اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : سہارا ہند
جمعہ

9 فروری 2024

8:52:14 PM
1436418

اسرائیل کی بڑھتی جارحیت اور لہولہان انسانیت

ایک طرف اسرائیل غزہ میں اپنی تباہ کن فوجی کارروائی کو روکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور دوسری جانب وہ یہ بھی توقع کررہا ہے کہ مسلم دنیا اورانصاف پسند لوگ اس کو گلے لگائیں گے۔ امریکہ کے وزیرخارجہ انٹونی بلینکن اسرائیل کا 7واں دورہ کرکے واپس گھر آگئے ہیں۔ وہ اپنی پروردہ ریاست کے بے لگام حکمراں بنجامن نیتن یاہو کو جنگ بندی کے لیے راضی نہیں کرپائے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

ایک طرف اسرائیل غزہ میں اپنی تباہ کن فوجی کارروائی کو روکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور دوسری جانب وہ یہ بھی توقع کررہا ہے کہ مسلم دنیا اورانصاف پسند لوگ اس کو گلے لگائیں گے۔ امریکہ کے وزیرخارجہ انٹونی بلینکن اسرائیل کا 7واں دورہ کرکے واپس گھر آگئے ہیں۔ وہ اپنی پروردہ ریاست کے بے لگام حکمراں بنجامن نیتن یاہو کو جنگ بندی کے لیے راضی نہیں کرپائے۔

انہوں نے آج شام ختم ہونے و الے اپنے دورے میں جب اسرائیل کے صدر ہرزوگ سے ملاقات کی تو ان کا لہجہ غیر مصالحانہ نظرآیا۔ اس سے قبل بنجامن نیتن یاہو نے حماس کی طرف سے جنگ بندی کی شرائط قبول کرنے سے انکارکردیا اور افواج کو حکم دیا کہ وہ رفح کی طرف پیش قدمی کی تیاری کریں۔ ظاہر ہے کہ رفح کی طرف پیش قدمی کا مطلب مصر سے ملی ہوئی سرحد میں وہی تباہ مچانا ہے جو غزہ کے دوسرے علاقے میں مچایا جا چکا ہے جس میں لا کھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر اور ہزاروں لوگوں کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ محض چار ماہ کی قلیل مدت میں اسرائیل نے انسانیت کو ان صدمات سے دوچار کیا ہے جن کی نظیر نہیں ملتی۔

ظاہرہے کہ اسرائیلی ریاست ایک چھوٹی سی نومولود ریاست ہے جس کی بہت بڑی آبادی یورپ اور امریکہ وغیرہ سے بلا کر مقبوضہ فلسطین میں بسائی گئی ہے اور اسے اسرائیل کا نام دیا گیا ہے، چنانچہ اگر اسے امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کی سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو اس کی اتنی بساط نہیں ہوسکتی تھی۔ اس وقت غزہ میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں اور اسرائیلی وزیراعظم کو توقع ہے کہ سعوی عرب ان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے گا۔

گذشتہ روز امریکی دفتر خارجہ کی طرف سے ایک بیان سامنے آیا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اس قتل وغارت گری کے باوجود سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ روابط استوار کرنے کے لیے راضی ہے۔

ایک امریکی ترجمان کربی نے ایک پریس کانفرنس میں اس قسم کی تاثر دینے کی کوشش کی تو سعودی عرب نے واضح کردیا کہ جب تک اسرائیل آزاد فلسطینی ریاست قیام کے لیے راضی نہیں ہوجاتا تب تک اس کے ساتھ روابط کا قیام ممکن نہیں ہے۔

سعوی عرب کے دفتر خارجہ نے ایک طویل بیان جاری کرکے وضاحت کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں اور مذاکرات شروع ہوسکتے ہیں، مگر پہلی شرط ہے کہ اسرائیل جنگ بندی شروع کرے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ نتین یاہو جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتا۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ خانگی میدان میں نیتن یاہو کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کا ایک محاذ جنگ بندی کے انتظار میں بیٹھا ہوا ہے۔ ہر ہفتے کے آخری ایام میں اسرائیل میں بڑی شدت کے ساتھ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں ان مظاہروں میں وہ یہودی خاندان بھی شامل ہیں جن کے لواحقین کو حماس نے قید کر دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نتین یاہو کے اسی طرز عمل کی وجہ سے ان تمام ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے رشتے ختم ہوچکے ہیں جو مصالحتی کوششوں میں مصروف تھے۔ ان میں سب سے اہم نام مصر اور قطر کا ہے۔ نیتن یاہو کے طرز عمل سے دونوں ملک ناراض ہیں اور انہوں نے ان کوششوں سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب امریکی وزیر خارجہ بھی ہاتھ جھاڑ کر واپس اپنے ملک آگئے ہیں۔

یہ صورت حال اس خطے کو مزید تباہی میں مبتلا کرے گی۔ اس کا نقصان امریکہ کو ہوگا ۔ امریکہ کو اندازہ ہے کہ یہ جنگ صدر امریکہ جو بائیڈن کی مقبولیت اور انتخابات جیتنے کے امکانات کو نقصان پہنچائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110