اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

28 فروری 2024

10:41:12 PM
1441110

امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) تشریف کیوں نہیں لاتے؟ (3)

امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) اپنی مشہور توقیع [مکتوب] میں شیخ مفید (رحمہ اللہ) کو لکھتے ہیں: "اگر ہمارے شیعہ ـ جنہیں اللہ تعالیٰ طاعت و عبادت کی توفیق عطا فرمائے ـ ہمارے ساتھ کئے ہوئے عہد کی پابندی پر متفق اور ہم دل ہوتے تو ان سے ہمارے دیدار کی برکتیں مؤخر نہ ہوتیں، اور ہماری ملاقات کی سعادت بہت جلد انہیں نصیب ہوتی، چنانچہ کوئی چیز بھی ہمیں ان سے نہاں نہیں رکھتی سوا ان چیزوں کے جو ان سے ہم تک پہنچتی ہیں"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

احادیث اہل بیت (علیہم السلام) کی رو سے، امام عصر (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے ظہور پرنور اور آنجنابؑ کی عالمی حکومت عدل کے قیام کے لئے چار شرطیں متعین ہیں:

1۔ عالمی سطح کا رہبر و راہنما

2۔ پیشرفت اور حکومت کے لئے پروگرام، منصوبہ بندی اور حکمت عملی

3۔ اعوان و انصار

4۔ قبولیت (Acceptance) (1)

 1۔ عالمی سطح کا رہبر و راہنما

عظیم ترین مہدوی انقلاب کے رہبر و پیشوا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی نسل کے چشم و چراغ، امامت و ولایت کے نورانی سلسلے کی بارہویں کڑی ہیں، جو دامن ولایت کے تربیت یافتہ ہیں، اور تمام انبیاء و اوصیاء کے شرائع اور علم و دانش کے وارث، قرآن کریم کا علم راسخ رکھتے ہیں، وہی جو زمین کو قسط و عدل سے مالامال کریں گے، جس طرح کہ یہ ظلم و ناانصافی سے مالامال ہو چکی ہے۔ (2)

2۔ پیشرفت اور حکومت کے لئے پروگرام، منصوبہ بندی اور حکمت عملی

احادیث کے مطابق امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کا منصوبہ حق و صدق کی طرف دعوت کے بعد، شرک و کفر اور فساد و بدعنوان کی مکمل بیخ کنی کے لئے مسلحانہ تحریک ہے۔ دوسرے الفاظ میں، حضرت مہدی (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) ظہور کے کے ابتدائی مرحلے میں لوگوں کو دین حق اور اپنی امامت کی دعوت دیں گے  اور شرک و کفر کی طرف پلٹنے والے مخالفین کا مقابلہ کریں گے۔ یہ قرآن سے ماخوذہ روش ہے۔ دوسرے مرحلے میں بھی امامؑ کا پروگرام کتاب اللہ اور سنت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر عمل کرنے، پر استوار ہے۔ انسانوں کے خالق اور پروردگار کی طرف کا قانون، دنیاوی اور اخروی سعادت کا ضامن ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"وَسُنَّتُهُ سُنَّتِي، يُقِيمُ النَّاسَ عَلَى مِلَّتِي وَشَرِيعَتِي وَيَدْعُوهُمْ إِلَى كِتَابِ رَبِّي عزَّ وَجَلَّ، مَنْ أَطَاعَهُ فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ عَصَاهُ فَقَدْ عَصَانِي؛

ان کی سیرت و سنت، میری سنت ہے۔ وہ لوگوں کو میرے دین و مکتب اور میری شریعت پر استوار کریں گے اور انہیں میرے پروردگار عزّ و جلّ پر استوار کرتے ہيں، جس نے ان کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی ہے اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ہے"۔ (3)

3۔ اعوان و انصار

عالمی حکومت عدل کے قیام کے لئے ماحول سازی اور شرائط میں سے ایک لائق اورصالح اعوان و انصار کی موجودگی ہے۔ عالمی حکومت عدل کے لئے امام عصر (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے اصحاب اور اعوان و انصار کو کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے اس قدر ممتاز ہونا چاہئے کہ امامؑ کی عظیم دنیا میں حکومت داری کا عہدہ سنبھال سکیں۔ کمیت اور تعداد کے لحاظ سے، بعض احادیث کے مطابق، امام عصر (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے [ابتدائی] اصحاب کی تعداد 313 ـ یعنی غزوہ بدر میں مسلمان مجاہدین کی تعداد کے عین مطابق ـ ہے۔ یہ 313 افراد امام مہدی (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے اصحاب کے مرکزے (Nucleus) اور مرکزی حلقے کو تشکیل دیتے ہیں۔ احادیث میں امامؑ کے اصحاب کے متعدد حلقوں کا طرف اشارے ہوئے ہیں جو آنجنابؑ کے گرد جمع ہونگے۔ (4)

مفضل بن عمر (رحمہ اللہ) سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: "جب امام قائم (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کو خداوند متعال کی جانب سے ظہور کا اذن ائے گا تو آپؑ اللہ کو اس کے عبرانی نام سے پکاریں گے، اور اس کے بعد آپ کے لئے 313 صحابی چن لئے جائیں گے جو خزاں کے منتشر بادلوں کی مانند ہیں۔  وہ امامؑ کی سپاہ کے کمانڈر اور علمدار ہیں۔ ان می‎ سے کچھ رات کو اپنے بستر سے الگ ہونگے اور صبح کے وقت مکہ مکرمہ میں ہونگے اور کچھ وہ ہیں جو روز روش بالوں کے درمیان حرکت کریں گے اور ان کے نام، اور ان کے باپوں کے نام نیز ان کے ظاہری شکل و شمائل معلوم ہیں"۔ (5)

دوسری حدیث شیخ صدوق (رحمہ اللہ) نے اپنی سند کے ذریعے سے ابو بصیرؓ سے نقل کی ہے۔ ابو بصیرؓ کہتے ہیں: "ایک کوفی شخص نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا: امام قائم (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے ساتھ کتنے افراد ہونگے؛ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کی تعداد 313 ہوگی، جو جنگ بدر کے مجاہدین کی تعداد کے برابر ہے، تو آپؑ نے فرمایا: امام قائم (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) "اولوا القوۃ" یعنی قوی افراد کے گروہ کے بغیر قیام نہیں کریں گے اور ان کی تعداد دس ہزار سے کم نہیں ہے۔ (6)

کیفیت [یعنی اوصاف اور خصوصیات) کے لحاظ سے، اصحاب امامؑ کی خصوصیات کچھ یوں ہیں:

"اصحاب مہدیؑ دین خدا کی سرحدوں اور اس کی حدود کے محافظ ہیں۔ حق کے فرامین کے نفاذ میں سخت گیر، نگران اور استوار ہیں اور احکامات و فرائض کی انجام دہی میں جذبات اور بے جا دوستیوں سے متاثر نہیں ہوتے۔ طاقت اور جاہ و حشمت ان کو مغرور نہیں کرتی اور دشمنوں کی شقاوت اور سنگ دلی انہیں زیادہ روی پر آمادہ نہیں کرتی۔ ہولناک جنگیں اور جنگ کی دشواریاں انہیں عبادت سے غافل نہیں کرتیں، اور تنگدستی انہیں مال اندوزی اور حدود سے تجاوز پر مجبور نہیں کر سکتی۔ اصحاب امامؑ کی بیعت کی شرط اول خدا کی حدود کی حفاظت ہے"۔ (7)

"امام مہدی (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک جذبۂ ایثار و قربانی ہے۔ مقصد اور خلوص نیت کے لحاظ سے متحد ہیں اور اس اتحاد نے ان کے دلوں کو بہم متصل کر دیا ہے اور ایک دوسرے کے دوست اور غمخوار ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی خاطر اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتے ہیں اور زندگی کی خوبصورتیوں اور لذتوں میں دوسروں کو اپنے اوپر مقدم رکھتے ہیں، اور ہونا بھی یہی چاہئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی فتوحات کا دارومدار، آپؑ کے جان نثار اور جانباز ساتھیوں کی قربانیوں، پر تھا اور تاریخ اسلام کی تمام اصلاحی تحریکوں اور انقلابات بھی ایثار اور قربانی کے وصف سے بہرہ ور تھے۔ دوسری طرف سے ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) کے خانہ نشیں ہونے کا ایک سبب ہم فکر، مخلص اور جان نثار انصار و اعوان کی قلت تھی"۔ (8)

4۔ قبولیت (Acceptance)

ہر انقلاب کی بنیادی شرائط میں سے عوامی قبولیت اور مقبولیت ہے۔ عوام کو انقلاب کے قائد و رہبر اور اس کے منصوبوں اور پروگراموں کو پسند کریں۔ کیونکہ بصورت دیگر، انقلاب کے لئے شروع ہونے والی تحریک مطلوبہ سرانجام تک نہیں پہنچ سکے گی۔ امام مہدی (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے انقلاب کو بھی اس شرط لازم کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو علم و آگہی کی اس سطح پر پہنچنا چاہئے کہ عالم انسانیت کے نجات دہندہ کی اصلاحی تحریک اور عظیم انقلاب کا خیر مقدم کریں، تاکہ وہ تحریک کے دوران امامؑ کو تسلیم کریں، اور آپؑ کے اہداف و مقاصد کے حصول میں آپؑ کے ساتھ تعاون کریں۔ (9)

کیونکہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ اس کے بندے آمادہ ہوں تو وہ ان پر اپنے فضل و رحمت سے  دریغ نہیں کرتا۔ اور پھر یہ امر جبری نہیں ہوگا بلکہ لوگوں کے اختیار اور انتخاب کی صورت میں اللہ کے تمام وعدے عملی صورت اپنائیں گے؛ جیسا ارشاد ربانی ہے:

"إِنَّ اللهَ لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى یُغَیِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ؛ یقینا اللہ؛

اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی ان باتوں کو نہ بدل دیں جو ان کے دلوں میں ہیں"۔ (*)

دینی کتب و مصادر میں اس طرح کی آمادگی کا ماحول پیدا کرنے اور اسے فروغ دینے کے لئے، ہدایات و احکامات موجود ہیں؛ اور ہمارے ائمہ (علیہم السلام) نے مسلمانوں ـ اور بالخصوص شیعہ معاشروں ـ کو ہدایت کی ہے کہ عصر غیبت میں ہمیشہ اور ہر وقت امام مہدی (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے ظہور کے لئے آمادہ اور منتظر اور آپؑ کی مدد کے لئے ہمہ تن تیار رہنا چاہئے اور لوگ اپنے معاشروں کو آنجنابؑ کے لئے دعوت، اور آّپؑ کے استقبال کے لئے آمادہ کریں۔ اسی بنا پر شیعہ تعلیمات میں "عصر غیبت" کو "عصر انتظار" کا عنوان دیا گیا ہے۔ (10)

امام زین العابدین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"إِنَّ أَهْلَ زَمَانِ غَيْبَتِهِ الْقَائِلُونَ بِإِمَامَتِهِ الْمُنْتَظِرُونَ لِظُهُورِهِ أَفْضَلُ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ لِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَعْطَاهُمْ مِنَ الْعُقُولِ وَالْأَفْهَامِ وَالْمَعْرِفَةِ مَا صَارَتْ بِهِ الْغَيْبَةُ عِنْدَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الْمُشَاهَدَةِ وَجَعَلَهُمْ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاهِدِينَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ بِالسَّيْفِ أُولَئِكَ الْمُخْلَصُونَ حَقّاً وَشِيعَتُنَا صِدْقاً وَالدُّعَاةُ إِلَى دِينِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ سِرّاً وَجَهْراً؛

بتحقیق امام مہدی (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کی غیبت کے زمانے کے لوگ، جو آپؑ کی امامت کے قائل ہیں، اور اپنے آپ کو آپؑ  کے ظہور کے مہیا کر چکے ہیں اور آپؑ کے منتظر ہیں، وہ تمام زمانوں کے لوگوں سے بہتر ہیں، کیونکہ خدائے متعال نے انہیں ایسی عقل اور سمجھ بوجھ عطا کی ہے کہ جس کے بدولت غیبت [اور اوجھل پن] ان کے نزدیک مشاہدے کی مانند ہے، [گویا کہ وہ امام کو دیکھ رہیں] خداوند متعال نے انہیں ان لوگوں ان مجاہدین کے مترادف قرار دیا ہے جو تلوار لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے قدموں میں [آنحضرت کے دشمنوں کے خلاف] لڑے ہیں۔ وہ حقیقی مخلصین اور ہمارے سچے شیعہ ہیں جو خفیہ اور اعلانیہ طور پر لوگوں کو دین خدا کی طرف بلاتے ہیں"۔ (11)

"یہ فضیلت اور برتری عصر غیبت کے خاص حالات کی وجہ سے ہے جس کی وجہ سے شیعیان اہل بیت (علیہم السلام) پر خاص قسم کے فرائض بھی عائد ہوتے ہیں، کیونکہ اس طرح کے حالات میں آنجناب اور مکتب اہل بیت (علیہم السلام) کے دفاع و تحفظ کی راہ میں ثابت قدم رہنا کافی مشکل ہے۔

اس دور میں شیعیان اہل بیت (علیہم السلام) کا اہم مشن یہ ہے کہ اولاً: امام عصر (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کی معرفت حاصل کرنا اور اس معرفت کو فروغ دینا؛ ثانیاً: فردی اور معاشرتی ذمہ داریوں اور فرائض پر عمل کرنا، گناہوں اور برائیوں اور فساد سے دوری اختیار کرنا، کیونکہ جیسا کہ دینی احکام پر عمل اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نفاذ۔ اصلاح معاشرہ اور امام مدی (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے ظہور کے لئے ماحول سازی میں بہت مؤثر ہے، گناہ، اور اخلاقی، سیاسی اور اجتماعی برائیوں اور بدعنوانیوں سے آلودگی آنجنابؑ کے ظہور میں تاخیر کا سبب بنتی ہے، اور آنجنابؑ کے ظہور سے معاشروں کی محرومی میں اضافہ کرتی ہے"۔ (12)

امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) اپنی مشہور توقیع [مکتوب] میں شیخ مفید (رحمہ اللہ) کو لکھتے ہیں: "اگر ہمارے شیعہ ـ جنہیں اللہ تعالیٰ طاعت و عبادت کی توفیق عطا فرمائے ـ ہمارے ساتھ کئے ہوئے عہد کی پابندی پر متفق اور ہم دل ہوتے تو ان سے ہمارے دیدار کی برکتیں مؤخر نہ ہوتیں، اور ہماری ملاقات کی سعادت بہت جلد انہیں نصیب ہوتی، چنانچہ کوئی چیز بھی ہمیں ان سے نہاں نہیں رکھتی سوا ان چیزوں کے جو ان سے ہم تک پہنچتی ہیں"۔ (13)

بے شک ظہور پر نور کا انحصار اللہ کی مشیت اور ارادے پر ہے، لیکن عین ممکن ہے کہ اپنے بندوں کے اختیاری اعمال کے تناسب سے، امام عصر (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے ظہور میں تعجیل یا تاخیر فرمائے۔ (14)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مآخذ و حوالہ جات:

1- مہدویت انسٹی ٹیوٹ (موسسہ آیندہ روشن)، سوالات و جوابات، ص364.

2- علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص390۔

3- شیخ صدوق، کمال الدین، ج2، ص411۔

4- مہدویت انسٹی ٹیوٹ، مہدویت؛ سوالات و جوابات، ص364۔

5- محمد بن ابراہیم النعمانی، الغیبہ، ص312.

6- شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج2، ص654۔

7- مجلہ حوزہ کے مصنفین، چشم بہ راہ مہدی (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف)، ص375.

8- علامہ کلینی، اصول کافی)، ج2، ص174۔

9- آفتاب مہر، ص191۔

*۔ سورہ رعد، آیت 11۔

10- مہدویت انسٹی ٹیوٹ، مہدویت؛ سوالات و جوابات، ص372۔

11- شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج1، ص320؛ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج52، باب فضل انتظار الفرَج وفضل الشیعۃ فی زمان الغیبۃ، ص122.

12- مهدويت،پرسش ها و پاسخ ها ص373۔

13- طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج2، ص315؛ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج53، ص177، ح8۔

14- بني ‌ہاشمی، محمد - راز پنہاني و رمز پیدائی، 376۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110