اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
ہفتہ

13 جنوری 2024

8:28:19 PM
1429140

قطرکے سابق وزیر اعظم نے مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں عرب ممالک کی انفعالیت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا: ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے غیرملکی فریق ہمارے خطے کو اپنے مفادات کی بنیاد پر کشیدگی سے دوچار کر رہے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا کے مطابق، قطر کے سابق وزیر اعظم اور وزیر خارجہ حمد بن جاسم نےغزہ پر صہیونی جارحیت اور بحیرہ قلزم میں جاری کشیدگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعات گذشتہ 75 سالہ عرصے میں مسئلہ فلسطین اور فلسطینی قوم کے حقوق کو بالکل نظرانداز کرنے کا فطری نتیجہ ہے۔

بن جاسم نے X نیٹ ورک پر لکھا: ان پالیسیوں نے ابتداء ہی سے، کشیدگیوں میں اضافہ کرنے کے لئے مسلسل بیرونی مداخلتوں کے لئے راستہ کھلا رکھا ہے

ان پالیسیوں نے آغاز ہی سے، ہمارے خطے میں کشیدگی کا دائرہ وسیع کرنے کے لئے بیرونی فریقوں کی مسلسل مداخلتوں کا راستہ ہموار رکھا ہے، اور یہ مداخلتیں ان بیرونی قوتوں کے مفادات کے عین مطابق ہے۔ جیسا کہ ناقص حکمت عملی پر مبنی پالیسیوں نے ہماری پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے۔

انھوں نے قطر کے مسلسل ثالثانہ کرنے کے بارے میں کہا: ہم صرف ایک "دربان" (چوکیدار) یا ویٹر بن گئے ہیں؛ اور ہمارا کردار صرف متعینہ پالیسیوں کا نفاذ ہے، ہم سے تقاضا کیا جاتا ہے اور ہماری اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی۔  

انھوں نے کہا: بدقسمتی سے ہماری آج کی حالت یہ ہے، اور گوکہ ہمارے آس پاس وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا تعلق ہم ہی سے ہے (نہ کہ بیرونی قوتوں سے)۔ اسی وجہ سے دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے خطے میں کشیدگی میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے، کیونکہ بعض فریقوں کا مفاد اسی میں ہے کہ ہمارا خطہ تناؤ کا شکار رہے۔

حمد بن جاسم نے علاقائی کشیدگی میں جنگ غزہ کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگر ہم اپنے مفادات کی خاطر وہی کچھ کرتے جو ہمیں کرنا چاہئے تھا، اور اس جنگ کی آگ بھجا دیتے جس نے غزہ کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، آج کی صورت حال سے دوچار نہ ہوتے۔ ہمیں کارآمد عملی پالیسیاں اختیار کرنا ہونگی جو صرف ابلاغیاتی موقف تک محدود نہ ہوں بلکہ عرب دنیا کے معاشروں پر اثرانداز ہوں  اور انہیں حرکت میں لائیں۔

انھوں نے خطے کے ممالک میں اس طرح کی غملی پالیسیوں کے فقدان پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا: یہی وہ مسئلہ ہے جس کے باعث بیرونی فریق ہمارے بحرانوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان بحرانوں کو پھیلا دیتے ہیں۔ اور ہمیں رفتہ رفتہ ـ مختلف بہانوں سے ـ فوجی کاروائیوں کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے جبکہ ان کاروائیوں سے ہمارے ملکوں کے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ یہ سب دوسروں کے مفاد کے لئے ہے۔

انھوں نے مسئلۂ فلسطین کے سلسلے میں عرب ممالک کی غلط پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا: وقت آگیا ہے کہ ہم ـ بالخصوص مسئلہ فلسطین کے سلسلے ميں ـ اپنی غلطیوں کا ازالہ کریں؛ ہم یہاں کسی فلسطینی تنظیم کی بات ہیں کرتے، بلکہ ملت فلسطین کی بات کرتے ہیں جنہیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے اور ہم اس ملت کی تائید کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے حقوق حاصل کر سکے۔

حنوبی افریقہ نے صہیونی ریاست کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں شکایت کی تو عرب ممالک کا رد عمل شرمناک تھا، ہم نے شرمندگی کے ساتھ کہا کہ اس مسئلے کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہم نے تو بس مجبور ہو کر موقف اختیار کیا!

واضح رہے کہ جنوبی افریقہ نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں صہیونی ریاست کے خلاف غزہ میں نسل کُشی کا کیس دائر کیا، پہلی سماعت جمعرات 11 جنوری 2024ع‍ کو ہوئی اور دوسری سماعت حمعہ کو ہوئی جس میں صہیونی وکلاء کو ذلت آمیز شکست ہوئی۔ جنوبی افریقہ کے وزیر انصاف نے عدالت میں کہا: صہیونی ریاست غزہ میں نسلی امتیاز (Apartheid) کی بنیاد پر فلسطینیوں کا قتل عام کر رہی ہے۔

جنوبی افریقہ کے وزیر انصاف رونلڈ لامولا (Ronald Lamola) نے مزید کہا: اسرائیل نے سنہ 1948ع‍ سے منظم انداز سے فلسطینیوں کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا ہے اور انہیں ارادی طور پر خود ارادیت کے بین الاقوامی حق سے محروم کر رکھا ہے۔ ہم خاص طور پر اسرائیل کے امتیازی قوانین اور پالیسیوں کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ جو فلسطینیوں کو نسلی امتیاز کی بنیاد پر نشانہ بنا رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110