اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
اتوار

18 فروری 2024

12:30:54 PM
1438706

طوفان الاقصی؛

سعودی - صہہیونی تعلقات کا قیام، حماس پر اسرائیل کی فتح ہے۔۔۔ اسحاق ہرزوگ

صہیونی ریاست کے صدر نے دعوی کیا کہ طوفان الاقصی کا ایک مقصد یہ تھا کہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان مذاکرات کو تعطل سے دوچار کرنا تھا، چنانچہ سعودیہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کا قیام حماس پر ہماری فتح کے مترادف ہے۔ / تجزیہ کاروں کے خیال میں، اسحق ہرزوگ کا یہ موقف در حقیقت، غزہ پر صہیونی جارحیت کی ناکامی کا اعتراف سمجھتے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، صہیونی ریاست کے صدر اسحق ہرزوگ نے سعودی عرب کے ساتھ صہیونی ریاست کے تعلقات کے [ممکنہ] قیام کو "حماس پر اسرائیل کی فتح" قرار دیا۔

جعلی صہیونی ریاست کے سربراہ نے یہ الفاظ میونخ سربراہ نے سینجر [17 فروری 2023ع‍] کی شام کو ادا کئے اور دعوی کیا کہ طوفان الاقصی کا ایک مقصد یہ تھا کہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان مذاکرات کو تعطل سے دوچار کرنا تھا؛ چنانچہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے حوالے سے ہونے والی بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھے گا تو یہ حماس پر ہماری فتح ہوگی!

واضح رہے کہ حماس کی عسکری شاخ "عزالدین قسام بریگیڈز" نے سینیچر 7 اکتبوبر [2023ع‍] کو، صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام، مسجد الاقصٰی کی مسلسل توہین اور اس کے محافظوں پر حملوں اور مغربی کنارے میں فلسطینی آبادیوں پر صہیونی فوج کے حمایت یافتہ صہیونی بستی نشینوں کے حملوں کے جواب میں طوفان الاقصٰی کا آغاز کیا تھا اور اس کے مقاصد میں سعودی-اسرائیلی مذاکرات کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔

صہیونی اخبار اسرائیلی ہیوم نے آج [اتوار 18 فروری 2024ع‍] ایک سفارتی ذریعے کے حوالے سے لکھا: صہیونی وزیر اعظم بنیامین یاہو ایک نئی امریکی تجویز کا جائزہ لے رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ "فلسطینی مملکت کو قائم کیا جائے اور اس کے عوض سعودی عرب تل ابیب کے ساتھ تعلقات قائم کرے"۔

واشنگٹن پوسٹ نے گذشتہ ہفتے جمعرات کو دعوی کیا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ اگلے چند ہفتوں میں مملکت فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اور نیتن یاہو نے نے جمعرات کی شب کو کچھ نرمی سے اور تاخیر کے ساتھ امریکی اقدام کو مسترد کیا۔

نیتن یاہو اور اس کے انتہاپسند رفقائے کار فلسطینی مملکت کے قیام کو مسترد کرتے ہیں اور فلسطین کا نام تک سننے کے روادار نہیں ہیں۔ وہ تو مغربی کنارے، غزہ اور 1948ع‍ کی فلسطینی اراضی کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کے درپے ہیں۔

ادھر سعودی وزارت خارجہ نے بھی حال ہی میں عرب-اسرائیلی امن کے عمل کے بارے میں ریاض اور واشنگٹن کے جاری مذاکرات پر اپنی وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ "تل ابیب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بارے میں ہم اپنے موقف پر قائم ہیں اور ریاض صرف اس وقت تل ابیب کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے گا جب 1967ع‍ سے قبل کی اراضی میں خودمختار فلسطینی ریاست قائم ہوگی، اس ریاست کا دارالحکومت مشرق بیت المقدس ہوگا"۔

چنانچہ صہیونی صدر اسحاق ہرزوگ کی خیال پردازیاں اس لحاظ سے بھی حماس کے مقابلے میں شکست کا اعتراف سمجھا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے تعلقات کی بحالی کو فلسطینی ریاست کی تشکیل سے مشروط کیا ہے جبکہ جعلی صہیونی ریاست ایسی ریاست کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے؛ جس کا مفہوم یہ ہوگا کہ "سعودی - صہیونی تعلقات کا قیام دور کی بات ہے۔ اور اس لحاظ سے بھی شکست کا اعتراف ہے کہ صہیونی ریاست نے غزہ پر حملہ کرتے ہوئے جن مقاصد کا اعلان کیا تھا وہ حاصل نہیں ہو سکے ہیں اور اب صہیونی صدر کو وہمیات کا سہارا لیتے ہوئے حماس کے خلاف فتح کی کوئی صورت نکالنا پڑ رہی ہے تاکہ اپنی تاریخی اور ناقابل تلافی شکست کو فتح میں سکے؛

جو بقول شاعر:

خیال است و محال است و جنون

۔۔۔۔۔۔۔

110