اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

7 فروری 2024

4:30:49 PM
1436037

کیا بعثت نبوی(ص) صرف قریشیوں کے لئے تھی جس کو بعد میں توسیع دی گئی؟

کیا یہ دعوی درست ہے کہ پیغمبر اکرم | ابتداء میں صرف قریش کو ہدایت دینا چاہتے تھے لیکن جب آپ (ص) کو اپنے مشن میں کامیابی ملی تو آپ (ص) نے اپنی دعوت عرب اور غیر عرب اقوام تک عام کردی؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق 

سوال:

کیا یہ دعوی درست ہے کہ پیغمبر اکرم | ابتداء میں صرف قریش کو ہدایت دینا چاہتے تھے لیکن جب آپ (ص) کو اپنے مشن میں کامیابی ملی تو آپ (ص) نے اپنی دعوت عرب اور غیر عرب اقوام تک عام کردی؟

جواب:

یہ ایک الزام اور بہتان سے زیادہ کچھ نہيں ہے اور نہ صرف اس کی کوئی تاریخی دلیل نہیں ہے بلکہ پیغمبر اکرم | پر نازل ہونے والی ابتدائی آیات میں مقررہ اصولوں اور بیان شدہ قرائن سے بھی متصادم ہیں۔ اس سوال کا جواب دینے کے لئے ذیل کے نکات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے:

1۔ پیغمبر اکرم | بعثت کے بعد مرحلہ وار دعوت پر مأمور تھے۔ آپ (ص) نے ابتدائی تین سال مکہ میں اپنی دعوت خفیہ رکھی اور اس کے بعد اپنی دعوت آشکار کردی اور پہلے قدم کے طور پر آیت کریمہ {أَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ} "اور اپنے قریبی خاندان والوں کو اندیشہ عذاب سے باخبر کیجئے" (1)، کے نازل ہونے کے بعد خداوند متعال نے آپ (ص) کو حکم دیا کہ ابتداء میں اپنے خاندان اور اقرباء کو اندیشۂ عذاب سے باخبر کردیں اور اس کے بعد خصوصی مجالس اور ملاءِ عام میں سب کو اسلام کی دعوت دیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپ (ص) مدینہ تشریف لے گئے تو اپنی دعوت کو عام کردیا۔ [مکہ میں مشرکین قریش نے کلی طور پر اسلام کو مسترد کردیا تھا اور تھوڑے سے لوگ جو ایمان لائے تھے، حبشہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے چنانچہ آپ (ص) مدینہ چلے گئے اور اسلامی دعوت کو "مکہ میں نہیں بلکہ مدینہ میں" دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ملی اور یہ خود اس دعوے کی عملی تردید ہے کہ آپ (ص) قریش کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے]۔ 2. پیغمبر | {رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ} (2) کا مصداق تھے اور آپ (ص) کو قوم عرب و حجاز کی ہدایت سے برتر و بالاتر ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

پیغمبر خدا | ابتدائے نبوت سے ہی مسلمانوں کو قیصر و کسری کے خزانوں پر دسترس حاصل کرنے کا وعدہ دے چکے تھے اور اسی مکہ میں ہی مشرکین قریش ننگے پاؤں غریب مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہوئے طعنہ زنی کے لہجے میں "قیصر و کسری کے وارث" کہہ کر پکارتے تھے۔ (3)

3. مدینہ میں اسلام کی تیز رفتار نشوونما اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ اسلامی دعوت کا رنگ کسی طور بھی قومی و قبائلی اور خاص طور پر قریشی، نہیں تھا؛ بلکہ ایک عام الہی دعوت تھی جس کا دنیا بھر میں پاک طینت انسانوں نے خیر مقدم کیا۔

4. رسول اللہ | نے ایران، روم اور مصر سمیت اپنے زمانے کے مختلف ممالک کے حکمرانوں اور بادشاہوں کو دعوت نامے بھجوائے اور ان دعوت ناموں میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر | کی دعوت آفاقی اور عالمی تھی۔ رسول اللہ | نے صلح حدیبیہ کے بعد اپنے زمانے کے بڑے بڑے حکمرانوں، بادشاہوں، عیسائی مذہبی راہنماؤں، جزیرةالعرب اور شام کے مختلف علاقوں  میں سکونت پذیر مشہور قبائل کے سربراہوں کو اسلام کی دعوت دی۔ (4)

5۔ قرآن مجید میں ایسی آیات ہیں جو ابتدائے بعثت میں ہی مکہ معظمہ میں نازل ہوئی ہیں لیکن وہ آفاقی اور عالمی پہلو کی حامل ہیں۔

سورہ تکویر مکی سورت ہے جو بعثت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔ اس سورت کی ایک آیت میں ارشاد ہوتا ہے: {إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ} (5)؛ "یہ نہیں ہے مگر ایک نصیحت تمام دنیا جہاں کے لئے"۔

خداوند متعال سورہ سبا میں ـ جو ایک مکی سورت ہے ـ ارشاد فرماتا ہے: {وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يعْلَمُونَ} (6)؛ "اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا ہے مگر تمام نوع انسانی کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر لیکن زیادہ تر لوگ جانتے نہیں"۔ نیز سورا انبیاء (مکیہ) میں ارشاد فرماتا ہے: {وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يرِثُهَا عِبَادِي الصَّالِحُونَ} (7)؛ "اور بے شک ہم نے ذکر (تورات) کے بعد زبور میں بھی یہ لکھ دیا ہے کہ زمین کے ورثہ دار میرے نیک بندے ہوں گے"۔ سورہ اعراف (مکیہ) میں ارشاد ہوتا ہے: {يا أَيهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيكُمْ جَمِيعًا} (8)؛ "اے انسانو ! میں تم سب کی طرف بھیجا ہوا اللہ کا پیغمبر ہوں"۔

6. قرآن میں آپ کو کہیں بھی "یا ایها العرب" یا "یا ایها القرشیون" جیسے خطابات نہيں ملتے۔ ہاں! بعض مقامات پر "یا ایها الًذین آمنوا" جیسے خطابات ملتے ہیں اور ان آیات میں خداوند قدوس اہل ایمان اور مؤمنین ـ بالخصوص رسول خدا | پر ایمان لانے والے مؤمنین ـ سے متعلق موضوعات بیان کررہا ہے اور مؤمنین کے درمیان کوئی فرق نہيں ہے بلکہ مؤمن جس قوم و ملت سے بھی ہو، اس خطاب میں شامل ہے ورنہ دوسرے خطابات میں ـ جہاں خداوند متعال عام انسانوں سے بات کرتا ہے وہاں "یا ایها الناس" کا خطاب ہے۔

7۔ اسلامی تعلیمات کی عالمگیریت پر تاکید کرنے کے لئے ان آیات سے استناد کیا جاسکتا ہے جن میں دین اسلام کی قبولیت کے حوالے سے عرب باشندوں سے "تعزز" اور بے اعتنائی کا پتہ ملتا ہے۔ ان آیات کا مضمون یہ ہے "اسلام کو تمہاری کوئی ضرورت نہيں ہے؛، فرضاً اگر تم اسلام قبول نہ کرو تو دنیا میں دوسری اقوام ہیں جو دل و جان سے اسلام کو قبول کریں گے۔ ان آیات کے مجموعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم، اسلام قبول کرنے کے لئے دوسری اقوام کے جذبات و احساسات کو قوم عرب سے زیادہ آمادہ اور مہیا سمجھتا ہے۔ یہ آیات اسلام کی عالمگیریت کو ثابت کردیتی ہیں؛ حضرت حق تعالی سورہ انعام میں ارشاد فرماتا ہے: {فَإِن يكْفُرْ بِهَا هَـؤُلاء فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيسُواْ بِهَا بِكَافِرِينَ} (9)؛ "اب اگر یہ لوگ اس کے ساتھ کفر اختیار کرتے ہیں تو ہم نے اسے حوالے کیا ہے ایسے لوگوں کے جو اس کے ساتھ کفر نہیں برتیں گے(اور اس پر ایمان رہیں گے)"۔

---------------------------------

حوالہ جات:

(1) شعراء (26)، آیه 214.

(2) انبیاء (21)، آیه 107.

(3) سیره رسول خدا، ص 596.

(4) ر. ك: علی احمدی میانجی، مكاتیب الرسول.

(5) تكویر (81)، آیه 27.

(6) سبأ (34)، آیه 28.

(7) انبیاء (21)، آیه 105.

(8) اعراف (7)، آیه 158.

(9) انعام (6)، آیه 89.

ماخذ: محمد باقر پور امینی و همكاران، پیامبر اعظم، سیره و تاریخ، پرسش ها و پاسخ های دانشجویی، قم: نهاد نمایندگی مقام معظم رهبری در دانشگاه ها، دفتر نشر معارف، 1385.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110