اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعہ

16 فروری 2024

8:25:08 PM
1438295

طوفان الاقصیٰ؛

فتح کے حوالے سے آج پہلے سے کہیں زیادہ پر امید ہوں/ غزہ میں اسرائیل امریکی احکامات پر عمل کر رہا ہے۔۔۔۔ سید حسن نصر اللہ

حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے کہا: مقاومت کی بنیادی خصوصیات میں سے ایک ہے کہ اس کے قائدین اور بزرگان اس کے اہداف کے حصول کی راہ میں خود شہید ہوجاتے ہیں یا ان کے اہل خانہ جام شہادت نوش کر جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا: "فتح و کامیابی کے حوالے سے آج پہلے سے کہیں زیادہ پر امید ہوں"۔ / اصل مجرم امریکہ اور اسرائیل صرف امریکی احکامات پر عمل کرتا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، حزب اللہ کے سابق سیکریٹری جنرل شہید سید عباس موسوی کو یوم شہادت کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا: "فتح و کامیابی کے حوالے سے آج پہلے سے کہیں زیادہ پر امید ہوں، مجھے فتح کا یقین ہے"۔

حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حس نصر اللہ نے کہا:

اپنے شہید قائد سید عباس موسوی اور دوسرے شہید راہنماؤں کو خراج تحسین و عقیدت پیش کرتے ہیں، انہیں اپنے دوش بدوش دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، اور ان کی موجودگی ہمارے صحیح موقف اور راہ و روش کے تعین میں ہماری راہنمائی کرتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر حزب اللہ کے شہید راہنما آج بقید حیات ہوتے تو ان کا موقف کیا ہوتا؟ کیا وہ ان حالات میں غیر جانبدار رہتے یا ان کا موقف مظلوموں کی حمایت اور دشمن پر دباؤ بڑھانے سے عبارت ہوتی؟

سید عباس موسوی اورشیخ راغب حرب کی صدا آج پہلے سے کہیں زیادہ سنائی دے رہی ہے اور لگتا ہے کہ الحاج عماد مغنیہ آپریشن روم میں موجود ہیں۔

راہ مقاومت کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے علماء، راہنما اور کمانڈر شہید ہوجاتے ہیں، کبھی وہ اہل خانہ کے ساتھ جام شہادت نوش کرتے ہیں چنانچہ جو بھی اس راستے میں قدم رکھتا ہے شہادت اور جان فشانی کے لئے تیار رہتا ہے۔

یقینا یہ جان فشانیاں نہ تو جذبات پر استوار ہیں نہ ہیرو بننے کی خواش پر اور نہ ہی انفعالیت پر، بلکہ یہ آگہی، بصیرت، اہداف و مقاصد اور خطرات اور فرصتوں کی شناخت نیز مختلف صورتوں کے جائزوں پر استوار ہیں۔

دشمن سمجھتا ہے کہ ہمارے راہنماؤں اور مجاہدین کو قتل کرکے یا ـ امام موسی صدر اور ان کے دو رفقاء کی طرح ـ انہیں اغوا کرکے ہمیں پسپائی پر مجبور یا ہمیں کمزور کر سکے گا، یا اگر وہ ایسا کرے تو ہم اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کریں گے، لیکن یہ واقعہ کبھی بھی رونما نہیں ہوگا۔ 

ہم غزہ پر جنگ مسلط کرنے کے بعد سے دشمن کو شمالی فلسطین میں مصروف کرنے اور ان کی طاقت کو بانٹنے کی غرض سے غاصب ریاست کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور جب تک غزہ کے خلاف جنگ جاری رہے گی ہمارے حملے بھی جاری رہیں گے۔ ہم صہیونی فوج کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ 

حال ہی میں غاصب ریاست نے نبطیہ اور الصوانہ کے رہائشی علاقوں پر بمباری کی ہے جو ایک نیا واقعہ ہے اور اس کا سد باب کرنا چاہئے۔

صہیونیوں نے جان بوجھ کر ان دو علاقوں میں عام اور نہتے شہریوں پر حملے کئے، کیونکہ اسرائیل نہتے شہریوں پر بمباری نہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اس نے نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا۔

حزب اللہ ایک 100 کلومیٹر طویل محاذ میں لڑی جانے والی جنگ کے مرکز میں موجود ہے اور ہمارے مجاہدین کی شہادت بھی اس جنگ کا حصہ ہے لیکن جب غیر فوجیوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ مسئلہ حزب اللہ کے لئے بہت حساس ہو جاتا ہے۔

صہیونی ریاست کو ایک انتباہ

غاصب ریاست جان لے کہ حزب اللہ عام شہریوں پر حملوں کو برداشت نہیں کرتی اور دشمن کو جان لینا چاہئے کہ اس قسم کے حملوں سے اسے اجتناب کرنا چاہئے۔

غیر فوجی شہریوں کو نشانہ بنانے سے صہیونیوں کا مقصد مقاومت پر دباؤ لانا ہے، مقصد یہ ہے کہ حزب اللہ دشمن پر دباؤ نہ ڈالے، لیکن اس جنکی جرم کا جواب یہ ہے کہ ہم جنگ کا دائرہ وسیع تر کریں گے۔

ہم نے کریات شمونہ [قریات شمعونہ] پر فلق میزائلوں سے حملہ کیا جو کہ نبطیہ اور الصوانہ پر غاصب صہیونیوں کے حملے کے جواب کا پہلا مرحلہ تھا؛ ہمارے پاس ایسے میزائلوں کی تعداد کی کمی نہیں ہے جن سے ہم مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں واقع شہر اور بندرگاہ "ایلات" کو بآسانی نشانہ بن سکتے ہیں۔

دشمن کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی قیمت!

ہم لبنان اور خطے میں مقاومت کے مخالفین کی تشہیری مہم اور نفسیاتی کاروائیوں کو مسترد کرتے ہیں اور یاددہانی کراتے ہیں کہ دشمن کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور اس کی شرائط تسلیم کرنے کی قیمت ناقابل تصور، انتہائی خطرناک اور تقدیر ساز ہوتی ہے۔

ہتھیار ڈالنا اور سر تسلیم خم کرنا یعنی ذلت، غلامی، اور چھوٹی اور بڑی حقارت؛ کیا یہ ذلت و خفت نہیں ہے کہ دو ارب مسلمانوں پر مشتمل درجنوں مسلم ممالک غزہ کے عوام کے لئے اشیائے خورد و نوش اور ادویات تک فراہم کرنے سے عاجز ہیں؟!

سات اکتوبر سنہ 2023ع‍ کی طوفان الاقصیٰ کاروائی کے بعد سے، حماس تحریک کے خلاف وسیع پیمانے پر نفسیاتی جنگ اور تشہیری و ابلاغیاتی مہم چلائی جا رہی ہے، اسرائیلی ریاست حماس کے خلاف جھوٹے دعوے کرتی رہی ہے لیکن اس کے پاس اپنے ایک جھوٹ کو بھی سچ ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ یقینا کسی وقت اگر طوفان الاقصیٰ کے سلسلے میں تحقیقات کی جائیں تو نیتن یاہو اور بائیڈن کے اخلاقی اور قانونی وہ عمارت زمین بوس ہو جائے گی جس کا وہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔

حماس پر لگائے گئے صہیونی اور امریکی الزامات مقاومت کے خلاف انتہائی بھونڈے فریب اور توہین کے زمرے میں آتے ہیں۔

غزہ پر مسلط کردہ صہیونی جنگ کے بارے میں امریکی موقف اور بیانات دنیا بھر میں منافقت اور ریا کاری کا بدترین مظہر ہیں۔

ہم آج بھی کہتے ہیں کہ اگر امریکہ اپنی اسرائیل کی سیاسی، مالی اور فوجی حمایت بند کرے تو نیتن یاہو نہ چاہتے ہوئے بھی جنگ بند کرے گا۔

آج امریکہ اسرائیل سے کہیں زیادہ، حماس کی نابودی پر اصرار کر رہا ہے اور خطے میں گرنے والے خون کی ہر بوند کا ذمہ دار امریکہ ہے کیونکہ اسرائیل صرف امریکی احکامات پر عمل کرتا ہے۔

غزہ پر مسلط کردہ جنگ سے غاصب اسرائیلی ریاست کا اصل مقصد فلسطینیوں کو جبری نقل مکانی پر مجبور کرنا اور "خالص یہودی ریاست" قائم کرنا ہے، وہ غزہ کے عوام کو مصر، مغربی کنارے کے عوام کو اردن اور سنہ 1948ع‍ کی فلسطینی حدود میں رہنے والوں کو لبنان کوچ کروانا چاہتی ہے۔

حماس فلسطین میں تمام مقاومتی محاذوں کی نمائندگی کرتی ہے اور خطے میں مقاومت کا اصل مقصد بھی یہ ہے کہ غزہ کی مدد کرے، دشمن کو اعلان کردہ مقاصد تک پہنچنے میں شکست سے دوچار کرے، پورے خطے میں مقاومتی محاذ کا مقصد حماس اور فلسطینی مقاومت کی لاجسٹک اور فوجی پشت پناہی ہے۔

فلسطینی جماعتوں کے باہمی مذاکرات

فلسطین کی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی باہمی بات چیت کا مسئلہ، فلسطینی کا اندرونی معاملہ ہے اور حزب اللہ اس مسئلے میں مداخلت نہیں کرتی۔

اگلے سرحدی مذاکرات میں حزب اللہ لبنان کا مطالبہ

لبنان میں مقاومت کا اسلحہ لبنانی عوام کی حمایت کے لئے ہے، نہ کہ لبنان میں سیاسی نظام یا آئین میں تبدیلی کے لئے، اور نہ ہے حکومت میں حصہ مانگنے کے لئے۔ ہمارا اسلحہ لبنان کے تحفظ کے لئے ہے۔

سرحدی مذاکرات

مذاکرات ہو چکے ہیں، سرحدوں کا تعین ہو چکا ہے، اور اگلے مذاکرات ایک نکاتی ہونگے اور وہ یہ "ہماری لبنانی سرزمین سے نکل جاؤ"۔ ہماری مقاومت کی لغت زندگی اور عزت کی لغت ہے نہ کہ ذلت اور تسلیم کی لغت۔

۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔

110