اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

20 فروری 2024

3:01:03 PM
1439266

آل عباء؛

حضرت علی اکبر علیہ السلام کی ولادت با سعادت اور "روز جوان" مبارک ہو

سید الشہید حضرت علی اکبر (علیہ السلام) 11 شعبان المعظم سنہ 33ھ میں، مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، لیکن زیادہ تر مصادر نے آپؐ کی تاریخ ولادت کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

علی اکبر (علیہ السلام) امام حسین (علیہ السلام) کے بڑے فرزند ہیں اور چونکہ آپ امام علی بن الحسین زین العابدین (علیہ السلام) سے عمر میں بڑے ہیں، اکبر کہلاتے ہیں۔

جناب علی اکبر (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ لیلیٰ بنت ابی مرہ بن عروہ (سلام اللہ علیہا) ہیں۔

متعدد روایات کے مطابق آپؑ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے شبیہ ترین تھے اور کربلا میں بھی آپ پہلے ہاشمی شہید ہیں۔

تاریخ نویسوں نے آپؑ کی وقت شہادت عمر میں اختلاف کیا ہے یوں تاریخ میں آپ کی عمر 18، 23 اور 25 برس ثبت ہوئی ہے لیکن مشہورترین روایت کے مطابق آپ سنہ 33ھ میں پیدا ہوئے ہیں اور یوں کہا جا سکتا ہے کہ شہادت کے وقت آپ کی عمر تقریبا 27 سال اور چھ ماہ تھی۔

1۔ تاریخ ولادت

بعض روایات کے مطابق جناب علی اکبر (علیہ السلام) خلیفہ عثمان بن عفان کے قتل سے دو سال قبل، 11 شعبان سنہ 33ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ چنانچہ عاشورا کے دن شہادت کے وقت آپ کی عمر تقریبا 27 سال اور چھ ماہ تھی۔

علمائے انساب اور مؤرخین کے مطابق جناب علی اکبر (علیہ السلام) امام زین العابدین (علیہ السلام) سے عمر میں بڑے ہیں کیونکہ عاشورا کے دن امام سجاد (علیہ السلام) کی عمر 23 سال تھی۔ (1) لیکن زیادہ تر مصادر نے آپؑ کی ولادت کے بارے میں معلومات نہیں دی ہیں۔ (2)

الف: ابتدائی تاریخی مصادر

ابتدائی مصادر میں محمد بن سعد کی کتاب "الطبقات الکبریٰ" (3) اور تاریخ طبری (4) (5) نیز شیخ عباس قمی کی کتاب نَفَسُ المہموم (6) میں جناب علی اکبر (علیہ السلام) کی زندگی کے حالات بیان ہوئے ہیں لیکن تاریخ ولادت کی طرف اشارہ نہیں ہؤا ہے۔ لیکن ابن ادریس حلی (محمد بن احمد بن ادریس بن حسین بن قاسم بن عیسی حلی عجلی) سمیت بعض علماء نے کہا ہے کہ آپؑ خلیفہ عثمان کی خلافت کے آخری برسوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ (7) سید عبدالرزاق المقرم نے بھی ابن ادریس کے قول کی تائید کی ہے۔ (8)

ب۔ مقتل الامام الحسین (علیہ السلام)

عبدالرزاق المقرم اپنی کتاب مقتل الحسین (علیہ السلام) نیز اپنی دوسری کتاب "علی الاکبر" (9) میں لکھتے ہیں: "حضرت حضرت علی اکبر (علیہ السلام) بروز 11 شعبان المعظم سنہ 33ھ میں پیدا ہوئے"۔ (10)

جن جن مؤرخین اور سوانح نگاروں نے جناب علی اکبر (علیہ السلام) کی تاریخ ولادت کا تذکرہ کیا ہے ان کا ماخذ یہی دو کتابیں ہیں۔ مقرم نے اسے سید محمد عبد الحسین جعفری الحائری کی کتاب "انیس الشیعہ" کے قلمی نسخے سے نقل کیا ہے مگر انیس الشیعہ نے اپنے قوم کے لئے ماخذ کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔

علامہ آقا بزرگ طہرانی [علامہ محمد محسن] نے اپنی کتاب الذریعۃ الیٰ تصانیف الشیعہ میں لکھا ہے کہ جعفری الحائری نے یہ کتاب سنہ 1241ھ کو قمری مہینوں کی ترتیب سے لکھا ہے اور اسے ربیع الاول کے مہینے سے شروع کیا ہے۔ (11)

نتیجہ

تاریخ اسلام کے ابتدائی مصادر میں جناب علی اکبر (علیہ السلام) کے یوم ولادت کا تذکرہ نہیں آیا ہے اور اس حوالے سے علامہ المقرم کے قول پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

2۔ خاندان

جناب علی اکبر (علیہ السلام) نے خاندان رسالت میں آنکھ کھولی اور اسی خاندان میں پروان چڑھے جو اسرار اللہ کا نگہبان ہے اور اس کے افراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ذریت طیبہ اور آپؐ کے اوصیائے برحق ہیں۔

جناب علی اکبر (علیہ السلام) کے والد ماجد سبط رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) خامس آل عبا، آیت مباہلہ اور آیت تطہیر کے مخصوصین میں سے ہیں اور جوانان جنت کے سردار ہیں۔ ریحانۃ الرسولؐ امام حسین (علیہ السلام) رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے محبوب ہیں اور آپ کی طفولت کے دوران رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) آپؑ کو آغوش میں لے کر فرمایا کرتے تھے: "حُسَيْنٌ منِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا؛ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں اور اللہ دوست رکھتا ہے اللہ اسے دوست رکھے"۔ (12) اور جناب علی اکبر نے (علیہ السلام) ایسے بابا، امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) جیسے چچا اور ثانی زہرا سیدہ زینب کبریٰ جیسی بی بی کی آغوش میں نشوونما پائی۔

جناب علی اکبر (علیہ السلام) کی زوجہ ماجدہ لیلیٰ بنت ابی مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی (سلام اللہ علیہا) ہیں؛ اور ان کے دادا عروہ بن مسعود ثقفی اسلام کے سادات اربعہ میں سے ایک تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) انہیں "صاحب یاسین" سے تشبیہ دیتے تھے (جنہوں نے اپنی قوم کو خدا پرستی کی دعوت دی اور قوم نے انہیں قتل کر دیا) اور فرماتے تھے کہ عروہ بن مسعود ثقفی عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔

3۔ کنیت اور القاب

اسلام بچے کے ولادت کے وقت کے آداب اور مستحبات میں سے ایک ہے کہ بچے کا نام رکھنے کے بعد اس کے لئے کنیت متعین کی جاتی ہے اور امام حسین (علیہ السلام) نے اس سنت حسنہ پر عمل کرتے ہوئے جناب علی اکبر (علیہ السلام) کی کنیت کا تعین کیا اور اپنے فرزند کو اپنے والد بزرگوار امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی کنیت [یعنی] "ابوالحسن" سے مُکَنّٰی فرمایا۔

سید الشہید جناب علی اکبر (علیہ السلام) کا مشہور لقب "اکبر" ہے جس کا سبب یہ تھا کہ آپؑ اپنے بھائی حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) سے بڑے تھے، جس کا ثبوت ابن زیاد (لعنہ اللہ) کے ساتھ امام زین العابدین کا تاریخی مکالمہ ہے۔

مروی ہے کہ خاندان رسالتؐ کے اسیروں کا قافلہ کوفہ پہنچا تو ابن زیاد (لعنہ اللہ) نے اسرائے اہل بیتؑ کے لئے ایک مجلس ترتیب دی، تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہؤا جس کے بعد یزیدی گورنر نے امامؑ سے مخاطب ہوکر کہا: تمہارا نام کیا ہے؟

امامؑ نے فرمایا: میرا نام علی ہے۔

ابن زیاد (لعین) نے کہا: کیا خدا علی بن الحسین کو کربلا میں نہیں مارا؟

امامؑ نے استواری کے ساتھ فرمایا: میرا ایک بڑے بھائی کا نام بھی علی تھا جنہیں تم نے [یا لوگوں] نے قتل کر دیا۔

کہا: نہیں بلکہ خدا نے اسے مارا۔

تو امامؑ نے فرمایا: " الله يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا؛ اللہ لیتا ہے جانوں کو ان کے مرنے کے وقت"۔ (13) (14)

چنانچہ جناب علی اکبر (علیہ السلام) کا لقب "اکبر" ہے۔

4۔ ازدواجی زندکی

اگر ہم تاریخی حوالے سے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آپ کی عمر 25 سال یا اس سے زیادہ تھی، تو یقینا آپؑ نے ضرور شادی کی ہوگی، کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ آپؑ نے اس سنت عظیمہ کو ترک کر دیا ہو۔ بزنطی کی حدیث سے ظاہر بھی ظاہر ہوتا ہے اور آپ کے ماثورہ زیارت نامے کی بعض عبارات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آنجناب نے شادی کی تھی اور آپ کے فرزند بھی تھے۔ (15)

5- فضائل

جناب علی اکبر (علیہ السلام) کے فضائل بے شمار ہیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

5.1۔ شبیہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ)

جناب علی اکبر (علیہ السلام) خوب رو، فصاحت زبان، صورت، سیرت اور خلقت کے لحاظ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سب سے زیادہ شبیہ تھے، اور تمام تر کمالات، صفات حسنہ اور اخلاقی محاسن کا مجموعہ ہیں۔

آپ تمام صفات و اخلاقیات میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی مانند تھے اور امام حسین (علیہ السلام) نے، روز عاشورا آپؑ کو جنگ کے لئے روانہ کرتے ہوئے فرمایا:

"اللّهُمَّ اشْهَدْ عَلی هؤُلاءِ الْقَوْمِ فَقَدْ بَرَزَ اِلَيْهِمْ غُلامٌ أَشْبَهُ النّاسِ خَلْقاً وَخُلْقاً وَمَنْطِقاً بِرَسُولِكَ كُنّا إِذَا اشْتَقْنا إِلى نَبِیِّكَ نَظَرْنا إِلى وَجْهِهِ؛ اے معبود، گواہ رہنا، ایسا نوجوان اس قوم کی طرف روانہ ہؤا ہے، ظاہری شکل و شمائل اور اخلاقی صفات میں تیرے رسولؐ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے ہم جب بھی رسول خداؐ کے چہرے کی زیارت کرنا چاہتے تو علی اکبر کے چہرے کی طرف دیکھا کرتے تھے"۔ (16)

5.2- عصمت

عدالت کی طرح عصمت کے مختلف مراتب اور سطوح ہیں اور کوئی بھی عصمت کے لحاظ سے چودہ معصومین (علیہم السلام) کے درجے تک نہیں پہنچ سکتی، لیکن خدائے متعال نے عصمت کا کچھ درجہ جناب علی اکبر (علیہ السلام) کو عطا فرمایا ہے۔

جعفر بن محمّد بن جعفر بن موسى بن قولويہ قمّى (رحمہ اللہ) نے صحیح سند سے ابو حمزہ ثمالی سے اور انھوں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت نقل کی ہے جس میں علی اکبر (علیہ السلام) کا زیارت نامہ بھی ہے، جس کے ضمن میں ہم پڑھتے ہیں:

"صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكَ وَعَلَى عِتْرَتِكَ وَأَهْلِ بَيْتِكَ وَآبَائِكَ وَأَبْنَائِكَ وَأُمَّهَاتِكَ الْأَخْيَارِ الْأَبْرَارِ الَّذِينَ أَذْهَبَ اللَّهُ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهَّرَهُمْ تَطْهِيراً؛

اللہ کا درود ہو آپ پر اور آپ کی عترت و خاندان پر اور آباء و اجداد اور بیٹوں بیٹیوں اور ماؤں پر، جو سب پسندیدہ اور نیک تھے اور خدا نے ہر قسم کی پلیدی کو ان سے دور کر دیا اور انہیں پاک و طاہر رکھا جیسا کہ پاک ہونے کا حق تھا"۔ (17)

 5.3۔ صفات

حضرت علی اکبر (علیہ السلام) صفات جمال و جلال سے متصف اور نیک عادات و اتوار کے مالک اور مَلَکُوتِ اَعْلٰی سے متصل تھے۔ مکہ مکرمہ سے امام حسین (علیہ السلام) کی کوفہ کے سفر کے واقعات کے سلسلے میں سید بن طاؤس اور شیخ مفید کی منقولہ حدیث کے مطابق، جناب علی اکبر (علیہ السلام) نے والد ماجد امام حسین (علیہ السلام) سے پوچھا: "أَلَسنَا عَلَى الْحَقّ؛ کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟"۔ تو امامْ نے فرمایا: "بَلىٰ؛ کیوں نہيں"۔

علی اکبر (علیہ السلام) نے عرض کیا: "إِذَنْ لاَ نُبَالِي نَمُوتُ مُحِقِّينَ؛ تو جب حق پر ہیں تو ہمیں موت کی کوئی پروا نہیں ہے"۔

اور امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"فَقَالَ لَهُ جَزَاكَ اَللَّهُ مِنْ وَلَدٍ خَيْرَ مَا جَزَى وَلَداً عَنْ وَالِدِه؛ خدائے متعال تمہیں بہترین جزا عطا فرمائے، جو ایک بیٹا اپنے باپ سے لیتا ہے"۔ (18)

5.4۔ شجاعت

حضرت علی اکبر (علیہ السلام) کو شجاعت اپنے دادا جان امیرالمؤمنین علی مرتضیٰ (علیہ السلام) سے ورثے میں ملی تھی۔ علامہ مجلسی نقل کرتے ہیں: "علی اکبر (علیہ السلام) جس طرف رخ کرتے تھے لشکر یزید کو کشتوں کے پشتے لگا دیتے تھے؛ آپؑ نے اتنے اشقیاء کو ہلاک کر دیا کہ لشکر یزید سے نالہ و شیوں اور فریاد و فغاں کی صدائیں سنائی دینے لگیں۔ اور آپؑ نے پیاس کی حالت میں 120 سے زائد اشقیاء کو ہلاک کر ڈالا اور والد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔۔۔"۔ (19)

5.5۔ اہل بیتؑ کے اولین شہید

سیدالشہداء امام حسین (علیہ السلام) کے اصحاب با وفا نے جام شہادت نوش کیا اور خاندان رسالتؐ کی باری آئی تو جناب علی اکبر (علیہ السلام) پہلے ہاشمی تھے جو میدان میں اترے۔

سید ابن طاؤس اور ابن نما حلی روایت کرتے ہیں:

جب امام حسین (علیہ السلام) کے اصحاب میں سے کوئی باقی نہ رہا تو علی اکبر (علیہ السلام) جو اپنے زمانے کے خوبرو اور خوش سیرت مردوں میں سے تھے، باہر آئے اور بابا سے جنگ کی اجازت طلب کی، اور بابا نے اجازت دے دی۔ (20)

امام زمانہ (علیہ السلام) سے منسوب زیارت ناحیہ مقدسہ اور دوسری زیارات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ جناب علی اکبر (علیہ السلام) کربلا میں اہل بیت (علیہم السلام) کے پہلے شہید ہیں، فرماتے ہیں:

"السَّلامُ عَلَيكَ يَا أوَّلَ قَتيلٍ مِنْ نَسلِ خَيْرِ سَليلٍ مِن سُلالَةِ إِبْرَاهيمَ الْخَليلِ، صَلَّى اللّهُ عَلَيكَ وَعَلى أبِيكَ، إِذْ قَالَ فِيكَ: قَتَلَ اللّهُ قَوْماً قَتَلُوكَ، يَا بُنَيَّ مَا أجْرَأَهُم عَلَى الرَّحْمَنِ وَعَلَى انْتِهَاكِ حُرْمَةِ الرَّسُولِ! عَلَى الدُّنْيَا بَعْدَكَ العَفَا؛

سلام ہو آپ پر اے ابراہیم خلیل کی نسل کے بہترین وارث [امام حسین (علیہ السلام)] کے فرزندوں میں، سب سے پہلے مقتول، خدا کا درود ہو آپ پر اور آپ کے والد پر، جب آپؑ نے آپ کے بارے میں فرمایا: "خدا مار دے اس قوم [گروہ] کو جس نے آپ کو قتل کیا۔ میرے بیٹے کیا جرات کی ہے خدائے مہربان کے خلاف بغاوت کرکے، کیا گستاخی کی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حرمت کو پامال کرکے! اے میرے بیٹے دنیا پر اف ہے تمہارے بعد"۔ (21)

6۔ شہادت

انیسویں صدی کے ایرانی عالم اور مؤرخ محمد تقی سپہر نے "روضۃ الاحباب" کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھوں سے علی اکبر (علیہ السلام) کو جنگی لباس پہنایا، آہنی خود ان کے سر پر رکھ لی اور علی مرتضیٰ (علیہ السلام) کی چمڑے کا کمربند آپؑ کی کمر پر باندھا اور میدان جنگ کے لئے روانہ کیا۔ (22)

وفي كتاب روضة الأحباب: ان الحسين عليه السلام البس عليا بيده لامة حربه واسبغ عليه درعا ومغفرا من الفولاد والادم من بقية ما ترك علي المرتضى عليه السلام واركبه على العقاب ، فلمّا توجه نحو الميدان بكى الحسين عليه السلام بكاءا شديدا ، ورفع سبابته نحو السماء وقال : اللّهم إشهد على هؤاء القوم فقد برز إليهم غلام أشبه الناس خلقا

علی اکبر (علیہ السلام) میدان جنگ میں آئے تو پورا یزیدی لشکر آپؑ کے نورانی جمال سے مبہوت اور ہیبت زدہ ہو گیا۔ میدان پہنچے تو لشکر اشقیاء پر حملہ آور ہوئے اور آپؑ کی قوت بازو شجاعت حیدری کی یاد دلا رہی تھی، دشمن کے لشکر کو توڑ کر رکھ دیا۔ جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں ذکر ہؤا، آپؑ نے اتنے اشقیاء کو ہلاک کر دیا کہ لشکر یزید سے نالہ و شیوں اور فریاد و فغاں کی صدائیں سنائی دینے لگیں۔

مروی ہے کہ علی بن الحسین (علیہ السلام) کربلا میں شہید ہوئے تو امام حسین (علیہ السلام) اپنے لخت جگر کی صدا سن کر ایسے حال میں گھوڑے پر سوار ہوکر روانہ ہوئے کہ آپؑ کے عمامے کا پلو لٹک رہا تھا، اور انتہائی تیز رفتاری سے لشکر یزید کو چیر کر لوگوں کو منتشر کر دیا اور جب شبیہ پیغمبرؐ کے بالیں پر پہنچے، گھوڑے سے اترے، جسم مجروح کو سینے سے لگایا، بیٹے کا چہرہ اپنے چہرے سے لگایا اور فرمایا: "جہاں تک تمہارا کا تعلق ہے، بیٹا تو تمہیں دنیا کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے نجات مل گئی ہے، اور میں، بہت جلد تم سے آ ملوں گا"۔ (23) اور پھر بنی ہاشم کے نوجوانوں کو ہدایت کی کہ علی اکبر (علیہ السلام) کا جسم بے جان، قتل گاہ سے خیمہ گاہ میں منتقل کریں۔ (24)

۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ اسماعیلی یزدی، عباس، سحاب رحمت، ص452-449، قم، انتشارات مسجد مقدس جمکران، 1378، دوسرا ایڈیشن۔

2۔ دانشنامہ جهان اسلام، بنیاد دائرۃ المعارف اسلامی، مقاله «علی بن حسین»، ص5907؛ نیز دیکھئے سعید راشدی اور لطیف راشدی کی کتاب: حضرت علی اکبر از ولادت تا شہادت۔

3۔ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ج5، ص163۔ 

4۔ طبری، تاریخ طبری، ج11، ص520، بیروت، دار التراث، 1387ھ 

5۔ طبری، تاریخ طبری، ج11، ص629۔

6۔ قمی، شیخ عباس، نفس المہموم، ج1، ص284۔ 

7۔ اسماعیلی یزدی، عباس، سحاب رحمت، ص449۔

8۔ مقرم، عبدالرزاق، مقتل الامام الحسین، ج1، ص267۔ 

9۔ مقرم، عبدالرزاق، علی‌اکبر، ص12۔

10۔ مقرم، عبدالرزاق، مقتل الامام الحسین، ج1، ص267۔ 

11۔ طہرانی، آقا بزرگ، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، ج2، ص458، نشر اسماعیلیان، قم، 1408ھ 

12۔ کامل الزیارات، ابن قولویہ، ص53؛ بحار الانوار، ج43، ص271؛ صحیح البخارى فى الأدب المفرد (ج1، ص133، رقم 364)، سنن الترمذي (3775)؛ سنن ابن ماجہ (144)؛ مسند أحمد (17795)۔

13۔ الزمر-42۔

14۔ مقاتل الطالبیین، ابو الفرج اصفہانی، ص80؛ بلاغۃ الإمام علی بن الحسین (علیہ السلام)، جعفر عباس الحائری، ص250۔

15۔ اسماعیلی یزدی، عباس، سحاب رحمت، ص447، قم، انتشارات مسجد مقدس جمکران، 1378ھ ش، دوسرا ایڈیشن۔

16۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج45، ص43۔

17۔ دیکھئے: کامل الزیارات، ابن قولویہ قمی، 1417 مؤسسۃ نشر الفقاہۃ، ص416۔

18۔ محمد بن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوک، (الطبعۃ الثانیۃ، دار المعارف، مصر 1967ع‍)، ج5، ص408۔

19۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج45، ص43۔ 

20۔ سید بن طاووس، الملہوف علی قتلی الطّفوف، ج1، ص166؛ حلی، ابن نما، مثیرالاحزان، ص68۔ 

21۔ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص109؛ المشہدی، مجمد بن جعفر، المزار الکبیر [زيارۃ الشہداء(رض) فی یوم عاشوراء] (مؤسسۃ النشر الإسلامی، الطبعۃ الاولی 1419ھ)، ص487۔

22۔ سپہر، محمدتقى خان، ناسخ التواریخ (‫قم ‫ ـ مدین ، 1427ھ)، ج2، ص335۔

23۔ طریحی، فخرالدین بن محمد، المنتخب، ج2، ص315۔

24۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج45، ص44۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

ماخوذ ار: ویکی فقہ ـ فارسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110