اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
اتوار

18 فروری 2024

10:55:05 AM
1438683

طوفان الاقصی؛

رفح پر صہیونی حملہ: بائیڈن نے ہری بنی دکھا دی

صہیونی حکام بھی معترف ہیں کہ اگر امریکہ اور برطانیہ نہ ہوتے تو صہیونی ریاست بین الاقوامی قوانین کو اس قدر بے شرمی سے پامال نہیں کر سکتی تھی، انسانیت کے خلاف اتنے سارے جرائم کا ارتکاب نہیں کر سکتی تھی اور بین الاقوامی رائے عامہ اور عالمی عدالت کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، واشنگٹن پوسٹ کی خبر تھی کہ جو بائیڈن اور ان کے معاونین غزہ پر جنگ کے آغاز سے،  پہلی بار نیتن یاہو کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کے قریب پہنچ گئے ہیں اور اسے مزید اپنا اتحادی نہیں سمجھتے۔ ان کے معاونین تو نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی سے مایوس اور اداس ہو گئے ہیں اور بائیڈن پر اس کے رفح پر ممکنہ حملے کے حوالے سے زیادہ واضح تنقیدی موقف اپنانے دباؤ ڈال رہے ہیں!

تجزیہ:

ان باتوں کو دوسرے ذرائع نے بھی دہرایا ہے لیکن غزہ میں نسل کشی کے حوالے سے امریکہ کی صہیونیوں کی حمایت پر مبنی تزویراتی پالیسی میں کسی تبدیلی کا اشارہ نہیں مل رہا ہے۔ یعنی یہ کہ بائیڈن اور نیتن یاہو فلسطینیوں کی نسل کشی پر متفق القول ہیں اور امریکہ ہی نسل کشی کے تمام وسائل صہیونی ریاست کو فراہم کر رہے ہیں؛ بات صرف یہ ہے کہ امریکہ کہتا کہ "دائرے میں رہ کر نسل کشی کرو جبکہ نیتن یاہو اندھادھند نسل کشی کو ترجیح دیتا ہے"۔ نیتن یاہو اقتدار میں رہنے کے لئے جنگ جاری رکھتا ہے اور بائیڈن اقتدار میں رہنے کے لئے زبانی کلامی ناراضگی کا اظہار کرتے ہيں۔

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بائیڈن کی مایوسی کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے حماس کے خاتمے کے لئے نیتن یاہو کو سب کچھ فراہم کیا لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہا۔

مورخہ 7 اکتوبر 2023ع‍ سے آج تک امریکی وزیر خارجہ نے سات مرتبہ خطے کا دورہ کیا ہے، اور بلنکن کے ہر دورے کے بعد غزہ پر صہیونی درندگی پہلے سے زیادہ شدت آئی ہے۔ بلنکن نے اپنے ساتویں دورے میں نیتن یاہو کو رفح پر حملے کے لئے ہری بتی دکھا دی؛ یہ حقیقت ہے اور اس کے سوا ہر امریکی موقف جھوٹ اور فریب ہے۔

دلچسپ نکتہ یہ ہے بائیڈن کبھی کبھار نیتن یاہو کو مورد تنقید ٹہرا دیتے ہیں اور حال ہی میں جب نیتن یاہو نے 14 لاکھ فلسطینی کی پناہ گاہ ـ یعنی رفح شہر ـ پر حملہ کیا تو بائیڈن نے بظاہر ایک تنقیدی بیان جھاڑ دیا۔ لیکن اسی وقت وہ صہیونی ریاست کی فوجی امداد روکنے یا اس پر شرائط عائد کرنے کی عوامی مہموں کو اس بہانے مسترد کرتے ہیں کہ اس سے "اسرائیل کے دشمنوں" کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اور ساتھ ہی 14 ارب ڈالر کی امداد کی فراہمی کے بل کو فوری طور پر منظور کرانے کے لئے کانگریس پر دباؤ ڈال رہے ہیں!

رفح پر صہیونی کے حملے پر بائیڈن انتظامیہ کی تنقید اور بائیڈن ـ نیتن یاہو کے مبینہ جھگڑے اور اس جھگڑے کے تعلقات کے منقطع ہونے تک آگے بڑھنے کے سلسلے میں امریکی ذرائع کی تشہیری مہم کے برعکس، بائیڈن نے کل ہی نیتن یاہو سے رابطہ کرکے کہا ہے کہ "رفح پر حملہ کرنا ہو تو کر لو لیکن نقشے اور قابل عمل منصوبے کے بغیر نہیں!"۔ 

دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ بائیڈن جانتے ہیں کہ رفح اس وقت 14 لاکھ بے گھر انسانوں کی پناہ گاہ بنا ہؤا ہے، جن کی اکثریت کا بسیرا خیموں میں ہے اور انہیں کافی مقدار میں آب و دانہ اور ادویات میسر نہیں ہیں، لیکن انھوں نے نیتن یاہو کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے اس کو رفح پر حملے سے نہیں روکا اور صرف کہا کہ "یہ حملہ منصوبہ بندی کے ساتھ ہونا چاہئے اور ہاں یہ بھی کہا کہ ان 14 لاکھ افراد کا بھی خیال رکھنا!"، جیسا کہ اس نے 22 لاکھ افراد کی آبادی پر مشتمل "غزہ" کا خیال رکھا ہے!!

ہر آنے والی خبر سے واضح تر ہو رہا ہے کہ بائیڈن نے نیتن یاہو کو رفح پر حملے کے لئے ہری بتی دکھائی ہے، اور یہ حملہ در حقیقت یہودی ریاست، امریکہ اور برطانیہ کا مشترکہ حملہ ہے اور امریکہ اور برطانیہ اس تاریخی نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں؛ کیونکہ دنیا بھی جانتی ہے اور صہیونی حکام بھی معترف ہیں کہ اگر امریکہ اور برطانیہ نہ ہوتے تو صہیونی ریاست بین الاقوامی قوانین کو اس قدر بے شرمی سے پامال نہیں کر سکتی تھی، انسانیت کے خلاف اتنے سارے جرائم کا ارتکاب نہیں کر سکتی تھی اور بین الاقوامی رائے عامہ اور عالمی عدالت کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110