اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

22 فروری 2024

6:24:28 PM
1439698

صحیح معنوں میں قرآنی خطاب؛

آج دنیائے اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ غزہ ہے / اسلامی ممالک صہیونیت کی پشت پناہی ترک کرنے کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟ / عالم اسلام صہیونیت کے سرطانی پھوڑے کے خاتمے کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔۔۔ امام خامنہ ای

رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے فرمایا: عالم اسلام صہیونیت کے سرطانے پھوڑے کے خاتمے کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے چالیسویں بین الاقوامی قرآنی مقابلوں میں شریک قراء اور حفاظ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: آج دنیائے اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ غزہ ہے۔

آپ نے سوال فرمایا: اسلامی ممالک صہیونیت کی پشت پناہی ترک کرنے کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟

آپ نے فرمایا: عالم اسلام صہیونیت کے سرطانی پھوڑے کے خاتمے کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔

ایران میں منعقدہ چالیسویں سالانہ بین الاقوامی قرآنی مقابلوں کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

بسم الله الرّحمن الرّحیم

والحمد لله ربّ العالمین والصّلاة والسّلام علی سیّدنا ونبیّنا أبي القاسم المصطفی محمّد وعلی آله الأطیبین الأطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الأرضین.

آج کی یہ نشست بہت اعلی، شیریں، اور خوشگوار تھی۔ اللہ کے فضل سے ہمارے اپنے ملک سے اور برادر ملکوں سے آنے والے قرائے محترم نے قرآن کی تلاوت کی اور ہم نے فیض اٹھایا۔ ہمیں امید ہے کہ قرآن سے استضائہ (1) کرنے اور قرآن کی تعلیمات میں سمجھ بوجھ حاصل کرنے کی طرف رجحان میں ہمارے عوام میں بھی اور عالم اسلام اور امت مسلمہ میں بھی، روز بروز اضافہ ہو، اس کی ہمیں ضرورت ہے۔

قرآن سے استضائہ کرنے کے بارے میں ایک جملہ عرض کرتا چلوں۔ یہ قرآن جس کی آپ تلاوت کرتے ہیں، یہ کتاب ہدایت ہے؛ ارشاد ہؤا: إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ؛ بلاشبہ یہ قرآن ہدایت کرتا ہے ایسے راستے کی جو انتہائی درست ہے"۔ (2) ہم سب ہدایت کے محتاج ہیں۔ یہ ذکر [اور یاددہانی] کی کتاب ہے "ذکر" یعنی غفلت کا ازالہ؛ ہم عام طور پر غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں؛ بنی نوع انسان کے تمام افراد عام طور پر اپنی معلومات کو بھلا دیتے ہیں اور غفلت سے دوچار ہو جاتے ہیں؛ قرآن کتاب ذکر ہے، ذکر غفلت کے برعکس ہے اور غفلت کو زائل کرتا ہے۔

خدائے متعال نے ارشاد فرمایا: "وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ؛ اور بلاشبہ ہم نے قرآن کو ذکر [نصیحت حاصل کرنے] کے لئے آسان بنایا ہے تو ہے کوئی جو نصیحت قبول کرے"۔ (3)

قرآن انذار اور انتباہ کی کتاب ہے؛ ارشاد ہوتا ہے:

"وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ؛ اس قرآن کو میری طرف بذریعہ وحی نازل کیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں اور جس تک یہ پیغام پہنچے سب کو تنبیہ کروں"۔ (4) ہمیں انذار و تنبیہ کی ضرورت ہے، کہ ہمیں توجہ دلائی جائے ہمیں ان خطروں سے آگاہ کیا جائے، جو بنی نوع انسان کے ہر فرد کے لئے گھات لگائے بیٹھے ہیں، اس دنیا کی زندگی میں بھی اور اگلی دنیا کی زندگی میں بھی جو کہ حقیقی زندگی ہے۔ قرآن انسانی دردوں اور دکھوں کے علاج کی کتاب ہے؛ خواہ بنی نوع بشر کے افراد کے دکھ ہوں جیسے روحانی اور معنوی اور فکری دکھ۔ خواہ وہ انسانی معاشروں کے دکھ ہوں جیسے جنگیں، مظالم، نا انصافیاں وغیرہ۔ قرآن ان دردوں اور دکھوں کا علاج ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

"وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ؛ اور ہم قرآن میں سے ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لیے تو شفا اور رحمت ہے"۔ (5)

قرآن کتاب حکمت ہے؛ فرمایا:

"يس * وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ؛ یا، سین * قسم اس با حکمت [اور حکمت سکھانے والے] قرآن کی"۔ (6) حکمت سے مراد زندگی کے وہ حقائق ہیں جن کی انسان کو ضرورت و احتیاج ہے۔

قرآن کریم تبیین اور تشریح، ابہامات اور جہالتوں کو واضح کرنے کی کتاب ہے اور قرآن کریم میں کئی بار یہ آیت دہرائی گئی ہے: "تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ؛ یہ ہیں [اللہ کی] کتاب کی آیتیں ہیں جو حقائق کو آشکار کر دیتی ہیں"۔ (7) یہ کتاب مجید ہے، یہ کتاب کریم ہے، یہ کتاب نور ہے، یہ کتاب برہان ہے؛ یہ قرآن ہے۔ یہ قرآن کی وہ توصیفات ہیں جو خود قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں۔ قرآن خود ہم سے اپنا تعارف کراتا ہے اور قرآن خود ہی خود کو خود متعارف کراتا ہے۔

امیرالمؤمنین (علیہ الصّلاۃ و السّلام) ـ جو قرآن کریم اور پیغمبر اعظم (صلّی اللہ علیہ و آلہ) کے شاگرد اول ہیں ـ نے نہج البلاغہ میں قرآن کے بارے میں انتہائی عمدہ توصیفات و تعبیرات بیان کی ہیں:

"رَبیعُ القُلوب؛ دلوں کی بہار ہے"۔ جیسا کہ بہار میں عالَم جی اٹھتا ہے، زمین جی اٹھتی ہے، قرآن دلوں کو جِلا دیتا ہے، اور افسردہ دلی اور پسماندگی سے نجات دلاتا ہے۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"تَعَلَّموا القرآنَ فإنَّهُ أحسَنُ الحَديثِ وَتَفَقَّهوا فيهِ فإنّهُ رَبيعُ القُلوبِ وَاستَشفوا بنُورِهِ فإنّهُ شِفاءُ الصُّدورِ؛ قرآن سیکھ لو جو کہ بہترین حدیث ہے اور اس میں سمجھ بوجھ حاصل کرو، کیونکہ یہ دلوں کی بہار ہے اور اس سے شفاء حاصل کرو کیونکہ یہ سینوں کی شفاء ہے"۔ (8) نیز فرمایا:

"أَلَا إِنَّ فِيهِ عِلْمَ مَا يَأْتِي وَالْحَدِيثَ عَنِ الْمَاضِي وَدَوَاءَ دَائِكُمْ وَنَظْمَ مَا بَيْنَكُمْ؛ جان لو کہ قرآن میں مستقبل کا علم اور ماضی کے زمانوں کی خبریں ہیں، یہ [قرآن] تمہارے دردوں کی دواء اور تمہارے فردی اور معاشرتی امور کو نظم دینے والا ہے"۔ (9)

یہ قرآن کے بارے میں نہج البلاغہ کی تعبیرات و توصیفات ہیں؛ یعنی بنی نوع انسان کی ضرورت کے بے انتہا علوم و معارف، قرآن میں موجود ہیں، خواہ وہ بنی نوع انسان کے ہر فرد کے لئے ضروری ہیں یا وہ جو انسانی معاشرے کے طور پر بنی نوع انسان کے لئے ضروری ہیں۔

یہ جو "عِلْمَ مَا يَأْتِي" کی عبارت ہم نے نہج البلاغہ سے پڑھ کر سنائی یعنی بنی نوع انسان کی تمام تر ضروریات پوری کرنے والا اور اس کے مستقبل کے تمام زمانوں کی ضروریا کو بر لانے والا: "عِلْمَ مَا يَأْتِي" یعنی جن جن زمانوں میں انسان اس کرہ خاکی میں جیتا ہے، قرآن اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور اس کے سوالات کا جواب دیتا ہے۔ "عِلْمَ مَا يَأْتِي" یعنی یہ۔ قرآن انسانی معاشروں کے بڑے دردوں کی دوا ہے۔ "وَنَظْمَ مَا بَيْنَكُمْ" یعنی معاشرتی نظام، انسانوں کے باہمی روابط، معاشروں کے باہمی روابط، یہ سب قرآن میں موجود ہیں، تو قرآن کو پہچاننا چاہئے۔

بدقسمتی سے خود عالم اسلام میں کچھ لوگ تھے اور ہیں جنہوں نے تصور کیا ہے اور باور کیا ہے کہ قرآن صرف دلوں کے لئے ہے، عبادتگاہوں کے کونوں کھدروں کے لئے اور انسان صرف اپنے احتیاجات اور خدا کے ساتھ ذاتی روابط کے لئے قرآن کے محتاج ہیں؛ وہ معاشروں کی ضروریات کا جواب دینے والے اسلام کو تسلیم نہیں کرتے، سیاسی اسلام کو قبول نہیں کرتے، سماجی نظام بنانے والے اسلام کو قبول نہیں کرتے۔ یہ تصور ان حقائق کے برعکس ہے جو قرآن خود اپنے بارے میں بیان کرتا ہے اور ان حقائق کا بالکل مخالف نقطہ ہے جو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) قرآن کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔

بہرحال، یہ قرآنی تعلیمات ہیں؛ تو ہم ان علوم و معارف کو کیونکر حاصل کر سکتے ہیں؟ [جواب یہ ہے کہ] قرآن کے ساتھ موانست کے ذریعے، قرآن میں غور و تدبر کے ذریعے، ان ہستیوں سے رجوع کے ذریعے جن کے گھر میں قرآن نازل ہؤا ہے، [یعنی] اہل بیت رسول اللہ (علیہم الصلاۃ و السلام)؛ ان ذریعوں سے فیض یابی کے ذریعے ان علوم و معارف کو حاصل کیا جا سکتا ہے اور ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؛ اور زندگی کو ان کی بنیاد پر بنایا جا سکتا ہے۔

آپ [قراء اور حفاظ] کی تلاوت ـ جو کہ اسلامی ممالک میں قرآن کے حبداروں کے درمیان رائج عمل ہے، اور ہمارے ملک میں بھی اللہ کے فضل سے اچھا خاصا فروغ پا چکی ہے ـ قرآن کے ساتھ موانست اور قرآنی معارف میں سمجھ بوجھ حاصل کرنے کی طرف ایک مؤثر قدم ہے۔ تلاوت قرآن کی اعلیٰ قدر و منزلت اس لئے ہے کہ یہ آپ کے سامعین کو آیات قرآن اور اس کے مفاہیم میں غور و تدبر پر آمادہ کرتی ہے اور قرآنی معارف کو ان کے لئے آشکار کر دیتی ہے۔ البتہ شرط یہ ہے کہ اس تلاوت کا مقصد قرآن کریم کو اجاگر کرنا ہو، نہ کہ مقصد خودنمائی ہو؛ میں نے اسس ے پہلے اپنے محترم قاریوں سے بھی عرض کیا ہے۔ (10) یہ جو فنون تلاوت میں پائی جاتی ہیں ـ اچھی آواز، اچھا لحن، فنونِ تلاوت، قطع و وصل، اتار چڑھاو، ـ ان سب کو تفہیم قرآن کے لئے وقف ہونا چاہئے۔ آپ اس انداز سے منظم کریں، اس انداز سے تلاوت کریں، ایسے انداز سے قطع و وصل کریں، اس انداز سے دہرائیں کہ قرآنی معارف دلوں میں جگہ بنائیں؛ آج ہمیں اس کی ضرورت ہے۔

افسوس کا مقام ہے کہ آج دنیائے اسلام میں بہت سے لوگ قرآن کے ساتھ انسیت و آشنائی نہیں رکھتے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی یہ شکایت ـ کہ "وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا؛ (اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) عرض کریں گے اے میرے پروردگار! میری امت نے اس قرآن کو بالکل ترک کر دیا تھا) (11) ـ آج دنیائے اسلام کے بہت سے حصوں پر صادق آتی ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔

آج عالم اسلام کا بڑا مسئلہ غزہ کا مسئلہ ہے۔ کیا آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی ممالک کے حکمران اور اسلامی ممالک کے عہدیدار غزہ کے سلسلے میں قرآن کی تعلیم اور قرآن کی معرفت کے مطابق عمل کر رہے ہیں؟

قرآن کا ارشاد ہے کہ "لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ؛ مسلمانوں کو نہ چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بنائیں"۔ (12) کیا غزہ کے سلسلے میں اس آیت پر عمل ہو رہا ہے؟ مسلم ممالک کے سربراہان اعلانیہ طور پر کیوں مقاتل اور خبیث صہیونی کافر سے اپنے تعلقات منقطع کرنے، اپنی امداد اور پشت پناہی منقطع کرنے اور دوٹوک انداز میں مخالفت کرنے کا اعلان نہیں کرتے؟ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاء؛ اے ایمان لانے والے، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا"۔ (13) تو کیا آج دنیا میں اس آیت پر عمل ہوتا ہے؟

قرآن کریم کا ارشاد ہے: "مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ؛ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اللہ کے رسول ہیں اور وہ جو آپؐ کے ساتھی ہیں وہ کفار کے مقابلے میں بہت سخت اور آپس میں انتہائی رحمدل [اور بڑے ترس والے مہربان] ہیں"۔ (14) کیا یہ شدت عمل خبیث صہیونی ریاست کے مقابلے میں دکھائی جا رہی ہے؟ آج یہ عالم اسلام کے بڑے دکھ اور درد ہیں۔ خدائے متعال مسلم اقوام کے ہر فرد سے بازپرس اور مؤاخذہ فرمائے گا، کہ انہوں نے اپنی حکومتوں پر دباؤ کیوں نہيں ڈالا؛ اور مسلم ممالک سے مؤآخذہ کرے گا کہ انہوں نے عمل کیوں نہیں کیا؟

[ارشاد ربانی ہے:] "إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ؛ اللہ بس تمہیں ان سے باز رکھتا ہے ـ جنہوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں [اور شہروں] سے نکال باہر کیا اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کے ساتھ پیٹھ ملائی ـ کہ ان کے ساتھ دوستی کرو اور جو ان کے ساتھ دوستی کرے گا تو یہ لوگ خود ظالم ہیں"۔ (15) یہ سب قرآنی تعلیمات ہیں؛ یہ وہی تعلیمات ہیں جنہیں ہمیں اپنی تلاوتوں میں نمایاں کرنا پڑے گا، انہیں ایک دوسرے کو یاد دلانا پڑے گا، یہ فرائض ایک دوسرے کو یاد لانا پڑیں گے۔ ہمیں ایک دوسرے کو حق کی تلقین کریں؛ ہماری تلاوت کی ان مجالس و محافل کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے۔

البتہ اس مسئلے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے:

آج غزہ میں اور فلسطین میں مقاومت کی افواج قرآن پر عمل کر رہی ہیں۔ مقاومت غزہ کے اندر دشمن کے مقابلے میں استقامت کر رہی ہے اور ثابت قدمی دکھا رہی ہے۔ [ارشاد ہوتا ہے:]

"أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ؛ اجازت دی گئی ہے [جہاد کی] انہیں جن سے جنگ کی جا رہی ہے اس بنا پر کہ ان پر ظلم ہؤا ہے، اور بلاشبہ اللہ ان کی مدد پر قادر ہے"۔ (16) خدائے متعال انہیں نصرت دے گا بھی۔ یقینا عالم اسلام آج غزہ کے لئے سوگوار و عزادار ہے۔ غزہ کے لوگ ان لوگوں کے ظلم کا شکار ہو گئے ہیں جو انسانیت سے بالکل عاری ہیں۔ یقینا سب سے بڑا فریضہ ـ ان مظلوم لوگوں اور غزہ اور فلسطین میں مقاومتی مجاہدین کی جرات مندانہ اور بے لوث اور فداکارانہ مزاحمت کی ـ حمایت کرنا ہے، اور ان لوگ کی حمایت کرنا ہے جو دنیائے اسلام کے مختلف خطوں میں ان کی مدد کر رہے ہیں۔ فلسطینی عوام مظلوم ہیں؛ نہ صرف عالم اسلام بلکہ غیر مسلم احرار بھی آج غزہ کے مظلوم عوام کے لئے سوگوار ہیں؛ یہی لوگ فلسطینی مقاومت و مزاحمت کو سراہتے ہیں اور اس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

ہم پرامید ہیں؛ اللہ کے فضل و کرم اور نصرت سے ہماری امید ختم نہیں ہوتی۔ مذکورہ آیت میں خدائے متعال کا ارشاد ہے کہ "وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ؛ اور بلاشبہ اللہ ان کی مدد پر قادر ہے"۔ [خدائے متعال] ایک دوسری آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

"وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ؛ اور یقینا اللہ ضرور بضرور مدد کرے گا اس کی جو اس [اللہ] کی مدد کرے۔ بلاشبہ اللہ بہت طاقت والا ہے، اور بہت غلبہ پانے والا ہے"۔ (17) یہ اللہ کی تاکید ہے۔ اللہ کی نصرت ان شاء اللہ فلسطینی عوام کو حاصل ہوگی اور دنیائے اسلامی اللہ کے لطف سے، صہیونی سرطانی پھوڑے کی نابودی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی۔ ہم اس دن کے منتظر ہیں؛ ان شاء اللہ وہ دن آئے گا، وہ دن حتمی طور پر آئے گا اور حقیقت ہماری ذمہ داریوں کو ـ بالخصوص اسلامی ممالک کے سربراہوں کی ذمہ داریوں کو ـ دو چند کرتی ہے؛ ہم سب کو کوشش کرنا پڑے گی۔

آج سب سے زیادہ اہم ذمہ داری یہ ہے کہ غاصب اور صہیونی ریاست کی پشت پناہیاں بند کی جائیں اور غزہ کے عوام، فلسطین کے عوام، فلسطینی مقاومت کی ہر طرح سے پشت پناہی کی جائے اور مدد کی جائے۔ ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس راہ میں ہم سب کو کامیاب و کامران فرمائے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے چالیسویں سالانہ بین الاقوامی قرآنی مقابلوں کے بعد منعقد ہونے والی اس عظیم الشان تقریب کے آغاز میں بعض قراء کرام نے قرآن کریم کی تلاوت کی۔

۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ استضائہ: روشنی حاصل کرنا - راہنمائی مانگنا

2۔ سوره‌ی اسراء، آیت 9۔

3۔ سورہ قمر، آیت 17۔

4۔ سورہ انعام، آیت 19۔

5. سورہ اسراء (سورہ بنی اسرائیل)، آیت 82۔

6۔ سورہ یس، آیات 1-2۔

7۔ سورہ شعراء، آیت 2۔

8۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 110۔

9۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 158۔

10۔ رہبر انقلاب کا "محفِلِ أُنس با قرآن" سے خطاب مورخہ 3 اپریل 2022ع‍۔  

11۔ سورہ فرقان، آیت 30۔

12۔ سورہ آل عمران، آیت 28۔

13۔ سورہ ممتحنہ، آیت 1۔

14۔ سورہ فتح، آیت 29۔

15۔ سورہ ممتحنہ، آیت 9۔

16۔ سورہ حج، آیت 39۔

17۔ سورہ حج، آیت 40۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔

110