اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

25 ستمبر 2024

10:54:25 AM
1488407

جنگ کا حتمی فاتح، محاذ مقاومت اور حزب اللہ ہے / قطعی اور شرعی حکم یہ ہے کہ تمام مسلمان فلسطین اور مسجد الاقصیٰ کو مسلمانوں کے پاس لوٹا دیں، امام خامنہ ای

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: فلسطین ایک اسلامی ملک ہے جس کو دنیا کے خبیث ترین کفار نے غصب کر لیا ہے اور قطعی اور شرعی حکم یہ ہے کہ تمام مسلمان فلسطین اور مسجد الاقصیٰ کو ان کے اصل مالکان کے پاس واپس لوٹانے کی کوشش کریں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے ایران پر صدام کی مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے اسباب و عوامل کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: دنیا پر مسلط فاسد نظام کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کے پاس دو چیزیں تھیں: ایک، "نئی بات" اور دوسری "اسلامی جمہوریہ کی دلکشی"؛ اور یہ دو چیزیں دشمنان اسلام کے لئے ناقابل برداشت تھیں۔ دفاع مقدس صرف وطن کا دفاع نہیں تھا، بلکہ دین کا دفاع اور جہاد فی سبیل اللہ تھا، جس نے اسلام کو زندہ، ایرانی قوم کو معزز و موقر اور ملک میں معنویت و روحانیت کی روح کو فروغ دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے آج (بدھ 25 ستمبر 2024ع‍ کو) دفاع مقدس اور محاذ مقاومت (یا محاذ مزاحمت) کے ہزاروں سرگرم کارکنوں اور سابقین سے خطاب کرتے ہوئے خطے کے حالات اور غزہ اور لبنان مین صہیونی ریاست کے جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: فلسطین میں محاذ مقاومت اور لبنان میں حزب اللہ کے مجاہدوں کی جدوجہد اور استقامت کی نوعیت دفاع مقدس کے دوران جہاد فی سبیل اللہ کی نوعیت ہی ہے؛ اور غزہ، مغربی کنارے اور لبنان کے تلخ واقعات اور غاصب صہیونی ریاست کے مظالم و جرائم کے باوجود، وہ فریق فاتح و کامیاب رہا ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کر رہا ہے، اور اللہ کی توفیق سے، اس میدان کا حتمی فاتح محاذ مقاومت اور حزب اللہ ہی ہونگے۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے ہفتۂ دفاع مقدس کی سالگرہ پر منعقدہ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آٹھ سالہ دفاع مقدس اور جنگ کے عوامل و اسباب کی تشریح کی اور فرمایا: اج ہماری ان باتوں کے مخاطبین (سامعین و ناظرین) آج کی نوجوان نسل سے تعلق رکھتے ہیں چنانچہ یہ بتانا ضروری ہے کہ 1980 میں اسلامی جمہوریہ پر جنگ کیوں مسلط کی گئی؟ ایران کی سرحدوں پر حملے کے محرکات صدام اور بعث پارٹی تک محدود نہیں تھے؛ بلکہ اس روز کے عالمی نظم (World Order) کے سرغنے ـ خاص کر امریکہ اور سوویت اتحاد اور ان کے پیچھے پیچھے جانے والے ممالک کے سربراہان ـ بھی ایران پر حملے کے خواہاں تھے۔

آپ نے فرمایا: ایران کے عدیم المثال عوامی انقلاب سے بڑی طاقتوں کی دشمنی کا سبب یہ تھا کہ اس انقلاب نے ایک نئی سوچ متعارف کرایا اور ایک نیا پیغام دیا۔ ان کی دشمنی کا سبب یہ تھا کہ اسلامی انقلاب دنیا پر حکمرانی کرنے والے باطل اور تباہ کن نظام کے خلاف ایک واضح پکار، تھا، ایسا فاسد اور تباہ کن نظام جس کا کام دنیا کو تسلط پسند اور تسلط پذیرمیں تقسیم کرنا اور تسلط پسندوں کی ثقافت اور نظریات کو دوسرے ممالک پر مسلط کرنا، تھا۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے فرمایا: تسط پسند قوتیں انقلاب اسلامی کی "نئی بات" کو ـ جو اقوام عالم کے لئے دلکش تھی ـ برداشت نہیں کر پا رہی تھیں۔ وہ ایران پر حملے کا موقع تلاش کر رہی تھیں اور صدام نے ـ جو ایک بوالہوس، لالچی، گستاخ اور بے شرم، ظالم اور بے پروا شخص تھا ـ یہ موقع بڑی طاقتوں کو فراہم کر دیا اور صدام نے ان کی تحریک و اشتعال پر، ایران پر حملہ کر دیا۔

آپ نے فرمایا: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کے تعلقات پوری دنیا کے ساتھ ناگفتہ بہ ہیں، اور جمہوریہ اسلامی ایران سب سے روٹھا ہؤا ہے، تو ہم کہتے ہیں کہ اگر ان کی اس بات دنیا کے ساتھ سیاسی اور معاشی تعلقات منقطع کرنے سےتعلق رکھتی ہے تو یہ الزام  بالکل واضح حقائق کے برعکس ہے کیونکہ ہم آج ایسے ممالک کے ساتھ رابطے اور لین دین میں مصروف ہیں جن میں دنیا کی نصف آبادی کا بسیرا ہے، لیکن اگر روٹھ جانے سے مراد تسلط پسند عالمی سیاسی نظام کی مخالفت ہے، تو یہ بات صحیح ہے اور ہم انقلاب اسلامی کے ابتدائی برسوں کی طرح، مغربیوں کے آج کے اس تسلط پسند نظام کے خلاف ہے جس کی چوٹی پر امریکہ بیٹھا ہے، ہم دوٹوک انداز میں ان کے خلاف ہیں اور ہم اس مخالفت کا اعلان کرتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مختلف میدانوں میں ملت ایران کی ثابت قدمی اور میدان میں حضور اور موجودگی کی برکت سے، کسی میں بھی ایران کی سرحدوں پر حملہ کرنے کی ہمت و جرات نہیں ہے، فرمایا: وہ آج دوسری روشوں سے مکاریوں اور دشمنیوں میں مصرف ہیں اور اس کا صحیح معنوں میں ادراک کرنا چاہئے کہ ان دشمنیوں کا سبب، جوہری توانائی، انسانی حقوق اور حقوق نسوان وغیرہ جیسے بہانے نہیں ہے بلکہ اصل سبب بدعنوان عالمی نظام کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کی "نئی بات" ہے جس کے وہ خلاف ہیں۔ اور جب تک کہ اسلامی جمہوری نظام اور ایرانی عوام جبر و ظلم کے سامنے سر خم نہیں کریں گے، یہ مخالفتیں جاری رہیں گی اور ہاں، یقینا ہم جبر و تسلط کے کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔

آپ نے فرمایا: اسلامی نظام کی سیاسی کشش ـ یعنی غلط عالمی نظام کے خلاف اس کے جم کر کھڑے رہنے ـ کے ساتھ ساتھ اس کی روحانی کشش ـ یعنی ایمان الٰہی ـ بھی اقوام عالم اور بالخصوص نوجوانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہے اور تسلط پسندوں کو دہشت زدہ کر دیتی ہے۔

رہبر معظم نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں فرمایا: جنگ کی رپورٹنگ کی ایک قسم "توصیفی رپورٹنگ" (Descriptive reporting) ہے یعنی دشمن کی صورت حال، منجملہ ساز و سامان، ہتھیار، مکمل تنظیم، صدام کے تئیں امریکہ، سوویت اتحاد اور یورپ کی پشت پناہی، امریکہ کی طرف سے صدام کی فوج کو میدان جنگ کی معلومات کی فراہمی، اور بعض پڑوسی ممالک کی طرف سے اس کی مالی اور مادی حمایت وغیرہ کی رپورٹنگ۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے جنگ کے آغاز میں فوجی سازوسامان اور جنگی تنظیم (Combat Organization) کے لحاظ سے ایران کی نامناسب صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: صورت حال کچھ ایسی تھی کہ پیش گوئیوں، اور معمول کے مادی قواعد کی رو سے، جارح فوج کو ایک یا چند ہی ہفتوں میں تہران تک پہنچنا چاہئے تھا لیکن ایک سال گذرنے کے بعد، ہماری افواج کی شاندار فتوحات کے ساتھ، جو ابتدائے جنگ میں کمزور تھیں، صدام کی کیل کانٹے سے لیس فوج پر ہلاکت خیز ضربیں لگائی گئیں، اور آٹھ سال بعد انہیں ہماری سرحدوں سے مار بھگایا گیا اور اس فتح کا بنیادی سبب ایمان اور جہاد تھا۔

آپ نے فرمایا کہ جنگ کی رپورٹنگ کی دوسری قسم کو ـ جو توصیفی رپورٹنگ سے زیادہ اہم ہے ـ جنگ کی تشریحی رپورٹ (Explanatory Reporting) قرار دیا اور دونوں قسموں کی رپورٹنگ سے نوجوان نسل کے مطلع اور باخبر ہونے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: اس قسم کی رپورٹنگ کے مطابق، جنگ صرف وطن کا دفاع نہیں تھی، اگرچہ وطن کا دفاع اقدار میں سے ایک قدر ہے، لیکن جنگ کا مسئلہ اس قدر سے بھی بڑھ کر ـ اسلام کا دفاع اور قرآنی احکامات کی تعمیل ـ ہے، جس کو اسلامی ادب میں "جہاد فی سبیل اللہ" کہا جاتا ہے۔ہہل

رہبر انقلاب نے فرمایا: دفاع مقدس نے انقلاب اور اسلام کو زندہ رکھا اور ملت ایران کو عزت و احترام عطا کیا، ملک میں معنویت (روحانیت) کی روح کو فروغ دیا؛ اسی بنا پر ہمارے جنگی محاذ عبادتگاہ اور دعا، توسل اور نیم شب کے گریہ بکاء اور دکھاوے سے عاری خدمت کا مرکز بن گئے تھے۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے فرمایا: اسی جذبے کا نتیجہ تھا کہ ـ باوجود اس کے ملت ایران نے آٹھ سالہ جنگ میں بے شمار مصائب و مشکلات کا سامنا کیا مگر ـ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو عزت و عظمت، اور فتح و نصرت سے نوازا۔

آپ نے فرمایا: فلسطین اور لبنان کے موجودہ واقعات دفاع مقدس کے دور کے واقعات کی نوعیت کے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ کا مصداق ہیں۔

آپ نے فرمایا: فلسطین ایک اسلامی ملک ہے جس کو دنیا کے خبیث ترین کفار نے غصب کر لیا ہے اور قطعی اور شرعی حکم یہ ہے کہ تمام مسلمان فلسطین اور مسجد الاقصیٰ کو ان کے اصل مالکان کے پاس لوٹانے کی کوشش کریں۔ 

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے فرمایا: حزب اللہ لبنان جو غزہ کی خاطر سینہ سپر ہوجاتی ہے غزہ کے مظلوموں کی خاطر دشمن کے خلاف میدان میں اترتی ہے اور اسے تلخ واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، در حقیقت جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف ہے۔

آپ نے ایران پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ اور غزہ اور لبنان کی موجودہ جنگ کی ایک دوسری مشابہت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس جنگ میں کافر اور خبیث دشمن کے پاس وسیع پیمانے پر ہتھیاروں اور جنگی سازوسامان ہے، امریکہ اس کی پشت پر کھڑا ہے، اور امریکیوں کا یہ دعویٰ کہ اسے صہیونیوں کے اقدامات کی خبر نہیں ہے، اور یہ کہ وہ اس مسئلے میں ملوث نہیں ہے، حقیقت کے برعکس ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: دشمن کے پاس پیسہ ہے، ہتھیار ہیں، اور عالمی سطح پر تشہیری مشینری ہے، اور مؤمن و مجاہد فریق کے پاس وسائل اور جنگی آلات و اوزار، مقابل فریق کی نسبت، کم ہیں لیکن فاتح و کامیاب فریق مجاہد فی سبیل اللہ ـ یعنی فلسطینی مقاومتی محاذ اور حزب اللہ لبنان ـ ہیں۔

حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے صہیونی ریاست کے بے گناہوں ـ بشمول اطفال و خواتین ـ کے وسیع پیمانے پر قتل عام، اور ہسپتالوں اور اسکولوں پر بمباری جیسے مجرمانہ اقدامات، کو محاذ مقاومت کی فتح کا ثبوت قرار دیتے ہوئے فرمایا: یقینا اگر صہیونی دشمن خواہ غزہ میں، خواہ دریائے اردن کے مغربی کنارے میں، خواہ لبنان میں مجاہد قوتوں کو شکست دے سکتا تو اس کو اپنی کامیابی اور غلبہ ظاہر کرنے کے لئے جنگی جرائم کے ارتکاب کی ضرورت نہ پڑتی۔

آپ نے فرمایا: بلا شبہ مقاومت کی افواج کو پہنچنے والا نقصان اور اس کے قابل قدر اور مؤثر ارکان کی شہادت حزب اللہ لبنان کی دلیر تحریک کے لئے نقصان ضرور ہے تاہم یہ وہ نقصانات نہیں ہیں جو حزب اللہ کو مفلوج کر سکیں، کیونکہ حزب اللہ کا تنظیمی اور فوجی استحکام اور اس تحریک کی طاقت اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دے کر فرمایا: محاذ مقاومت آج تک فاتح رہا ہے اور اللہ کی توفیق سے حتمی فتح بھی اسی محاذ کی ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110