اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

26 فروری 2024

11:36:38 PM
1440632

امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) تشریف کیوں نہیں لاتے؟ (2)

حضرت ولی عصر (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کی غیبت اسرار آلٰہیہ میں سے ایک ہے، اور روایت میں ہے کہ غیبت کی حکمت بعد از ظہور آشکار ہوگی۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: صاحب الامر کے لئے ایک غیبت ہے، جو حتمی طور پر واقع ہوگی اور ہمیں اس کی حکمت اور سبب بیان کرنے کا اذن نہیں ملا ہے۔ غیبت کی حکمت وہی ہے جو سابقہ حجتوں کی غیبت کے پس پردہ حکم فرما تھی، اور یہ حکمت ظہور کے بعد آشکار ہوگی؛ جس طرح کہ جناب خضر کے ہاتھوں کشتی کے توڑے جانے، لڑکے کے قتل اور بستی میں دیوار کھڑی کرنے کی حکمت بعد میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے اس وقت آشکار ہوئی جب ان دونوں نے ایک دوسرے سے علیٰحدگی کا فیصلہ کیا (1) غیبت اللہ کے اسرار میں سے ایک سِرّ ہے۔ (2)

عبداللہ بن فضل ہاشمی سے مروی ہے کہ امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: "صاحب الامر کے لئے ایک غیبت ہے، یوں کہ گمراہ لوگ شک میں پڑ جائیں گے"؛ تو میں نے عرض کیا: سبب کیا ہے؟ تو امامؑ نے فرمایا: ہمیں اس کا سبب بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ غیبت کا مسئلہ اسرار اللہ میں سے ایک ہے اور یہ غیبت اللہ کی غیبتوں میں سے ایک ہے۔ چونکہ ہم اللہ کو حکیم جانتے ہیں، چنانچہ اس کے تمام امور حکمت پر استوار ہیں"۔ (3)

اس کے باوجود انسانی فکر کی حد تک فلسفۂ غیبت کو سمجھا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ اللہ کے آخری معصوم حجت ایک عظیم ہدف ـ یعنی مکمل عدل و انصاف کے قیام اور پوری دنیا میں پرچم توحید لہرانے کے وسیع البنیاد مقصد ـ کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے ہے، جس کے لئے وقت کے گذرنے اور انسانی عقل و دانش کی ترقی اور بنی نوع انسان کی روحانی، نفسیاتی اور اعتقادی آمادگی کی ضرورت ہے، تاکہ پوری دنیا سمعا و طاعتا عدل و آزادی کے اس امام کے قافلے کے استقبال کے لئے نکلے۔ بلاشبہ اگر امامؑ تمہیدات اور ماحول کی فراہمی کے بغیر ظاہر ہوجائیں تو آنجناب کا انجام اللہ کی دیگر حجتوں جیسا ہوگا، اور اس عظیم مقصد کے حصول سے پہلے ہی جام شہادت نوش کر جائیں گے۔ اس حکمت کی طرف احادیث میں اشارہ ہؤا ہے۔

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "ہمارے قائم کے لئے، ظہور سے پہلے، ایک غیبت ہے، اس لئے کہ آپؑ ظالموں کے ہاتھوں قتل نہ ہو جائیں"۔ (4)

کچھ احادیث میں لوگوں کی آزمائش غیبت امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے اسباب میں سے گردانی گئی ہے۔ (5) اور آپؑ کی غیبت کے ذریعے لوگوں کو آزمایا جاتا ہے۔ جن لوگوں کا ایمان استوار نہیں ہے، ان کا باطن آشکار ہو جاتا ہے اور وہ شک و تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جن لوگوں کے دلوں میں ایمان کی جڑیں مضبوط ہیں، ان کا ایمان انتظار ظہور، اور سختیوں کے مقابلے میں استقامت کی وجہ سے پختہ تر ہو جاتا ہے اور وہ ظہور کے لائق بن جاتے ہیں۔

امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) نے فرمایا: "جس وقت میرا پانچواں فرزند غائب ہوگا، تم اپنے دین کا تحفظ کرو، کیونکہ ان کے لئے حتمی طور پر ایک غیبت ہے، اس طرح سے کہ کچھ لوگ اپنے عقائد سے پلٹ جاتے ہیں۔ خداوند تعال غیبت کے ذریعے سے اپنے بندوں کو آزماتا ہے"۔ (6)

کچھ احادیث میں امامؑ کی غیبت کا ایک سبب زمانے کے جابر حکمرانوں کی بیعت کے طوق سے آزادی بیان کیا گیا ہے؛ یوں کہ امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کسی بھی حکومت کو ـ حتیٰ کہ تقیہ کی رو سے بھی ـ تسلیم نہیں کرتے۔ اگر امامؑ پردہ غیب میں نہ ہوتے تو آپؑ کو اپنے زمانے کی حکومتوں کی بیعت کرنا پڑتی، جبکہ کسی بھی حکومت کے ساتھ بیعت آپؑ کے الٰہی اہداف و مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

حسن بن فضال سے مروی ہے کہ امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) نے فرمایا: "گویا میں دیکھ رہا ہوں جب میرے تیسرے فرزند [امام حسن عسکری (علیہ السلام)] کی شہادت کے بعد شیعیان اہل بیتؑ اپنے امامؑ کی تلاش میں ہر سو دوڑ رہے ہیں، لیکن آپؑ کو نہیں پا رہے ہیں"۔ میں نے عرض کیا: "امامؑ کے غائب ہونے کا سبب کیا ہے؟ امامؑ نے فرمایا: "اس لئے کہ جب وہ شمشیر اٹھا کر قیام کریں گے تو کسی کی بیعت آپؑ کی گردن پر نہ ہو"۔ (7)

شیعیان اہل بیتؑ کا ایمان ہے کہ ان کے بارہ امام روئے زمین پر تھے، اور ہر امام کے اپنے معینہ فرائض تھے، جن کو سر کرنا ان کے مشن میں شامل تھا اور زمین کو کسی طرح سے بھی حجت سے خالی نہیں ہونا چاہئے۔ چنانچہ اللہ کی مشیت کا تقاضا ہے کہ ان میں سے ایک پردہ غیب میں چلا جائے اور زندہ رہے تاکہ زمین حجت خدا سے خالی نہ رہے۔

آیت اللہ ابراہیم امینی (رحمہ اللہ) لکھتے ہیں: "امام غائب کو بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح، اللہ کی راہ میں قتل ہونے کی پروا نہیں ہے، لیکن آپؑ کا قتل ہونا، معاشرے اور دین اسلام کے مفاد و مصلحت میں نہیں ہے؛ کیونکہ آپ کے آباء و اجداد میں سے اگر ایک شہید ہو جاتا تو دوسرا امامؑ اس کا جانشین بنتا لیکن اگر امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) شہید ہوجاتے تو آپؑ کا کوئی جانشین نہیں تھا اور زمین حجت سے خالی ہو جاتی؛ جبکہ مقدر یہی ہے کہ حق باطل پر غلبہ پائے، اور بارہویں امامؑ کے وجود مبارک کے ذریعے، دنیا حق پرستوں کے لئے مطلوب اور پسندیدہ ہو جائے"۔ (8)

چنانچہ امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کو ایسے حالات میں ظہور کرنا چاہئے کہ ماحول باطل پر حق کے مطلق اور حتمی فتح کے لئے فراہم ہو چکا ہو، اور امام ثانی عشر (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے ظہور کے ساتھ تمام انبیاء اور اولیاء (علیہم السلام) کو دیا گیا فتح و کامیابی کا وعدہ عملی شکل اختیار کرے۔

کوئی بھی تحریک ایک خاص ہدف کے حصول کے لئے شروع ہوتی ہے اور کوئی بھی انقلاب کسی خاص مقصد سے بپا ہوتا ہے اور اس کی کامیابی ممکن ہو جاتی ہے جب اس کے لئے ماحول ـ ہر لحاظ سے ـ فراہم ہوتا ہے اور حالات بالکل آمادہ ہوتے ہیں۔ کامیابی کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ انسان عمومی طور پر اس انقلاب کے خواہاں اور خواستگار ہوں اور رائے اس کے لئے آمادہ ہو؛ بصورت دیگر، انقلاب شکست سے دوچار ہوگا۔ امام مہدی موعود (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کا قیام و انقلاب بھی اس قاعدے سے مستثنیٰ نہیں ہے اور صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکے گا جب حالات مساعد ہوں اور ماحول تیار ہو۔

حضرت صاحب العصر (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کی تحریک ایک سطحی، محدود اور چھوٹی تحریک نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہمہ جہت، وسیع البنیاد عالمی انقلاب ہے جس کا پروگرام بہت عمیق اور دشوار ہے، جو تمام نسلی، قومی، لسانی، جغرافیا‏‏ئی، دینی اور مذہبی اختلافات کو ختم کرنا چاہتا ہے اور ایک طاقتور اور مربوط حکمرانی کے ذریعے پوری دنیا کا انتظام و انصرام کرنا چاہتا ہے، تاکہ پوری انسانیت صلح اور آشتی کے ساتھ زندگی گذار سکے۔ امام عصر (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) جانتے ہیں کہ پانی کی اصلاح کا کام سرچشمے سے ہی ممکن ہے، چنانچہ آپؑ اختلاف و انتشار کے عوامل کا ازالہ کریں گے تاکہ انسان نما بھیڑیئے، اپنی درندگی چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔

آپؑ کفر اور مادہ پرستی کی جڑیں اکھاڑنا چاہتے ہیں اور دنیا کے تمام انسان کو الٰہی قوانین اور منصوبوں کی طرف بلاتے ہیں، اور دین اسلام کو عمومی اور عالمی مذہب و آئین بنائیں گے۔ آپؑ انسان کے پریشان حال افکار کو ایک ہی ہدف پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں اور جھوٹے معبودوں ـ یعنی سرحدات، نسلوں، ممالک، عقائد، جماعتوں اور پارٹیوں، بر اعظموں اور جھوٹی شخصیات کو انسان کے دل و دماغ سے محو کرنا چاہتے ہیں۔

المختصر، امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) نوع انسان اور انسانی معاشروں کو حقیقی سعادت و کمال تک پہنچانا چاہتے ہیں اور ایک ایسا صالح اور نیک معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں جو انسانی فضائل و صفات اور نیک اخلاقیات پر استوار ہو۔ اس طرح کا انقلاب اقوام عالم کی صلاحیت و استعداد اور قابلیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

لہٰذا جب تک کہ بنی نوع انسان کمال اور رشد و نمو تک نہ پہنچے، اور پوری دنیا میں عام لوگ حکومت حق کے لئے آمادہ نہ ہونگے، مہدی موعود (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) ظہور نہیں کریں گے۔ (9)

چنانچہ ایک طرف سے جابر حکمرانوں کا ظلم و ستم انتہا تک پہنچے گا اور دوسری طرف سے عام لوگ پوری دنیا میں قیام عدل کے لئے کا مطالبہ کریں گے اور دوسری حکومتوں سے اکتا جائیں گے۔

-----------------------------------

حوالہ جات:

1- سورہ کہف، آیات 66 ـ 83۔

2- شیخ صدوق، کمال الدین، ج 2، ص 158۔

3- بحارالانوار، ج52، ص91۔

4- شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، ص203۔

5- شیخ حر عاملی، اثبات الہُداۃ، ج6، ص438۔

6- شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، ص204؛ محمد بن ابراہیم النعمانی، کتاب الغیبۃ، ص154۔

7- علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج51، ص152۔

8- ابراہیم امینی، دادگستر جہان، ص191ـ192۔

9- امینی، دادگستر جہان، ص240۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔

110