اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
پیر

22 اپریل 2024

8:46:41 PM
1453335

امارات کی یہود نوازی کا ایک راز؛

ماتی کوچاوی کون ہے؟ امارات کا پسندیدہ شخص اور اسرائیل کے جاسوسی آلات کا گاڈ فادر / امارات عرصۂ دراز سے صہیونیت کے قابو میں + اہم تصویریں

غاصب یہودی ریاست کا سابق جاسوس عرصۂ دراز سے اماراتیوں کا اعتماد حاصل کرچکا ہے اور اپنے شہریوں، امارات میں مقیم بیرونی کارکنوں اور مزدوروں نیز پڑوسیوں کی جاسوسی کرنے کے لئے اپنے تجربات اور ٹیکنالوجی کی جدید مصنوعات امارات کے حکمرانوں کے سپرد کر رہا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

متحدہ عرب امارات اور جعلی ریاست "اسرائیل" کے درمیان تعلقات کو دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ابرامز معاہدے سے پہلے اور اس معاہدے کے بعد۔ البتہ ان دو ریاستوں کے درمیان تعلقات ان دونوں ادوار میں کبھی بھی محدود اور پس پردہ نہیں رہے، اور صرف ان تعلقات کی شکل تبدیل ہوئی اور غیر سرکاری تعلقات سے سرکاری اور سفارتی سانچے میں ڈھل گئے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ غیر رسمی دور میں یہ تعلقات صہیونی ریاست کے جاسوسوں اور سیکورٹی اہلکاروں کی ذاتی صلاحیتوں کی بنا پر - ذاتی روابط کی صورت میں - قائم ہوئے اور آگے بڑھے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ان رپورٹوں میں جن لوگوں کو متعارف کرایا جاتا ہے، انھوں نے صرف امارات اور اسرائیل کے درمیان تعاون ہی میں کردار ادا کیا ہو، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو ٹیکنالوجی پر مبنی ایسی مصنوعات اور حکمت عملیوں کی فروخت میں کردار ادا کرتے ہیں جو اسرائیلی یا اسرائیل سے وابستہ اداروں نے تیار کی ہیں۔ تحقیقاتی مضامین کے اس سلسلے میں ہم نے اپنی توجہ ایسے افراد پر مرکوز کی ہے جو سائبر کے شعبے میں سرگرم ہیں اور خلیج فارس کی استبدادی حکومتوں اور اسرائیل سے وابستہ دوسری حکومتوں کی ضروریات کی تکمیل پر مامور ہیں۔

امارات کی طرف اشارہ اس لئے ہے کہ ابو ظہبی میں آل نہیان قبیلے کی آمرانہ بادشاہت اسرائیلی سائبر آلات اور سائبر حکمت عملیوں کی سب سے بڑی صارف ہے اور غاصب اسرائیلی ریاست میں سائبر ٹیکنالوجی کے تمام اہم افراد کا اس عربی ریاست کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ نیز کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے سائبر کھلاڑیوں نے بنیادی طور پر بہت سی جدید حکمت عملیوں کو امارات کے شہریوں، یہاں رہنے والے غیر ملکیوں اور امارات کے پڑوسیوں کی جاسوسی کرنے کے لئے تیار کیا ہے اور پھر ان ہی مصنوعات اور حکمت عملیوں کو بنیاد بنا کر متعدد اسٹارٹ اپس (Startups) اور کمپنیوں کو قائم کیا ہے۔ بالفاظ دیگر امارات ان افراد کے لئے ایک تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتا تھا جہاں انھوں نے جدید مصنوعات تیار کرکے عالمی منڈی میں بھی فروخت کر لی ہیں۔

مجموعی طور پر جو افراد سیاسی میدان اور بین الاقوامی سطح پر کسی وقت دشمن سمجھے جاتے تھے اور شاید اب بھی کسی حد تک غیر ہم آہنگ کھلاڑی سمجھے جاتے ہوں، جعلی صہیونی ریاست کی تشکیل سے اب تک ٹیکنالوجی کے حوالے سے ان ممالک سے وسیع تعاون و تعامل میں جڑے رہے ہیں۔ اس مجموعے میں متعارف ہونے والے افراد سائبر شعبے میں ان تعلقات کے فروغ میں کردار ادا کر رہے ہیں اور سائبر ٹیکنالوجی سے متعلق کمپنیوں کے بانی اور منتظمین سمجھے جاتے ہیں جن کی اپنی جڑیں بھی اور ان سے وابستہ کارکنوں کی جڑیں بھی اسرائیل کی سیکورٹی اور فوجی اداروں میں پیوست ہیں۔

ماتی کوچاوی کون ہے؟

ماتی کوچاوی (1)، 1962ع‍ میں پیدا ہؤا ہے وہ ای جی انٹرنیشنل کمپنی (2) کا بانی ہے اور خلیج فارس کے علاقے میں جاسوسی کے آلات کا باپ سمجھا جاتا ہے۔ وہ اسرائیل کا کاروباری اور تاجر ہے جو چھ مہینے مقبوضہ فلسطین میں ہوتا ہے اور چھ مہینے نیویارک میں۔ وہ دنیا بھر میں سائبر سیکورٹی کے سرخیلوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسرائیلی فوج کے انٹیلی جنس کے شعبے کا یہ سابق افسر حیفا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہؤا ہے۔ وہ اس میدان کا سرخیل اس لئے ہے کہ اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے گیارہ ستمبر 2001ع‍ کے بعد کے دنوں میں امریکی سیکیورٹی انٹیلی جنس کے شعبے میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد، اس ملک میں سیکیورٹی اور سائبر انٹیلی جنس سے متعلق پہلی کمپنیوں کی بنیاد رکھی۔

عالمی سطح پر جدید سیکورٹی-انٹیلی جنس نظام کی تشکیل کے سالوں کے دوران ماتی کوچاوی نے اپنی توجہ ایسے شعبے پر مرکوز کرلی جس نے 11 ستمبر کے واقعے کے بعد تیزی سے فروغ پایا اور آج یہ شعبہ بڑی اور چھوٹی طاقتوں کے مقابلے کا میدان بن چکا ہے: سائبر اسپیس۔

کوچاوی کی سرگرمیوں اور کارکردگی کی کیفیت کے جائزے سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے ایک واضح اور پہلے سے منصوبہ بند راستہ طے کیا ہے اور اب وہ اس مقام پر ہے جس کے بارے میں وہ شروع سے سوچ رہا تھا۔ "نئے عالمی نظام (New World Order)" کے نظریئے کے نفاذ کے ابتدائی سالوں میں، سائبر کے شعبے میں - وہ بھی سیکورٹی کے میدان میں - داخل ہوکر سائبر سیکورٹی کی ایک نئی تعریف فراہم کی۔ گوکہ یہ شعبہ ابتدائی سالوں میں اپنے ابتدائی دور سے گذر رہا تھا اور ابھی اس سے بہت مختلف تھا جسے آج ہم "سائبر سیکیورٹی" کے نام سے جانتے ہیں، لیکن کوچاوی بخوبی جانتا تھا کہ اس میدان کو کیوں اور کیسے شکل دینا ہے۔ کوچاوی حالیہ دو عشروں کے دوران جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے بہت مشہور رہا اور اشیاء کے انٹرنیٹ (Internet of Things [IoT]) مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) اور ذہین شہروں (Smart cities) کے لئے ضروری حکمت عملیوں کے سرکردہ افراد میں شمار ہوتے رہے ہیں۔ سال 2007ع‍ میں اس نے ای جی اینٹرنیشنل کی بنیاد رکھی اور بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری افراد اور اداروں کے ساتھ معاہدے منعقد کئے کیونکہ وہ [بظاہر] سائبر اسپیس کی وجہ سے درپیش پیچیدہ چیلنجوں اور خطرات کا اندازہ لگانے میں ان کی مدد اور ان سے نمٹنے اور ضرورت کے وقت ضروری انتظام و انصرام کے لئے تیار کرنا چاہتا تھا۔ یہ خدمات بنیادی ڈھانچے کی صنعتوں کی وسیع حدود کے اندر فراہم کی جاتی ہیں؛ بشمول شہری انتظام، صحت اور علاج معالجے کی دیکھ بھال کا انتظام، سائبر اسپیس، اور غذائی تحفظ وغیرہ۔ (3) دوسری طرف سے کوچاوی متحدہ عرب امارات میں ریشہ دوانی کرنے والا پہلا اسرائیلی ہے اور امارات کی طرف سے غاصب ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے غدارانہ اقدام سے بہت پہلے سائبر اور فزیکل سیکورٹی کے شعبوں میں بڑے بڑے معاہدے منعقد کئے۔

کوچاوی نے ذرائع ابلاغ کے سلسلے میں بھی سرگرمی دکھائی ہے۔ سنہ 2013ع‍ میں اس نے نیویارک میں ووکاٹو (4) کمپنی کی بنیاد رکھی۔ ووکاٹو ویڈیو مواد پر مبنی اخباری ویب گاہ ہے جو "ویب کی گہرائی" (5) سے ڈیٹا مائننگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہے، ایسا مواد جو انٹرنیٹ میں سادہ تلاش کے ذریعے قابل دسترس نہیں ہے، بشمول ویب کمیونٹی کا مواد، ڈیٹا بیسز، دستاویزات، عام دستاویزات، سوشل نیٹ ورکس، چیٹ رومز، آن لائن اسٹورز وغیرہ۔ اور یوں رپورٹ کا موضوع تلاش کیا جاتا ہے اور ہیں اور ان کی بنیاد پر تازہ مواد (First hand content) تیار کیا جاتا ہے۔

ووکاٹو کمپنی ڈیٹا اکٹھا کرنے اس کا تجزیہ کرنے والا سافٹ ویئر استعمال کرتی ہے جو عام طور پر حکومتوں کے زیر استعمال ہے اور ایسی ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتی ہے جو جاسوسی کے لئے بھی قابل استعمال ہیں۔ ووکاٹو کمپنی درحقیقت صحافت کے لئے ایک نیا طریقہ اختیار کرتی ہے اور، ایک طرح سے، ابلاغی سرکاری جاسوسی روشوں کو بروئے کار لا کر، ابلاغی مواد تیار کرتی ہے۔ (6)

کوچاوی نے ڈارک نیٹ (7) کے عنوان سے ایک ٹی وی ڈاکومینٹری سلسلہ تیار کیا ہے جو ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے پوشیدہ اور تاریک پہلوؤں کا جائزہ لیتی ہے؛ جیسے سائبر اسپیس پر یرغمال بنانا، (cyber hostage-taking) حیاتیاتی ہیکنگ، ڈیجیٹل وارفیئر، آن لائن کلٹس، فحش نگاری کی لت، اور آن لائن جنسی سرگرمیاں۔ (8)

کوچاوی نے اپنی بیٹی مایا کوچاوی (9) کے ساتھ مل کر سنہ 2019ع‍ میں "ایوا کی داستان" کا تاریخی منصوبہ شروع کیا جو کہ ایوا ہیمین (10) کی مبینہ ذاتی یادداشتوں کی ڈائری کی بنیاد پر ایک تعاملی دستاویزی فلم (Interactive documentary) ہے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ایوا ہیمین ایک 13 سالہ ہنگرین تھی جو مبینہ ہالوکاسٹ کے دوران ماری گئی تھی۔ اس دستاویزی فلم کا نام " کیا ہوتا اگر ہولوکاسٹ میں کسی لڑکی کے پاس انسٹاگرام ہوتا" (11) یہ دستاویزی فلم ایک انسٹاگرام پیج کے سانچے میں "ایوا کی داستانیں" (12) کے نام سے نشر کی گئی۔ اس فلم میں اسی مبینہ ڈائری کی بنیاد پر کچھ تصویریں مختصر سے ویڈیو کلپس  پر مشتمل ہے۔ انسٹاگرام پر یہ مواد 2 مئی 2019ع‍ کو ہالوکاسٹ کی برسی کے موقع پر نشر کیا گیا۔ ایوا کی داستانیں نامی انسٹاگرام اکاؤنٹ کو اب تک اکیس لاکھ افراد نے فالو کیا ہے اور اس کو 30 کروڑ بار دیکھا گیا ہے۔ (13)

نیز کوچاوی نے "کوچ اے آئی (14) کے عنوان سے ایک اسٹارٹ اپ کی بنیاد رکھی ہے اور اسی راستے سے کھیلوں کے شعبے میں بھی داخل ہؤا ہے۔ اس اسٹارٹ اپ نے پرفیکٹ پلے (15) کو ڈیزائن کرکے پیش کیا ہے جو کمپیوٹر کی پیشین گوئی اور افزودہ حقیقت (Augmented reality) کی مدد سے کھلاڑیوں کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔ (16) بطور مثال صارفین کو پیشہ ور کھلاڑیوں کی طرح فٹ بال کھلاڑیوں کی طرح مشق کرنے کا امکان فراہم کرتا ہے۔ (17) اس ایپلیکیشن کو چیلسی فٹ بال کلب نے سنہ 2020ع‍ میں استعمال کیا۔ (18)

من حیث المجموع کہا جا سکتا ہے کہ کوخاوی - سائبر سیکورٹی کے آلات اور حکمت عملیوں کے شعبے میں دو اثرگذار کمپنیوں کی بنیاد رکھ کر - اشیاء کے انٹرنیٹ کے میدان کے ابتدائی بازیگروں کے زمرے میں بھی قرار پایا۔ کیونکہ آلات اور حکمت علمیوں کی ڈیزائننگ میں اس کی روش سائبر اسپیس اور حقیقی دنیا کے درمیان مؤثر رابطہ قائم کرتی تھی۔ بایں معنی کہ اس کی کمپنیوں کے بنے ہوئے آلات اور حکمت عملیاں ایک سینسر (Sensor) نیٹ ورک اور ڈیٹا اکٹھا کرنے والے آلات کے ذریعے سے کام کرتی تھیں جو ڈیٹا کی بڑی مقدار کی تیاری کا باعث بنتی ہیں اور پھر پروسیسنگ-تجزیاتی پلیٹ فارم میں سیکورٹی معلومات میں بدل جاتے ہیں اور وہ معلومات مختلف مقاصد کے حصول کو عملی شکل دیتی ہیں۔

ذیل میں، ہم اس عمل اور ان کمپنیوں اور سرگرمیوں کو بیان کریں گے جنہیں کوچاوی نے اس روش سے قائم کیا اور - خاص طور پر متحدہ عرب امارات میں - سائبر سیکیورٹی کا گاڈ فادر بن گیا۔ 

حفاظتی سلوشنز کی 4D کمپنی کا قیام

حفاظتی سلوشنز کی 4D کمپنی (19) (جس کو اگلی سطور میں اختصار کی خاطر 4Dکہا جائے گا) کی بنیاد سنہ 2004ع‍ میں ریاست ہائے متحدہ کے نیوجرسی میں رکھی گئی۔ یہ کمپنی نگرانی اور صورتحال / حالات سے آگاہی (20) کا نظام فراہم کرنے میں مہارت رکھتی ہے اور حال حاضر میں دنیا بھر کے بہت حساس اور اہم مراکز اس کمپنی کی سلوشنز کے سہارے اپنا تحفظ کرتے ہیں۔ 4D موجودہ سیکورٹی نظامات کو بہتر بنانے، اپ گریڈ کرنے اور منضم کرنے میں بھی مہارت رکھتا ہے اور اپنے صارفین کی ضروریات کی بنیاد پر نئے سسٹمز کو ڈیزائن اور تیار کرتا ہے۔ ہوائی اڈے، تیل صاف کرنے کے کارخانے، پیٹرو کیمیکلز، سرحدیں، ریلوے لائنز اور ٹرمینلز، بندرگاہیں اور شہری تنصیبات اس کمپنی کے اہم ترین گاہک ہیں۔ (21)

جو چیز اس کمپنی کو ایک خاص کھلاڑی کا درجہ دیتی ہے، اس کی پالیسی سیکیورٹی ٹیکنالوجیز اور ڈیٹا کے تجزیات کی تیاری ہے۔ 4D کا مصنوعی ذہانت اور اشیاء کے انٹرنیٹ پر ارتکاز، اور ان دونوں کی مصنوعی ذہانت سے لیس پلیٹ فارموں کے سانچے میں یکجائی، اور ایک سینسر نیٹ ورک سے اس کا اتصال، اسے ماحول کے انتظام اور کنٹرول کے ساتھ ساتھ ڈیٹا کے بہاؤ کا تجزیہ کرنے اور سمجھنے کے لئے انتہائی مخصوص آلات تیار کرنے کے قابل بناتا ہے۔ یہاں اس کمپنی کا مختصر تعارف کرایا گیا ہے۔ 4D کا تنظیمی ڈھانچہ ذیل کے تین شعبوں پر مشتمل ہے:

◄ اشیاء کے انٹرنیٹ کا نیٹ ورک، جو مصنوعی ذہانت سے لیس ہے

◄ شو روم

◄ تجربہ گاہ کا کمرہ

ان تین شعبوں میں سے ہر ایک کی اپنی مصنوعات اور سلوشنز ہیں جو دوسرے دو شعبوں سے بھی مربوط اور تعاونی عمل میں جڑے ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر مصنوعی ذہانت سے لیس پلیٹ فارمز جو اشیاء کے انٹرنیٹ کو تشکیل دیتے ہیں، شناختی (علمی) اور حسی عمل کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں جو پیچیدہ فزیکی ماحول کے ادراک کو ممکن بناتے ہیں۔ اس طرح 4D میں تیار کردہ آلات وہ سب کچھ تیار کرلیتے ہیں جو سینسر کے ذریعے فزیکی دنیا کا احساس اور ادراک کرنے، اس کے بارے میں تعامل کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے لئے درکار ہیں۔

کوچاوی نے اس کمپنی کی بنیاد رکھ کر سلامتی کے میدان کے ایک بہت زیادہ تزویراتی شعبے پر ارتکاز کیا ہؤا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے لیس پلیٹ فارم سے فائدہ لے کر اشیاء کے انٹرنیٹ کے ذریعے ڈیٹا کلیکشن ایک ملک کے تمام بنیادی ڈھانچوں میں قابل استعمال ہے۔ ذیل کے تمام تر شعبے 4D کے تیار کردہ آلات اور سلوشنز کو بروئے کار لاتے ہیں:

 ◄ ٹریفک کنٹرول (فضا، ریلوے اور زمینی)؛ 

◄ عمومی آمد و رفت کا انتظام؛

◄ سرحدوں کی نگرانی اور حفاظت؛

◄ بند ماحول کا تحفظ (دفتر، صنعتی، تجارتی، بینکاری، وغیرہ)؛

◄ بنیادی ڈھانچے کی صنعتوں میں کام کے عمل کی درستگی کا انتظام اور تحفظ۔

مجموعی طور پر جو مصنوعات اشیاء کے انٹرنیٹ سے فائدہ اٹھاتی ہیں، وہ 4D مصنوعی ذہانت کے تخصصی پلیٹ فارموں کی گاہک بن سکتی ہیں۔ نیز، یہ ذکر کرنا لازم ہے کہ اس کمپنی کی انتظامی ٹیم امریکہ کے جاسوسی-سیکورٹی اداروں کے سابق افسروں تھامس بیٹرو (22) اور جان گل (23) پر مشتمل ہے۔ یہ دو افراد کوچاوی اور امریکہ کے سیکورٹی اور جاسوسی اداروں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اور بالفاظ دیگر ان دو افراد کو کوچاوی اور امریکہ کے خفیہ اداروں کے درمیان رابطے کا پل قرار دیا جا سکتا ہے۔

4D کے اندر سے "AGT انٹرنیشنل" کی پیدائش

4D سیکیورٹی سلوشنز کمپنی کے اہم حصوں میں سے ایک اس کا لیبارٹری روم ہے جو سنہ 2007ع‍ میں ایک مستقل کمپنی بنام "اے جی ٹی انٹرنیشنل" (24) میں تبدیل ہؤا۔ اس کمپنی کو سوئٹزر لینڈ کے شہر زیورخ (Zurich) میں رجسٹر کرایا گیا ہے۔ مقبوضہ فلسطین، جرمنی، اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں اے جی ٹی کے ذیلی نیٹ ورک کے 2000 کارکن ہیں۔ یہ کمپنی اپنی مصنوعات اور خدمات کی فروخت سے سالانہ سات ارب ڈالر سے زائد منافع کماتی ہے۔ یہ کمپنی مختلف تجربہ گاہوں سے استفادہ کرتے ہے - جو کمپیوٹر پیشین گوئی، معنویات، (Semantics) اور استدلال، حرکات و سکنات اور جذبات کی تشخیص کی مہارت رکھتے ہیں - اپنی مصنوعات کو مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر تیار کرتے ہیں۔ (25)

ایک سو (100) سے بھی زیادہ ڈآکٹر اور ماہر انجنیئر اس مجموعے کے مشینی امور، مصنوعی ذہانت اور اشیاء کا انٹرنیٹ میں کام کر رہے ہیں؛ اور سینسرز سے حاصل ہونے والی معلومات کے پراسیسنگ اور تجزیئے میں مصروف ہیں تا کہ فزیکی ماحولیات کو قابل فہم بنا دیں۔ دوسرے لفظوں میں اے جی ٹی اس ہر چیز کو مکمل کرکے ترقی اور فروغ دیتی ہے جو 4D نے تیار کی ہوتی ہے۔ نیز اے جی ٹی بین الاقوامی سطح پر - بالخصوص مشرق وسطیٰ کے خطے اور خاص الخاص طور پر متحدہ عرب امارات میں - ماتی کوچاوی کی سرگرمیوں کا موجب ہے۔ امارات میں ماتی کوچاوی کا چھ ارب ڈالر کا کاروبار اے جی ٹی کے کندھوں پر چل رہا ہے۔ یہ کمپنی اس ڈیٹا کے تجزیئے اور پروسیسنگ کے لئے مصنوعی ذہانت سے لیس حل/آلات فراہم کرتی ہے جنہیں اشیاء کے انٹرنیٹ کے نیٹ ورک یا پھر اے جی ٹی نے تیار کیا ہو تا ہے۔

اے جی ٹی اور متحدہ عرب امارات میں دنیا کے سب سے جامع ترین مدغم سیکورٹی نظام

اس کمپنی کا ایک اہم ترین منصوبہ - جس کے بدولت کوچاوی دنیا میں سائبر سیکورٹی کے میدان میں نمایاں چہرہ بن گیا - امارات اے جی ٹی کا سرحدی حفاظتی منصوبہ تھا۔ کوچاوی نے اس کمنی کے توسط سے ایک ایسی پیداوار امارات کو بیچ ڈالی جو اپنے دور میں دنیا کا جامع ترین ادغامی سیکورٹی نظام سمجھی جاتی تھی۔ سنہ 2007ع‍ سے 2017ع‍ تک اے جی ٹی نے امارات کی 620 کلومیٹر سرحد اور پورے ابوظہبی میں ایک ہزار کیمرے، سینسرز اور راڈار نصب گئے۔ اے جی ٹی کی مصنوعی ذہانت کا پلیٹ فارم جس کا کوڈ نام Wisdom ہے۔

گوکہ اے جی ٹی زیورخ میں تعینات ہے اور اس کی سرگرمیوں کا انتظام امریکہ سے چلایا جاتا ہے لیکن ان ساری سرگرمیوں کا ماسٹر مائنڈ مقبوضہ فلسطین میں کوچاوی ہی کی ایک کمپنی "لاجک انڈسٹریز" (Logic Industries Ltd) ہے۔ اگلی سطور میں اس کا مختصر تعارف پیش کیا جائے گا۔

امارات میں منصوبے پر عمل درآمد کی کیفیت بھی کوچاوی اور عالمی اور بالخصوص خلیج فارس کی سطح پر اس کی سرگرمیوں کے بارے میں بہت سے پیغامات کی حامل ہے۔ جس وقت یہ منصوبہ اپنے عروج پر تھا، ایک سفید رنگ کا بوئنگ 737 طیارہ تسلسل کے ساتھ تل ابیب کے بن گورین ہوائی اڈے سے اڑ کر سیاسی ڈھال کے طور پر قبرس یا اردن میں اتر کر تین یا چار گھنٹے بعد ابو ظہبی کی طرف پرواز کرتا اور کئی یہودی انجنیئروں کو امارات منتقل کرتے تھا۔ ان بظاہر انجنیئروں ميں سے بہت سے صہیونی ریاست کی خفیہ ایجنسیوں کے ملازم تھے۔

یہ لوگ ساتھ رہتے، ساتھ گھومتے اور کسی ریستوران وغیرہ میں نہیں بیٹھتے تھے۔ وہ اپنے ساتھ ٹریکرز اور ٹریسرز کے ساتھ ساتھ ہنگامی ضرورت کے وسائل بھی اٹھا کر لے جاتے تھے۔ وہ اپنی قومیت اور عبرانی نام و نشان کو بہترین انداز سے، صیغۂ راز میں رکھتے تھے۔ اسرائیل کے بجائے ملک سی (C Country) کا نام لیتے تھے اور ماتی کوچاوی کا نام لینے کے بجائے ایم کے (MK) پر اکتفا کرتے تھے۔

جو عرب اس سے پہلے اے جی ٹی کے ساتھ تعاون کرتے تھے اس کو ایک سوئس کمپنی سمجھتے تھے؛ یہی وجہ تھی کہ کبھی کبھار اختلافات کے باوجود وہ کوچاوی کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم رکھتے تھے۔ کوچاوی کے ماتحت ماہرین ساتھ کام کرنے والے اماراتی باشندوں کی اکثریت کا تعلق سیکورٹی اداروں سے تھا جن میں سے کچھ کو تو ہرگز معلوم نہ ہوسکا کہ جس ٹیکنالوجی کو وہ بروائے کار لا رہے ہیں، خالصتاً اسرائیلی ٹیکنالوجی ہے۔ (26)

دسمبر سنہ 2014ع‍ میں اس ٹیکنالوجی کی قدر و قیمت اور افادیت واضح ہوئی؛ جب ایک اماراتی عورت نے امریکی اسکول کی ایک ااستانی ابو ظہبی کے ایک شاپنگ سینٹر کے بیت الخلاء میں، چاقو کے وار کرکے قتل کیا۔ یہ عورت بعدازاں ایک مصری ڈاکٹر کے گھر پہنچی اور وہاں ایک بم رکھا جسے بعد میں ناکارہ بنایا گیا۔ اے جی ٹی کمپنی نے ویڈیو اور متعلقہ مقامات کی تصویروں کی پراسیسنگ کے ذریعے  24 گھنٹوں میں ہی مشتبہ عورت کا سراغ لگا لیا، جسے فوری طور پر گرفتار کیا گیا، اس پر مقدمہ چلایا گیا اور سات مہینے بعد موت کی سزا دی گئی۔ اسی واقعے نے مناسب پلیٹ فارم فراہم کیا اور یہ اسرائیلی ٹیکنالوجی حجاز مقدس میں بھی منتقل ہو گئی!!

لاجک اینڈ انڈسٹریز: جاسوسی ادارے کے انجنیئر اور سپائی ویئر کی تیاری

کوچاوی نے سنہ 2006ع‍ میں لاجک اینڈ انڈسٹریز (27) کی بنیاد رکھی اور اس نے سنہ 2015ع‍ میں اپنے تمام کارکنوں اور انجنیئروں کو اے جی ٹی کے مختلف شعبوں میں تعینات کیا اور اس کمپنی کو ختم کردیا! اس کمپنی کے تقریبا تمام انجنیئر اور کارکنان کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں (موساد، [Mossad] آمان [Military Intelligence Directorate]، یونٹ 8200 اور شن بیٹ [Shin Bet]) میں سے مقرر کیا گیا تھا جنہیں بعدازاں اے جی ٹی میں منتقل کیا گیا۔ 

لیکن جو کچھ اس کمپنی کے سلسلے میں زیادہ اہم ہے، وہ اہم اور بہت متنازعہ منصوبہ ہے جو شَکرے کی آنکھ (28) کے نام سے عمل میں لایا گیا۔ اس کمپنی نے سنہ 2008ع‍ میں منبغ 81 کروڑ 6 لاکھ ڈالر کا بجٹ ابوظہبی کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخیرہ فنڈ سے وصول کیا تاکہ متحدہ عرب امارات کی تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی حفاظت کے لئے حفاظتی سسٹم نصب کرے۔ اس منصوبے پر عین اسی وقت عملدرآمد کیا جب کوچاوی کا ایک دوسرا منصوبہ بھی رو بہ عمل تھا: اے جی ٹی سرحدی حفاظتی منصوبہ (29) ان دو منصوبوں نے مل کر ان دو منصوبوں نے مل کر ابوظہبی میں سینسرز، راڈاروں اور کیمروں کی بڑی تعداد کی تنصیب کا کام انجام دیا؛ چنانچہ ڈیٹا اور معلومات کی بڑی مقدار حاصل ہوئی تھی جس سے مطلوبہ فائدہ اٹھایا جاتا رہا۔

دسمبر 2014ع‍ میں متذکرہ بالا امریکی استانی کے قتل کے واقعے کے بعد، ایک سابق صہیونی جاسوسی ادارے کے اہلکار (یعنی ماتی کوچاوی) اور ابوظہبی کی حکومت کے درمیان ایک مفاہمت نامے پر دستخط ہوئے۔  "شَکرے کی آنکھ" نامی اس مفاہمت نامے کے تحت متحدہ عرب امارات کے تمام شہریوں کی نگرانی اور جاسوسی کا امکان فراہم ہؤا اور تمام شہریوں کی آمد و رفت نہیانی سرکار کی خوردبین کے نیچے آگئی۔ مذکورہ ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی پراسیسنگ اور تجزیئے کے لئے ضروری آلات لاجک اینڈ انڈسٹریز نے فراہم کر دیئے، اور دو مقامی کمپنیوں یعنی خلفان آل شمسی کی سربراہی میں ایڈوانس انٹیگریٹڈ سسٹمز (30) اور زیاد النبولسی کی انتظآمی شراکت میں ایڈوانسڈ ٹیکنیکل سلوشنز (31) نے منصوبے کے نفاذ میں ان کا ساتھ دیا۔ بہرحال لاجک اینڈ انڈسٹریز کو اس منصوبے کے نفاذ کے دو ماہ بعد تحلیل کیا گیا۔

کوچاوی نے مجموعی طور پر مذکورہ بالا کئی منصوبوں کے بدولت حاصل ہونے والے مواقع سے فائدہ اٹھا کر امارات میں اپنے تعلقات کو گہرا کردیا اور آج امارات کی فزیکی اور سائبر سلامتی کے میدان ایسا کردار بن چکا ہے جسے جِسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ تمام اقدامات امارات اور غاصب ریاست کے درمیان تعلقات کے باضابطہ اعلان سے کئی برس پہلے عمل میں لائے گئے ہیں، اور اسی بنا پر کوچاوی وہ پہلا اسرائیلی شخص سمجھا جاتا ہے جس نے خلیج فارس کے علاقے - بطور خاص متحدہ عرب امارات - میں ریشہ دوانی کی ہے اور اپنے لئے مضبوط پوزیشن کا انتظآم کیا ہے۔

ماتی کوچاوی کے پاؤں کا نشان سعودی عرب میں بھی!!!

گویا خلیج فارس کی ریاستوں کے درمیان قبلۂ اول کے غصب کرنے والے یہودیوں کی گود میں بیٹھنے کے حوالے سے ایک مسابقت اس زمانے سے بھی پائی جاتی تھی جب یہ ریاستیں عرب اسرائیل تنازعے کے حوالے سے اسرائیل کے ساتھ دشمنی کی اداکاری کر رہی تھیں۔ چنانچہ اگر امارت جیسی کسی ایک ریاست میں کوئی یہودی کردار نظر آئے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کے پاؤں کے نشان کویت، قطر، بحرین، عمان اور سب سے بڑھ کر سعودی عرب میں - حتیٰ کہ مسلمانوں کے مقدس شہروں یعنی مکہ مکرمہ اور مدنیہ منورہ میں بھی – دکھائی دے سکتے ہیں۔

سنہ 2014ع‍، اماراتی منصوبے پر عمل درآمد کے موقع پر، اے جی ٹی اور D4 نے مل کر سعودی عرب کی "موبائلی" کمپنی (32) کے تعاون سے ایک کراؤڈ کنٹرول سسٹم (Crowd control system) کو سعودی عرب میں ایک ایسے مقام پر قائم کیا جہاں اس سے پہلے کوئی بھی غیر مسلم داخلے کی غیر مسلم نہیں کر سکتا تھا: مکہ معظمہ۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ ہر سال کم از کم تیس لاکھ مسلمان پانچ دن کے لئے حج بجا لانے کی غرض سے اس مقدس شہر کی زیارت کو آتے ہیں؛ چنانچہ سعودی وزارت حج نے اس شہر تک رسائی کو کنٹرول کرنے کے لئے متعدد ٹینڈرز منعقد کئے۔ اگرچہ سعودی عازمین حج کی گنجائش معلوم ہے لیکن سعودی اس مقدس شہر میں داخل ہونے والے حجاج کو واپس نہیں نہیں کرتے۔ لہٰذا، مغربی سعودی عرب پہنچنے سے پہلے، پورے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے آنے والی عازمین کی بسوں پر زیادہ کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔

ادھر 4D کے انجنیئروں نے نیوجرسی میں ایک ایسا نظام ڈیزائن کیا جو قانونی طور پر حجاز مقدس میں داخل ہونے والے ہر حاجی کو ایک برقی کلائی بند [E-Wristband] ہاتھ میں پہننے کا پابند بناتا ہے جس کے بعد ہی بسوں میں بیٹھنے کے لئے اس کا نام رجسٹر ہو سکتا ہے۔ یہ بسیں موبائلی سسٹم کے ذریعے ایک مرکزی کمپیوٹر کو بتا دیتی ہیں کہ ہر بس میں کتنے مسافر بیٹھے ہیں اور یہ کہ کن کن مسافروں نے کلائی بند پہن رکھے ہیں اور کن کن مسافروں نے نہيں پہنے۔ ہر بس - جس میں غیر مُجاز مسافر بیٹھا ہوتا ہے - کے اوپر ایک سرخ بتی جل جاتی ہےاور پولیس ایسے کسی بھی مسافر کو مکہ مکرمہ پہنچنے سے بہت پہلے بس سے اتار کر واپس کر سکتی ہے۔ بصورت دیگر ناکوں پر لگے الیکٹرانک دروازے بھی انہیں مکہ پہنچنے سے روک لیں گے۔ سعودی حکام نے 4D سسٹم سے فضائی کنٹرول سسٹم کے طور پر فائدہ اٹھایا اور بسوں کے داخلے کے اس انداز سے منظم کیا کہ بھاری ٹریفک سے بچا جاسکے۔

اے جی ٹی اور 4D کے ڈیزائن کردہ سسٹمز نے ٹینڈرز میں جمع کرائے گئے تین ابتدائی نمونوں میں سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کئے؛ لیکن اس کے باوجود یہ یہ منصوبہ بظاہر انہيں سپرد نہیں کیا گیا۔ چند مہینے بعد مَلِک فہد آئل اینڈ منرلز یونیورسٹی میں کچھ انجنیئروں ایک سعودی اکیڈمک جرنل میں اس منصوبے سے مشابہت رکھنے والا ایک منصوبہ شائع کیا اور ایک سال بعد سعودی وزارت حج نے پہلی بار کلائی بندوں کو استعمال کیا اور پولیس نے اعلان کیا کہ اس نے دو لاکھ سے بھی زیادہ غیر مُجاز عازمین کو واپس کردیا ہے۔

آخری بات

سائبر اور معلومات کی حفاظت کے میدان میں ماتی کوچاوی کی سرگرمیاں مذکورہ بالا منصوبوں تک محدود نہیں ہیں۔ وہ اوپن سورس انٹیلی جنس (O.S.Int) کے میدان میں بھی سرگرم عمل ہے اور اس میدان میں بھی اس نے سنہ 2010ع‍ میں زیورخ میں ڈیجیٹل کلوز (33) نامی کمپنی کی بنیاد رکھی۔ یہ کمپنی ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے شعبے میں اس کی دوسری سرگرمیوں کے سہارے قائم ہے نیز یہ کمپنی اس کی بعض دوسری سرگرمیوں کو مکمل کرتی ہیں۔ ڈیجیٹل کلوزاہم اس لئے ہے کہ کھلے اوپن سورس انٹیلی جنس کو مسلسل فروغ مل رہا ہے اور اس وقت یہ ایک منافع بخش صنعت ہے اور اس وقت پوری دنیا میں بہت سارے انٹیلی جنس اور سیکورٹی اداروں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوئی ہے۔ معلومات کی فراہمی اور اس کمپنی میں جدید روشوں کی مدد سے انہيں سیکورٹی کے لئے ضروری معلومات میں تبدیل کرنا اس قدر جدید اور تخلیقی انداز سے انجام پایا کہ سنہ 2018ع‍ میں اسرائیل کی مشہور سائبر انٹیلی جنس کمپنی "سیلبرائٹ (34) نے اس کو خرید کر اپنے اندر ضم کردیا۔

کوچاوی سیکورٹی اور خاص طور پر سائبر سیکورٹی کے میدان میدان کا مؤثر کردار ہے۔ اس نے اپنی متعدد کمپنیوں کے تیار کردہ مختلف روشوں، وسائل اور آلات کو بروئے کار لا کر خلیج فارس کی عرب ریاستوں کے انٹیلی جنس اور سیکورٹی اداروں کو جاسوسی کے جدیدترین آلات سے لیس کر دیا ہے۔ یہ آلات اپنے صارفین کو ایسے اقدامات انجام دینے کی صلاحیت دیتے ہیں جنہیں وہ اس سے پہلے ہرگز انجام نہیں دے سکتے تھے۔ آج کے معاشروں میں جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بنا پر عمل میں آنے والی تيز رفتار اور گہری تبدیلیوں کی رو سے بہت ضروری ہے کہ ماتی کوچاوی جیسے افراد کو پہچان لیا جائے۔ ماتی کوچاوی کے ماتحت ڈھانچے میں جو آلات اور اوزار تیار کئے جاتے ہیں، ڈیٹا اور معلومات جمع کرنے کے لئے بروئے کار لائے جاتے ہیں جبکہ ان معلومات کا ایک بڑا حصہ افراد کی خصوصی اور ذآتی حدود سے بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ آلات و اوزار ہر طرح سے جاسوسی کے اوزار سمجھے جاتے ہیں اور کوچاوی کو خلیج فارس میں بھی اسرائیلی جاسوسی آلات کا گاڈ فادر سمجھا جانا چاہئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1. Mati Kochavi: https://everipedia.org/wiki/lang_en/mati-kochavi

2. AGT International: https://www.crunchbase.com/organization/agt-international

3. Mati Kochavi: https://www.crunchbase.com/person/mati-kochavi

4. Vocativ: https://en.wikipedia.org/wiki/Vocativ

5. Deep web: https://en.wikipedia.org/wiki/Deep_web

6. Seeking a Lead on News, Network Turns to Data-Mining Media Group:

https://www.nytimes.com/2014/02/24/business/media/teaming-with-data-mining-security-firms-to-get-a-lead-on-news.html

7. Dark Net (TV series): https://en.wikipedia.org/wiki/Dark_Net_(TV_series)

8. Dark Net: https://www.sho.com/dark-net

9. Maya Kochavi: https://www.linkedin.com/in/maya-kochavi-b1452285/

10. Eva Heyman: https://en.wikipedia.org/wiki/Eva_Heyman

11. What If a Girl in the Holocaust Had Instagram?:

 https://digitaldozen.io/projects/eva-stories/

12. eva.stories: https://www.instagram.com/eva.stories

13. American and Israeli sisters reinventing storytelling for a new generation:

https://www.jpost.com/j-spot/article-696144

14. Coach-AI: https://coach-ai.com/

15. Perfect Play

16. Coach AI Presents: A Virtual Coach In Your Hands:

https://www.tapscape.com/coach-ai-presents-a-virtual-coach-in-your-hands/

17. Perfect Play: A new app that will help you play soccer like a professional:

https://expressdigest.com/perfect-play-a-new-app-that-will-help-you-play-soccer-like-a-professional/

18. Chelsea FC unveils Perfect Play training app developed by Israel’s Coach-AI: https://www.calcalistech.com/ctech/articles/0,7340,L-3844814,00.html

19. 4D Security Solutions: https://4-dsecurity.com/

20. Situation awareness: https://en.wikipedia.org/wiki/Situation_awareness

21. Mati Kochavi:

 https://www.topionetworks.com/people/mati-kochavi-598988fc78e0025e771f54a4

22. Thomas A. Betro: https://en.wikipedia.org/wiki/Thomas_A._Betro

23. John Gill: https://www.frontiersecuritystrategies.com/john-gill/

24. AGT International: https://www.agtinternational.com/

25. AGT International - About Us: https://www.agtinternational.com/about/

26. How Do Israel’s Tech Firms Do Business in Saudi Arabia? Very Quietly:

https://www.bloomberg.com/news/features/2017-02-02/how-do-israel-s-tech-firms-do-business-in-saudi-arabia-very-quietly

27. Logic Industries: https://wikispooks.com/wiki/Logic_Industries

28. Falcon Eye security system to monitor Abu Dhabi with thousands of CCTV cameras: https://www.thenationalnews.com/uae/transport/falcon-eye-security-system-to-monitor-abu-dhabi-with-thousands-of-cctv-cameras-1.199610

29. AGT Border Security Project

30. Advanced Integrated Systems

31. Advanced Technical Solutions… Managing Partner: Ziad Naboulsi: https://ats.ae/

32. Mobily = Etihad Etisalat Company شركة إتحاد إتصالات:

https://en.wikipedia.org/wiki/Mobily

33. Digital Clues: https://digitalclues.com/

34. Cellebrite is an Israeli digital intelligence company: https://en.wikipedia.org/wiki/Cellebrite

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

ڈیویڈ میدان کے جاننے کے لئے اس لنک سے رجوع کیجئے: https://ur.abna24.com/story/1453690