اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

14 اگست 2024

2:17:33 AM
1478508

طوفان الاقصی؛

صہیونیت کے استعماری پراجیکٹ کی بیخ کنی ضروری کیوں ہے؟

تاریخ گواہ ہے کہ جب تک کہ محکوم اور مغلوب اقوام نے اپنا دباؤ نہیں بڑھایا ہے تب تک استعماری اور سامراجی قوتیں متعلقہ ممالک پر اپنے تسلط سے دستبردار نہیں ہوتی ہیں۔ چنانچہ استعمار زدہ اقوام پر بڑھتے ہوئے استعماری تشدد اور دباؤ کا سدباب کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اقوام اپنا دباؤ شدیدتر کر دیں گوکہ بیرونی دباؤ کی بھی کبھی ضرورت ہوتی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ | استعمار کا تسلط ختم کرنے کی تاریخ کو دیکھا جائے تو عوام اٹھان میں تشدد کا عنصر بھی ہوتا ہے۔ گوکہ بعض چھوٹے جزائر سے استعماری تسلط کا خاتمہ تشدد کے بغیر اور دو طرفہ مفاہمت کے نتیجے میں انجام کو پہنچا ہے اور یہ جزائر آزاد ہوئے ہیں۔

حماس، صہیونی ریاست اور دنیا بھر میں ان کے بارے میں مختلف النوع موقف پر بحث کے لئے، ابتداء میں صہیونیت کی استعماری فطرت کا ادراک کرنا چاہئے اور فلسطینیوں کی مقاومت (مزآحمت) کو استعمار پسندی کے خلاف مزآحمت کے طور پر تسلیم کرنا چاہئے۔ اس مضمون میں اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے:  

صہیونیت کے معرض وجود میں آنے سے سے لے کر آج تک نسل کُشی کے متعدد واقعات پر امریکہ اور مغربی ممالک کی خاموشی یا رضامندی سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطین میں تشدد کی جڑیں، انیسویں صدی کے اواخر میں صہیونیت کے فروغ اور اس کی پناہ گزینوں کے استعماری پراجیکٹ میں بدل جانے، میں پیوست ہیں۔ کیونکہ صہیونیت بھی "پناہ گزینوں کے دوسرے استعماری منصوبوں کی طرح" مقامی آبادی کو یکسر مٹانے کے درپے تھی۔ ہرگاہ آبادی کو تشدد کے ذریعے ختم نہ کیا جاسکے، تو استعماریوں کے ہاں اس کا راستہ تشدد میں کئی گنا اضافہ کرنا ہے اور مقامی آبادی کے خلاف "پناہ گزینوں کے استعماری پراجیکٹ" کے جرائم اور تشدد کے خاتمے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ پراجیکٹ شکست و ریخت سے دوچار ہو جائے۔

 علمی تشدد (Epistemic violence)

جدید فلسطین میں تشدد کی تاریخ سنہ 1882ع‍ سے سنہ 2000ع‍ تک بہت اہم ہے۔ سنہ 1882ع‍ میں صہیونیوں (یعنی یہودیوں) کا پہلا گروہ فلسطین میں داخل ہؤا اور یہ واحد تشدد آمیز اقدام نہیں تھا۔ یہودی پناہ گزینوں کا تشدد علمی (Epistemic) لحاظ سے تھا؛ یوں کہ ارض فلسطین سے یہودی پناہ گزینوں کی آمد اور ان کے ہاتھوں مقامی (فلسطینی) آبادی کا پرتشدد خاتمہ، ان کی کتابوں، تحریروں، آرزوؤں اور تصورات میں مذکور اور معہود تھا جیسے: "آبادی سے خالی زمین، [زمین سے محروم لوگوں کے لئے]" (A land without a people [for a people without a land]) کا افسانہ۔ صہیونی یہودی اس تصور اور افسانے کے حقیقی معنوں میں نافذ کرنے کے لئے 1918ع‍ میں فلسطین پر انگریزی حکومت کے قبضے تک منتظر رہے۔ چند سال بعد سنہ 1920ع‍ میں برطانیہ کے زیر قبضہ فلسطین کی 11 بستیوں میں برطانوی فوج کی مدد سے "نسلی تطہیر" (Ethnic-cleansing) عمل میں لایا گیا۔

روزگار صرف یہودیوں کے لئے

مذکورہ اقدام، ایک منظم منصوبے کے تحت فلسطینیوں کی مالکیت (Ownership) کے خاتمے کی غرض سے انجام پایا۔ تشدد کی دوسری شکل "عبرانی مزدوروں" (Hebrew Labour) کی صورت میں نمایاں ہوئی جس کے مطابق روزگار صرف یہودیوں کے لئے مختص تھا اور اس کا مقصد فلسطینیوں کو "لیبر مارکیٹ" سے دور کرنا تھا۔ اس حکمت عملی، اور نسلی تطہیر نے فلسطینی دیہی علاقوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا، جس کے نتیجے میں ان کو ان قصبوں کی طرف جبری نقل مکانی کرنا پڑی جو انہیں مناسب کام اور رہائش فراہم کرنے سے عاجز تھے۔

تیسرا ہیکل [Third temple] اور انتفاضہ کا آغاز

یہ سنہ 1929ع‍ کی بات ہے جب مذکورہ پرتشدد کارروائیوں کو حرم الشریف کی جگہ تیسرا مندر تعمیر کرنے کا مسئلہ اٹھا کر دوہری شدت بخشی گئی اور فلسطینیوں نے پہلی بار تشدد کا جواب تشدد سے دیا۔ یہ ایک مربوط اور ہمآہنگ جوابی کاروائی نہیں تھی، بلکہ فلسطین میں صہیونی استعمار کے تلخ نتائج کا بے ساختہ اور ناامیدی پر مبنی ردعمل تھا۔ سات سال بعد برطانیہ نے مزید پناہ گزینوں کو فلسطین نقل مکانی کرنے کی اجازت دے دی اور اپنی فوج کے ساتھ نوخیز صہیونی حکومت کی تشکیل کی حمایت کی، تو فلسطینیوں نے زیادہ  منظم مہم کا آغاز کیا۔ یہ پہلی انتفاضہ تحریک تھی جو سنہ 1936ع‍ سے سنہ 1939ع‍ تک جاری رہی اور اس کو انگریز قابضین نے "عربی بغاوت" (Arab Revolt) [1] کا نام دیا۔ اس عرصے کے دوران، فلسطینی مفکرین نے بالآخر صہیونیت کو فلسطین اور اس کے باشندوں کے لئے ایک وجودی خطرے (Existential threat) کے طور پر تسلیم کیا۔

یلغار، دفاع کے نام پر

صہیونی عسکری پسند گروپ جو فلسطینیوں کی سرکوبی میں قابض برطانوی فوجیوں کا ہاتھ بٹاتا تھا، ہگانہ (Haganah) یعنی دفاع (The Defence) کہلاتا تھا۔ یہی بات اسرائیلی "بیانیہ" بن گیا اور اس نے ہر جارحانہ اور غاصبانہ و ظالمانہ امور عمل کو "دفاع" یا "ذاتی دفاع" (Self-defence) کا نام دیا۔ یعنی اس کا ہر عمل ذاتی دفاع کہلایا اور صہیونی فوج کے نام میں بھی اس نام کی عکاسی ہوئی اور مکاری کے اس سلسلے کو جاری رکھا گیا اور صہیونی فوج کو اسرائیلی دفاعی فورس (Israeli Defence force - [IDF]) کا نام دیا گیا۔

حالانکہ اس نام نہاد دفاعی فوج نے فلسطین پر برطانوی قبضے کے بعد سے اب تک فلسطینی اراضی، مارکیٹوں، منڈیوں، گھروں اور شہروں اور قصبوں پر قبضے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ یہ فورس ابتداء میں فلسطینی مزاحمتی اٹھان کے لئے فلسطین میں تعینات ہوئی اور انیسویں صدی کی کسی بھی استعماری فوج کی مانند مقامی آبادی کو بے گھر بنا کر ان کے گھروں اور ان کے وطن پر قبضہ کیا اور آج تک اس قبضے کو مضبوط بنانے میں مصروف ہے۔

دہشت گرد اور مقتول کی جگہ بدل دینا

فرق یہ ہے کہ جدید تاریخ میں زیادہ تر واقعات میں ـ جبکہ قدیم استعمار کا دور ختم ہو چکا ہے ـ استعماریوں کے اقدامات کو ذاتی دفاع کے طور پر نہیں دیکھا جاتا بلکہ جارحیت کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ جبکہ اسی دور میں صہیونیوں کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ اس ان اپنے اقدامات کو "ذاتی دفاع" اور فلسطینیوں کے ذاتی دفاع اور مسلحانہ جدوجہد کو دہشت گردی کے زمرے میں ڈال دیا ہے اور اس سلسلے میں اسے قدیم استعمار کے وارث ممالک کی 100 فیصد حمایت حاصل ہے۔ برطانوی حکومت جو صہیونیوں کی دہشت گردی کی حمایت کرتی تھی، سنہ 1948ع‍ تک زبانی کلامی طور پر ان کے اقدامات کو دہشت گردی کے زمرے میں شمار کرتی تھی جیسا کہ وہ فلسطینیوں کی جدوجہد بھی دہشت گردی کا عنوان دیتا تھا؛ لیکن اسی سال اس نے صہیونیوں کو فلسطینیوں کے خلاف بدترین دہشت گردانہ اقدامات عمل میں لانے کی کھلی اجازت دی؛ یہ وہ زمانہ تھا جب مقبوضہ فلسطین میں غاصب یہودیوں نے برطانیہ ہی کی مدد سے نسلی تطہیر کا پہلا مرحلہ سر کر لیا۔

دسمبر 1947ع‍ سے مئی 1948ع‍ کے درمیان ـ جبکہ برطانیہ ہی مقبوضہ سرزمین میں نظم و ضبط اور نفاذ قانون کا ذمہ دار تھا ـ صہیونی دہشت گرد ملیشیاؤں نے تمام اہم فلسطینی شہروں اور ان کے نواحی دیہی علاقوں کو تہس نہس کر دیا اور یہ اقدامات دہشت گردی سے بہت بڑھ کر تھے اور انسانیت کے خلاف جرم کے زمرے میں آتے تھے۔ مئی سے دسمبر 1948ع‍ کے درمیان نسلی اور قومی تطہیر کے دوسرے مرحلے میں صہیونیوں نے مغربیوں کی مدد سے تشددآمیز ترین روشوں سے کام لیا جو فلسطین میں صدیوں کے دوران پہلی بار دکھائی گئیں اور پرتشددترین اقدامات کے ذریعے فلسطین کی نصف سے زیادہ آبادی کو ملک سے نکال باہر کیا گیا، یہاں کے نصف سے زیادہ قصبوں اور بستیوں کو مکمل طور پر نابود کیا گیا اور فلسطین کے زیادہ تر شہروں کو تباہ کیا گیا۔  

چنانچہ جدید فلسطین میں تشدد کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطین میں تشدد کی جڑیں، ـ انیسویں صدی کے اواخر میں صہیونیت کے فروغ اور اس [صہیونیت] کے ایک پراجیکٹ کے طور پر منظر عام پر آنے ـ میں پیوست ہیں۔ یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ جب تک کہ استعماری قوتیں محکوم اقوام کی طرف سے دباؤ اور تشدد سے دوچار نہیں ہوئیں یا کسی بیرونی دباؤ سے دوچار نہیں ہوئیں، کم ہی اپنی نوآبادیوں کو ترک کرکے گھر واپس چلی جاتی رہی ہیں۔ بلاشبہ صہیونی پراجیکٹ درحقیقت حالیہ دو صدیوں میں مغربی استعمار کے عظیم تر پراجیکٹ کا حصہ تھا جو فلسطین پر قبضے کے لئے تیار کیا گیا تھا، چنانچہ یہ بھی عین حقیقت ہے کہ فلسطین میں جاری صہیونی تشدد کے خاتمے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اندر اور باہر سے دباؤ ڈال کر صہیونی ـ استعماری پراجیکٹ کا خاتمہ کیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ مغربی استعمار نے مختلف ممالک پر قبضہ کیا اور جہاں بھی مقامی عوام نے غاصب و جارح استعمار کے خلاف تحریک چلائی مغربیوں نے اس کو بغاوت کا نام دیا۔ جیسے تحریک آزادی ہند کے تسلسل میں جنگ آزادی کو بھی انہوں نے غدر کا نام دیا اور آج بھی انگریزی استعمار کے اس دور کے اجرتیوں کے فکری وارثین اس کو غدر ہی کہتے ہیں۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

اس مضمون میں اسرائیلی مؤرخ ایلان پیپ (Ilan Pappé) کے مضمون سے استفادہ کیا گیا ہے جس کا لنک درج ذیل ہے:

Ilan Pappe. 2024.To stop the century-long genocide in Palestine, uproot the source of all violence: Zionism. The new Arab.


"قاعدہ یہ ہے کہ قومی تحریکیں ایک ریاست کی مستحق ہوتی ہیں لیکن یہودی اس اصول کے زمرے میں نہیں آتے کیونکہ وہ ایک قوم نہیں ہیں بلکہ ایک مذہبی گروپ کو تشکیل دیتے ہیں"؛ یہ وہ جملہ تھا جو ایلان پیپ نے کہہ دیا جس کے بعد صہیونی کنیسٹ (نام نہاد پارلیمان) نے ان کی شدید مذمت کی اور انھوں نے سنہ 2008 میں مقبوضہ فلسطین کو ترک کر دیا۔