اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
اتوار

7 اپریل 2024

10:05:04 PM
1449857

طوفان الاقصی؛

اسرائیل نے ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کرکے بین الاقوامی قانون کی دھجیاں اڑا دیں۔ امریکی سیاسی سائنسدان + ویڈیو

امریکی پروفیسر اور سیاسی سائنسدان جان میرشیمر نے کہا: شام میں ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کرکے بین الاقوامی قانون پر کاری ضرب لگائی ہے، اسرائیل مضطر اور لاچار ہے، وہ ایک سرکش اور بدمعاش کی طرح عمل کرتا ہے اور غزہ میں خود کو اپنی پیدا کردہ رسوائی سے ہر قیمت پر نکالنا چاہتا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، پروفیسر جان میرشیمر (John Mearsheimer) نے امریکی صحافی گلین گرین والڈ (Glenn E. Greenwald) کو انٹرویو دیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

سوال: اسرائیل کا بہانہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ ایرانی سفارت خانے میں دہشت گرد تھے، اور وہ سفارت خانے کو فوجی کاروائیوں کے اڈے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہ اسرائیل کا بہانہ ہوتا ہے ہر اس کام کے لئے جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن آپ کے خیال میں ایران پر اس اسرائیلی حملے سے بین الاقوامی قوانین ـ اور جنگ کے ممکنہ پھیلاؤ ـ پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟

جواب: میں سوچتا ہوں کہ اس حملے نے واضح طور پر نمایاں کر دیا کہ اسرائیل قابو سے خارج ہو چکا ہے، اسی طرح کا واقعہ ہم نے غزہ کے لئے انسانی بنیادوں پر امداد لے جانے والے قافلے پر اسرائیلی حملے میں بھی دیکھا۔ ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیلی اپنے لئے حدود کے قائل نہیں ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ ہر وہ کام کر سکتے ہیں جو ان کا جی چاہتا ہے۔

دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر بمباری قانون پر مبنی عالمی نظام کے منہ پر ایک بڑا گھونسا تھی وہی نظام جس کے امریکہ اتنی اہمیت دیتا ہے۔

میرا مطلب ہے کہ اسرائیلی ہمیشہ ایک سرکش باغی اور بدمعاش کی طرح عمل کرتے ہیں، اور امریکی بھی ہر بار ان کی حمایت کرتے ہیں۔ آپ نے بھی اشارہ کیا۔ یہ صورت حال امریکہ کے لئے اچھی نہیں ہے اور من حیث المجموع بین الاقامی سیاست کے لئے بھی اچھی نہیں ہے۔

مجھے یقین نہیں ہے کہ اس طرح کے حملے کے حوالے سے اسرائیل کے پس پردہ محرکات کیا ہیں، ان کی اصل نیت کا ادراک کرنا، مشکل ہے۔ چنانچہ یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ وہ مضطر، لاچار اور بے بس ہیں، اور غصے کی بنیاد پر اپنا رد عمل دکھا رہے ہیں۔

غزہ میں بھی ان کے لئے حالات اچھے نہیں ہیں، حزب اللہ کے مقابلے میں بھی ان کے حالات مثبت نہیں ہیں اور اسرائیلیوں کو بہت ساری بری خبروں کا سامنا ہے، اور یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے تنازع کی سطح پھیلانے کی کوشش کی ہے اس لئے اپنے آپ کو موجودہ رسوائی سے نکال دیں۔

اور شاید یہ بھی ہو کہ وہ امریکہ کو ایران کے خلاف میدان جنگ میں اتارنا چاہتے ہوں۔ یہ اسرائیلی سیاسی ڈھانچے کی طویل مدتی پالیسی ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی اس طرح استدلال کرے اور کہہ دے کہ ان کا اصل مقصد اور محرک یہی ہے، لیکن جو بھی ہو یہ صورت حال امریکہ کے لئے اچھی نہیں ہے۔ اور یقینا ہم بھی ایرانیوں کے ساتھ جنگ کے خواہاں نہیں ہیں۔

جب ہم نے دو طیارہ بردار [بحری] جہاز اور دوسرے جنگ جہاز بحیرہ روم میں روانہ کئے تو ہمارا مقصد یہ نہیں تھا کہ ہم اسرائیل کی حفاظت کریں۔ میرا مطلب ہے کہ ہمارا کچھ محرک یہ بھی تھا، لیکن ہمارا اصول مقصد یہ تھا کہ جنگ میں مزید شدت آنے کا سد باب کریں، تاکہ ہم خود اس جنگ میں داخل ہونے پر مجبور نہ ہوں۔

ہم بالکل نہیں چاہتے کہ ہمیں مشرق وسطی میں کسی بھی جنگ میں دھکیلا جائے۔ ہم اسی وقت حوثیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں جو [بجائے خود] بہت برا ہے.

تو ہم حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے خواہاں نہیں ہیں اور یقینا ایران کے ساتھ جنگ کے خواہاں نہیں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

110