سوال:
اربعین و زیارت، ظاہری و باطنی خوشحالی اور جرم و سزا کی اقسام پر روشنی ڈالیں۔
جواب:
اربعین کی جڑیں بھی قرآن میں پیوست ہیں۔
انبیاء چالیس سال کی عمر میں رتبۂ نبوت پر فائز ہوئے۔
جس کی عمر چالیس سال تک پہنچے اس سے توقعات بڑھ جاتی ہیں اور اس کی عقل کامل ہوتی ہے۔
روایات میں ہے کہ محلے میں آس پاس کے چالیس گھر پڑوسی سمجھے جاتے ہیں۔
عرفانی امور میں کہا جاتا ہے کہ چالیس مؤمنین کے لئے دعا کرو تمہاری اپنی دعا بھی قبول ہوگی۔
کھانے پینے کے احکام میں ہے کہ اگر چالیس روز تک گوشت خریدنے کے لئے رقم نہ ہو تو قرضہ لے کر گوشت خریدو اور چالیس روز سے زیادہ بدن کو گوشت سے محروم نہ رکھو۔
اگر کوئی چالیس حدیثوں کو حفظ کرے تو قیامت کے روز علماء کے ساتھ یا فقیہ بن کر محشور ہوگا۔ نہ جانے اربعین کا قصہ ہے کیا؟
ہمارے اسلامی انقلاب کا ایک راز اربعین اور چہلم تھا۔ 9 جنوری سنہ 1979ھ کو قم میں کچھ دینی طلبہ شہید ہوئے تو شہدائے قم کا چہلم تبریز میں منایا گیا، شاہی فورسز نے چہلم کی مجلس پر حملہ کیا اور کئی افراد شہید ہوئے تو ان کا چہلم یزد، بابل، آمل میں منایا گیا اور اربعینوں کا یہ سلسلہ جاری ہؤا اور اسی لہر نے شاہ کو ایران بدر کیا۔
اربعین کے دن سیدالشہداء (علیہ السلام) کی زيارت مؤمن کی علامت ہے جیسا کہ داہنے ہاتھ میں عقیق کی انگشتری پہننا بھی مؤمن کی علامت ہے۔ [1]
1۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وفادار صحابی جابر بن عبداللہ انصاری (رضی اللہ عنہ) کربلا میں
جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے صحابی اور نابینا تھے جو کربلا آئے۔
جابر بن عبداللہ انصاری (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ، امیرالمؤمنین اور امام حسن و امام حسین(علیہم السلام) کی مصاحبت پائی امام سجاد (علیہ السلام) اور امام باقر (علیہ السلام) کی مصاحبت سے بھی فیض یاب ہوئے۔ امام باقر (علیہ السلام) طفل ہی تھے اور جب مسجد تشریف لائے تو جابر بن عبداللہ انصاری (رضی اللہ عنہ) نے اٹھ کر ان کی تعظیم کی۔ لوگوں نے کہا: آپ اسی نوے سال کے بزرگ ہیں اس بچے کی تعظیم کررہے ہیں؟ کہنے لگے: خدا نے ارادہ فرمایا ہے کہ یہ بچہ امام ہو۔۔۔ یہ ایک درس ہے کہ کم عمر افراد سے نہ کہا جائے کہ: چھپ رہو، میں تم سے بڑا ہوں۔ ضروری تو نہیں ہے کہ بڑا نہ سمجھے اور بچہ سمجھ لے۔
اب جو اربعین ہے یہی جو آپ سلام دیں یہی زیارت ہے، ضریح تک رسائی کی ضرورت نہيں ہے۔ یہ جو کہہ رہا ہوں کہ زيارت ہے تو نیت کیجئے اور میرے ساتھ آہستہ سے کہہ دیجئے:
السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ
یہ ایک زیارت ہے، ایک سلام، ایک زيارت ہے۔
آپ جب ایک عالم کے گھر میں جاتے ہیں کہتے ہیں: السلام علیکم، وہ بھی جواب دیتے ہیں: وعلیکم السلام"، اور جب آپ باہر آتے ہیں تو کہتے ہیں: میں نے فلاں عالم کی زيارت کی۔ یہ ایک زیارت ہے۔ اور ہاں! بہترین زیارت، زیارت جامعہ اور زیارت امین اللہ ہیں۔
اگر بچوں کو کچھ سکھانا چاہتے ہیں تو انہیں مستحبات سکھائیں۔ یہ والدین اور اساتذہ کے لئے بھی ضروری ہے۔
2۔ دینی مستحبات میں سخت گیری نہ کریں
اگر چاہتے ہیں کہ آپ کی نسل مستحبات سے روشناس ہو تو انہیں اصولی طور پر مستحبات سے روشناس کرائیں؛ تہجد کی نماز گیارہ رکعتوں پر مشتمل ہے جو صرف سورہ حمد پڑھ کر بھی پڑھا جاسکتا ہے تاکہ پوری نماز 10 منٹوں میں مکمل ہو۔ اب اگر ہم کہہ دیں کہ چالیس مؤمنین کے لئے دعا بھی کریں اور تین سو مرتبہ العفو بھی پڑھیں تو یہ مشکل ہے۔ دین کو آسان بنا کر پیش کریں تا کہ اس کے متقاضیوں کی تعداد بڑھتی رہے۔
نماز جماعت کی تعقیبات کو تسبیحات حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) تک محدود کریں۔ اگر آپ عالم دین اور پیش امام ہیں اور دو نمازوں کے درمیان تقریر اور وعظ کرنا چاہتے ہیں تو اگر کوئی نہ سننا چاہے تو ہم اس کو اپنا یرغمال نہ سمجھیں؛ تاہم جماعت کی طرف توجہ کریں یہ بہت اہم ہے کہ نماز جماعت کو اہمیت دیں۔ یہ جو میں نے کہا کہ اگر کسی نے مغرب کی نماز نہ پڑھی ہو تو مل کر پڑھیں یہ میں نے امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) سے سنا ہے۔
جناب محسن رفیق دوست، (سابق وزیر) کہہ رہے تھے: میں امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی خدمت میں حاضر ہؤا تو امام نماز بجا لا رہے تھے؛ لیکن نماز کی حالت میں ہاتھ سے اشارہ کررہے ہیں۔ میں جناب صانعی کے قریب پہنچا اور وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا: امام (رضوان اللہ علیہ) اشارہ کررہے ہیں کہ نماز میں ان کا ساتھ دیں اور انہیں تنہا نماز نہ پڑھنے دیں کیونکہ اگر حتیٰ ایک فرد آکر نماز جماعت میں شریک ہوجائے تو ایک امام اور ماموم کو ایک رکعت کے عوض 150 رکعتوں کا ثواب ملتا ہے؛ اگر مامومین کی تعداد دو ہوجائے 10 ہوجائے اور ۔۔۔۔ تو ثواب میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
ایک شخص کے ہاتھ میں اگر صرف ایک انگلی ہو تو اس سے ٹیلیفون کا نمبر ملا سکتا ہے، اگر دو انگلیاں ہوں تو دہی کی بالٹی بھی اٹھا سکتا ہے، تین ہوں تو آلو اور مالٹا بھی اٹھا سکتا ہے اگر چار ہوں تو پانی کی بالٹی بھی اٹھا سکتا ہے اور اگر پانچ ہوں تو وہ بیمار کو ٹیکہ بھی لگا سکتا ہے۔ یعنی ایک انگلی زیادہ ہو تو ہاتھ کی افادیت زیادہ ہوتی ہے اور اگر مکمل انگلیاں ہوں تو اس کی افادیت مکمل ہوگی۔ اگر دس ہوجائیں تو افادیت کی کوئی حد نہیں ہے؛ نماز جماعت بھی ایسی ہی ہے کہ اگر جماعت میں شریک افراد کی تعداد 10 تک پہنچے تو ثواب کی کوئی حد نہيں ہے۔ سوال یہ ہے کہ مراد کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ: کیا آپ نے کبھی کسی کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ "میں فلاں کام کے لئے گیا تھا لیکن اس کام کے لئے 11 انگلیاں درکار تھیں اسی لئے مجھے بھرتی نہیں کیا گیا؟!" یعنی جب 10 تک پہنچے تو اس کے لئے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔
امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کے پوتے سید حسن خمینی نے کہا:
پہلی مرتبہ مجھ پر روزہ واجب ہؤا تو ایک دن موسم بہت گرم تھا چنانچہ امام (رضوان اللہ علیہ) نے فرمایا: آج اول وقت نماز مغرب نہ پڑھوں کیونکہ پہلا تجربہ ہے ممکن ہے کہ بھوک اور پیاس نے ستایا ہو لہذا پہلے افطار کرو؛ لیکن میں نے عرض کیا: میں نماز باجماعت پڑھنا چاہتا ہوں۔ مغرب ہم دونوں نے باجماعت ادا کی تو امام (رضوان اللہ علیہ) نے فرمایا: میں دعائیں پڑھتا ہوں اور تعقیبات بجا لاتا ہوں اور تم جاکر افطار کرو اور عشاء کے لئے آؤ!؛ میں گیا افطار کے لئے اور بھول گیا ڈیڑھ گھنٹہ گذر گیا تو یاد آیا کہ مجھے نماز عشاء کے لئے امام (رضوان اللہ علیہ) کی خدمت میں حاضر ہونا تھا اور سوچا کہ امام نماز ادا کرکے اپنے کمرے میں گئے ہونگے۔ میں گیا اور دیکھا کہ امام (رضوان اللہ علیہ) مصلے پر ہیں اور پوچھا: کیا امام (رضوان اللہ علیہ) نماز نہیں پڑھنا چاہتے؟ گھر والوں نے بتایا: وہ تمہارا انتظار کررہے ہیں! میں نے عرض کیا: ڈیڑھ گھنٹے تک انتظار! امام (رضوان اللہ علیہ) نے جواب دیا: ہاں! ڈیڑھ گھنٹہ! یہ نماز جماعت ہے۔
اب ہم اربعین کی طرف آتے ہیں؛ یہ اربعین کے ایام ہیں۔
ظُہر [یا عصرِ] عاشورا تک سیدالشہداء (علیہ السلام) نے اپنی ذمہ داری نمٹا لی لیکن سیدہ زینب (سلام اللہ علیہا) کو کوفہ اور شام میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سیدہ زینب (سلام اللہ علیہا) اور امام حسین (علیہ السلام) نے فرائض تقسیم کئے اور سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی ذمہ داری بہت بھاری تھی۔
خداوندا! جن لوگوں نے اہل بیت (علیہم السلام) کا حق ضائع کیا، ان پر ظلم کیا، انہیں قتل کیا، خانہ و کاشانہ چھوڑنے پر مجبور کیا، جیلوں میں بند کیا، اور جن لوگوں نے ابتدائے عالم سے انبیاء اور اوصیاء اور محمد و آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر عناد و لجاج کی بنا پر ظلم روا رکھا، ان کے عذاب کو شدت و زیادت بخشے۔ اور جو بھی تاریخ کے مختلف ادوار میں اہل بیت (علیہم السلام) کے عشق میں لباس پوش ہوئے، ان کے لئے احترام کے قائل ہوئے، عزاداری کی، نذر و نیاز دیا، راتوں کو نہ سوئے، اور جس نے جو بھی کام اہل بیت (علیہم السلام) کے لئے انجام دیا، ان سب کو اہل بیت (علیہم السلام) کے ساتھ محشور فرما۔
3۔ کفار چین و سکون سے اور مؤمنین تکلیف میں، ایسا کیوں ہے؟
ایک سوال ہے کہ جو لوگ گنہگار اور فاسد ہیں وہ خوشحال کیوں ہیں؟ اگر فلاں شخص برا ہے تو وہ اتنا صاحب ثروت کیوں ہے؟ اس بحث کا موضوع یہی ہے۔
موضوع یہ ہؤا کہ: بعض مجرمین اور گنہگار خوشحال کیوں ہیں؟ ممکن ہے کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ یہی سوال اپنے اساتذہ سے پوچھیں کہ جناب عالی! اگر فلان شخص جرائم پیشہ ہے اس کے باوجود اتنا خوشحال کیوں ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ: ٹیکنالوجی کے لحاظ سے خوشحالی نفسیاتی خوشحالی سے مختلف ہے۔ واضح تر یہ کہ:
1۔ ظاہری خوشحالی حقیقی خوشحالی سے مختلف ہے؛ مت کہو کہ اس کی گاڑی قیمتی ہے، اس کا گھر کتنا بڑا ہے؛ اس کا سرمایہ کتنا ہے۔ یہ ظاہری خوشحالی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا وہ باطنی طور پر بھی خوش اور خوشحال ہے؟ بسا اوقات کوئی شخص نرم گدیلے پر سوتا ہے تو دوسرا کہتا ہے: دیکھئے کتنا آرام سے سوتا ہوگا یہ شخص؛ مرغابیوں کے پروں والا گدیلا، اتنا خوبصورت تکیہ! لیکن آپ جو دیکھ رہے ہیں کہ اس کا گدیلا اچھا ہے یہ بھی پوچھیں کہ کیا وہ سوتا بھی آرام سے ہے یا بھیانک خواب دیکھتا ہے؟ یعنی ہمیں جلدی فیصلہ نہیں سنانا چاہئے۔ بہت سے لوگ خوشحالی کے عروج پر بھی ایسے غموم و ہموم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم سوچ تک نہیں سکتے۔ اس حقیقت کے نمونے سب نے اپنی زندگی میں دیکھے ہیں۔۔۔ کبھی انسان کے پاس وسائل ہیں لیکن سکون و سرور نہیں ہے۔
صدام خوشحال تھا، حسنی مبارک خوشحال تھا، فرعون خوشحال تھا؛ یہ جو گوشت ہے اس کے ساتھ ہڈی بھی ہے؛ ان کی ہڈی کو بھی دیکھنا چاہئے۔ جو خجلت حسنی مبارک کو ان دنوں "مجرموں کے پنجرے میں بند کرکے عدالت کے کمرے میں حاضر کئے جانے کے وقت" اس کی قسمت میں آئی ہے یہ یقینا اس کی تیس سالہ خوشحالی اور عیش و عشرت پر بھاری ہے۔
4۔ دینی احکام کی انجام دہی میں مسلمانوں کی سستی
2۔ مسلمان اور مؤمن کہلانے والے بعض افراد نام کے مؤمن و مسلمان ہیں اور احکام پر عمل نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں، لیکن میری حالت اتنی بری کیوں ہے؟ ہم کہتے ہیں: تم مسلمان تو ہو لیکن کیا تمہاری نماز درست ہے؟ کہتا ہے: نہیں، ہم کہتے ہیں: کیا نماز کو توجہ کے ساتھ ادا کرتے ہو؟ کہے گا، نہیں، اپنا قرضہ بروقت ادا کرتے ہو؟ نہیں! کیا اپنے وعدوں کی پابندی کرتے ہو؟ نہیں! چنانچہ ہم کہتے ہیں: مسلمانی کا نام ہی کب خوشحالی کا سبب بنتا ہے۔ اسلام اور اس کے احکام پر عمل ہے جو خوشحالی کا سبب ہے۔ چنانچہ:
1۔ ظاہری خوشحالی واقعی خوشحالی سے مختلف ہے۔
2۔ دین کا نام ہی خوشحالی کا سبب نہیں بنتا۔
3۔ کبھی خوشحالی اللہ کا قہر ہے۔ کبھی ڈاکٹر کہتا ہے کہ مریض جو بھی کھانا چاہے کھانے دو۔ مطلب یہ نہیں ہے کہ ڈاکٹر مریض سے محبت کرتا ہے بلکہ ڈاکٹر بھانپ گیا ہے کہ اس کا کام تمام ہوچکا ہے اور علاج کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ جس کو آزاد چھوڑا جائے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ محبوب ہے۔
5۔ برائیوں کا سامنا کرنے کے لئے ایک خوبصورت مثال
آپ چائے پی رہے ہیں اچانک چھینک آتی ہے۔ چھینک آنے کی وجہ سے پیالہ ہلتا ہے اور چائے کا ایک قطرہ آپ کی عینک پر گرتا ہے، دوسرا آپ کے لباس پر اور تیسرا قالین پر۔ آپ ان تین قطروں کے ساتھ تین قسم کا سلوک کرتے ہیں: عینک کو اسی وقت صاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شام کو گھر جاکر لباس دھلواتے ہیں اور قالین کو شب عید دھولیں گے۔ فوری طور پر، بعد میں، اور بہت بعد۔ خداوند متعال فرماتا ہے: میں مجرمین کو تین قسم کی سزائیں دیتا ہوں۔ اگر انسان اچھا ہو تو اس کو فورا پکڑ لیتا ہوں؛ اگر ایک مؤمن شخص صبح خطا کرے تو شام کو سزا پائے گا، ہفتے کو گناہ کرے تو اتوار کو سزا پائے گا۔ یہ اچھے لوگ ہیں۔ اچھے لوگ جو عینک کی طرح شیشے جیسے شفاف ہیں خداوند متعال ان کا کان جلدی مروڑتا ہے تاکہ آگے جاکر احتیاط کریں۔ فرمایا:
"وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ؛ [2]
"اور جو مصیبت تم کو پہنچے، وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کیا ہے"۔
بعض لوگ برے ہیں اور انہیں ہم فوری طور پر نہیں سزا نہیں دیتے؛ فرمایا:
"وَتِلْكَ الْقُرَى أَهْلَكْنَاهُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِم مَّوْعِدا؛ [3]
"اور یہ ہیں وہ بستیاں جنہیں ہم نے تہس نہس کر دیا جبکہ ان لوگوں نے ظلم و ستم سے کام لیا اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لئے ایک مقررہ میعاد قرار دی"۔
ایک عرصے تک اس کو جرم و گناہ کرنے دو اور لوگ کہیں کہ "شاہ زندہ باد" کچھ عرصہ بعد اور مقررہ میعاد پر لوگ "مرگ بر شاہ" کہیں گے۔
فرمایا: بعض لوگوں کو ہم قیامت کے لئے چھوڑ دیتے ہیں؛
"وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ؛ [4]
"اور یہ کافر ایسا نہ سمجھیں کہ ہم جو ان کی رسی دراز رکھتے ہیں یہ ان کے لئے کوئی اچھی بات ہے ہم تو صرف اس لئے ان کی رسی دراز رکھتے ہیں کہ وہ اور زیادہ گناہ کر لیں اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے"۔
یعنی ان لوگوں کو ہم وقت اور مہلت دیتے ہیں قیامت تک۔ چائے کا ایک قطرہ ٹپکتا ہے تو آپ تین قسم کا رد عمل ظاہر کرتے ہیں، خدا بھی مجرموں کے ساتھ تین قسم کا سلوک روا رکھتا ہے۔
سوال: بعض مجرمین خوش کیوں ہیں؟ جواب: اگر ایک بچہ کام چور ہو مت کہو کہ یہ شریر بچے کتنا اچھا کھیلتے اور شرارت کرتے ہیں بلکہ رکو امتحانات میں معلوم ہوگا کہ جیتنے والا کون ہے؟ امام سجاد (علیہ السلام) اسیری میں یزیدیوں کے طعنے سن کر فرماتے ہیں: اذان کا وقت ہونے دو پھر دیکھو کہ مؤذن مناروں سے میرے نانا کا نام لیتا ہے یا تمہارے نانا کا؟ [5]
بعض لوگ اپنی بیٹی کا جہیز دینے کے لئے تمام بینکوں سے قرضہ لیتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ میری عزت کا مسئلہ ہے؛ حالانکہ بسا اوقات زندگی بالکل سادہ ہوتی ہے اور عزت بھی ہوتی ہے جبکہ بعض اوقات تمام بینکوں سے قرضہ لے کر بھی عزت حاصل نہیں ہوتی۔ ظاہری خوشحالی واقعی خوشحالی نہیں ہے۔ دوئم یہ کہ دین کا نام خوشحالی کا سبب نہیں ہے، بعض لوگ دیندار ہیں لیکن خوشحال نہيں ہیں کیونکہ وہ دیندار تو ہيں لیکن کام کے نہیں ہیں اور پھر ان موضوعات کو مدنظر رکھے بغیر کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں تو پھر غریب کیوں ہیں؟
مسلمان ہو تو تعلیم حاصل کرو، کام بھی کرو، مشورہ بھی کرو ہجرت بھی کرو۔
6۔ خوشحالی اور آسائش خدا کے مہر یا قہر کا سبب؟
سوئم۔ کبھی خوشحالی قہر ہے۔ جیسے ڈاکٹر جو مریض سے کہتا ہے کہ جو چاہو کھاؤ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹر اس سے وداع کر رہا ہوتا ہے۔ بسا اوقات خوشحالی غرور کا سبب بنتی ہے، غفلت کا سبب بنتی ہے۔ میں مطالعہ کرتا ہوں میرا پوتا/نواسا آتا ہے اور مجھے مطالعہ نہیں کرنے دیتا چنانچہ میں اپنی انگوٹھی پھینک کر کہتا ہوں کہ یہ لو، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اس کو اپنی انگوٹھی دے رہا ہوں بلکہ مقصد یہ ہے کہ وہ جاکر انگوٹھی سے کھیلے اور میں کچھ مطالعہ کروں۔ ایران میں کہا جاتا ہے کہ فلان شخص کو فلاں شخص نے "کالا چنا" تلاش کرنے بھیجا ہے [جو وجود ہی نہیں رکھتا] بعض اوقات یہ خوشحالی وہی کالا چنا ہے۔ گویا کہ خداوند متعال فرماتا ہے: مناسب نہیں ہے کہ یہ شخص میری یاد میں مصروف ہوجائے اس کو ان ہی چیزوں میں مصروف رہنے دو۔
مثلاً کیا آپ سوچتے ہیں کہ امریکی صدر خوشحال ہے! ایسا نہیں ہے جو ہم کہتے ہیں:
تفرقہ بھی ایک عذاب ہے۔ ان دنوں آیت اللہ ڈاکٹر محمد مفتح کی شہادت اور حوزہ علمیہ اور جامعات کے اتحاد کے ایام بھی ہیں۔ میں نے اسی مناسبت سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عذاب الٰہی کی تین قسمیں ہیں:
آسمانوں کے اوپر سے نازل ہونے والا عذاب؛ فرمایا:
"هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ َذَاباً مِّن فَوْقِكُمْ۔۔۔ [6]
"وہ یہ قدرت رکھتا ہے کہ تم پر عذاب بھیجے تمہارے اوپر سے۔۔۔"۔
یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے، فرمایا:
"أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ۔۔۔؛ [7]
"یا تمہارے پیروں کے نیچے سے۔۔۔"، یعنی زمین سے۔
یا پھر تمہیں اختلاف سے دوچار کرتا ہے؛ فرمایا:
"أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ؛ [8]
"یا تمہیں مختلف گروہوں کی صورت میں کرکے دست و گریبان کر دے اور تم میں سے بعض کو بعض کی سختی کا مزہ چکھائے"۔
یہی گروں میں بٹ کر دست بگریباں ہونے والے لوگ بھی کبھی خوشحال ہوتے ہیں لیکن۔۔۔
جلدی کسی کے بارے میں فیصلہ کن انداز سے رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ بدعنوانی میں خوشحالی ہے لیکن فاش ہوجائے تو خمیازہ بھاگنے یا گرفتار ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ خوشحالی کے معنی کیا ہیں؛ رب متعال نے فرمایا:
"أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ؛ [9]
"آگاہ ہونا چاہئے کہ اللہ کی یاد سے دلوں کو سکون ہوتا ہے"۔
امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) یکم فروری 1979 کو پیرس سے ایران آرہے تھے۔ جہاز پر سوار تھے۔ ایک نامہ نگار نے پوچھا: آپ اس وقت کیسے محسوس کررہے ہیں؟ انھوں نے کیا فرمایا؟ فرمایا: کچھ نہیں!۔ حالانکہ طیارے کو مارگرائے جانے کا امکان تھا، لیکن آپ کے جواب سے جو ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ طیارہ گرایا جاتا ہے تو گرایا جائے؛ اسلامی جمہوری نظام تشکیل پایا تو "الحمد للہ" تشکیل نہ پایا بھی تو "الحمد للہ"، مجھے اپنے فرض پر عمل کرنا ہے جو کرکے رہوں گا۔ سکون و اطمینان یہ ہے۔
امام (رضوان اللہ علیہ) نے فرمایا: شاہی چیلے مجھے گرفتار کرکے جیل اور جلاوطنی کی نیت سے لے گئے تو میرے دونوں اطراف میں دو کرنل بیٹھے تھے۔ میں نے دیکھا وہ دونوں کرنل خوفزدہ ہیں۔ میں نے کہا: ڈرو مت۔ یعنی وہ مجھے پکڑ کر لے جارہے تھے اور ڈرے ہوئے تھے۔ کرنل ہے امام کو گرفتار کرچکا ہے اور اب خوفزدہ ہے لیکن امام کا دل پرسکون ہے۔
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: اگر آپ کے ہاتھ میں سونا ہے اور سب نعرے لگائیں کہ ٹھیکرا ہے؛ تو آپ پرسکون ہیں کہ یہ سونا ہی ہے وہ جتنا کہنا چاہیں کہتے رہیں کہ یہ ٹھیکرا ہے، آپ دل ہی دل میں کہتے ہیں کہ "میں تو جانتا ہوں یہ سونا ہے؛ لیکن اگر تمہارے ہاتھ میں ٹھیکرا ہے اور سب نعرے لگائیں کہ یہ سونا ہے، تو کم از کم آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ سونا نہیں ہے۔
جس کا خدا ہے اور اس کا عمل نامہ پاک ہے، [وہ پر سکون ہے]۔ امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: اپنی زندگی کو اس طرح سے منظم کرو کہ [سکون و اطمینان کے ساتھ] اپنے اعمال کا اعلان نماز جمعہ کے اجتماع میں کرسکو اگر نہ کرسکو تو جان لو کہ ناخالص ہو۔ یہ سکون بہت اہم ہے۔
7۔ بحران اور مشکلات میں سکون!
سکون کا آسمان حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ صورت حال کیا ہے تو فرماتی ہیں:
"مَا رَأَيْتُ إِلَّا جَمِيلاً؛ [10]
"میں نے خوبصورتی کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھا"۔
یعنی تمامتر شیرینیاں اور تلخیاں میرے لئے خوبصورت ہیں۔
اس مثال کو نہ بھولیں؛ ماں جب دسترخوان پر نگاہ ڈالتی ہے تو اس کی نظر میں مربا اور اچار دونوں پسندیدہ اور شیریں ہیں لیکن بچہ اچار سے نفرت کرتا ہے لیکن حلوا ہو تو پسند کرتا ہے۔ اگر دسترخوان پر مرچ ہو اور بچہ اس کو منہ میں ڈالے تو وہ نہ صرف مرچ سے نفرت کرے گا بلکہ پیاز اور اچار کو بھی اپنے آپ سے دور کرے گا لیکن حلوا ہو تو کھا لے گا۔ لیکن بچے کی ماں کے لئے حلوا جتنا خوبصورت لگتا ہے اچار کا برتن بھی اتنا ہی خوبصورت لگتا ہے؛ مَا رَأَيْتُ إِلَّا جَمِيلاً، یعنی میرے لئے دونوں جمیل ہیں۔
خدا بخشے مرحومین کو۔ ایک روز میں نے اپنے والد مرحوم سے پوچھا: آپ ہم میں سے کس سے زيادہ محبت کرتے ہیں؟ انھوں نے ہاتھ سامنے لاکر کہا تم اپنے ہاتھ کی کس انگلی سے زيادہ محبت کرتے ہو؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ جب انسان ہاتھ کا مالک بنتا ہے اس کی تمام انگلیاں اس کے لئے یکسان ہیں۔
میں نے کہا: دور سے اربعین کی زیارت پڑھو۔ ایک مکمل سلام ایک زیارت ہے۔ فکرمندی کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کربلا میں ہیں یا نہیں ہیں۔ آپ ہر نماز میں عِبَاد اللَّهِ الصَّالِحِين" کو سلام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں: "السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِين؛ سلام ہو ہم پر، سلام ہو خدا کے نیک بندوں پر، سلام ہو اللہ کے اولیاء پر؛ رب ذوالجلال کا ارشاد ہے:
"سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ؛ [11]
"سلام ہو نوح پر تمام جہانوں میں"۔
"سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ؛ [12]
"سلام ہو ابراہیم پر"۔
"سَلَامٌ عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ؛ [13]
"سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر"۔
میں دعا کرتا ہوں آپ آمین کہیں۔ خداوندا! عراق میں مکمل امن و امان قائم فرما۔
عراق میں امن ہوگا تو دوسرے ممالک کے لوگ زیادہ اطمینان سے، اور ان شاء اللہ زيادہ معرفت کے ساتھ، مقامات مقدسہ کی زیارت کریں گے؛
خداوندا! ایران میں موجودہ امن کو برقرار اور استوار رکھ۔
بالآخر امریکی کچھ عرصہ بعد ہی سہی، ذلت و خفت کے ساتھ عراق سے چلے گئے۔ یزیدی چلے گئے اور حسینی رہ گئے۔ مدرس نے رضا شاہ سے کہا: تم جہاں بھی مروگے وہاں نہ پانی ہوگا اور نہ ہی کوئی آبادی ہوگی۔ لیکن میں جہاں بھی مرونگا میری قبر زیارتگاہ بن جائے گی۔ خراسان کے شہر کاشمر میں شہید مدرس کی قبر پر حاضری دیں گے تو گنبد و بارگاہ اور ضریح اور آستانہ نظر آئے گا اور کثیر تعداد میں زائرین۔ رضا شاہ نے شہید مدرس کے قتل کا حکم دیا تھا لیکن رضا شاہ محو و نابود ہوگیا [اور شہید مدرس زندہ جاوید ہوئے] ۔۔۔
خداوندا! محمد و آل محمد کے صدقے ہم سب کو ایمان کامل، تندرست بدن، بصیرت، تقویٰ، حفظ و امان، عطا فرما۔
ہمارے دین، ہماری دنیا، ہماری نسل و اولاد، ہماری ناموس، ہماری سرحدوں، ہمارے انقلاب، ہمارے نوجوانوں، ہمارے رہبر، ہمارے حکام کو امام زمانہ (عَجَّلَ اَللہُ تَعَالَى فَرَجہُ اَلشَّرِيفَ) کی پناہ میں محفوظ رکھ۔ [14]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1]۔ امام حسن عسکری (علیہ السلام) سے منقولہ حدیث کے مطابق: اربعین کے دن سیدالشہداء (علیہ السلام) کی زيارت، داہنے ہاتھ میں عقیق کی انگشتری پہننا، نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے پڑھنا، مٹی پر سجدہ کرنا اور روزآنہ 51 رکعتیں نماز بجا لانا [جن میں 34 رکعتیں نوافل کی ہیں] مؤمنین کی [پانچ] نشانیاں ہیں۔ (سید بن طاؤس، إقبال الأعمال، ج3، ص100)۔
[2]۔ سورہ شوریٰ، آیت 30۔
[3]۔ سورہ کہف، آیت 59۔
[4]۔ سورہ آل عمران، آیت 178۔
[5]۔ امام سجاد (علیہ السلام) کی اسیری کے دنوں میں ابراہیم بن طلحہ بن عبید اللہ نے امام سے گستاخانہ لہجے میں کہا: "يا علي بن الحسين من غلب؟ اے علی بن الحسین، کون غالب ہؤا؟ تو امامؑ نے فرمایا: "إذا أردت أن تعلم من غلب ودخل وقت الصلاة فأذن ثم أقم؛ اگر جاننا چاہتے ہو کہ کون غالب ہؤا تو جب اذان کا وقت ہوجائے تو اذان دو اور اقامت دو"۔ (شیخ طوسی، محمد بن الحسن، الامالی، ص677؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص177-178)۔
[6]۔ سورہ انعام، آیت 65۔
[7]۔ سورہ انعام، آیت 65۔
[8]۔ سورہ انعام، آیت 65۔
[9]۔ سورہ رعد، آیت 28۔
[10]۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص115۔
[11]۔ سورہ صافات، آیت 79۔
[12]۔ سورہ صافات، آیت 109۔
[13]۔ سورہ صافات، آیت 120۔
[14]۔ موضوع: جناب محسن قرائتی کا درس قرآن؛ "عنوان: اربعين حسينی، شيوہ ہای کیفر مجرمان" (مجرموں کو سزا دینے کے طریقے)، ۔ تاريخ: 12 جنوری 2012 کو آئی آر آئی بی کے چینل 1 سے نشر ہؤا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110