اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
اتوار

14 جنوری 2024

9:49:41 PM
1429388

ظوفان الاقصی؛

غزہ 100 دن گذرنے کے باوجود جم کر کھڑا ہے، اسرائیل کو منہ کی کھانا پڑی ہے/ بحیرہ قلزم میں دشمن کی معیشت پر بڑی ضرب / امریکہ دھمکیوں سے یمن کا محاذ نہيں روک سکتا / مقاومت کے حملے روکنے کے لئے شرط۔۔۔ سیدحسن نصراللہ

سیکریٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا: غزہ 100 روز گذرنے کے باوجود بدستور جم کر کھڑا ہے اور اسرائیل اس عرصے میں منہ کی کھانا پڑی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کے سینیئر کمانڈر وسام حسن الطویل، المعروف بہ "الحاج جواد" کی شہادت کے ساتویں روز، خطاب کرتے ہوئے کہا: "خربہ سلم" کے قصبے سے بہت سارے جوان مقاومت میں شامل ہوئے ہیں جن میں دسوں افراد جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ الحاج جوان بھی اپنے شہید بھائیوں سے جا ملے ہیں، ہم اس طرح کے مؤمن اور مجاہد گھرانوں کے بیچ رہ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا:

بعض بہت سے گھرانے ایسے ہیں جنہوں نے تین یا تین سے بھی زیادہ شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا اور کہتے ہيں کہ مقاومت کے اگلے مورچوں میں مزید قربانیاں دینے کے لئے تیار ہیں۔

شہید وسام الطویل غزہ پر صہیونی جارحیت کے پہلے دن سے ہی [مقبوضہ فلسطین کے شمالی اور لبنان کے] جنوبی محاذ پر ہمارے بنیادی کمانڈروں میں شامل تھے۔ وہ 15 سال کی عمر سے حزب اللہ میں شامل ہوئے تھے، شام میں داعش کے خلاف لڑی ہونے والی جنگ میں مقاومت کے کمانڈروں میں سے ایک تھے، ہمیں فختر ہے کہ ہم اس جنگ کا حصہ تھے اور ہم ہر روز ہمارا یقین اپنے موقف کی درستی پر پختہ سے پختہ تر ہؤا ہے۔

داعش شام کی حکومت اور عوام کے لئے بہت بڑا خطرہ تھی اور عراق میں بھی اس نے سب سے زیادہ انسانوں کو قتل کیا، داعش کا بانی امریکہ تھا اور چند روز قبل الحاج قاسم سلیمانی کے مزار کے قریب داعش ہی نے دھماکے کرکے 100 کے قریب بے گناہ انسانوں کو شہید کر دیا۔ داعش لبنان اور لبنانی عوام کے لئے بہت بڑا خطرہ، سمجھی جاتی تھی، اور الحاج جواد ان سب سے بڑے کمانڈروں میں سے ایک تھے جنہوں نے داعش کے خلاف جدوجہد کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزہ پر مسلط کردہ جنگ کا آج سواں دن تھا، غزہ 100 روز قبل صہیونی ریاست کی جارحیت کے بعد سے اس ریاست کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے، اور بدستور جم کر کھڑی ہے لیکن غاصب اسرائیل اس مدت کے دوران شکست سے دوجار ہوئی ہے۔

غزہ کے عوام نہ شکست کھائیں گے اور نہ ہی ہتھیار ڈالیں گے، فلسطینی مقاومت کی تمام تنظیمیں بے جگری سے لڑ رہی ہیں۔ معرکۂ طوفان الاقصی کے ناظرین و مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیل جنگ کی خبروں پر شدیدترین سینسرشپ لاگو کر دی ہے۔

فوجی مبصرین اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل اس جنگ میں "گہرے گھڑے" میں گر چکا ہے اور اب اس سے نکلنے سے عاجز ہے؛ سوال یہ ہے کہ دشمن نے ان 100 دنوں کے دوران بچوں اور خواتین کے قتل عام کے سوا کونسی کامیابی حاصل کی ہے؟

ان دنوں صہیونی 100 دن کے بعد، دعوی کر رہے ہیں کہ وہ تیسرے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں اور شمالی غزہ سے پسپائی بھی اس مرحلے میں شامل ہے، اور صہیونیوں کی پسپائی کے بعد حماس اور اسلامی جہاد کے مجاہدین نے ان علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا، تو یہ پسپائی صہیونیوں کے لئے کیونکرایک کامیابی سمجھی جا سکے گی [اور یہ کیسا تیسرا مرحلہ تھا]؟ اسرائیل مقاومت کو ختم نہیں کر سکا؛ اور اس وقت پورے شمالی غزہ میں حماس کی رٹ (writ) قائم ہے. اسرائیل مجاہدین کے میزآئل حملوں کو نہیں روک سکا، اور وہ ایک قیدی بھی رہا نہیں کروا سکا۔ المختصر صہیونی دشمن کی فوج ان 100 دنوں میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ [اسرائیل ناکام ہو گیا]۔

لبنان، شام، عراق اور یمن سے بھی مقاومت کے مجاہدین نے مقبوضہ فلسطین میں صہیونی ٹھکانوں پر حملے کئے ہیں۔ بعض صہیونی ذرائع کا کہنا ہے کہ 4000 اسرائیلی فوجی ان 100 دنوں کے دوران معذور ہو گئے ہیں، اور شاید معذوروں کی تعداد 30000 تک پہنچ سکتی ہے، لہذا اگر معذوروں کی تعداد اس حد تک پہنچی ہے سوال اٹھتا ہے کہ تو پھر زخمیوں کی تعداد کتنی ہوگی؟ یہ وہ لوگ ہیں لڑنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ اور پھر سوال اٹھتا ہے کہ تو پھر ہلاک شدگان کی تعداد کتنی ہوگی؟

صہیونی ریاست اپنے اعلان کردہ اہداف میں سے ایک ہدف بھی حاصل نہیں کر سکی ہے۔ صہیونی فوح کو جن نقصانات اور المیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، ان کی کمیت کا اندازہ جنگ کے بعد ہی لگایا جا سکے گا۔

اسرائیل اپنی فوج کی ہلاکتوں کا اعتراف نہیں کرتا اور حقیقی اعداد و شمار کو سینسر کرتا ہے؛ لیکن بہر حال صہیونیوں کی نصف آبادی کو نفسیاتی طور پر دھچکا لگا ہے اور وہ علاج معالجے کے محتاج ہیں۔ اسرائیلی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

دشمن کی بندرگاہوں کو پہنچنے والے نقصانات

بحیرہ قلزم (Red Sea) کے واقعات نے دشمن کی معیشت اور بندرگاہوں کو بے تحاشا نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری طرف سے ہیگ کی عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے جس نے اس کی تصویر کو بگاڑ کر رکھ دیا اور مغرب اور امریکہ کی اخلاقی گراوٹ کو مجسم کرکے دکھایا، جو اس ریاست کا حامی ہے۔

ان 100 دنوں میں صہیونی ریاست کو پہنچنے والے نقصانات کا سامنے آنا ضروری ہے تکہ ہمارے خطے کے عوام جان لیں کہ فلسطینی بچوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔

اسرائیل نے غزہ پر حملے کے مقاصد گنواتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ وہ اپنے قیدیوں کو رہا کروانا چاہتا ہے لیکن اب وہ اپنے اس تصور سے مایوس ہوچکا ہے کہ فلسطینی مقاومت اسرائیلی قیدیوں کو غیر مشروط پر رہا کرے گی! چنانچہ اس کے پاس مقاومت کی شرائط کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے اور امر واقع یہ ہے کہ یہ وہی کامیابی ہے جس کا ہم نے وعدہ دیا تھا۔

جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک، اسرائیلی رائے عامہ میں تبدیلی آئی ہے، اور وہ جنگ میں کامیابی سے ناامید ہو چکی ہے۔ اسرائیلی قیدی یا تو مذاکرات کے ذریعے رہا ہونگے، یا پھر تابوتوں میں بند ہو کر واپس آئیں گے۔ توقع کی جاتی ہے کہ اسرائیلی رائے عامہ میں مزید تبدیلی آئے گی اور اس معاشرے میں کوئی بھی فرد جنگ کے حق میں باقی نہیں رہے گا۔ سروے رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیتن یاہو کی پوزیشن ختم ہو چکی ہے، یہ سب اس جنگ کے نتائج ہیں۔ چنانچہ صہیونی نیتن یاہو کابینہ توڑنے اور قیدیوں کے تبادلے کے لئے مقاومت کے ساتھ مذاکرات کا مطالبہ کر رہے ہیں؛ چاہے وہ جنگ کو مکمل طور پر روکنے یا فلسطینی مقاومت کی شرائط کو تسلیم کرنے کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔

امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک نے ان 100 دنوں کے دوران لبنان، عراق اور یمن میں غزہ کے حامی دوسرے محاذوں کو خاموش کرانے کی بہتیری کوششیں کیں، وہ ان ممالک کے اندر سے دباؤ بڑھانے کے لئے کوشاں ہیں اور اس طرح وہ ان محاذوں کو مفلوج کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان کے یہ اقدامات بالکل بے سود ہیں۔ البتہ امریکیوں نے کچھ دنوں سے دھمکیوں کا سہارا بھی لیا ہے، ایران کو دھمکی، عراق، شام، لبنان اور یمن کو دھمکی، لیکن پھر بھی بے سود ہے۔

اگر غزہ کے حق میں لبنان، عراق اور یمن کے اقدامات جاری رہیں تو صہیونیوں کے پاس بات چیت اور غزہ پر جارحیت بند کرنے کے سوا کوئی راستہ بافی نہیں رہے گا۔

مقاومت کی کاروائیاں کم کرنے میں صہیونیوں کی ناکامی کے بعد، اب دشمن نے محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کے خلاف فوبیا اور ہراس پھیلانا شروع کر دیا ہے۔

امریکہ یمن کے محاذ کو دھمکیوں سے نہیں روک سکتا

امریکہ نے محور مقاومت کو براہ راست دھمکیاں دیں تو محور مقاومت نے اسرائیل کو دھمکی دی۔ نیز اگر امریکہ نے سوچا ہے کہ دھمکیوں کے ذریعے یقن کے محاذ کو روک سکے گا تو وہ بری طرح غلطی پر ہے۔

یمن پر حملہ امریکہ اور برطانیہ کی حماقت کا ّثبوت ہے۔ امریکہ کا دعوی ہے کہ وہ جنگ کا دائرہ بڑھانے کے خلاف ہے لیکن وہ خود جنگ کا دائرہ وسیع تر کر رہا ہے اور یہ ایک حماقت اور بے وقوفی ہے۔ وہ یمن کے عوام، قائدین اور تاریخ کو اچھی طرح نہیں جانتے، یہ نادانی ان کے استکباری خصلت اور دوسروں کو حقیر اور کمزور سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ امریکی آزاد جہازرانی کا دعوی کرتے ہیں، لیکن یمنی صرف ان جہازوں کو نشانہ بناتے ہیں جو مقبوضہ فلسطین آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ گوکہ یہ امریکی اقدامات کا کم از کم رد عمل ہے، جس [امریکہ] نے دنیا کے تمام سمندروں میں آزاد جہازرانی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

ہم یمن کے خلاف امریکی ـ برطانوی اتحاد میں بحرین کی شمولیت کی مذمت کرتے ہيں ـ اور یمن کی مسلم قوم اور علماء کے موقف کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں؛ امریکیوں نے یمن کی وجہ سے ایران کو دھمکی آمیز پیغام بھجوایا لیکن انہیں صرف ایک جملہ سننا پڑا اور وہ یہ تھا کہ "یہ کاروائیاں یمن کی اپنے فیصلوں کے مطابق ہیں"، بہر حال عنقریب واضح ہو جائے گا یہ یمن پر حملہ کرکے انہوں نے بڑی حماقت کی ہے۔

امریکہ نے بحیرہ قلزم میں

جو کچھ امریکہ نے بحیرہ قلزم میں کیا اس سے خطے میں جہازرانی کو نقصان پہنچے گا، اور بحرین کی حکومت کو جلد از جلد امریکہ کے ساتھ اتحاد کی ذلت سے الگ ہونا چاہئے۔

ہر مسلمان، ہر عرب اور ہر حریت پسند انسان کو یمن کی حمایت کرنا چاہئے۔

صہیونیوں نے حیفا پر عراقی حملے کو سینسر کر دیا

عراق پر ڈالا جانا والا دباؤ، امریکی اڈوں پر عراقی مقاومت کے حملوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکا۔ عراقی مقاومت نے حیفا میں ایک اہم ٹھکانے کو نشانہ بنایا لیکن دشمن نے اس سے متعلق خبروں کو سینسر کر دیا۔

میرون پر 18 میزائل لگنے سے صہیونیوں کے جانی اور فوجی نقصانات

دشمن نے میرون کے تزویراتی اڈے پر حزب اللہ کے حملے کا اعتراف کرنے سے اجتناب کیا بلکہ جب حزب اللہ نے اس حملے کی ویڈیو نشر کر دی تو اس نے مجبور ہو کر اعتراف کیا۔ لبنانی مقاومت نے 60 کاتیوشا راکٹوں اور کورنیٹ میزائلوں سے میرون کو نشانہ بنایا۔

ہم نے شمالی فلسطین میں صہیونیوں کے فضائی کنٹرول کے تزویراتی اڈے "میرون" پر 22 کورنیٹ میزائل داغے، جن میں سے 18 ٹھیک نشانوں پر لگے اور اس اڈے کا ایک بڑا حصہ تباہ اور متعدد صہیونی فوجی مارے گئے۔

محور مقاومت کی کاروائیاں روکنے کی شرط

مقاومت کو ڈرانے دھمکانے کا کوئی فآئدہ کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہوگا۔ جن کو جنگ سے ڈرنا چاہئے وہ ہم نہیں بلکہ دشمن اور اس کی فوج اور اس کے نوآبادکار باشندے ہیں؛ اس لئے کہ ہمارے پہلے دن سے ہی تیار ہیں۔

محور مقاومت نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ وہ دشمن کے خلاف جنگ جاری رکھے گا، اور ہماری جنگ صرف اس وقت رکے گی جب غزہ کے خلاف جارحیت بند ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔

110