اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
پہلی حدیث
آنکھیں کھول کر کسی کام کا آغاز کرنا
"مَنْ لَمْ يَعْرِفِ الْمَوارِدَ أعْيَتْهُ الْمَصادِرُ؛ [1]
جو کسی کام میں داخل ہونے کے راستوں سے ناواقف ہوگا، اس سے نکلنے کا راستے تلاش کرتے کرتے درماندہ و لاچار ہوجائے گا"۔
دوسری حدیث
بھائی کو بلا وجہ جھڑکنا مت
"مَنْ عَتَبَ مِنْ غَيْرِ اِرْتِيَابٍ أَعْتَبَ مِنْ غَيْرِ اِسْتِعْتَابٍ؛ [2]
جو کسی [بھائی] کو بلا وجہ جھڑک دے، [جبکہ اسے اس کی پاک دلی کا یقین بھی ہے]، اسے کسی کے موعظے کے بغیر ہے اس [بھائی] سے معذرت مانگنا چاہئے"۔
تیسری حدیث
اخلاص شرط بندگی
"أفْضَلُ الْعِبادَةِ الإخْلاصُ؛ [3]
بہترین عبادت اخلاص ہے؛ (یا وہ عبادت جو مخلصانہ اور، دکھاوے کے بغیر ہو)"۔
چوتھی حدیث
مؤمن کی عزت و عظمت کا راز
"عِزُّ الْمُؤْمِنِ غِناه عَنِ النّاسِ؛ [4]
مؤمن کی عزت اور عظمت لوگوں سے بے نیازی (اور ان کے مال و دولت پر نظر نہ رکھنے) میں مضمر ہے"۔
پانچویں حدیث
دیندار اور امانت دار کا رشتہ مت ٹھکرانا
"مَنْ خَطَبَ إلَيْكُمْ فَرَضيتُمْ دينَهُ وَأمانَتَهُ فَزَوِّجُوهُ، إلّا تَفْعَلُوهُ تَكْنُ فِتْنَةٌ فِى الأرْضِ وَفَسادٌ كَبيرْ؛ [5]
جس نے تم سے [بیٹی یا بہن کا] رشتہ مانگا اور تمہیں اس کی دین داری اور امانت داری پسند آئے تو اسے رشتہ دے دو، ورنہ تو تمہارا یہ عمل روئے زمان پر عظیم فتنے اور فساد (برائی) کا سبب بن سکتا ہے"۔
چھٹی حدیث
آزما لو، اعتماد کرو
"مَنِ انْقادَ إلَى الطُّمَأنينَةِ قَبْلَ الْخِيَرَةِ فَقَدْ عَرَضَ نَفْسَهُ لِلْهَلَكَةِ وَالْعاقِبَةِ الْمُغْضِبَةِ؛ [6]
جو آزمانے [اور سوچ بچار کرنے] سے پہلے اعتماد و اطمینان تک پہنچے، تو اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے اور رنج و غضب کا باعث بننے والے انجام سے دوچار کیا ہے"۔
ساتویں حدیث
امیر المؤمنین (علیہ السلام) کا عِلم
"عَلَّمَ رَسُولُ اللّهِ صلّى اللّه عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ عَلّيا عَلَيْهِ السَّلامُ ألْفَ كَلِمَةٍ، كُلُّ كَلِمَةٍ يَفْتَحُ ألْفُ كَلِمَةٍ؛ [7]
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو ایک ہزار کلمات سکھائے، ہر کلمے سے علم کے ہزار باب کھلتے ہیں"۔
آٹھویں حدیث:
گناہ کی وجہ سے مرنے والے سب سے زیادہ
"مَوْتُ الإنْسانِ بِالذُّنُوبِ أكْثَرُ مِنْ مَوْتِهِ بِالأجَلِ، وَحَياتُهُ بِالْبِرِّ أكْثَرُ مِنْ حَياتِهِ بِالْعُمْرِ؛ [8]
انسان گناہوں کی وحہ سے زیادہ اور اجل کی بنا پر (طبعی موت) کم مرتے ہیں، اور ان کی زندگی تقدیر میں لکھی ہوئی زندگی سے زیادہ، اعمال صالحہ کے بدولت، ہوتی ہے"۔
نویں حدیث
نفسانی خواہشات کمال حقیقت تک پہنچنے میں رکاوٹ
"لَنْ يَسْتَكْمِلَ الْعَبْدُ حَقيقَةَ الإيمانِ حَتّى يُؤْثِرَ دينَهُ عَلى شَهْوَتِهِ، وَلَنْ يَهْلِكَ حَتّى يُؤْثِرَ شَهْوَتَهُ عَلى دينِهِ؛ [9]
کوئی بھی بندہ حقیقتِ ایمان کے کمال پر ہرگز فائز نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے دین کو اپنی شہوت اور نفسانی خواہشوں پر مقدم نہیں رکھتا، اور کبھی ہلاک (اور نیست و نابود) نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کو اپنے دین پر ترجیح نہیں دیتا (دین کی نفسانی خواہشوں پر ترجیح ایمان کی تکمیل کا سبب، اور نفسانی خواہشوں کو دین پر مقدم رکھنا، تباہی اور بربادی کا سبب ہے)۔
دسویں حدیث
امر اور نہی اللہ کی مخلوقات
"الأمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْىُ عَنِ الْمُنْكَرِ خَلْقانِ مِنْ خَلْقِ اللّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَمْن نَصَرَهُما أعَزَّهُ اللّهُ، وَمَنْ خَذَلَهُما خَذَلَهُ اللّهُ عَزَّ وَجَلَّ؛ [10]
امر بالمعروف اور نہى عن المنكر خدائے عزّوجلّ کی دو مخلوقات ہیں، تو جو ان دو کی مدد کرے خداوند متعال اس کو عزت و عظمت عطا کرتا ہے اور جو انہیں بے یار و مددگار چھوڑتے خداوند متعال اس کو [دنیا اور آخرت میں] بے یار و مددگار چھوڑ دیتا ہے"۔
گیارہویں حدیث
تین خصلتوں کی حاجت
"الْمُؤمِنُ يَحْتاجُ إلى ثَلاثِ خِصالٍ: تَوْفيقٍ مِنَ اللّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَواعِظٍ مِنْ نَفْسِهِ، وَقَبُولٍ مِمَّنْ يَنْصَحُهُ؛ [11]
مؤمن ہر حال میں تین خصلتوں کا محتاج ہے؛ توفیق اللہ کی جانب سے، واعظ اپنے اندر سے، اس شخص کی نصیحت و خیرخواہی قبول کرنا جو اس کو نصیحت کرے"۔
بارہویں حدیث
ہر دلعزیز بننے کی تین خصلتیں
"ثَلاثُ خِصالٍ تَجْتَلِبُ بِهِنَّ الْمَحَبَّةُ: الإنْصافُ فِى الْمُعاشَرَةِ، وَالْمُواساةُ فِى الشِّدِّةِ، وَالإنْطِواعُ وَالرُّجُوعُ إلى قَلْبٍ سَليمٍ؛ [12]
تین خصلتیں ایسی ہیں جن سے محبت کمائی جا سکتی ہے: لوگوں کے ساتھ معاشرت میں انصاف کی رعایت کرو، شدتوں اور سختیوں ميں لوگوں کے غم خوار اور ان کے دکھ درد میں شریک ہو رہو، قلب سلیم سے رجوع کرکے معنویات اور نیک اعمال کی طرف توجہ دیا کرو"۔
تیرہویں حدیث
توبہ کے چار ستون
"التَّوْبَةُ عَلى أرْبَع دَعائِم: نَدَمٌ بِالْقَلْبِ، وَاسْتِغْفارٌ بِاللِّسانِ، وَعَمَلٌ بِالْجَوارِحِ، وَعَزْمٌ أنْ لايَعُودَ؛ [13]
چار چیزیں توبہ کے ستون [اور اس کی قبولیت کی شرطیں] ہیں: [گناہ و معصیت سے] قلبی طور پر پشیمانی اور ندامت، زبان سے مغفرت اور بخشش طلب کرنا، اعضاء و جوارح سے نیک اعمال انجام دینا [اور خطاؤں کی تلافی کرنا، چاہے گناہ حق اللہ سے تعلق رکھتا ہو یا پھر حق الناس سے]، اور اس بات کا پکا عزم کرنا کہ [تائب شخص] دوبارہ گناہ کی طرف نہیں لوٹے گا"۔
چودہویں حدیث
مؤمن بھائی کی قبر پر سورہ قدر کی تلاوت
"مَنْ زارَ قَبْرَ أخيهِ الْمُؤْمِنِ فَجَلَسَ عِنْدَ قَبْرِهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْقَبْرِ وَقَرَءَ: "إنّا أنْزَلْناهُ فى لَيْلَةِ الْقَدْرِ" سَبْعَ مَرّاتٍ، أمِنَ مِنَ الْفَزَعَ الأكْبَرِ؛ [14]
جو شخص اپنے مؤمن بھائی کی قبر کی زیارت کرے اور قبلہ رو ہو کر بیٹھ جائے اور اپنا ہاتھ قبر پر رکھے اور سات مرتبہ سورہ "إنّا أنْزَلْناهُ فى لَيْلَةِ الْقَدْرِ" کی تلاوت کرے وہ قیامت کے عظیم خوف و ہراس اور سختیوں سے محفوظ رہے گا"۔
پندرہویں حدیث
مشہد مقدس جنت کا ٹکڑا
"إنَّ بَيْنَ جَبَلَىْ طُوسٍ قَبْضَةٌ قُبِضَتْ مِنَ الْجَنَّةِ، مَنْ دَخَلَها كانَ آمِنا يَوْمَ الْقِيامَةِ مِنَ النّار؛ [15]
بے شک شہر طوس [مشہد مقدس] کے دو پہاڑوں کے درمیان ایک ٹکڑا ہے جو جنت سے لے لیا گیا ہے؛ جو زمین کے اس جنتی ٹکڑے میں داخل ہوگا [اور معرفت کے ساتھ وہاں مدفون امام کی زیارت کرے گا] قیامت کے روز جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا"۔
سولہویں حدیث
قم میں زیارت سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کا ثواب
"مَنْ زارَ قَبْرَ عَمَّتى بِقُمْ، فَلَهُ الْجَنَّةُ؛ [16]
جو بھی [معرفت و مودت کے شرطوں پر پورا اتر کر] شہر قم میں میری پھوپھی سیدہ فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی زیارت کرے تو جنت اسی کے لئے ہے"۔
سترہویں حدیث
تین چیز منزل رضوان کی ضامن
"ثَلاثٌ يَبْلُغْنَ بِالْعَبْدِ رِضْوانَ اللّهِ: كَثْرَةُ الإسْتِغْفارِ، وَخَفْضِ الْجْانِبِ، وَكَثْرَةِ الصَّدَقَةَ؛ [17]
تین چیزیں بندے کو رضوان الٰہی تک پہنچا دیتی ہیں:
1۔ بکثرت استغفار کرنا
2۔ تواضع اور خاکساری،
3۔ بہت صدقہ دینا اور بہت زیادہ کار خیر کرنا"۔
اٹھارہویں حدیث
ظلم کے شرکاء
"الْعامِلُ بِالظُّلْمِ، وَالْمُعينُ لَهُ، وَالرّاضى بِهِ شُرَكاءٌ؛ [18]
جو ظلم و ستم کا ارتکاب کرے، اور جو ظلم کرنے والے کو مدد بہم پہنچائے، اور جو اس ظلم پر خوش اور راضی ہو، یہ سب ظلم میں شریک ہیں"۔
انیسویں حدیث
کونسی چیز کس چیز کی زینت ہے؟
"التَّواضُعُ زينَةُ الْحَسَبِ، وَالْفَصاحَةُ زينَةُ الْكَلامِ، وَ الْعَدْلُ زينَةُ الاْيمانِ، وَالسَّكينَةُ زينَةُ الْعِبادَةِ، وَالْحِفْظُ زينُةُ الرِّوايَةِ؛ [19]
خاکساری اور تواضع حسب و نسب کی زینت ہے، فصاحت کلام کی زینت ہے، عدل ایمان و اعتقاد کی زینت ہے، وقار و ادب اعمال و عبادات کی زینت ہے، اور حفظ [قوت حافظہ] نقل روایت و حدیث کی زینت ہے"۔
بیسویں حدیث
پرستاری بندگی ہے!
"مَنْ أصْغى إلى ناطِقٍ فَقَدْ عَبَدَهُ، فَإنْ كانَ النّاطِقُ عَنِ اللّهِ فَقَدْ عَبَدَ اللّهَ، وَإنْ كانَ النّاطِقُ يَنْطِقُ عَنْ لِسانِ إبليس فَقَدْ عَبَدَ إبليسَ؛ [20]
اگر کوئی شخص کسی مقرر کا پرستار [Fan] ہو وہ اسی کا بندہ ہے؛ تو اگر وہ مقرر خدا کے لئے اور خدا کے معارف اور احکام کے بارے میں بولتا ہو تو اس شخص نے اللہ کی بندگی کی ہے اور اگر مقرر ابلیس کی زبان سے [ہویٰ و ہوس اور مادیات اور دنیا پرستی اور دنیاوی لذتوں کی] بات کرے تو وہ ابلیس کا بندہ ہے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1]۔ الدیلمی، أعلام الدّین، ص309؛ علامہ مجلسی، بحار الا نوار، ج75، ص364، ح5۔
[2]۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج71، ص181؛ سید محسن امین العاملی، أعیان الشّیعۃ، ج2، ص36۔
[3]۔ ورام ابن ابی فراس، تنبیہ الخواطر، ح2، ص109؛ علامہ مجلسی، بحار الا نوار، ج67، ص245، ح19۔
[4]۔ علامہ مجلسی، بحار الا نوار، ج72، ص109، ح12، محدث نوری، مستدرک الوسائل، ج7، ص230، ح8114۔
[5]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج5، ص347؛ الشیخ الطوسی، محمد بن حسن تہذیب الاحکام، ج7، ص396، ح9۔
[6]۔ علامہ مجلسی، بحار الا نوار، ج75، ص364۔
[7]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علي بن الحسین بن بابويہ، الخصال، ج2، ص650، ح46؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج40، ص134۔
[8]۔ علامہ الاربلی، کشف الغمّۃ، ج2، ص350؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج75، ص83۔
[9]. علامہ مجلسی، بحار الا نوار، ج75، ص81،
[10]۔ الشیخ الصدوق، الخصال، ص42، ح32؛ الشیخ الحر العاملی، محمد بن حسن، ج16، ص124۔
[11]۔ علامہ محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج72، ص65، ح3، میرزا حسین محدث نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج8، ص329، ح9576۔
[12]۔ علامہ الاربلی، کشف الغمّۃ، ج2، ص349؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج75، ص82۔
[13]۔ علامہ الاربلی، کشف الغمہ، ج2، ص349؛ علامہ مجلسی، بحار الا نوار، ج75، ص81، ح74۔
[14]۔ الشیخ الطوسی، اختیار معرفۃ الرّجال، ص564، ح1066؛ الشیخ الحر العاملی، وسائل الشیعہ، ج3، ص227۔
[15]۔ الشیخ الصدوق، عیون اخبارالرّضا علیہ السلام، ج2، ص256، ح6؛ الشیخ الحر العاملی، وسائل الشیعہ، ج14، ص556۔
[16]۔ جعفر بن محمد بن محمد "ابن قولویہ القمی"، کامل الزیارات، ص536، ح827، علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج99، ص265۔
[17]۔ علامہ الاربلی، کشف الغمّۃ، ج2، ص349۔
[18]۔ علامہ االاربلی، کشف الغمّۃ، ج2، ص348؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج75، ص81۔
[19]۔ علامہ الاربلی، کشف الغمّۃ، ج2، ص347؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج75، ص80۔
[20]۔ ابن شعبہ الحرانی، تحف العقول، ص479۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110