اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
اتوار

21 اپریل 2024

11:27:25 AM
1452923

آپریشن وعدہ صادق؛

ایران اسرائیل پر حملہ کرکے مقاومت کے 7 اکتوبر والے مشن کو مکمل کر لیا۔ عرب تجزیہ نگار

ایک عرب تجزیہ کار نے قطر کے الجزیرہ چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: ایران نے صہیونی ریاست پر حملہ کرکے مقاومت کے سات اکتوبر 2023 والے مشن کی تکمیل کر دی / امریکہ کا دبدبہ ختم ہو چکا ہے اور خطے کے ممالک ارادہ کریں تو اس سے دوری اختیار کر سکتے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق ایک عرب تجزیہ کار نے الجزیرہ چینل سے بات چیت کرتے ہوئے صہیونی ریاست پر اسلامی جمہوریہ ایران کے آپریشن وعدہ صادق کا جائزہ لیا ہے، کہتے ہیں:

ایران نے جب 7 اکتوبر کو مقاومت کے مشن کی تکمیل کے لئے 14 اپریل کو حملہ کیا، اس غرض سے ایک منصوبہ بند انداز سے اسرائیلی نظریۂ تسدید (منہج الردع (Deterrence approach) کو پوری طرح تباہ کر دے؛ تو اسرائیل کو نیٹو (NATO) کی ضرورت پڑی اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے برطانیہ، فرانس، امریکہ اور بعض عرب فریقوں کی ضرورت تھی، تاکہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ڈرون طیاروں اور میزآئلوں کے حملے کا مقابلہ کر سکے، لیکن اس کے باوجود ان میں سے بعض میزائل اور ڈرون اسرائیل میں داخل ہو گئے۔

[اسرائیلی فوج کا ترجمان ڈانیئل] ہگاری فخر سے کہا تھا کہ 99 فیصد ایرانی میزائل اور ڈرون اسرائیلی فضائی حدود سے باہر مار گرائے گئے؛ لیکن وہ اس حقیقت پر بالکل خاموش ہے کہ 90 فیصد ڈرون اور میزآئل اسرائیل نہيں گرائے۔ اور یوں فردی اور جماعتی سلامتی کے تحفظ کے لئے دوسروں سے وابستگی، ایک مستقل حقیقت بن چکی ہے۔ اور اس وقت ہم اسرائیلی جواب کے منتظر ہیں، اور اب اسرائیل [ہچکچاہٹ کی شدت کی وجہ سے] ایران کا جواب دینے کے لئے 1 سے 10 تک اور پھر 1 سے 100 تک گن رہا ہے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہ جواب ایرانی کے جوابی اقدام کے بغیر نہیں رہے گا اور یہ خالی بلبلہ پھر بھی باقی رہے گا۔

ایران کے پاس عراق کے ساتھ شہری جنگ کا آٹھ سالہ تجربہ ہے اور اسرائیل کے سلسلے میں وہ کئی سال تک، مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؛ جبکہ اسرائیل زیادہ عرصے تک اس طرح کی جنگ میں جم نہیں سکے گا اور اسی بنا پر ایک بڑے سفارتی منصوبے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے، اس لئے کہ اس خالی جگہ کو پر کر دے۔ اسرائیل [اپنے مقابل فریق کے ہاتھوں] تسدیدی صلاحیت کھو چکا ہے۔ اور تسدیدی صلاحیت کھونے ـ یا درست لفظوں میں "اسرائیل کے رک جانے" ـ کا ایک پہلو یہ ہے کہ خود امریکہ اس خطے میں اپنی دھاک اور ہیبت کھو چکا ہے۔

آپ بحیرہ قلزم [Red sea) میں [مغربی اتحاد] کا حال دیکھئے، جہاں وہ [امریکہ] بہت سے عرب ممالک کو اس اتحاد میں شامل ہونے کے لئے قائل نہیں کر سکا ہور جس کی وجہ ان عرب ممالک کی عدم رغبت بھی ہو سکتی ہے اور اس اتحاد میں شامل ہونے کے [خطرناک] نتائج سے خوف بھی۔ یہ پہلی بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ [امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی] کئی مہینوں سے لڑ رہے ہیں اور ابھی تک بحیرہ قلزم اور باب المندب میں جہازرانی بحال کرنے [اور انصار اللہ کا راستہ روکنے] سے عاجز ہیں۔

امریکہ دھمکی دیتا ہے اور غل غپاڑا مچاتا ہے، لیکن اس وقت خطے کا کوئی بھی ملک ـ اگر ضروری ارادے کا مالک ہو تو ـ اپنے اور امریکہ کے مابین فاصلے بڑھا سکتا ہے۔ اور جس دنیا کا انتظام ایک بالادست قطب کے ہاتھوں میں تھا، یہ دنیا اب ختم ہو چکی ہے اور یہ دنیا موجودہ منظر سے وداع کر رہی ہے۔ اور ہم یہاں آرزومندانہ تفکر کی بنیاد پر بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ وہ حقائق ہیں جن پر مغربی اور اسرائیلی فکری اور تحقیقی مراکز میں بحث ہو رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

110