اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعہ

15 مارچ 2024

7:20:34 PM
1444613

طوفان الاقصی؛

غزہ کی استقامت معجزانہ استقامت / امن مذاکرات امریکی منافقت کا شاخسانہ۔۔۔ سید حسن نصراللہ

سیکریٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا: غزہ کی مقاومت، استقامت اور ثابت قدمی عروج پر ہے اور غزہ کی موجودہ استقامت معجزے سے کم نہيں ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، سیکریٹری جنرل حزب اللہ لبنان، سید حسن نصراللہ نے بدھ (13 مارچ 2024ع‍ کو) ماہ مبارک کی قرآن محفل سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

- دنیا غزہ کے واقعات پر خاموش ہے، مسلمین غزہ کے عوام کے لئے دعا کریں، اور دعا کے لئے فوج اور مسلح قوت کی ضرورت نہیں ہے۔ غزہ کے عوام کی سلامتی اور فتح کے لئے دعا کریں۔

- نوجوانوں کا شہادت کی طرف رجحان قرآن سے جنم لیتا ہے، شہداء اپنے وصیت ناموں میں قرائت قرآن کی دعوت دیتے ہیں۔

- ہماری ذمہ داری ہے کہ صہیونی ریاست کے خلاف لڑیں، فطری امر ہے کہ اس جنگ کے اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں، جانوں کی قربانی دینا پڑتی ہے، ہمارے گھر ویراں ہو جاتے ہیں، یہ مقاومت کے اخراجات ہیں لیکن قرآن نے ہمیں فتح و کامرانی کا وعدہ دیا ہے۔

- غزہ میں مقاومت اور استقامت جاری ہے، موجودہ استقامت معجزے سے شباہت رکھتی ہے۔ اسرائیل اپنی تمام تر فوجی قوت اور وسائل کے باوجود چھ مہینوں سے غزہ میں الجھا ہؤا ہے۔

۔ دنیا انگشت بدندان ہے کہ غزہ کے عوام کس طرح جی رہے ہیں، یہ قرآنی مکتب ہے، یہ درس ہے پوری انسانیت کے لئے۔

- ہمیں غزہ کے عوام کی استقامت کے ساتھ ساتھ، طوفان الاقصی آپریشن کے ان ثمرات کی طرف اشارہ کرنا پڑے گا جو غاصب صہیونی ریاست کے مستقبل کو خطرے میں ڈال کر ہاتھ آئے ہیں۔

- میں صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو سے کہتا ہے کہ اگر تم رفح میں داخل بھی ہو جاؤ، اس جنگ کو ہار چکے ہو، تم نے ابتدائے جنگ سے جتنے بھی مقاصد متعین کئے ہیں ان سب میں ناکام ہو چکے ہو، اور تم پھر بھی شکست کھاؤ گے۔

- امریکی اور یورپی چیخ چیخ کر غاصب ریاست سے کہہ رہے ہیں کہ تم حماس اور جہاد اسلامی کو شکست نہیں دے سکتے ہو، وہ اسرائیل سے کہہ رہے ہیں کہ پانچ مہینے گذر گئے ہیں، تم وہاں کیا کر رہے ہو؟ تم نے کیا حاصل کیا ہے اب تک؟

- اگر غزہ کے عوام سر تسلیم خم کرنے والے ہوتے، تو ابتداء ہی میں ہتھیار ڈالتے اور پیچھے ہٹتے، لیکن صہیونیوں کے تمام غیر انسانی جرائم اور بعض عربوں کی خیانت و غداری کے باوجود، جمے رہے ہیں۔

- مقاومت کی کامیابی کی ایک نشانی یہ ہے کہ صہیونی اپنے متعین کردہ پہلے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے اور حماس کو تباہ کرنے کا نعرہ لگانے کے باوجود، چھ مہینے بعد بھی مذاکرات کے مختلف ادوار منعقد کرنے پر مجبور ہیں، اور سوال یہ ہے کہ وہ کس کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں؟ حماس کے ساتھ۔۔ حماس فلسطینی مقاومت اور پورے محور مقاومت کی ترجمانی کرتے ہوئے صہیونیوں کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کر رہی ہے۔ آج حماس طاقت اور غلبے کی پوزیشن سے مذاکرات کر رہی ہے اور صہیونیوں کے لئے شرائط کا تعین کر رہی ہے۔

- من مذاکرات بجائے خود امریکہ کی منافقت کا شاخسانہ ہیں، وہ آتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ "45 دن تک جنگ بندی نافذ کرتے ہیں"، لیکن یہ حماس ہے جو مسترد کرتی ہے۔ کیونکہ اس امریکی تجویز کا مقصد اسرائیل کے بھونڈے چہرے کی دہلائی کی علامت ہے۔

- آج تمام فلسطینی تنظیموں کا اتفاق ہے کہ جنگ بندی کو دائمی ہونا چاہئے اور جنگ کو مستقل طور پر بند ہونا چاہئے۔ کیونکہ وہ اس سے پہلے اس تجربے سے گذرے ہیں کہ صہیونیوں نے عارضی جنگ بندی ہوئی اور بعد کے مراحل میں غاصب صہیونیوں نے پہلے سے کہیں زیادہ بہیمانہ جرائم کا ارتکاب کیا اور پہلے سے زیادہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ اگر اسرائیل انتقام لینا چاہتا ہے تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ 32000 فلسطینیوں کا قتل عام کرکے بھی تم نے ہنوز انتقام نہیں لیا ہے؟

- مذاکرات میں مقاومت کی اہم ترین شرط یہ ہے کہ اسرائیل غزہ سے پسپا ہو جائے اور فلسطینی عوام شمالی غزہ میں اپنے گھروں میں واپس چلے جائیں؛ لیکن نیتن یاہو کہتا ہے کہ یہ سب مرحلہ وار ہونا چاہئے، کیونکہ نیتن یاہ غزہ کی عوامی شکست و ریخت کا خواہاں ہے۔

- غزہ میں مقاومت اسلامی کہ موقف جنگ کا مکمل خاتمہ ہے جو ایک اخلاقی، انسانی اور صحیح موقف ہے. وہ سستانے کے لئے عارضی جنگ بندی چاہتے ہیں جو نادرست ہے۔ جنگ کو مکمل طور پر بند ہونا چاہئے۔

- ہمیں امریکی منافقت پر تاکید کے لئے اس کھیل کو دیکھنا چاہتے ہیں جو انہوں نے کھیلا ہے۔ انھوں نے غزہ پر امداد سامان گرایا! کون یقین کر سکتا ہے کہ بائیڈن فلسطین کی مدد کرنا چاہتے ہیں!؟ بائیڈن وہ ہیں جو صرف قلم یا زبان کی ایک جنبش سے غزہ پر مسلط کردہ صہیونی جنگ بند کر سکتے ہیں؛ سوال یہ ہے کہ کون ہے جو اسرائیل کے لئے اسلحہ بھیج رہا ہے؟ وہ کون ہے جس نے ویٹو کا اختیار استعمال کرکے غزہ کی جنگ بند کرنے کا راستہ روک لیا؟

- یہ بائیڈن اس قدر احمق و نادان ہیں کہ سمجھ رہے ہیں کہ غزہ پر تھوڑا سا امدادی سامان گرا کر دنیا اور خطے کے عوام کو راضی کر سکیں گے۔

- یمن اپنی مزاحمتی اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے اور امریکہ اور اس کے پیچھے پیچھے چلنے والے ساتھی ان کی مزاحمت روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئے ہیں۔ یمن اسرائیلی جہازوں کو بدستور نشانہ بنا رہا ہے اور اس کی معیشت پر ضربیں لگا رہا ہے۔

- عراق بدستور مقبوضہ سرزمین میں صہیونی مراکز پر کامیاب حملے کر رہا ہے۔

- صہیونی دشمن کے لبنان کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے اور اس دباؤ میں حالیہ چند ہفتوں کے دوران زبردست اضافہ ہؤا ہے۔

- غاصب ریاست کے شمالی محاذ کی صورت حال بالکل واضح ہے کہ اسرائیلی ذرائع نے اپنے نقصانات پر شدید سینسر کی پالیسی لاگو کر لی ہے۔ وہ صرف اپنے غیر فوجی جانی نقصانات کا اعتراف کرتے ہیں لیکن گذشتہ 5 مہینوں میں اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کی طرف ایک مرتبہ بھی کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔

- صہیونی حکام کہتے ہیں کہ ان کے فوجی غزہ کے محاذ پر اور شمالی محاذ پر لڑتے ہيں اور بھاری اخراجات اٹھاتے ہیں۔ وہ صرف غزہ ہی کے بارے میں ہی بات نہیں کرتے۔

- آج اسرائیلی فوج ایک تھکی ہاری فوج ہے جو تمام محاذوں میں شکست و ریخت کا شکار ہوئی ہے۔ اسرائیلی فوج کی ہلاک شدگان اور زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سب کا اتفاق ہے کہ اسرائیل حقائق کو سینسر کر رہا ہے اور صہیونی فوج کے جانی نقصانات اعلانیہ اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہے۔

- صہیونی وزیر جنگ کہتا ہے کہ "ہمیں نئی نفری بھرتی کرنے کی ضرورت ہے"، یہ نام نہاد بڑی اور مشہور اسرائیلی فوج پانچ مہینوں کی جنگ کے بعد سنجیدہ مسائل اور افسروں اور جوانوں کی قلت سے دوچار ہوئی ہے اور اب تو وہ حریدی یہودیوں کو بھی فوج میں لانا چاہتی ہے، جو صہیونی قانون کے مطابق فوجی ذمہ داریوں سے معاف ہیں۔ صہیونی حکام کہتے ہیں کہ حریدیوں کو فوج میں لایا جائے؛ اور بات یہاں تک پہنچی کہ حریدی صہیونیوں کے حاخام (ربی) نے مجبور ہوکر کہا: ہمیں فوج میں جانے پر مجبور کرو گے تو ہم اسرائیل [یعنی مقبوضہ فلسطین] چھوڑ کر جائیں گے۔

- ہم اس یہودی ـ حریدی حاخام کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے اسرائیل کے مستقبل کو عیاں کرکے دنیا والوں کو دکھایا: یہ بالکل درست فیصلہ ہے، اس میں شک نہیں ہے کہ تمہیں مستقبل قریب میں فلسطین چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیونی فوج کو شدید قلتوں کا سامنا ہے اور اب اس کو حریدی یہودی نفری کی بھی ضرورت ہے۔

- آج آپ اسرائیلی ذرائع ابلاغ سے سنتے ہیں کہ تین یونٹیں خان یونس میں لڑ رہی ہیں، جو تھکی ہوئی ہیں، لیکن نیتن یاہو کہتا ہے کہ "ہمیں رفح میں داخل ہونا چاہئے"، لیکن ان کے متعدد اہلکار کہتے ہیں کہ "ہمیں رفح کی طرف نہیں پلٹنا چاہئے"۔

- ہم صرف پانچ مہینے لڑے ہیں، ہم نے گذشتہ پانچ مہینوں میں صہیونی ریاست کو ایک لاکھ نفری شمالی محاذ پر تعینات کرنے پر مجبور کیا، اور وہ حتیٰ ایک لبنانی مجاہد کے شمالی فلسطین میں داخلے سے خوفزدہ ہیں؛ اگر ہم اپنے جنوبی محاذ کو غیر فعال کرتے تو صہیونیوں کی پولیس ہی سرحدوں کی حفاظت کے لئے کافی تھی لیکن ہم نے انہیں جنگ میں الجھایا اور انہیں بڑی فوج شمالی فلسطین میں تعینات کرنا پڑی۔

- یہ اسرائیل کی فوج ہے جو ضعیف اور بے بس ہو چکی ہے، سابق اسرائیلی وزیر اعظم نے لبنان کے ساتھ جنگ کے بارے میں کہا: اگر ہم لبنان کے خلاف جنگ شروع کرنا چاہیں تو ہمارے پاس کافی قوت اور نفری نہیں ہے۔ لیبرمین نے کیا ہے؟ بولا: "ہم شمالی محاذ میں بالکل ہار گئے ہیں"۔

- ان کے اعلیٰ حکام کیا کہتے ہیں؟ کہتے ہیں کہ اسرائیل، فلسطین کے اندر ایک سیکورٹی پٹی (Security belt) قائم کرنے پر مجبور ہو گیا ہے؛ کہتے ہیں کہ حزب اللہ نے فلسطین میں ایک قدم رکھے بغیر ایک لاکھ صہیونیوں کو بے گھر کر دیا ہے۔

- کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے نقصانات اٹھائے ہیں؛ جی ہاں! ایسا ہی ہے، لیکن ہمارے نقصانات دشمن کے نقصانات کے ساتھ قابل قیاس نہیں ہیں۔ جنوبی لبنان میں اہم صنعتین نہیں تھیں، جبکہ مقبوضہ فلسطین کے شمال میں صہیونیوں کی معیشت کا ایک اہم حصہ موجود تھا، جنہیں ہم نے بند کرا دیا۔

- جو لوگ لبنانی محاذ پر مقاومت کی کارکردگی کی قدر و قیمت اور کارکردگی کو پرکھنا چاہتے ہیں تو یہ ہمارا جواب تھا دشمن کو، جو لبنان کے ساتھ جنگ شروع کرنا چاہتا تھا۔۔ دشمن لبنان کے ساتھ جنگ سے خائف ہیں۔

جنگ کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ / اسرائیل تھک گیا ہے

واحد منطقی آپشن یہ ہے کہ اس جنگ میں کامیاب ہو جائیں۔

- میں آپ سے کہتا ہو کہ اس کے لئے وقت کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کا یہودی معاشرے میں تھکاوٹ کے اثرات نمایاں ہو چکے ہیں، صہیونی فوج تھکی ماندہ ہے، غاصب ریاست کی معیشت تھک چکی ہے، غاصب ریاست کی اندرونی صورت حال درماندگی اور تھکاوٹ کا شکار ہے۔ ہمیں صبر کرنا چاہئے، تاکہ دشمن پر دباؤ اپنی منطقی حد تک پہنچ جائے، اور جنگ اختتام پذیر ہو۔

- خدائے متعال اپنے بندوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑتا، اور وہ اپنے مؤمن اور صابر بندوں کو مشکلات سے نکلے کے لئے راستے فراہم فرماتا ہے۔ خدائے متعال وہ جو ان دروازوں کو کھول دیتا ہے۔ سید حسن نصرالله با بیان اینکه خداوند متعال بندگانش را ترک نمی‌کند، افزود: خداوند برای بندگان مومن و صابرش راه خروجی قرار خواهد داد. خداوند متعال کسی است که این درها را باز می‌کند. وظیفه ما این است تا آن زمان از موضع پیروزی صبر کنیم. از کسانی که از فلسطین حمایت می‌کنند متشکریم. از کسانی که در آمریکا و سایر کشورها تظاهرات می‌کنند سپاسگزارم.

- بائیڈن اگلے صدارتی انتخابات میں شکست سے زیادہ، کسی بھی دوسری چیز سے نہيں ڈرتا۔ اگر امریکہ کے اندر بائیڈن پر جاری یہ دباؤ جاری رہے تو اس کے اثرات بہت سنگین ہونگے۔ براعظم امریکہ کے جنوبی ممالک ـ بشمول کیوبا، وینزویلا، اور برازیل ـ کا دباؤ بھی مؤثر ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔

110