اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ڈان نیوز
جمعہ

8 مارچ 2024

1:55:26 PM
1442964

خطے کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں صہیونیت کے زیر زمین کو وسعت اور زمینوں کو تباہ کرنے کی بھوک (اور حرص) کا اندازہ ہوگا۔

غزہ سے سامنے آنے والے پُرتشدد مناظر دل دہلا دینے والے ہیں۔ بالخصوص کفن میں لپٹی ننھی لاشوں اور بچوں کی تصاویر نے دنیا کو ہلا دیا ہے لیکن اگر کسی کا دل نہیں دہلا تو وہ مغربی ممالک میں صاحبِ اقتدار اسرائیل کے حامی اور امتِ مسلمہ کے بااثر لوگ ہیں۔

غزہ میں اسرائیل کے تازہ ترین حملے نے جہاں فلسطینی عوام کی بدحالی اور مظلومیت کو ظاہر کیا وہیں ان کے مقصد کی صداقت کا ثبوت بھی پیش کیا۔ ساتھ ہی ان حملوں نے اسرائیلی ریاست کی جانب سے نہتی اور کمزور آبادی کے خلاف ظلم کو بھی بے نقاب کیا۔

بہت سے لوگ اس بارے میں تبصرہ کرچکے ہیں کہ یہ تنازع اور فلسطینی شہریوں کے درپیش مشکلات کا آغاز 7 اکتوبر 2023ع‍ کو حماس کے اسرائیل پر حملوں کے ساتھ شروع نہیں ہوا۔ ظلم، تشدد اور تذلیل کی یہ کہانی سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔

یہ سمجھنے کے لیے کہ آخر قضیہ فلسطین کیا ہے، ہمیں 20ویں صدی میں اس خطے کی تاریخ کا جائزہ لینا ہوگا کیونکہ یوں ہمیں وہ ناانصافی سمجھ آئی گی جس کا گزشتہ 100 سالوں سے فلسطینی شکار ہیں۔ اس طرح ہمیں صہیونیوں کی جانب سے اپنی زیر قبضہ زمینوں کو وسعت دینے اور تباہی پھیلانے کی بھوک کا بھی اندازہ ہوگا اور اس بات کا شعور بھی پیدا ہوگا کہ آخر بےقصور شہریوں کے خلاف اسرائیل کے ناقابلِ معافی اقدامات کو مغربی ممالک کی حمایت کیوں حاصل ہے۔

صہیونیت اسرائیلی ریاست کے قیام کا نظریہ [اور دعوی] ہے، جس کے مطابق یہودیوں سے اس زمین کا وعدہ کیا گیا تھا جس کا انہوں نے 2 ہزار سال بعد یعنی 1948ء میں دعویٰ کیا (فلسطینیوں کو بےدخل کرنے کے بعد)۔ تاہم اس تحریر کا موضوع یہ نہیں کہ ہم نظریاتی اختلافات کا ذکر کریں کیونکہ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے بلکہ ہم اس تحریر میں اس خطے کی سو سالہ تاریخی اور جغرافیائی صورتحال کا جائزہ لیں گے۔

اس بنیاد پر کیا جانے والا غیر جانبدارانہ تجزیہ صرف اس نظریے کو تقویت دے گا کہ فلسطین کی مقامی آبادی کو استعماری سازشوں اور صہیونی درندگی کی وجہ سے ان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا تھا اور یہ کہ یورپ کے یہودیوں نے فلسطین میں ایک ایسی سرزمین پر اپنی ریاست قائم کی جو ان کی اپنی نہیں تھی [اور خالی بھی نہیں تھی بلکہ اس میں فلسطینی قوم آباد تھی]۔

اس کے علاوہ شواہد ان حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایک صدی قبل برطانوی راج، اس کے وارثوں اور صہیونیوں کے درمیان ایک گہرا تعلق تھا جوکہ ان مغربی ریاستوں کی بےحسی کو واضح کرتا ہے۔ ان میں خاص طور پر امریکا اور یورپی ممالک شامل ہیں جوکہ آج بھی اسرائیل کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں جس نے 6 ہفتوں میں ساڑھے 5 ہزار فلسطینی بچوں کو بےرحمی سے قتل کر دیا ہے۔ [اور آج 8 مارچ 2024ع‍ کو غزہ کے شہداء کی تعداد 31000 ہے، جن میں ستر فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں اور 10 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہری ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جنہیں وہاں سے نکالنا، مسلسل بمباریوں کی وجہ سے، ممکن نہیں ہے]۔

تصادم کا آغاز

شاید پہلی جنگِ عظیم اور سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ قضیہ فلسطین کا نقطہ آغاز تھا۔ عثمانی سلطنت جوکہ ایشیا، افریقہ اور یورپ میں ایک مضبوط قوت تھی، پہلی جنگِ عظیم کے بعد بدحال ہوچکی تھی اور اسے ’یورپ کا مردِ بیمار‘ کہا جاتا تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد یورپ کی نوآبادیاتی قوتوں نے سلطنت عثمانیہ کی باقیات کو آپس میں بانٹ لیا۔

تقسیم اور حکمرانی یعنی ڈیوائڈ اینڈ رول کے اصول پر عمل درآمد کرتے ہوئے برطانیہ نے شریفِ مکہ اور حجاز کے حکمران حسین بن علی (جن کی اولاد آج اردن پر حکمرانی کررہی ہے) پر زور دیا کہ وہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف کھڑے ہوں۔ اس طرح شروع ہونے والی عرب بغاوت عرب سرزمین پر سلطنتِ عثمانیہ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔ یہی فلسطین پر برطانوی قبضے اور 3 دہائیوں بعد اسرائیل کے قیام کا باعث بنا۔

ایک جانب جہاں برطانیہ عربوں سے وعدہ کررہا تھا کہ انہیں حکمرانی کے لیے زمین دے گا وہیں دوسری جانب وہ یورپی یہودیوں کو بھی یقین دلا رہا تھا کہ فلسطین ان کا ہے، اس حقیقت کے برعکس کہ فلسطینی زمین کے حوالے سے برطانیہ کو کوئی قانونی حق حاصل نہیں تھا کہ وہ اسے کسی کو دے کیونکہ یہ زمین اس کی تھی ہی نہیں۔

2 نومبر 1917ء کے بدنامِ زمانہ اعلانِ بالفور میں برطانوی سیکریٹری خارجہ اور سابق وزیراعظم آرتھر جیمز بالفور نے اس وقت کے ممتاز برطانوی صہیہونی لارڈ والٹر روتھسچلڈ کو بتایا کہ ’برطانوی حکومت فلسطین میں یہودیوں کے لیے ریاست کے قیام کے حق میں مثبت رائے رکھتی ہے اور وہ اس مقصد کے حصول کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کی تمام کوششیں بروئے کار لائے گی‘۔ انہوں نے یہ نقطہ بھی شامل کیا کہ اس سے فلسطین میں مقیم غیریہودی آبادیوں کے حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔

ان چند سطروں نے تاریخ بدل دی اور یہاں سے فلسطینیوں کے لیے اس بھیانک خواب کی ابتدا ہوئی جسے غزہ کے باسی آج تک جی رہے ہیں۔

بیت المقدس پر قبضہ

اعلانِ بالفور کے ایک ماہ بعد یروشلم [بیت المقدس] بھی سلطنتِ عثمانیہ کے ہاتھوں سے نکل گیا اور برطانوی قبضے میں آگیا۔ کہا جاتا ہے کہ یروشلم میں داخل ہوتے ہوئے فاتح برطانوی جنرل ایڈمنڈ ایلنبے نے کہا تھا کہ ’صلیبی جنگیں اب پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی ہیں‘۔

اسی طرح کا ایک اور دلچسپ واقعہ 1920ء میں پیش آیا جب دمشق پر قبضہ کرنے کے بعد فرانسیسی جنرل ہینری گورانڈ صلاح الدین ایوبی کی قبر پر گیا اور کہا کہ ’صلاح الدین ہم واپس آچکے ہیں‘۔

عثمانی سلطنت کے ماتحت فلسطین کے زوال کے بعد ایک ’مینڈیٹری فلسطین‘ بنا جوکہ لیگ آف نیشنز کے تحت برطانیہ کے قبضے میں تھا۔اسی دوران یورپ میں فاشزم میں اضافے کے ساتھ ہی یورپ سے یہودیوں کی فلسطین ہجرت میں اضافہ ہوا۔

احد ہعام جوکہ خود ایک صہیونی تھا، نے اپنے ہم وطنوں کے بارے میں کہا ’یہ لوگ عربوں سے دشمنی اور ظلم کا برتاؤ کرتے ہیں، انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم اور بلاوجہ پریشان کرتے ہیں پھر ان اعمال پر فخر بھی کرتے ہیں‘۔ حالات مزید خراب ہوئے اور صہیونیوں پھر بعدازاں اسرائیلیوں نے عربوں کے ساتھ مزید برا کیا اور غزہ کی تباہی نے یہ ثابت بھی کردیا ہے۔

سابق برطانوی وزیر اعظم آرتھر بالفور (درمیان) اور اسرائیل کے پہلے صدر کھائیم ویزمین (دائیں سے تیسرے) 1925ء میں تل ابیب کا دورہ کرتے ہوئے—تصویر: اے ایف پی

برطانوی راج کا غلط فیصلہ

جہاں یورپ کے اشرافیہ نے یورپی ملکوں کو یہودیوں سے پاک کرنے کے لیے انہیں فلسطین ہجرت کرنے کی ترغیب دی وہیں صہیونیوں نے فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کے بدلے میں برطانیہ کو اپنی خدمات کی پیشکش کی۔

مثال کے طور پر کھائیم ویزمین جو بعدازاں اسرائیل کے پہلے صدر بنے، نے 1914ء میں کہا تھا کہ ’۔۔۔ فلسطین کو برطانوی اثر و رسوخ کے دائرے میں آنا چاہیے اور اگر برطانیہ وہاں یہودی آبادکاری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو 20 سے 30 سالوں میں وہاں 10 لاکھ یا اس سے زائد یہودی بس جائیں گے جوکہ سوئز کینال کی بہتر حفاظت کریں گے‘۔

درحقیقت کھائیم ویزمین کے الفاظ پیش گوئی تھے کیونکہ ان کے سیاسی وارثوں نے 1956ء کی سوئز جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر فلسطین میں یہودیوں کی ہجرت میں واضح اضافہ ہوا اور اس کے ساتھ ہی عربوں اور یہودیوں کے درمیان تناؤ بھی بڑھا۔ جنگِ عظیم اول اور دوم کے بعد برطانوی راج کمزور پڑ چکا تھا تو اس نے فلسطین کے مسئلے سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا اور 1948ء میں اپنے قبضے کو ختم کردیا جس کے بعد اس معاملے کی بال اقوامِ متحدہ کے کورٹ میں چلی گئی جس نے فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔

عربوں نے تقسیم کے اس منصوبے کو مسترد کردیا جبکہ یہودیوں نے آزادی کا اعلان کیا، جس کے بعد 1948ء کی عرب-اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا۔

اسرائیلی ریاست کی وسعت

’گریٹر اسرائیل‘ کو اکثر سازشی نظریات رکھنے والوں اور یوٹیوب کی پیداوار کہہ کر مسترد کردیا جاتا ہے۔ پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ اپنی زمین کو وسعت دینا اور دیگر لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا، سیاسی صہیونیت کے ڈی این اے میں موجود ہے۔

سیاسی صہیونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل نے اپنی ڈائریز میں لکھا تھا کہ اسرائیل کی سرحدیں ’مصر کے دریا سے فرات تک‘ پھیلنی چاہئیں جبکہ دیگر صہیونی مفکرین نے لبنان، شام اور اردن کے کچھ حصوں کو بھی ریاست میں شامل کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ یقینی طور پر جدید اسرائیل میں صہیونیت کے وارث اپنے بزرگوں کے وژن پر عمل کررہے ہیں پھر خواہ وہ مقبوضہ علاقوں میں بستیوں کے قیام کے ذریعے ہو جسے عالمی برادری غیر قانونی سمجھتی ہے یا پھر شام (گولان کی پہاڑیوں) اور لبنان (شیبا فارمز) کے علاقوں پر قبضے سے۔

اسرائیل کے قیام کے بعد زمینوں پر قبضے کی وجہ سے بہت سے عرب-اسرائیل تنازع پھوٹ پڑے۔ مثال کے طور پر 1948ء کے نکبہ (لفظی معنی ’آفت‘ جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں فلسطینی اپنے گھروں سے بےدخل کیے گئے) کے نتیجے میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ صہیونی ریاست نے فلسطین کی 80 فیصد زمین پر قبضہ کرلیا جسے اقوامِ متحدہ کے منصوبے کے مطابق دو حصوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔

1956ء میں جمال عبدالناصر نے سوئز کنال کو قومیانے کی کوشش کی تو برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے مل کر مصر پر حملہ کردیا۔ اس کے تقریباً ایک دہائی بعد 1967ء کی جنگ میں اسرائیل غزہ، مغربی کنارے، یروشلم اور مصر کے سینائی اور گولان پر قابض ہوگیا۔ 1982ء میں اس نے لبنان پر حملہ کیا اور 2000ء میں لبنان کے عسکری گروپ حزب اللہ نے اس قبضے کا خاتمہ کیا اور جنوبی لبنان سے اسرائیلیوں کا انخلا ہوا۔

مندرجہ بالا حقائق کی رو سے دیکھا جائے تو اسرائیل کو لوگوں کی زمینیں ہتھیانے کی ایک عجیب بھوک ہے اور اس میں اکثر اسے اپنے مغربی دوستوں کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔ 1956ء میں سوئز جنگ تک برطانیہ باضابطہ طور پر اسرائیل کا سرپرست تھا جبکہ خفیہ ایٹمی پروگرام میں فرانس نے اسرائیل کی مدد کی۔

لیکن سوئز جنگ کے بعد امریکا جوکہ پرانی دنیا کی یورپی سلطنتوں کا وارث اور نئی دنیا کا مالک تھا، وہ اسرائیل کا بڑا غیرملکی حمایتی بن کر سامنے آیا۔ اس نے اسرائیل کو اربوں ڈالرز کی امداد دی اور سفارتی سطح پر اسرائیل کا دفاع بھی کیا۔

مغربی ممالک کی پشت پناہی

لیکن صورتحال ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ امریکی صدر آئزن ہاور کی انتظامیہ نے اقوام متحدہ میں مصر پر سہ فریقی حملے کے حوالے سے مذمتی قرارداد پیش کی تھی۔ لیکن شاید سرد جنگ اور امریکا میں اسرائیلی لابی کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی وجہ سے 1967ء کی جنگ کے بعد امریکا کی جانب سے اسرائیل کا دفاع مضبوط ہوگیا۔ درحقیقت 1973ء کی جنگ میں امریکا نے اپنے فوجی اور ہتھیار اسرائیل بھیجے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ اسرائیلی، عربوں کے حملوں سے محفوظ رہیں۔

اس مضبوط دفاع میں اس وقت بھی کمی نہ آئی جب اسرائیل نے 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد 13 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا سفاکانہ قتل کیا۔ حماس کے حملوں کے بعد یورپی اور امریکی رہنماؤں نے اسرائیل کے لیے صف بندی کی، بن یامین نیتن یاہو کو گلے لگایا اور اسرائیلیوں کو یقین دہانی کروائی کہ ’ہم‘ ’ان‘ کے خلاف ’آپ‘ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

یہ تماشا اس وقت بھی جاری رہا جب واشگنٹن، لندن اور پیرس میں ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر نہتے شہریوں کے خلاف خونریزی روکنے کا مطالبہ کیا۔ مغربی ممالک کی اسرائیل کے لیے غیرمشروط حمایت اور فلسطینیوں کے ساتھ حقارت بھرے سلوک نے ان کے دوہرے رویے کو واضح طور پر ظاہر کیا اور اس ردعمل نے جیسے 100 سال پرانی گتھی سلجھا دی ہے۔

اسرائیل کا قیام برطانوی راج عمل میں آیا۔ برطانوی سلطنت کے پیشروؤں نے اس کی حمایت کی اور اس کا دفاع کیا۔ یقینی طور پر یہ حمایت دوطرفہ تھی کیونکہ اسرائیل نے مشرقِ وسطیٰ میں برطانوی راج کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت دیا اور ان کے لیے خدمات سرانجام دیں۔ یہ امید کرنا ہماری بھول ہوگی کہ موجودہ گشیدگی کم ہونے کے بعد مغربی ممالک مسئلہ فلسطین کے لیے کوئی منصفانہ اور دیرپا حل پیش کریں گے۔

صرف عالمی جنوب کے ممالک ہی ایک ایسا مساوی حل پیش کرسکتے ہیں جوکہ راملہ میں بیٹھی فلسطینی قیادت ہی نہیں بلکہ سب کے لیے قابلِ قبول ہو کیونکہ یہ ممالک خود برطانوی راج کے متاثرین ہیں۔ غزہ میں قتلِ عام سے ثابت ہوچکا کہ مغربی ممالک اسرائیل کی حمایت ترک نہیں کریں گے۔

تاریخ کے اوراق دیکھیں تو 1968ء میں کیا گیا برطانوی مورخ آرنلڈ جے ٹوئنبی کا قضیہ فلسطین کا تجزیہ اس کے ممکنہ حل کی جانب اشارا کرتا ہے:

’اگر فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کے ماتحت رہتا یا وہ 1918ء میں ایک آزاد ملک ہوتا تو یہودی مہاجرین اتنی بڑی تعداد میں فلسطین کبھی نہ آتے کہ اس سرزمین پر یہودیوں کی تعداد یہاں مقیم عرب فلسطینیوں سے زیادہ ہوجاتی‘۔

اگرچہ تاریخ کو بدلا نہیں جاسکتا لیکن اگر ہم چاہیں تو اس سے سیکھ ضرور سکتے ہیں۔ غیرمنصفانہ طریقے سے حالات کو معمول پر لانے سے فلسطینیوں کے مصائب ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی عرب مردوں، خواتین اور بچوں کو بےرحمی سے نشانہ بنا کر ان میں آزادی اور باوقار زندگی گزارنے کی امنگ کو کم کیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

بقلم قاسم اے معینی ۔۔۔ ڈان نیوز

۔۔۔۔۔۔

110