اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

21 دسمبر 2023

6:38:37 AM
1422100

طوفان الاقصی؛

ہم ہمیشہ اسرائیل اور امریکہ سے دُو بَدُو لڑنے کے آرزومند ہیں۔۔۔ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی

انصار اللہ یمن کے قائد نے کہا: صہیونی ریاست امریکی ساختہ ممنوعہ ہتھیاروں سے خواتین اور بچوں کا قتل عام کر رہا ہے اور امریکہ ابتداء ہی سے اسرائیلی جرائم میں برابر کا شریک ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، یمن کی تحریک انصار اللہ کے راہنما سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے بروز جمعرات (20 دسمبر 2023ع‍ کو) اپنے نشری خطاب میں غزہ پر مسلط کردہ جنگ اور قدس شریف اور قبلۂ اول مسلمین پر قابض غاصب صہیونی ریاست کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا: جعلی ریاست نے اسپتالوں کو اعلانیہ فوجی ہدف بنا دیا ہے۔

یمن  کی تحریک انصار اللہ کے راہنما اور یمنی سیدالمقاومہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی الطباطبائی نے کہا:

صہیونی دشمن نہتے عوام کے خلاف جنگی جرائم کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ہے، وہ جب بھی میدان جنگ میں ہار جاتا ہے نہتے شہریوں پر حملے شروع کر دیتا ہے۔

فلسطینی عوام پر گذشتہ 75 روزہ یہودی جارحیت کے دوران جعلی ریاست قبیح ترین جنگی جرائم کا ارتکاب کر چکی ہے وہ نسل کُشی کے تمام اوزاروں کو بروئے کار لاتی ہے، فلسطینیوں کو بھوکا رکھتی ہے، انہیں اشیائے خورد و نوش نہیں پہنچنے دیتی اور وحشیانہ روشوں سے ان کا قتل عام کرتی ہے۔ اس نے اسپتالوں کو آشکارا فوجی ہدف بنایا ہؤا ہے، اور الشفاء اسپتال پر اس کا حملہ تاریخی لحاظ سے بے مثل تھا۔

دنیا کے ممالک جنگی قوانین کے تحت تزویراتی اور فوجی اڈوں کو اپنے حملوں کے اہداف کے طور پر متعارف کراتے ہیں، جبکہ اسرائیلی ریاست انتہائی بے شرمی سے غزہ کے اسپتالوں کو نشانہ بناتی ہے اور اسپتالوں، مریضوں اور طبی عملوں پر حملوں کو باعث فخر سمجھتی ہے یہاں تک کہ انروا (UNRWA) کے اسکولوں میں پناہ لینے والے بے گھر افراد پر بمباری کرتی ہے۔

اسرائیلی دشمن اپنے بہیمانہ اقدامات کو جاری رکھے ہوئے ہے اور میدان جنگ میں ہار جانے کے بعد غزہ کے نہتے عوام کو اندھادھند بمباریوں کا نشانہ بناتا ہے، نوزائیدہ بچوں اور شیرخواروں نیز انتہائی نگہداشت کے شعبوں میں داخل قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں تک پر بمباری کرتا ہے، جو انتہائی بہیمانہ اور قبیح عمل ہے۔

یہودی-صہیونی شدید بغض و عناد سے بھرپور اور انتہائی جرائم پیشہ ہیں اور ان میں کوئی بھی انسانی احساس اور شعور نہیں ہے، امریکی بھی جارحیت کے آغاز سے ہی صہیونیوں کے جرائم میں شریک ہیں اور ان کے فوجی مشیر جنگ کے انتظام اور منصوبہ بندی کے لئے ـ ہزاروں ٹن ہتھیاروں اور ہلاکت خیز بموں کے ہمراہ ـ مقبوضہ فلسطین ـھیج دیئے گئے ہیں۔

امریکہ صہیونیت کی دوسری شاخ

امریکہ ہر اس ملک کو دھمکی دیتا ہے جو فلسطینی قوم کے ساتھ تعاون کرے، امریکی صہیونیوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ غزہ میں کسی بھی جرائم کریں تو کوئی ان کے لئے رکاوٹ نہیں بنے گا اور ماحول بالکل تیار ہے۔

وہ صہیونیوں کی حمایت میں اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ آج فلسطینیوں کو اشیاء خورد و نوش کی ترسیل صرف امریکہ اور اسرائیل کی اجازت سے ممکن ہے۔ جس وقت ہم امریکی بموں سے قتل ہونے والے ہزاروں بچوں اور خواتین کی تصویر دیکھتے ہیں تو ہمیں امریکی شراکت کی یاددہانی کرانا چاہئے۔

امریکہ عالمی یہودی صہیونیت کا دوسرا شعبہ ہے جس کا صدر اپنے صہیونی ہونے پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ ایک صہیونی ہے اور اسی راہ پر گامزن ہے۔ امریکہ خطے میں اپنے فوجی اڈوں کو صہیونی دشمن کی مدد کے لئے استعمال کر رہا ہے اور اس کے ہتھیاروں کے تمام ذخائر ـ جو عرب ممالک میں ہیں ـ کو اسرائیل کی حمایت کے لئے بروئے کار لا رہا ہے۔

یورپی ممالک کا بھی اس جرم عظیم میں خاصا کردار ہے۔ برطانیہ نے ماضی میں فلسطین کو غصب کرکے صہیونیوں کے سپرد کیا اور یہاں یہودیوں کی ریاست کی بنیاد رکھی اور اب بھی اس ریاست کی مدد و حمایت کر رہا ہے؛ اور اسی اثناء میں فرانس، اٹلی اور جرمنی "جن کی تاریخ بالکل سیاہ ہے"، صہیونیوں کی مدد کر رہے ہیں اور تمام انسانی اور اخلاقی اقدار کو پامال کر چکے ہیں۔

جس وقت یہودی لابی مغربی ممالک میں شروع بکار کرتی ہے، حتیٰ کہ لبرلزم کی اقدار بھی سامنے سے ہٹا دی جاتی ہیں، اور اس طرح سے آگے بڑھتی ہے کہ گویا ایک دیوانہ ہے جو کسی بھی انسانی قدر کو خاطر میں نہیں لاتا اور اس کا سرچشمہ جنگل کی سیاست ہے۔

مسلمان فلسطینیوں کو اپنا جزو قرار دیں

مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے عالم اسلام اور ہر مسلمان کے کچھ فرائض ہیں؛ امت مسلمہ کو چاہئے کہ فلسطین کو اپنا حصہ سمجھ لے اور سنجیدگی کے ساتھ عملی اور فعال انداز سے فلسطینی عوام کی مدد اور پشت پناہی کرے۔

یہاں بعض عرب ممالک ہیں کہ جب مغربی ممالک ان پر تنقید کرتے ہیں یا ان کے کسی بادشاہ یا شہزادے کی توہین کرتے ہیں تو ان سے تعلق توڑ دیتے ہیں لیکن فلسطین کے مسئلے میں انتہائی غافل اور سست ہیں۔

حال ہی میں سعودی عرب نے "موسم الریاض Riyad season" نامی میلہ منایا؛ یہ ممالک اخلاقی گراوٹ کے لحاظ سے اس حد تک سقوط کر گئے ہیں کہ رقص و سرور اور گانے بجانے اور لہو و لعب میں مصروف ہیں، کلبوں کے مقابلے کرا رہے ہیں اور فلسطین میں صہیونی جرائم کو بھول چکے ہیں؛ حالی ہی میں عرب ممالک سے ایک بھونڈی آواز سنائی دے رہی ہے جو فلسطینی عوام اور اس کے مجاہدوں پر ملامت کر رہی ہے اور ان کی حمایت میں آنے والے کسی بھی موقف کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

بے شک امریکہ اور یورپ سے فلسطین عوام کے حق میں کردار ادا کرنے کی توقع نہیں ہے وہ تو ہمیشہ اقوام عالم پر ظلم کرتے ہیں اور انہیں نوآبادیوں میں بدلنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، چنانچہ فلسطینی عوام کے سلسلے میں عظیم ذمہ داری عالم اسلام اور ہر مسلمان فرد پر عائد ہوتی ہے، کہ وہ سب یکسان موقف اختیار کریں۔

امریکہ اور اسرائیل سے براہ راست لڑائی ہماری آرزو ہے

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ عرب ممالک بالکل منفعل (Passive) ہیں اور محور مقاومت پوری طرح فعال ہے؛ حتیٰ بعض عرب ممالک غزہ کی حمایت میں عوامی مظاہروں میں بھی رکاوٹ ڈال رہے ہیں، حالانکہ محور مقاومت فوجی، سفارتی، اور ابلاغی سطحوں پر میدان میں حاضر ہے۔

ہم پوچھتے ہیں کہ جن علماء نے شام، یمن اور عراق کے خلاف جہاد فتوے دیئے، وہ آج فلسطین کے سلسلے میں خاموش بیٹھے ہیں، ان کے پاس اس خاموشی کا کیا بہانہ ہو سکتا ہے؟

یمنی عوام نے صحیح موقف اپنا کر تمام سطحوں پر فلسطین کے حق میں ہر ممکنہ اقدام کیا ہے۔ ہمارے محترم عوام نے صحیح موقف کی بنیاد پر یہودی-صہیونی دشمن کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے، اپنی میزائل صلاحیت کو یہودی دشمن کے خلاف متحرک کر دیا ہے؛ ہماری قوم بحیرہ قلزم اور خلیج عدن اور بحیرہ عرب میں، میدان جنگ میں حاضر ہے اور اسرائیلی جہازوں، یا اسرائیل سے جڑے ہوئے جہازوں کو روک رہی ہے تاکہ اشیائے ضرورت اسرائیلی بندرگاہوں تک نہ پہنچنے پائے۔

آج ہم لاکھوں افراد فلسطین بھیجنے کے لئے تیار ہیں، اور ہم نے اپنے اور فلسطین کے درمیان حائل ممالک سے سنجیدہ طریقے سے مطالبہ کیا کہ ہمارے مجاہدین کے لئے گذرگاہیں کھول دیں، تاکہ یہ لاکھوں افراد فلسطین پہنچ سکیں۔ ہم ان دنوں اپنی فوجی صلاحیت میں اضافہ کرنے کے لئے ضروری اقدامات کر رہے ہیں تاکہ ان ممالک سے نمٹ سکیں جو اسرائیلی دشمن پر ہمارے حملوں میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

ایک عربی ریاست اور صہیونی ریاست سمیت چار ممالک ایسے ہیں جو یمن کے میزائل اور ڈرون حملوں میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں؛ اور یہ حقیقتا باعث صد افسوس ہے کہ بعض عرب ممالک فلسطین کی پشت پناہی کے لئے یمن کی حمایت کرنے کے بجائے، امریکہ کی طرف لڑھک گئے ہیں۔

ہمارا موقف بہرحال اسرائیل کے خلاف ہے، ہم کسی بھی دوسرے ملک کو نشانہ نہیں بنائیں گے، اور ہمارا موقف بعض عرب ممالک کی طرف ممکنہ فوجی اقدامات کے مقابلے میں ہماری پالیسی صبر پر مبنی ہوگی۔

ہم ان تمام عرب اور بحیرہ قلزم کے ساحلی ممالک کو ـ جن کو امریکہ اس معرکے میں دھکیلنا چاہتا ہے ـ نصیحت کرتے ہیں کہ اپنے مفادات کو قربان نہ کریں اور اپنی جہازرانی کی سلامتی کو صہیونیوں کی خدمت کے لئے وقف نہ کریں۔ اور یاد رکھیں کہ اگر سمندر میں ہمارے اقدامات غیر مؤثر ہوتے تو صہیونی ریاست اور امریکہ اس قدر غضبناک نہ ہوتے اور اس حد تک نہ گھبراتے۔

یمن کے خلاف امریکی اقدامات پہلی مرتبہ عمل میں نہیں آ رہے ہیں، وہ پہلے ہی دن سے اپنے پورے وسائل کے خلاف ہمارے خلاف میدان میں آئے ہیں، اور اب دوسرے ممالک کو بھی اس مسئلے میں الجھانا چاہتے ہیں۔

یقینا اگر امریکہ کشیدگی میں اضافہ کرنا چاہئے اور ہمارے ملک کے خلاف کسی حماقت کا ارتکاب کرے تو ہم بندھے ہاتھوں ہرگز نہ رہیں گے، ہمارے ملک پر کسی بھی قسم کا امریکی حملہ ہوگا تو اس کے تمام فوجی اڈے، مفادات اور سمندر میں اس کے جہاز اور بیڑے ہمارے میزائلوں اور ڈرون طیاروں کے حملوں کا نشانہ بنیں گے، اور ان کے خلاف فوجی کاروائیاں ہونگی۔

سید الحوثی نے آخر میں کہا: اب تک تو امریکیوں نے اپنے گماشتوں کو ہمارے خلاف استعمال کیا ہے، اس کے باوجود، ہمارے لئے محبوب ترین عمل اور ابتداء ہی سے ہماری دلی آرزو یہ تھی کہ ہمارے اور امریکہ اور اسرائیل کے درمیان براہ راست جنگ چھڑ جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔

نکتہ:
سلام ہو یمن کی غیرت پر، اور چلو بھر پانی میں جا کے ڈوب مریں وہ حکمران جو بہترین افواج اور ہتھیاروں کے باوجود، پٹی ہوئی یہودی ریاست کی خوشنودی کے لئے مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہیں؛ حالات بتا رہے ہیں کہ اسرائیل کی شکست بہت قریب ہے چنانچہ مؤمنانہ غیرت سے عاری وہ مسلم حکمران ـ جو آخری دم تک یہودی ریاست سے وفاداری ظاہر کرنے پر تلے ہوئے ہیں ـ تا ابد رو سیاہ رہیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110