اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

14 دسمبر 2023

1:53:07 PM
1420192

جب دشمن طاقتور تھے اور مسلمان قلیل اور ان کے وسائل کم تھے تو دشمن کہتے تھے "نَحنُ جَمِيعٌ مُّنتَصِرٌ؛ ہم یکدل جماعت اور بہرحال فاتح رہیں گے"۔ ارشاد ہؤا: سَيُهزَمُ الْجَمعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ * بَلِ السَّاعَةُ مَوعِدُهُم والسَّاعَةُ أَدهَى وَأَمَرُّ*إِنَّ الْمُجرِمِينَ فِي ضَلَالٍ وَسُعُرٍ؛ یہ جماعت عنقریب شکست کھائے گی اور یہ سب پیٹھ پھرائیں گے*ہاں ان کی (اصل) سزا کا وقت مقرر ہے قیامت والی گھڑی کا اور وہ گھڑی سخت مصیبت اور بہت زیادہ تلخ منزل ہے*یقینا مجرم لوگ گمراہی اور دیوانگی سےدوچار ہیں"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

"لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا؛

برابر نہیں ہیں مسلمانوں میں سے، وہ جو بغیر معذوری کے گھروں میں بیٹھے ہیں، ان کے جو اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں؛ اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر بہت برتری اور فوقیت دی ہے اور یوں تو ہر ایک سے اس نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے اور جہاد کرنے والوں کو گھر بیٹھے رہنے والوں [اور پیچھے رہنے والوں] پر بہت بڑے اجر کے ساتھ فضیلت عطا فرمائی ہے"۔ (سورہ نساء، آیت 95)

وہ جو فکرمند ہیں، وہ جو تماشائی ہیں، وہ جو ہمدرد ہیں اور وہ جن کے دل صہیونیت کے گروی ہیں، سب غزہ کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں، کوئی صہیونیوں کی شکست کا آرزومند ہے اور کوئی مظلوم فلسطینیوں کی فتح پر مبنی اللہ کے وعدوں کی رو سے حق کی فتح کی خوشخبری سننے کا منتظر ہے۔ وہ جو دین و مذہب کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں، اللہ اکبر کے نعرے لگا کر مسلمانوں کے گلے کاٹتے ہیں اور آج سر پروں میں دبا کر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، اور اپنے سنی مسلم بھائیوں کا قتل عام دیکھ کر دل ہی دل میں خوشی منا رہے ہیں اس احمقانہ تصور کے ساتھ، کہ حماس کی فتح ایران کی فتح ہے، اور اپنے روایتی قیاس کی رو سے سمجھتے ہیں کہ گویا یہودیوں کی فتح ایران کی شکست ہوگی!!!

سب جان لیں کہ:

صہیونیوں کے ہاں کوئی بھی مسلمان دوست نہیں ہے۔ وہ فلسطینیوں کو انسانیت کے دائرے سے خارج سمجھتے ہیں، اس بات کی گواہی صہیونی وزیر دفاع کے بیان سے ملتی ہے، وہ عربوں کو انسان نہیں سمجھتے تو کیا وہ غیر عرب مسلمانوں کو انسان سمجھیں گے؟ یہی نہیں وہ عیسائیوں کو بھی "اپنی بھیڑیں" سمجھتے ہیں جن سے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہیں دنیا جہان کی جنگوں میں دھکیل دیتے ہیں صلیبی جنگ سے لے کر آج تک۔ چنانچہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ایران اور شیعوں کے دشمن یہودی، غیر ایرانی اور غیر شیعہ مسلمانوں کے دوست ہیں اور پھر صہیونی 75 سالہ قبضے کے دوران جہاں تک ممکن تھا، غیر شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کرتے رہے ہیں۔

غاصب صہیونی اس وقت بچوں اور عورتوں سمیت خالصتا سنی مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں، ان کے گھروں کو مسمار کر رہے ہیں، ان کی مسجدوں کو گرا رہے ہیں؛ ان کے اسپتالوں کو تباہ کر رہے ہیں اور ان کے حرث و نسل کو فنا کر رہے ہیں۔ یہودی ربی غزہ اور فلسطین کی مسلم ـ اور اکثریتی سنی آبادی ـ کی خواتین کو اپنے گماشتوں کے لئے حلال قرار دے رہے ہيں اور تلقین کر رہے ہیں کہ ایک حاملہ عورت کا قتل دو فلسطینی مسلمانوں کا قتل ہے چنانچہ اس قسم کے قتل کا خصوصی اہتمام کیا جائے!

شیعہ مخالفین اپنی تاریخ میں شیعیان اہل بیت(ع) پر الزام لگانے کے لئے انہیں یہودیوں سے نسبت دیتے رہے ہیں اور خود کو یہود دشمن ظاہر کرتے رہے ہیں، اور یہود و نصاریٰ کے خلاف زبانی جنگ لڑتے رہے ہیں، تو اب جبکہ یہودیوں نے ان کے ہم عقیدہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے اور سنگ دلی کی انتہا کرتے ہوئے ان کا قتل عام کر رہے ہیں، یہ حضرات میدان میں کیوں نہیں آر ہے ہیں؟ اب یہ موقع فراہم ہؤا ہے؛ یہ حضرات اور ان کے ہم عقیدہ حکمران کہاں سوئے پڑے ہیں، اور اس موقع کو کیوں ضائع کر رہے ہیں، اور میدان میں کیوں نہیں آ رہے ہیں؟! کیا وہ یہود و نصاریٰ کے خلاف لڑنے کے مشتاق نہيں تھے؟ یہ جو وہ کہتے ہیں کہ اس جنگ میں یہود کی شکست ایران کے مفاد میں ہے تو کیا یہود کی شکست ان لوگوں کے لئے نقصان دہ ہے اور اگر ایسا ہے تو کیوں!؟ کیا راز کی دیواروں کے پیچھے کوئی بات ہے جس کا ہمیں علم نہیں ہے؟ یقیناً یہ ایک احمقانہ اور نامعقول بہانہ ہے اور آنے والی نسلیں ان بہانوں کو قبول نہیں کریں گی اور انہیں یہودیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کا ملزم ٹہرا دیں گی۔

اگر کسی میں غیرت ہے تو یہ وہ زمانہ ہے کہ اس کا اظہار کرے ورنہ جھوٹے سمجھے جائیں گے۔ جو اہل بیت (علیہم السلام) سے دشمنی رکھتے ہیں اور صحابہ کے نام پر خون کی ہولی کھیلتے ہیں، گلے کاٹتے ہیں اور حرث و نسل کو تباہ کر دیتے ہیں، ان سے سوال ہے کہ اگر ان کے لئے قابل احترام صحابہ آج زندہ ہوتے تو کیا وہ یہ کہہ کر فلسطینیوں کے قتل عام پر چھپ سادھ لیتے کہ ان کے قتل سے شیعوں کو نقصان ہو رہا ہے یا ان کی کامیابی سے ایران کو فائدہ پہنچے گا؟! اور کیا وہ ان بہانوں سے فلسطینی مسلمانوں کو یہودیوں کے ہاتھوں قتل کرنے دیتے؟!

ہم نہیں کہتے بلکہ یہ نامی گرامی عرب اور مسلم سنی دانشوروں اور علماء کا کہنا ہے کہ "عوام ہم سے پوچھتے ہیں کہ شیعہ ایران اور شیعہ حزب اللہ کب مداخلت کرکے غزہ کے سنیوں کو اس جنگ سے بچائیں گے، یا شیعہ انصار اللہ کے مجاہدین کب اپنے بڑے میزائلوں سے جنگ کا موازنہ فلسطینیوں کے حق میں بگاڑ دیں گے؟ اور ہمارے لئے یہ واقعی شرم کی بات ہے کہ کوئی بھی یہ نہیں پوچھتا کہ مصر، سعودی عرب، اردن، ترکیہ اور عالم اسلام کے بڑے سنی کہلوانے والے ممالک اور کچھ ایٹمی مسلم ممالک کب مداخلت کریں گے اور غزہ کے سنیوں کو یہودیوں سے کب نجات دلائیں گے"۔ کیا واقعی یہ شرم کی بات نہیں ہے؟ یاد رکھنا، آج یوم العمل ہے اور کل یوم الحساب۔

سنہ 2006 کی 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ لبنان نے صہیونی تاریخ میں پہلی بار غاصب صہیونیوں کو شکست کی تلحی سے آشنا کر دیا اور انہیں تاریخی شکست دی اور عالم اسلام ـ بالخصوص عرب دنیا ـ میں بہت سارے انصاف پسند مسلمانوں نے مکتب اہل بیت(ع) کی جہادی، مقاومتی اور استقامتی تعلیمات کی بنا پر شیعہ مذہب اختیار کیا تو بہت سے علماء ـ جو 33 روزہ جنگ میں یہودیوں کی فتح کے لئے دعائیں دے رہے تھے اور بہت سے عرب حکام ـ جو اس جنگ میں آج کی جنگ کی طرح اسرائیل کو دامے درمے سخنے مدد بہم پہنچا رہے تھے ـ سیخ پا ہوئے اور طوفان بپا کیا کہ ایران عرب ممالک میں تشیّع کو فروغ دے رہا ہے!! یقیناً جنگ غزہ کے بعد ـ عرب ماہرین سماجیات و عمرانیات کی پیشن گوئیوں کے مطابق ـ یہ لہر پھر بھی اٹھے گی اور اگر پہلے عرب مسلمان چوری چھپے شیعہ ہو رہے تھے تو اب اپنے خاموش علماء اور صہیونی دشمن یا یہود و نصاریٰ کے ساتھ ساز باز کرنے والے حکمرانوں کو للکار کر اپنے عقائد کی اصلاح کریں گے اور کہہ دیں گے کہ "تم اسلام اور عرب کی حیثیت کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے ہو"۔  اگر شیعہ مخالف علماء اور حکمران اس نئی لہر کے خواہاں نہیں ہیں تو میدان میں کیوں نہیں آتے اور فلسطین کی طرف جانے والے راستوں کو کھول کیوں نہیں دیتے اور فلسطینیوں کو مسلح کیوں نہیں کرتے؟ اور مل کر طاقت کا استعمال کرکے غزہ کا محاصرہ ختم کیوں نہیں کرتے؟ یہ واحد راستہ ہے جو تمہارے سامنے ہے، اور اگر یہ مہمات سر نہ کر سکو تو تمہاری اپنی قومیں اور تاریخ تمہیں نہیں بخشیں گی اور اگر تمہاری اقوام نے اپنے اعتقادی اور سیاسی راستے تم سے الگ کر لئے تو تمہیں اعتراض و تنقید کا حق حاصل نہیں ہوگا۔

اور ہاں! شاید بعض ممالک یہ کہتے ہیں کہ "ایران اور محور مقاومت کو میدان میں تنہا چھوڑتے ہیں، اگر مقاومت جیت گئی تو ہم بھی مونچھ پر ہاتھ پھیر کر کہیں گے کہ ہم بھی اس فتح میں شریک ہیں یا کم از کم ہم نے حماس کی مخالفت نہیں کی ہے!! اور اگر مقاومت ہار گئی تو مقاومت کے راہنماؤں پر لعنت ملامت کرکے اپنے مغربی آقاؤں کی ہاں میں ہاں ملائیں گے اور کہیں گے کہ بھئی ہم کب مقاومت کے حامی تھے، ہم تو جانتے تھے کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا!!"؛ البتہ شرط یہ ہے کہ انہوں نے امارات کی طرح فلسطینیوں کی نسل کُشی کے عین وقت پر غاصب صہیونی ریاست کے صدر کو ابوظہبی اور دوبئی آنے کی دعوت نہ دی ہو یا سعودیوں کی طرح، اسی اثناء میں صہیونیوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے اپنے عہد پر اصرار نہ کیا ہو؛ ـ بہرحال یہ شیطانی ہتھکنڈے ہیں اور عام طور پر کامیابی سے ہم کنار نہیں ہؤا کرتے اور بدنامی کا داغ بہرحال چہروں پر باقی رہے گا تا ابد۔

بلاشبہ یہ سب تک شیطانی چالیں ہیں، چنانچہ امید ہے کہ ہمارے مسلم علماء اور مسلم ممالک کے حکمران امریکی بساط پر کھیلنے کی عادت کو پوری طرح چھوڑ کر رو بہ زوال امریکہ اور رو بہ انحطاط اسرائیل کی مخالفت کریں گے اور غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت کریں گے ورنہ یقیناً کل بہت دیر ہوگی!

فلسطینیوں کے کچھ حامی بھی ہیں!

اسلامی جمہوریہ ایران وہی ملک ہے جس نے فلسطینی عوام کو ـ جن کا واحد اسلحہ پتھر تھا ـ میزائلوں اور مختلف قسم کے راکٹوں اور مؤثر ہتھیاروں سے لیس کیا ہے اور اعلیٰ سفارتی سطوح پر، فلسطینی مقاومت کی سفارتی جنگ کی ذمہ داری سنبھال لی ہے؛ یہاں تک کہ مقاومت کے راہنما کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطینیوں کی وزارت خارجہ کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے۔ اس حقیقت کے ادراک کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر، وزیر خارجہ اور دوسرے عہدیداروں کے دوروں، صدر اور وزیر خارجہ کی تقریروں اور مذاکرات کے متون کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔

اسی اثناء میں امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے چند ہی روز پہلے فرمایا تھا: "اسلامی جمہوریہ ایران کی حتمی رائے یہ ہے کہ جو ممالک صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی جوابازی کو اپنے لئے نمونۂ عمل قرار دے رہے ہیں، غلطی پر ہیں، انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، شکست ان کا انتظار کر رہی ہے؛ یہ لوگ ـ یورپیوں کے بقول ـ ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگا رہے ہیں۔ آج صہیونی ریاست کی حالت ایسی نہیں ہے جو ان ممالک کو اس کے ساتھ قربت کی ترغیب دلا سکے؛ انہیں غلطی کا ارتکاب نہیں کرنا چاہئے۔ غاصب صہیونی ریاست جانے والی ہے۔ آج فلسطین کی تحریک ان 70 برسوں سے کہیں زیادہ شاداب اور تر و تازہ ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج فلسطینی نوجوان، فلسطینی تحریک، اور غصب، ظلم اور صہیونیت کے خلاف چلنے والی تحریک پہلے سے کہیں زیادہ با نشاط، با طراوت اور شاداب اور بالکل تیار اور آمادہ ہے۔ اور ان شاء اللہ یہ تحریک نتیجہ خیز ہو گی۔ اور جیسا کہ امام بزرگوار (رضوان اللہ علیہ) نے صہیونی ریاست کو "کینسر" قرار دیا ہے، اللہ کے فضل سے اس کینسر کی جڑیں فلسطینی عوام اور پورے علاقے میں مقاومت کی قوتوں کے ہاتھوں اکھڑ جائیں گی"۔ (3 اکتوبر 2023ع‍)

حزب اللہ لبنان جنوبی لبنان سے صہیونیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور حزب اللہ کے شیعہ مجاہدین صہیونی دشمن کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں اور فلسطینیوں کو اپنے خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں سے لاکھوں صہیونیوں کو گھربار چھوڑنے پر مجبور کیا ہؤا ہے اور غاصب صہیونیوں کو پہلی بار خیموں میں بسنے پر مجبور کیا ہے۔ وہ ہر روز صہیونیوں پر درجنوں حملے کر رہے ہیں اور غزہ کو سہارا دے رہے ہیں۔ حزب اللہ نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ جب تک غزہ پر جعلی صہیونی ریاست کی جارحیت نہیں رکے گی، صہیونی ٹھکانوں اور فوجی تنصیبات پر حملے جاری رہیں گے۔

انصار اللہ یمن نے مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں صہیونیوں کے "ایلات" بندرگاہ اور شہر اور ـ جس کو مقاومت کی رسائی سے دور اور محفوظ سمجھا جاتا تھا ـ کو صہیونیوں کے لئے جہنم بنا دیا ہے۔ یمن آج فلسطینیوں کو مدد بہم پہنچانے کے لئے بحیرہ قلزم سے صہیونیوں کے بحری جہازوں کو ضبط کر رہا ہے۔ اور "ایلات" جو کہ صہیونیوں کی 30 فیصد برآمدات اور درآمدات کو یقینی بناتا تھا، آج آبادی سے خالی ہو چکا ہے اور ایلات بندرگاہ اور بحیرہ قلزم کے راستے سے ہونے والی تجارت کی چھٹی کر دی ہے؛ اور یہاں رہنے والے ـ اور شمالی شہروں سے بھاگ کر آنے والے ـ صہیونیوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ وہی مظلوم یمن ہے جو آٹھ سال کے عرصے تک سعودی عرب اور امارات کی وحشیانہ جارحیت کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ اور کتنی افسوس کی بات ہے کہ آج جب وہی انصار اللہ اور وہی مظلوم یمن، جب غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت کے لئے، مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کو نشانہ بنانے کی غرض سے میزائل داغتا ہے تو وہی سعودی حکومت ـ فلسطینی مظلوموں کی حمایت کرنے اور یمن سے عزت و غیرت کا سبق سیکھنے کے بجائے ـ یمنی میزائلوں کو مار گرانے کی سعی کرتی ہے، تاکہ یہ میزائل صہیونیوں تک نہ پہنچ سکیں! بہرحال یمن نے اعلان کیا ہے کہ غزہ پر صہیونی جارحیت رکنے تک غاصب ریاست پر اپنے حملے جاری رکھے گا۔

عراق کی اسلامی مقاومت نے غزہ پر جارحیت کے اصل مجرم امریکہ کے اڈوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے اور آج عراق اور شام میں امریکی قابضوں کا کوئی اڈہ بھی ان کے حملوں سے محفوظ نہیں ہے۔ عراقی مجاہدین نے کئی میزآئلوں سے مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں ایلات کی بندرگاہ کو بھی نشانہ دیا ہے اور عراق اور شام میں قابض امریکی فوجیوں کے ٹھکانوں پر ان کے حملے اتنے وسیع ہیں کہ امریکی شام سے نکلنے کا بل کانگریس میں لا رہے ہیں اور کچھ تو کہتے ہیں کہ انصار اللہ اور عراقی مجاہدین کی وجہ سے بحر و بر میں امریکی موجودگی کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔

یہ تین محاذ ہیں جو شیعہ مقاومت نے صہیونیوں کے خلاف کھول دیئے ہیں اور وہ غزہ اور فلسطین کے سنی عوام کے حق میں جو کچھ کر سکتے ہیں کر رہے ہیں؛ اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہوں نے سنی برادران کی جگہ پر کر دی ہے، بلکہ منتظر ہیں ان کے آنے کے میدان میں۔

صہیونی دشمن ہار چکا ہے

شک و تذبذب کا شکار مسلمان علماء، حکمران، جماعتیں اور تنظیمیں، جنہیں اب بھی اسرائیل کی فتح اور مقاومت کی شکست کی امید ہے، جان لیں کہ صہیونی دشمن فلسطینی مقاومت کے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے پہلے دن ہی ہار چکا ہے، غاصب صہیونی ریاست کا انتظام و انصرام تباہ ہو چکا ہے، امریکی وزیر خارجہ صہیونی جنگی کابینہ کا وہ رکن ہے جس کا کردار فیصلہ کن ہے، حتی کہ پولیس امریکیوں کے ہاتھ میں ہے اور فوجی کمان بھی امریکی جرنیلوں کے ہاتھ میں پہنچ گئی ہے۔ امریکی صدر، برطانوی وزیر اعظم، فرانسیسی صدر اور جرمن حکام کا تل ابیب پہنچنے کا سبب صرف اور صرف یہی تھا کہ صہیونی ریاست ـ جو مغربی ایشیا میں مغرب کی فوجی چھاؤنی یا مغربی جنگی طیارہ بردار بحری جہاز ہے ـ نیست و نابود ہو گئی ہے، خواہ مغربی حکام تل ابیب کے دورے پر آئیں یا نہ آئیں، خواہ وہ صہیونیوں کو تباہ کن ہتھیار فراہم کریں یا نہیں کریں، خواہ وہ غزہ پر غلبہ پائے یا شکست مان کر بھاگ جائے، یہ چھاؤنی مقاومت فلسطین کے ہاتھوں فتح ہو چکی ہے۔ طوفان الاقصیٰ کے مختلف پہلوؤں کے تجزیئے کی باری آئے گی اور دنیا سمجھ جائے گی کہ آنے والا اسرائیل کل والے اسرائیل کی طرح نہیں ہوگا۔

صہیونی دشمن ہارے ہوئے گھوڑے سے زیادہ کچھ نہیں ہے

جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ "جو ممالک صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی جوابازی کو اپنے لئے نمونۂ عمل قرار دے رہے ہیں، غلطی پر ہیں، انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، شکست ان کا انتظار کر رہی ہے؛ یہ لوگ ـ یورپیوں کے بقول ـ ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگا رہے ہیں۔ آج صہیونی ریاست کی حالت ایسی نہیں ہے جو ان ممالک کی اس کے ساتھ قربت کی ترغیب دلا سکے؛ انہیں غلطی کا ارتکاب نہیں کرنا چاہئے۔ غاصب صہیونی ریاست جانے والی ہے"۔

علاوہ ازیں کئی مغربی مبصرین ـ منجملہ سینئر برطانوی صحافی ڈیوڈ ہرسٹ (David Hirst) اسرائیل کو ایک نوآبادی [Settlement] کا نام دے رہے ہیں، جو کہ پورے فلسطین کو ہڑپ کرنا چاہتی ہے۔

قاعدہ یہ ہے کہ ہر نوبنیاد ملک کے پاس ملت سازی کو زیادہ سے زیادہ 25 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، جبکہ صہیونی ریاست 75 سال بعد بھی مغربی کنارے میں اپنے زیر قبضہ علاقوں پر فضائی بمباری کرتی ہے اور ہر روز و شب اس سرزمین کے عوام کے ساتھ جھڑپوں میں مصروف ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ریاست ابھی تک ملک و ملت تشکیل دینے میں ناکام رہی ہے اور دوسری طرف سے ـ حتیٰ اگر بیرون ملک مقیم ڈیڑھ کروڑ فلسطینی پناہ گزینوں کو شمار نہ بھی کریں ـ مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی آبادی یہودی آبادی سے کہیں زیادہ ہے، چنانچہ جمہوری قواعد کے مطابق بھی اس ملک پر یہودی اقلیت کی حکمرانی ناجائز اور غیر قانونی اور غیر جمہوری ہے۔

صہیونی دشمن غزہ پر غلبہ پائے گا تو کیا ہوگا؟

ہمیں اللہ کے وعدوں پر یقین ہے، فلسطینی مجاہدین جہاد کا حق ادا کر رہے ہیں، اور انسانیت کے بدترین دشمنوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں اور اپنے خون سے دشمن کے جدیدترین مہلک ہتھیاروں کا مقابلہ کر رہے ہیں، چنانچہ اللہ کی نصرت ضرور آئے گی اور وہ اس جنگ میں صہیونیوں کو غزہ سے مار بھگائیں گے؛ ارشاد ربانی ہے:

"إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ؛ بلاشبہ اللہ دفاع کرتا ہے ان کی طرف سے جو ایمان لائیں، بلاشبہ اللہ کسی خیانت کرنے والے [غدار]، ناشکرے کو دوست نہیں رکھتا"۔ (سورہ حج-38) "وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ؛ اور یقیناً اللہ مدد کرے گا اس کی جو اس کی مدد کرے۔ بلاشبہ اللہ طاقت والا ہے، غالب آنے والا"۔ (سورہ حج-40)

حقیقت یہ ہے کہ غزہ پر شکست خوردہ صہیونی دشمن کے غلبے کی صورت میں کوئی بھی مسلم ملک محفوظ نہیں رہے گا، اور سب سے پہلے فلسطین کے اطراف کے ممالک اور پھر ان ممالک کی تباہی کے منصوبے بنیں گے اور پھر باقی ممالک کو زیر نگيں لانے کی کوششیں ہونگی، اور ان تمام ممالک کے خلاف اقدامات ہونگے جن سے کسی وقت بھی صہیونیت اور مغربی مفادات کو خطرے کا امکان ہوگا۔

غزہ مغلوب ہوگا تو امریکیوں کو اپنا ڈھلتا ہؤا استعماری نظام دوبارہ بحال کرنے اور صہیونی ریاست کی تباہی کا ازالہ کرنے کا موقع ملے گا اور نہ صرف پورا عالم اسلام بلکہ تمام محکوم اقوام کو شکست ہوگی، جنہیں نئے زمانے میں امید کی کچھ کرنیں نظر آئی تھیں اور یہ امیدیں دوبارہ پیدا ہونے میں صدیوں کا نہیں تو عشروں کا عرصہ لگے گا کیونکہ عالمی استکبار اپنے نظریئے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے نیا نوآبادیاتی نظام قائم کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کے شر سے غزہ کے عوام کے قتل عام پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے والوں سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا اور حتیٰ کہ چین کو دنیا کی پہلی طاقت بننے کا منصوبہ ملتوی کرنا پڑے گا اور روس کو بھی بہت سے محاذوں پر پسپا ہونا پڑے گا۔ جبکہ اگر صہیونی ہار جائیں تو اسرائیل کے بعد کی دنیا زیادہ پرامن ہوگی۔

نکتہ:

جس وقت دشمنان اسلام طاقت کے عروج پر تھے اور مسلمانوں کی تعداد قلیل اور وسائل نہ ہونے کے برابر تھے: "أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُّنتَصِرٌ؛ یا وہ [دشمنان اسلام] کہتے ہیں کہ ہم بڑی یکدل جماعت ہیں [تو] فتح حاصل کرکے رہیں گے"۔ ارشاد ہؤا: سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ * بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ * إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلَالٍ وَسُعُرٍ؛ یہ جماعت بہت جلدی شکست کھائے گی اور یہ سب پیٹھ پھرائیں گے * ہاں ان کی (اصل) سزا کا وقت مقرر ہے قیامت والی گھڑی کا اور وہ گھڑی سخت مصیبت اور بہت زیادہ تلخ منزل ہے * یقینا مجرم لوگ گمراہی اور دیوانگی سے دوچار ہیں"۔ (سورہ قمر، آیات 44-47)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110