اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
منگل

20 فروری 2024

1:17:59 PM
1439250

طوفان الاقصی؛

نیتن یاہو نے تل ابیب کو تباہی کے راستے پر کیسے ڈالا؟

نیتن یاہو کی جانب سے فلسطینیوں کی تذلیل نے شدت پسندی کو فروغ دیا؛ تاہم اسرائیلی عوام ہر گز نیتن یاہو کے سات اکتوبر کے [طوفان الاقصیٰ] آپریشن کے حوالے سے بے گناہ تصور نہیں کرتے۔ اس کی مقبولیت انتہائی نچلی حد تک گر چکی ہے اور اس نے ریاست کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، 7 اکتوبر [کو ہونے والا فلسطینیوں کا طوفان الاقصیٰ آپریشن] اسرائیل کی تاریخ کا بدترین سانحہ تھا۔ حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی کے بعد، اسرائیلی فوج نے انتہائی شدت سے جواب دیا۔ ہزاروں فلسطینیوں کو قتل اور غزہ کے تمام محلوں کو تباہ کر دیا۔ لیکن اسرائیل کو ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے جس پر وہ بھروسہ نہیں کر سکتا۔ نیتن یاہو نے حماس کو "تباہ" کرنے کا وعدہ دیا ہے لیکن اس کے پاس فوجی طاقت بروئے کار لانے کے علاوہ حماس کو تباہ کرنے کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے جبکہ جنگ کے بعد حماس کا متبادل پیش کرنے کیلئے بھی کوئی واضح منصوبہ نہیں پایا جاتا۔ "حکمت عملی" وضع کرنے میں اس کی ناکامی کوئی حادثاتی امر نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے اسرائیلیوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ قیام امن کے بغیر کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس نے بہت سے لوگوں کو اس بات پر بھی قائل کر لیا ہے کہ ملکی یا بین الاقوامی سطح پر کم قیمت چکا کر تمام فلسطینی علاقوں پر ہمیشہ کیلئے قبضہ جمایا جا سکتا ہے۔

7 اکتوبر کے حملوں نے ثابت کر دیا کہ نیتن یاہو کا وعدہ کھوکھلا تھا۔ "قیام امن کا مردہ عمل" اور دوسرے ممالک کی دلچسپی میں کمی کے باوجود فلسطینیوں نے اپنے مقصد کو زندہ رکھا ہؤا ہے۔ 7 اکتوبر کو حماس فورسز کی طرف سے ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں یہ نعرہ سنا جا سکتا ہے: “یہ ہماری سرزمین ہے!” یحییٰ سنوار نے کھل کر اس آپریشن کو "مزاحمت" قرار دیا اور کسی حد تک "نکبت" [اور لاکھوں فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کا واقعہ] اس کا ذاتی محرک ہے۔ 7 اکتوبر کے صدمے نے اسرائیلیوں کو ایک بار پھر یہ سمجھنے پر مجبور کر دیا کہ فلسطینیوں کے ساتھ تنازعہ ان کے تشخص کیلئے اہم ہے اور ان کی فلاح و بہبود کیلئے خطرہ ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور مسلسل قبضہ، مغربی کنارے میں یہودی بستیوں میں توسیع، غزہ کی ناکہ بندی، اور کسی بھی علاقائی سمجھوتے سے انکار اسرائیل کیلئے دیرپا سلامتی نہیں لائے گا۔

ناکام وعدہ

نیتن یاہو کا خیال تھا کہ وہ بحری اور اقتصادی ناکہ بندی، نئے تعینات میزائل اور سرحدی دفاعی نظام نیز حماس کے جنگجوؤں اور انفراسٹرکچر کے خلاف وقتاً فوقتاً فوجی حملوں کے ذریعے اس کی صلاحیتیں کنٹرول کر سکتا ہے۔ یہ آخری حربہ ـ جسے "چرنا" کہا جاتا ہے، "ٹکراو کی منیجمنٹ" اور موجودہ صورتحال برقرار رکھنے کے ساتھ ـ اسرائیل کی سیکورٹی ڈاکٹرائن بن گیا۔ نیتن یاہو کا خیال تھا کہ حکم فرما نظام مستحکم ہے۔ اس کے خیال میں یہ ایک اچھی بات تھی۔ ٹکراو کو بہت کم سطح پر برقرار رکھنا سیاسی لحاظ سے امن معاہدے سے کم خطرناک اور بڑی جنگ سے کم مہنگا ہوتا ہے۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک یوں دکھائی دیتا تھا کہ نیتن یاہو کی حکمت عملی موثر ہے۔ فلسطینی حملے کم از کم ہو گئے تھے۔ 2014ء میں حماس کے خلاف مختصر جنگ کو چھوڑ کر اسرائیلیوں کو فلسطینی عسکریت پسندوں سے تصادم کی بہت کم ضرورت محسوس ہوئی۔

مئی 2021ء میں ایک بار پھر تشدد پھوٹ پڑا۔ اس بار اشتعال دلانے والا اصل شخص دائیں بازو کا انتہاپسند سیاست دان ایتامار بن گویر تھا جو کھلے عام یہودی دہشت گردوں کو ہلہ شیری دیتا تھا۔ بن گویر نے مشرقی بیت المقدس کے ایک فلسطینی محلے میں "پارلیمانی دفتر" کھول رکھا تھا جہاں کچھ یہودی آباد کاروں نے قدیم دستاویزات کی مدد سے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا تھا۔ دوسری طرف فلسطینیوں نے وسیع پیمانے پر مظاہرے شروع کر دیے۔ مسجد الاقصیٰ میں سینکڑوں فلسطینی مظاہرین جمع ہوئے تو اسرائیلی پولیس نے مسجد پر کریک ڈاون کر دیا۔ اس کے نتیجے میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور تیزی سے اسرائیل کے مختلف شہروں میں پھیل گئی۔ حماس نے اس حملے کو بہانہ بنا کر مقبوضہ بیت المقدس پر راکٹ داغے جس کے بعد اسرائیل نے جوابی کاروائی کی اور جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

نیتن یاہو کی بغاوت

نومبر 2022ء کے اسرائیلی انتخابات میں نیتن یاہو نے دوبارہ اقتدار حاصل کیا۔ نئی کابینہ کی اہم شخصیات میں مغربی کنارے کے قوم پرست رہنما بزالل اسماتریچ اور بن گویر شامل تھے۔ نیتن یاہو، اسماتریچ اور بن گویر نے آرتھوڈوکس انتہاپسند یہودی جماعتوں کے تعاون سے ایک مطلق العنان اور تھیوکریٹک یہودی اسرائیل کا منصوبہ تیار کیا۔ مثال کے طور پر، کابینہ کی نئی ہدایات میں اعلان کیا گیا کہ "یہودی شہری اسرائیل کی پوری سرزمین پر ایک خصوصی اور ناقابل تنسیخ حق رکھتے ہیں" اور مقبوضہ فلسطین حتی غزہ کی پٹی پر بھی فلسطینیوں کے حق کو مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا۔ نئی کابینہ میں عدالتی اصلاحات کا بل منظور کر لیا گیا جو انتہائی خطرناک تھا۔ اس کے بعد ہر ہفتے لاکھوں اسرائیلی شہریوں کے احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا کیونکہ یہ نیتن یاہو کی جانب سے عدلیہ کے خلاف کھلی بغاوت تھی۔

حملے کے بعد

نیتن یاہو اور اسکے حامیوں نے 7 اکتوبر [کے طوفان الاقصیٰ آپریشن] میں اپنی شکست کی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کی۔ وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ وزیراعظم کو اپنے سکیورٹی اور انٹیلی جنس سربراہوں نے گمراہ کر دیا اور آخری لمحات تک انہیں غزہ میں جاری مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں خبردار نہیں کیا۔ لیکن فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی نااہلی چاہے کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو وزیراعظم کو بے قصور ثابت نہیں کر سکتی۔ جنگ سے پہلے اسرائیلیوں میں اختلاف ڈالنے پر مبنی نیتن یاہو کی نامعقول سیاست نے تل ابیب کو کمزور کر ڈالا تھا اور ایران کے اتحادیوں کو انتشار کا شکار اسرائیلی معاشرے پر ضرب لگانے کی ترغیب دلائی تھی۔ نیتن یاہو کی جانب سے فلسطینیوں کی تذلیل نے شدت پسندی کو فروغ دیا۔ اسرائیلی عوام ہرگز نیتن یاہو کے سات اکتوبر کے حملے میں بے گناہ تصور نہیں کرتے۔ اس کی مقبولیت انتہائی نچلی حد تک گر چکی ہے اور اس نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

بقلم: ایلف بن (چیف ایڈیٹر صیہونی اخبار ہارٹز)

۔۔۔۔۔۔

110

100 کلمه