اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
ہفتہ

16 دسمبر 2023

9:48:04 AM
1420633

غزہ میں موت اور ویرانی، انسانیت کے خلاف اسرائیلی جرائم اور فلسطینیوں کی نسل کُشی پر سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے امریکی پروفیسر جان میئر شیمر کا آنکھیں کھول دینے والا مضمون۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی کے مطابق شکاگو یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر جان میئر شیمر نے اپنے سبسٹیک (Substack) پیج پر اپنے ایک مضمون  " Death and Destruction in Gaza" میں لکھا: جو کچھ اسرائیل غزہ میں ـ بائیڈن انتظامیہ کی مدد سے ـ فلسطینی شہری آبادی کے ساتھ کر رہا ہے وہ انسانیت کے خلاف جرم ہے جس کا کوئی بامعنی فوجی مقصد نہیں ہے؛ جیسا کہ J-Street، اسرائیل لابی نے بھی بیان کیا ہے کہ "منکشفہ انسانی المیئے اور غیر فوجی عوام کے جانی نقصانات تقریبا ناقابل فہم ہیں"۔

وہ لکھتے ہیں:

مجھے وضاحت کرنے دیجئے:

1۔ اسرائیل بامقصد حملوں میں، جان بوجھ کر، ایک بڑی شہری آبادی کو قتل کر رہا ہے، جن میں تقریبا 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اسرائیل کے اعلی حکام کے خیالات و آراء سے خود بخوب اس دعوے کی تردید ہوتی ہے کہ "اسرائیل غیر فوجی جانی نقصانات کو کم از کم کرنا چاہتا ہے"۔

مثال کے طور پر اسرائیلی دفاعی فورس (IDF) کے ترجمان نے 10 اکتوبر 2023ع‍ کو کہہ دیا کہ "ہماری زیادہ زور [اپنے حملوں کی] تباہ کاری پر ہے، نہ کہ [نشانوں کی] درستگی پر"۔ اسی دن اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گالانٹ نے کہا: "میں نے تمام پابندیوں اور حدود و قیود کو اٹھا لیا ہے - ہم ہر اس شخص کو مار ڈالیں گے جن کے خلاف ہم لڑ رہے ہیں۔ ہم تمام تر وسائل اور روشوں کو استعمال کریں گے"۔

علاوہ ازیں اسرائیل کی بمباری کے نتائج سے واضح ہے کہ اسرائیل عام شہریوں کا اندھادھند قتل عام کر رہا ہے۔  اسرائیلی ذرائع نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ اس حوالے سے آپ اسرائیلی رسالہ "+972" کی"اجتماعی قتل کا کارخانہ" کے عنوان سے ایک رپورٹ کو اور ہاآرتص اخبار کی رپورٹ "اسرائیلی فوج نے تمام احتیاطوں کو ترک کر دیا ہے اور اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل عام بہت وسیع ہے"، کو دیکھ سکتے ہیں۔

اخبار نیویارک ٹائمز نے نومبر کے آخری ہفتے میں اپنی ایک رپورٹ میں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا: "غزہ کے عام شہری اسرائیلی بموں اور گولوں کی بوچھاڑ کا شکار ہو کر تاریخی تیزرفتاری سے قتل کئے جار رہے ہیں"۔ چنانچہ یہ بات بالکل باعث حیرت نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش اس قتل عام کو ان الفاظ میں بیان کیا: "ہم غزہ میں ایک بےمثل قتل عام کے شاہد ہیں"۔

2۔ اسرائیل نے ارادی طور پر غزہ میں فلسطینی عوام کو کھانے پانے، ایندھن، کھانا تیار کرنے کے لئے گیس، ادویات اور پانی سے محروم کرکے انہیں بھوک سے دوچار کرتا ہے، طبی امداد تک رسائی مشکل ہے، وہ بھی ایک ایسی آبادی کے لئے جن میں 50000 افراد زخمی ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے 9 اکتوبر کو کہا: "میں نے حکم دیا ہے کہ غزہ کا مکمل محاصرہ کیا جائے، پانی، بجلی، ایندھن اور ہر دوسری چیز، ناپید ہوگی۔ ہم ان حیوانات سے لڑ رہے ہیں جن شکل انسانوں جیسی ہے، اور اسی بنیاد پر ان سے برتاؤ کرتے ہیں"۔

3۔ اسرائیلی راہنما فلسطینیوں کے بارے میں جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ لرزہ خیز ہے، بالخصوص یہ کہ یہی لوگ ہالوکاسٹ کے بارے میں اپنی یہی زبان استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اسرائیلیوں کی اسی زبان نے ہالوکاسٹ کے اسرائیلی نژاد ماہر عمیر بارتوف (Omar Bartov) کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ "کہ اسرائیل نسل کُشی کا ارادہ رکھتا ہے"۔ نسل کُشی اور ہالوکاسٹ کے دوسرے ماہرین نے بھی ایسے ہی اندیشے ظاہر کئے ہیں۔

مزید وضاحت یہ کہ اسرائیلی رہنماؤں کے لئے فلسطینیوں کو "انسانی جانور"، "انسانی درندے" اور "خوفناک غیر انسانی جانور" جیسے الفاظ ادا کرنا ایک عام سی بات ہے۔ جیسا کہ اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے واضح کیا، وہ تمام فلسطینیوں کا حوالہ دے رہے ہیں، نہ صرف حماس کا اور کہتے ہیں کہ "وہاں [فلسطین] کی پوری قوم ذمہ دار ہے۔" حیرت کی بات نہیں ہے، جیسا کہ نیویارک ٹائمز نے رپورٹ دی کہ یہ معمول کا اسرائیلی بیانیہ ہے جو غزہ کے "ہموار ہونے"، "مٹ جانے" یا "مسمار کرنے" کی ہدایات دے رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ایک سابق جنرل نے اعلان کیا کہ "غزہ کو ایسی جگہ بنا دیا دیا جائے گا جہاں پر کوئی بھی انسان موجود نہیں ہو سکے گا"۔ نیز وہ کہتا ہے: "جنوبی غزہ میں شدید وبائی امراض ہماری فتح کو قریب تر کریں گے"۔ اس سے بھی بڑھ کر، اسرائیلی حکومت کے ایک وزیر نے تجویز دی کہ "ایک جوہری ہتھیار غزہ پر پھینک دیا جائے"۔ یہ تنہا ہونے والے انتہاپسندوں کے الفاظ نہیں بلکہ یہ اسرائیلی حکومت کے اعلی حکام بیان کر رہے ہیں۔ البتہ، غزہ اور مغربی کنارے میں 'نسلی تطہیر'  کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے اور یہ رویہ درحقیقت ایک نئی نکبت ( آفت، تباہی ، مصیبت = 1948ع‍ کے بعد دوسری بار فلسطینیوں کو وسیع پیمانے پر نقل مکانی پر مجبور کرنے) پر منتج ہو سکتا ہے۔ یہ اسرائیلی وزیر زراعت کے الفاظ ہیں کہ "ہم اب "غزہ نکبت" کی رو نمائی کر رہے ہیں"۔

اسرائیلی معاشرہ جس گہرائی میں دھنس چکا ہے اس کا سب سے لرزہ خیز ثبوت یہ ہے کہ غزہ کی مسماری کے جشن کے موقع پر، رونگٹے کھڑے کرنے والا خونی گیت گانے والے بہت چھوٹے بچوں کی  ویڈیو ہے جس مین وہ کہہ رہے ہیں: "ہم ایک سال کے اندر سب کو نیست و نابود کر دیں گے، اور پھر ہم اپنے کھیتوں میں ہل چلانے کے لئے واپس آئیں گے"۔

4۔ اسرائیل صرف فلسطینیوں کی عظیم تعداد کو قتل اور زخمی نہیں کر رہا، اور انہیں صرف بھوک نہیں دے رہا ہے بلکہ وہ منظم منصوبے کے تحت ان کے گھروں، نیز ان کے بنیادی ڈھانچے ـ جیسے مساجد، اسکولوں، ورثے کے مقامات، کتب خانوں، بنیادی سرکاری عمارتوں اور اسپتالوں کو بھی مسمار کر رہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے یکم دسمبر 2023ع‍ تک، تقریبا ایک لاکھ عمارتوں کو نقصان پہنچایا ہے یا پوری طرح مسمار کر دیا ہے جن میں پورے پورے محلے شامل ہیں جو ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ غزہ کی 23 لاکھ کی فلسطینی آبادی میں سے حیرت انگیز 90 فیصد آبادی اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں۔ مزید یہ کہ اسرائیل غزہ کے ثقافتی ورثے کو تباہ کرنے کی ہم آہنگ کوشش کر رہا ہے؛ جیسا کہ این پی آر ( National Public Radio) کی رپورٹ ہے کہ "اسرائیل نے غزہ پر اپنے حملوں میں 100 سے زائد ثقافتی ورثے کے مقامات کو نقصان پہنچایا یا تباہ کیا کر دیا ہے۔"

5۔ اسرائیل نہ صرف فلسطینیوں کو دہشت زدہ اور قتل کر رہا ہے، بلکہ وہ ان کے ان بہت سے مردوں کی سرعام تذلیل بھی کر رہا ہے جنہیں اسرائیلی فوج نے معمول کی تلاشی کے دوران گرفتار کر لیا ہے۔ اسرائیلی فوجی ان کے زیر جامے تک کو اتار دیتے ہیں، ان کی آنکھوں پر پٹی باندھتے ہیں، اور انہیں ان کے محلوں میں عمومی انداز میں لوگوں کو دکھاتے ہیں - مثال کے طور پر انہیں سڑک کے بیچوں بیچ بڑے گروہوں میں بٹھا دیتے ہیں، یا انہیں حراستی کیمپوں میں لے جانے کے لئے ٹرکوں پر بٹھانے سے پہلے سڑکوں پر پھراتے ہیں۔ زیادہ تر گرفتار افراد کو بعدازاں چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ وہ حماس کے جنگجو نہیں ہوتے۔

اہم ترین نکات:

6۔ اگرچہ اسرائیلی فلسطینی عوام کو ذبح کر رہے ہیں، لیکن [اہم بات یہ ہے کہ'] وہ بائیڈن انتظامیہ کے تعاون کے بغیر ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ امریکہ نہ صرف وہ واحد ملک ہے جس نے غزہ میں فوری جنگ بندی کے مطالبے پر مبنی حالیہ قرارداد کے خلاف ووٹ دیا بلکہ وہ اسرائیل کو غزہ کے عوام کے قتل عام کے لئے ضروری ہتھیار بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ جیسا کہ ایک اسرائیلی جنرل اسحاق برک (Yitzhak Brick) نے حال ہی میں واضح کیا ہے کہ: "ہمارے تمام میزائل، گولہ بارود، درست نشانے پر لگنے والے بم، تمام جنگی طیارے اور بم، امریکہ کی جانب سے ہیں۔" جس لمحے وہ نل بند کر دیں گے، تم اسرائیلی مزید نہیں لڑ سکو گے؛ تم میں کوئی صلاحیت نہیں ہے۔… ہر کوئی سمجھتا ہے کہ ہم امریکہ کے بغیر یہ جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہیں"۔ اہم نکتہ یہ کہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو اضافی گولہ بارود میں تیزی لانے کے درپے تھا اور اس نے آرمز ایکسپورٹ کنٹرول کو نظرانداز کر دیا ہے۔

7۔ اب جبکہ زیادہ تر توجہ غزہ پر مرکوز ہے، ضروری ہے کہ جو کچھ اسی اثناء میں مغربی کنارے میں ہو رہا ہے، اسے بھی نہ بھولیں۔ اسرائیلی آباد کار، اسرائیلی فوج کے ساتھ مل کر، بے گناہ فلسطینیوں کے قتل اور ان کی زمین چوری کرنے کے اپنے رویے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ڈیوڈ شلمین (David Shulman) "نیویارک کتابوں کے جائزے" (New York Review of Books) کے ایک بہترین مضمون میں ان ہولناکیوں کو بیان کرتے ہوئے،  ایک [یہودی] آباد کار کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا حوالہ دیا ہے، جو فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی رویے کی اخلاقی جہت کو واضح طور پر عیاں کرتا ہے۔ یہودی آبادکار آزادانہ طور پر تسلیم کرتا ہے کہ "ہم جو کچھ فلسطینیوں کے ساتھ کر رہے ہیں وہ در اصل غیر انسانی فعل ہے، لیکن اگر آپ اس بارے واضح طور پر سوچیں تو یہ سب کچھ اس حقیقت سے جنم لیتا ہے کہ خدا نے اس زمین کا وعدہ صرف یہودوں سے کیا ہے، صرف یہودیوں سے"۔

اسرائیلی ریاست نے غزہ پر حملے کے ساتھ ساتھ، مغربیکنارے میں بھی من مانی گرفتاریوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، اس حقیقت کے کافی شواہد موجود ہیں کہ ان قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے [اور ٹارچر کیا گیا ہے] اور ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک روا رکھا گیا ہے۔

میں جو فلسطینیوں کو درپیش اس المیے اور تباہی کو دیکھ رہا ہیں تو میرے پاس اسرائیل کے راہنماؤں اور ان کے امریکی حامیوں اور بائیڈن انتظامیہ سے ایک سوال میں بند رہ گیا ہوں کہ "کیا تم میں کوئی شرافت کوئی حیا نہیں ہے"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: جان جے میئرشیمر (John J. Mearsheimer)۔ وہ امریکی ماہر سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے اسکالر شکاگو یونیورسٹی کے استاد ہیں۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110