیں بارہا اپنے بہت سے راہنماؤں کو کھو چکی ہیں لیکن دوسرے افراد ان کے جانشین بن گئے ہیں۔

شہید سید حسن نصر اللہ کی ایک پالیسی یہ تھا کہ انھوں نے اپنی جانشینی نیز تحریک کے دوسرے راہنماؤں کی جانشینی کے لئے افراد کی تربیت کی تھی جو فوری طور پر سابقہ شہید راہنماؤں کی جگہ میدان میں آئے۔ اسی پالیسی کی برکت سے حزب اللہ آج پوری طاقت سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور اس حوالے سے صہیونی عزائم خاک میں مل چکے ہیں اور حزب اللہ میدان جنگ میں بھی اور سیاسی میدان میں بھی پوری قوت سے سرگرم عمل ہے۔

حزب اللہ شیخ نعیم قاسم کی قیادت میں اپنے فرائض پر بطریق احسن عمل کرے گی

شیخ نعیم قاسم سیاسی میدان میں فعال رہے ہیں اور اپنی صلاحیتیں ثابت کر چکے ہیں۔ ملت لبنان اور حزب اللہ کی شورائے عالی (Supreme council) کو، کہ انہوں نے انہیں شہید سید حسن نصراللہ کا جانشین منتخب کیا۔ میں بھی اپنی طرف سے اس انتخاب پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یقینا حزب اللہ ان کی قیادت میں اپنے فرائض کو بحسن و خوبی سرانجام دے گی۔

انھوں نے کہا: ایران جنگ بندی کے لئے ہونے والے مذاکرات میں مداخلت نہیں کرے گا، یہ لبنانیوں اور فلسطینیوں کی ذمہ داری ہے کہ مذاکرات کریں اور وہ جو فیصلہ کریں گے ایران بھی حمایت کرے گا۔

امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کہنا چاہوں گا کہ ہم سابقہ سمجھوتوں کے پابند ہیں بشرطیکہ مغربی فریق بھی پابند رہیں۔ بدقسمتی سے وہ سمجھوتوں کے پابند نہیں ہے اور مذاکرات کے بجائے ہم پر پابندیاں لگا رہے ہیں۔

روس اور چین نیا عالمی نظام قائم کرنے کے درپے ہیں

روس اور چین نیا عالمی نظام قائم کرنے کے درپے ہیں اور مغربی تسلط سے نکلنا چاہتے ہیں، ہمارے اور ان کے درمیان اشتراکات ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ نئی ابھرنے والی طاقتوں ـ بشمول ایران ـ کو نئے عالمی نظام میں نمایاں کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ دنیا کا نظام جمہوری بن جائے، نہ یہ کہ مالی اور سیاسی لحاظ سے مغرب کے زیر تسلط ہوں۔ اب تک شنگھائی تنظیم، برکس تنظیم اور نئے ترقیاتی بینک کے سانچوں میں کچھ اقدامات عمل میں لائے گئے ہیں جن کا مقصد یہی ہے۔ ایران بھی ان تنظیموں کا رکن ہے اور نئے عالمی نظام کے قیام میں کردار ادا کر رہا ہے۔

ایران ـ روس سمجھوتے پر عنقریب دستخط ہونگے

ایران ـ روس سمجھوتہ تیار ہے جو ایران اور روس کے درمیان تعلقات کے تمام پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ کازان کے حالیہ اجلاس کے موقع پر اس سمجھوتے پر دستخط کرنے کا منصوبہ تھا لیکن مناسب سمجھا گیا کہ یہ کام ایک دوطرفہ دورے میں انجام کو پہنچے تاکہ اس کی اہمیت زیادہ نمایاں ہو جائے۔ ان شاء اللہ یہ کام عنقریب انجام پائے گا۔

خطرہ ہؤا تو اپنی فوجی ڈاکٹرائن بدل دیں گے

ڈاکٹر سید کمال خرازی نے ـ اس سوال کے جواب میں کہ آپ نے سب سے پہلے کہا تھا کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران کو خطرہ لاحق ہؤا یا اس پر حملہ کیا گیا تو ممکن ہے کہ یہ ملک اپنی جوہری ڈاکٹرائن تبدیل کر دے، جوہری ڈاکٹرائن سے آپ کی مراد کیا ہے؟ ـ کہا: اس موقف پر بدستور قائم ہیں کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران کے وجود کو خطرہ لاحق ہؤا تو ہم مجبور ہونگے کہ اپنی فوجی ڈاکٹرائن کو تبدیل کر دیں۔ ہمارے پاس اس وقت اسلحہ بنانے کی صلاحیت ہے اور واحد رکاوٹ رہبر معظم کا فتویٰ ہے جس میں جوہری ہتھیار بنانا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ میزائلوں کے بارے میں بھی ہماری قوت کی سب نے تصدیق کی ہے۔ وعدہ صادق آپریشن میں بھی ہم نے اس صلاحیت کو ثابت کرکے دکھایا۔ میزائلوں کی رینج کے سلسلے میں ہم نے اب تک مغربیوں ـ خصوصا یورپیوں ـ کے تحفظات کا خیال رکھا تھا لیکن جب وہ ہمارے تحفظات کا خیال نہیں رکھتے اور علاقائی خودمختاری کے سلسلے میں ہمارے اندیشوں کو تسلیم نہیں کرتے تو مزید کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم ان کے تحفظات کا لحاظ رکھیں، چنانچہ یہ امکان موجود ہے کہ ہم اپنے میزائلوں کی رینج بھی بڑھا دیں۔ 

علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا ہماری تزویراتی پالیسی ہے

سید کمال خرازی نے مصر، سعودی عرب اور ترکی سمیت پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کی تزویراتی پالیسی یہ ہے کہ حکومتوں کی نوعیت اور ممالک کے ممکنہ باہمی اختلافات سے قطع نظر، ان ممالک ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے تعلقات کو فروغ دیا جائے۔ ہم سب کو مل کر خطے میں امن و سلامتی کے لئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے آس پاس کے ممالک ہماری اس پالیسی سے واقف ہیں اور ہم اب اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ گوکہ شاید کچھ لوگ اس پالیسی سے خوش نہ ہوں اور اس حوالے سے تشہیری مہم کا سہارا بھی لیں جو کہ خطے کے مفاد میں نہیں ہے۔ حال ہی میں، میں نے بحرین کے تاریخی پس منظر کے بارے میں اظہار خیال کیا تھا کہ بحرین ماضی قریب میں ایران کا حصہ تھا اور ایران کا چودہوں صوبہ سمجھا جاتا تھا، جو اب ایک عرب ملک ہے اور ہم بھی اسے تسلیم کرتے ہیں۔ تو خطے کے بعض ذرائع ابلاغ نے شروع مچایا خرازی نے بحرین کی خودمختاری اور "عربیت" کو متنازعہ بنایا ہے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی اور میں نے صرف ایک تاریخی حقیقت کا حوالہ دیا تھا۔

مجھے امید ہے کہ یہ غیر منصفانہ جنگ ـ جس میں ایک فریق قابض و غاصب، نسل کش اور طفل کش اسرائیل ہے اور دوسرا فریق وہ لوگ ہیں جو اپنے وجود اور اپنی سرزمین کا دفاع کر رہے ہیں ـ جلد از جلد اختتام پذیر ہو۔ اسرائیلی ریاست کا وہم یہ ہے کہ تباہ کاری، نسل کشی اور جرائم کا ارتکاب کرکے کامیاب ہوگی، حالانکہ یہ کامیابی نہیں بلکہ انسانیت کی نفی ہے۔ اسرائیلیوں کا آخری اقدام یہ تھا کہ انہوں نے مقبوضہ فلسطین میں UNRWA کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی اور وہ چاہتے ہیں کہ غزہ کے عوام پر روٹی پانی بند کر دیں۔ یہ حقیقتا انسانیت کے خلاف جرم ہے اور مجھے امید ہے کہ دنیا جاگ جائے اور اسرائیلی ریاست پر دباؤ ڈالے۔ افسوس کا مقام ہے کہ مغربی ممالک ـ خواہ امریکی خواہ یورپی ـ پیسہ اور اسلحہ بھیج کر اس طرح کی ایک ریاست کی حمایت کر رہے ہیں۔ لیکن انجام کار واضح ہے: یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ انسانوں کے عزم کو نابود کیا جا سکے۔ فلسطینیوں اور لبنانیوں کا عزم ہے کہ اس جبر اور جرم کے خلاف حتمی فتح تک استقامت کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110