اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
ہفتہ

6 جنوری 2024

1:50:29 PM
1427095

طوفان الاقصی؛

شہدائے کرمان کا خون رائیگاں نہ جائے گا / عراق اور لبنان سے قابض عناصر کو مار بھگانے کا موقع فراہم ہؤا ہے۔۔۔ سید حسن نصر اللہ

حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے ایران کے صوبے کرمان میں دہشت گردی کے واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: شہدائے کرمان کا خون رائیگان نہیں جائے گا / صہیونی قابضین ہمارے علاقے میں موجود ہیں، اور یہ انتہائی مناسب موقع ہے کہ عراقی اور لبنانی مجاہدین آگے بڑھیں اور اپنے علاقوں میں قابضین کی موجودگی کا خاتمہ کریں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ روز جمعہ [بمورخہ 5 جنوری 2024ع‍ کو] شہر بعلبک میں سینیہ سیدہ خولہ کے مقام پر، حزب اللہ کے انتظآمی معاون الحاج محمد یاغی المعروف بہ "ابو سلیم" کی وفات کے ساتویں روز خطاب کرتے ہوئے کرمان میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائی کے شہیدوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ان شہیدوں کا خون رائیگان نہیں جائے گا۔

انھوں ںے قابض امریکیوں کے ڈرون حملے میں عراقی الحشد الشعبی کے بارہویں بریگیڈ کے کمانڈر الحاج ابو تقوی السعیدی کی شہادت کے سلسلے میں دینی مرجعیت، الحشد الشعبی اور تحریک النجباء سے تعزیت کی۔

حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا: ہم الحاج ابو سلیم کی شہادت پر دل کی اتہاہ گہرائیوں سے تعزیت پیش کرتے ہیں۔ سنہ 1978ع‍ میں جب ہم نوجوان تھے، انہیں جانتے تھے اور پہلے ہی لمحوں سے ہمارے درمیان اخوت و محبت، دوستی اور مکمل اعتماد کا رشتہ قائم ہؤا۔ ابو سلیم ایک انقلابی شخصیت تھے جو اپنے علاقے اور آس پاس میں وعال کردار ادا کرتے تھے اور انھوں نے اپنی انقلابی فعالیت کا آغاز بعلبک سے کیا تھا۔۔۔ ابو سلیم کی نقلابی فعالیت کی طرف ان کی رغبت کا سبب امام موسیٰ صدرتھے اور بعلبک میں تنظیمی گروپ میں ہماری ان سے ملاقات ہوئی اور 40 سال سے زیادہ عرصے تک مل کر کام کیا اور ذمہ داریاں سنبھالنے کے حوالے سے بھی ساتھ ساتھ آگے بڑھے۔۔۔ اس راستے میں الحاج ابو سلیم نے امام موسیٰ صدر، سید عباس الموسوی اور آیت اللہ سید محمد باقر الصدر کے ساتھ کام کیا اور یہی راستہ آخر کار امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی قیادت میں تاریخی انقلاب اسلامی پر منتج ہوئی۔

انھوں نے کہا: حزب اللہ میں ہمارا مقدر یہی تھا کہ حزب اللہ نے کام کا آغاز کیا اور منطقۃ البقاع کی قیادت تشکیل پائی تو ہم بقاع میں رہے اور اباہم کیا کیا۔

سید حسن نصر اللہ نے مزید کہا: ابو سلیم اس راستے میں ہماری پشت پناہ، حامی اور مددگار تھے اور اور نقطے پر حاضر رہے۔ ان کی بصیرت ایک استحکام اور استقامت کو معرض وجود میں لائی تھی اور ابو سلیم کا کردار شاندار تھا، انھوں نے اپنی نوجوانی اور اپنی تمام عمر کا بڑا حصہ بقاء اور اس کے باسیوں کی خدمت میں گذرا۔ اور یہ لوگ یقینا اس خدمت کے قابل تھے۔

انھوں نے کہا: بقاع کے عوام نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے سے کبھی بھی دریغ نہیں کیا اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ بقاع کے عوام اور مختلف قبائل اور عشائر، نیز دوسرے شہروں اور بیروت کے جنوبی نواح کے عوام نے شہیدوں کے جنازے اور عزاداری میں بھرپور شرکت کی اور وہ اس راستے کو جاری رکھنے پر زور دیا، خواہ اس راستے کے جاری رکھنے کے لئے بڑی بڑی قربانیاں اور جانفشانیاں کیوں نہ کرنا پڑیں، وہ سب جم کر کھڑے ہیں۔

سید حسن نصر اللہ نے لبنان کی اسلامی مقاومت کے مجاہدین کی دلیرانہ کاروائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہو کہا: اسلامی مقاومت نے گذشتہ مہینے غاصب صہیونی ریاست کی فوج کے خلاف 670 کاروائیوں کا ریکارڈ رقم کیا اور صہیونیوں کے اپنے اعداد و شمار سے ظاہر ہؤا کہ انہوں نے کم از کم 2000 زخمی فوجیوں کو مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں کے اسپتالوں میں منتقل کیا ہے۔ [صہیونی جانی نقصانات کا اعلان نہیں کرتے]۔

انھوں نے کہا: ہمارے مجاہدین نے صہیونی فوجیوں کے خلاف انتہائی کامیاب کاروائیاں کی ہیں، اور ان کے بے شمار فوجیوں کو ہلاک اور زخمی کر دیا ہے گوکہ ذرائع ابلاغ پر صہیونیوں کے ان نقصانات کو کوریج نہیں دی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا: صہیونی ہمارے غیر فوجی علاقوں اور نہتے عوام پر حملے کرتے ہیں اور ہم نے ان کے ان اقدامات کے جواب میں تقریبا 100 کلومیٹر کی سرحد پٹی پر 90 دن کے دوران، دشمن کے تمام سرحدی ٹھکانوں اور سرزمین فلسطین کے اندرونی علاقوں میں یہودی نوآبادکاروں کی بستیوں اور قصبوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ کوئی بھی صہیونی فوجی اڈہ یا ٹھکانہ ایسا نہیں ہے جو اس دوران کئی کئی مرتبہ ہمارے حملوں کا نشانہ نہ بنا ہو؛ تمام صہیونی فوجی اڈوں اور چھاؤںیوں میں کروڑوں ڈالر جاسوسی اور تکنیکی آلات کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا ہے۔

سید حسن نصراللہ نے کہا: لبنان کی اسلامی مقاومت نے تین مہینوں کے دوران 670 کاروائیاں کی ہیں، اس دوران 48 سرحدی فوجی اڈوں کو کئی بار نشانہ بنایا گیا۔ اس علاقے میں 50 سرحدی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں بے شمار ٹینکوں اور گاڑیوں کو تباہ کیا گیا اور سرحدی علاقوں میں ہمارے بے شمار حملوں کو دیکھ کر صہیونی فوجی مقاومت اسلامی کے مجاہدین کی پیشقدمی کے خوف سے ان علاقوں کو چھوڑ کر نوآباد یہودی قصبوں کی طرف پسپائی پر مجبور ہوئے۔

ان کا کہنا تھا: صہیونی دشمن کے لئے مقاومت کے مجاہدین کی کاروائیاں بہت مہنگی پڑی ہیں کیونکہ ان کو اپنے بھاری جانی نقصانات چھپانا پڑ رہے ہیں۔ دشمن اپنے ہلاک شدگان اور زخمیوں کی تعداد کا اعلان نہیں کرتا اور یہ اپنے نقصانات کے سلسلے میں صہیونی ریاست کی رازداری کی پالیسی کا حصہ ہے۔

سید حسن نصراللہ نے کہا: امریکہ جنگ کی توسیع کا خواہاں نہیں کیونکہ وہ اس وقت یوکرین کے محاذ میں بھی الجھا ہؤا ہے اور روس کے مقابلے میں ایک تزویراتی شکست قبول کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا: صہیونی قابضین ہمارے علاقے میں موجود ہیں، اور یہ انتہائی مناسب موقع ہے کہ عراقی اور لبنانی مجاہدین آگے بڑھیں اور اپنے علاقوں میں قابضین کی موجودگی کا خاتمہ کریں۔

حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے کہا: آج عراق میں امریکی قابضین کے شر سے نیز داعش کے خلاف حنگ کے جھوٹے اور جعلی بیانیوں سے چھٹکارا پانے کا موقع فراہم ہؤا ہے، آج عراقیوں کے لئے تاریخی موقع فراہم ہؤا ہے کہ وہ ان قابضوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کریں جو اس خطے کے عوام کا خون بہاتے ہیں۔

 انھوں نے کہا: دشمن کی کوشش رہی ہے کہ شمالی محاذ پر اپنے فنی اور جاسوسی آلات کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لئے جاسوس طیاروں اور ڈرون طیاروں کا سہارا لے رہا ہے۔ دشمن نے اپنے جانی اور تکنیکی نقصانات کی تعداد اور مقدار کے افشاء کے حوالے سے ذرائع ابلاغ پر شدید سینسر کی پالیسی اپنا رکھی ہے جبکہ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ دشمن کے ہلاک شدگان کی تعداد اس تعداد سے تین گنا زیادہ ہے جو صہیونی ریاست بتا رہی ہے؛ صہیونی وزارت صحت کے مطابق شمالی محاذ میں اب تک 2000 اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔  

انھوں نے کچھ ذرائع سے مخاطب ہو کر کہا: اگر تم دشمن کے تباہ شدہ فوجی سازوسامان اور فنی اوزار و آلات کی مقدار اور جانی نقصانات کے صحیح اعداد و شمار سے آگاہ ہو جاتے تو یقینا اپنے آپ کو شمالی محاذ میں جنگ کی بیہودگی کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہ دیتے۔ ایک اعلیٰ صہیونی اہلکار نے مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ کے واقعات کو اسرائیل کے لئے ذلت اور خفت کا سبب قرار دیا ہے۔ ہم صرف دشمن کے فوجی ٹھکانوں، افسروں اور عام فوجیوں کو نشانہ بناتے ہیں، اور یہ کاروائیاں ہمارے غیر فوجی شہریوں پر صہیونیوں کے حملوں کے جواب میں عمل میں لائی جاتی ہیں۔

سید حسن نصر اللہ نے زور دے کر کہا ہم نے شمالی فلسطین سے قابض صہیونیوں کو اپنے شہر اور بستیاں چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے، وہ بے گھر ہو چکے ہیں اور یہ صورت حال سیاسی لحاظ سے بھی اور سیکورٹی کے حوالے سے صہیونی کابینہ پر شدید دباؤ کا باعث بنی ہوئی ہے۔ لبنان، شام، عراق، اور یمن کے محاذوں کا مقصد صہیونی کابینہ پر دباؤ ڈالنا، انہیں کمزور کرنا اور تھکا دینا اور ان پر کاری ضربیں لگانا ہے تاکہ وہ غزہ کے خلاف اپنی جارحیت بند کر دے۔ جنوبی لبنان کا محاذ کھولنے دوسرا مقصد یہ ہے کہ غزہ کے محاذ پر فلسطینی عوام اور مقاومت سے صہیونیوں کا فوجی دباؤ کم کرنا ہے۔ جنوبی لبنان کی اہمیت جاننے کے لئے یہی کافی ہے کہ صہیونی ریاست میں عید کی چھٹیوں کے دوران انہوں نے اپنے فوجی دستوں کو غزہ کے محاذ سے واپس بلایا لیکن شمالی محاذ کو خالی کرنا مناسب نہ سمجھا، وہ ہماری پیشقدمی سے خائف ہیں۔

انھوں نے کہا: سنہ 1948ع‍ سے ہی، اسرائیل ہی تھا جس نے جنوبی لبنان اور لبنانی عوام اور افواج پر حملے کئے ہیں اور ہماری سرزمین میں عوام کا قتل عام کیا ہے۔ ہمیشہ جنوبی لبنان کے عوام ہی تھے جو بے گھر ہو جاتے تھے، اور آج اسرائیلی قابضین و غاصبین ہیں جو بے گھر ہوکر اور بے پناہ ہو چکے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110