اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب گاہ
منگل

12 دسمبر 2023

3:04:21 PM
1419628

طوفان الاقصی؛

یمن نے صہیونیوں کو 3 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا / ایلات بندرگاہ بیرونی جہازوں سے خالی / بحیرہ قلزم میں امریکہ اور حلیفوں کی بیکار بحری مہم + نقشہ

مقبوضہ فلسطین کے جنوبی علاقوں سے یمن کا فاصلہ 1700 کلومیٹر ہے چنانچہ صہیونی فوج اور اس کی فضائیہ یمن پر مؤثر انتقامی حملہ کرنے سے عاجز ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

غزہ کے مظلوم عوام پر صہیونی ریاست اور امریکہ کی وحشیانہ جارحیت پر اگر ایک طرف سے فلسطینی مجاہدین صہیونی دشمن کے خلاف دفاعی جنگ لڑ رہے ہیں تو محور مقاومت کے مجاہدین بھی خطے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور فلسطینی عوام کو تنہا چھوڑنے پر راضی نہیں ہیں۔

اس اثناء میں انصار اللہ یمن، باوجود اس کے کہ مقبوضہ فلسطین سے بہت دور ہے، صہیونیوں کے خلاف زیادہ مؤثر کردار ادا کر رہی ہے۔ اگر حزب اللہ نے 100 شہیدوں کا نذرانہ پیش کرکے فلسطین کے دفاع کے عہد کو بخوبی نبھا رہی ہے اور اب تک 2 لاکھ صہیونیوں کو پناہ گزینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر چکی ہے، تو دوسری طرف یمنی مجاہدین نے مسلسل میزائل اور ڈرون حملے کرکے ایلات بندرگاہ کو شہر ارواح میں تبدیل کر دیا ہے؛ بحیرہ قلزم (یا بحیرہ احمر Red Sea) میں صہیونی جہازوں کو ضبط کر رہے ہیں، اور صہیونی ریاست سے آنے اور اس سے ریاست سے جانے والے جہازوں کی نقل و حرکت کو روک لیا ہے جس کی وجہ سے صہیونیوں کی معیشت اور سلامتی پر بھاری دباؤ پڑ گیا ہے۔

مورخہ 19 نومبر [2023ع‍ کو] انصار اللہ یمن کی اسپیشل فورس نے گالیکسی لیڈر نامی اسرائیلی تجارتی جہاز کو یمن کے ساحلی پانیوں میں ضبط کرکے ساحل کی طرف منتقل کیا۔ یہ سمندروں میں صہیونی ریاست کے لئے طویل المدت ڈراؤنی خواب کا آغاز تھا اور غاصب ریاست گذشتہ ایک مہینے میں امریکہ اور فرانس سمیت اپنے اتحادیوں کی مدد سے بھی بحیرہ قلزم میں اسرائیلی تجارتی جہازوں کے کے لئے امن قائم کرنے سے عاجز رہی ہے۔

غزہ میں چندروزہ عارضی جنگ بندی صہیونی جہازوں نیز ایلات بندرگاہ جانے والے دوسرے ممالک کے جہازوں کے لئے سانس لینے کا مختصر وقفہ ثابت ہوئی۔ لیکن جنگ بندی بہت جلد ختم ہوئی۔

صہیونیوں نے جنگ بندی کے سمجھوتے کی خلاف ورزی کی اور غزہ پر حملوں کا دوبارہ آغاز کیا تو یمنی افواج فوری طور پر ایک اسپیشل بحری گروپ تشکیل دے کر بحیرہ قلزم میں صہیونیوں کے تجارتی بیڑے پر کاری ضرب لگانے کے لئے تیار ہوئیں اور غاصب اسرائیل کے لئے سامان تجارت لے جانے والے دو برطانوی جہازوں یونٹی ایکسپلورر اور نمبرنائن کو میزائل حملوں کا نشانہ بنا کر شدید نقصان پہنچایا۔

بحیرہ قلزم میں امریکہ اور حلیفوں کی بحری بیکار مہم

مقبوضہ فلسطین کے جنوبی علاقوں سے یمن کا فاصلہ 1700 کلومیٹر ہے چنانچہ صہیونی فوج اور اس کی فضائیہ یمن پر مؤثر انتقامی حملہ کرنے سے عاجز ہے اور امریکہ بھی یمن پر حملہ کرنے اور علاقے میں اپنے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے سے خوفزدہ ہے اور ایسا کرنے سے پرہیز کرتا ہے۔ امریکہ، اور حال ہی میں فرانس، نے یمنی میزائلوں اور ڈرون طیاروں کا راستہ روکنے کے لئے چند جنگی بحری جہاز بھیجنے پر اکتفا کیا ہے۔

بحری جہاز USS Carney

امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے USS Carney کی مدد سے صہیونی ٹھکانوں پر داغے جانے والے تقریبا 22 یمنی میزائلوں اور ڈرون طیاروں کو مار گرایا ہے گوکہ ابھی تک وہ اس کا کوئی تصویری ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

چند روز قبل فرانسیسی بحری جہاز Languedoc نے بحیرہ قلزم کی فضا میں دو یمنی ڈرون طیاروں کا راستہ روکنے کا دعویٰ کیا؛ لیکن یہ سارے اقدامات بھی اسرائیلی جہازوں میں پڑے ہوئے خلل کا مداوا نہیں کرسکے ہیں، اور بیرونی کمپنیاں بھی چونکہ ایلات بندرگاہ کی طرف جانے والے راستوں کی بدامنی اور اس بندرگاہ پر یمن کے میزائل حملوں کی وجہ سے، اس بندرگاہ میں لنگر انداز ہونے سے اجتناب کر رہے ہیں۔

انصار اللہ نے غاصب یہودی ریاست کو 3 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا

صہیونی ذرائع کے مطاابق، انصار اللہ یمن کی دھمکیوں کی وجہ سے، اسرائیل کی طرف آنے والے جہازوں کو اپنا راستہ بدلنا پڑ رہا ہے جس کی بنا پر اس ریاست کی معیشت کو اب تک 3 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔

ایلات بندرگاہ کے ڈائریکٹر جنرل گولبر گدئون (Golber Gideon) نے اعلان کیا کہ یمنیوں کی جانب سے اسرائیل کی طرف آنے والے جہازوں کو روکنے کی وجہ سے اس بندرگاہ کی 80 سے 85 فیصد آمدنی ختم ہو چکی ہے۔ بحیرہ قلزم میں یمنیوں کی رکاوٹوں کی وجہ سے گذشتہ ایک مہینے کے دوران 14000 گاڑیاں اور کاریں اسرائیل نہیں پہنچ سکی ہیں۔ اور اسرائیل کی طرف آنے والے جہاز ایلات تک پہنچنے کے لئے جنوبی افریقہ کے "راس امید" (Cape of hope) کا چکر لگانا پڑتا ہے اور آبنائے جبل الطارق سے گذر کر بحیرہ روم تک آنا پڑتا ہے۔

اسی سلسلے میں صہیونی ٹی وی چینل-13 نے اعلان کیا کہ جہازرانی کا راستہ بدلنے سے درآمدات کی قیمت میں 3 فیصد اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے صہیونی ریاست پر تقریبا 3 ارب ڈالر کا اضافی بوجھ عائد ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110