اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب گاہ
ہفتہ

2 دسمبر 2023

12:24:21 AM
1416391

حیرت انگیز طوفان الاقصٰی آپریشن عرب اسرائیلی جنگوں میں پہلی پیشگی جنگ (Preemptive war) کا اعلان تھا جس کا آغاز سنہ 2006ع‍ میں حزب اللہ نے 33 روزہ جنگ سے کیا تھا۔ یہ قابل فخر اعلان غاصب صہیونی فوج کے تسدید دور کے خاتمے کا اعلان تھا، وہی جو خطے کی طاقتور فوج سمجھی جاتی تھی۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

1۔ صہیونیوں نے ہاتھ اٹھا لئے، ہینڈز اپ ہو گئے، اور جنگی بندی کو حماس کی شرطوں پر قبول کر لیا، اور یوں اس نے اسرائیل کے بعد کے دور کا اعلان کیا مقبوضہ فلسطین میں اندرونی سطح پر بھی اور بیرونی سطح پر بھی۔

حیرت انگیز طوفان الاقصٰی آپریشن عرب اسرائیلی جنگوں میں پہلی پیشگی جنگ کا اعلان تھا جس کا آغاز سنہ 2006ع‍ میں حزب اللہ نے 33 روزہ جنگ سے کیا تھا۔ یہ قابل فخر اعلان غاصب صہیونی فوج کے تسدید دور کے خاتمے کا اعلان تھا، وہی جو خطے کی طاقتور فوج سمجھی جاتی تھی۔

2۔ عرب ـ بالخصوص قدس شریف پر قابض صہیونی ریاست کے پڑوسی ـ ممالک کی نئی نسل کے ہاں یہ سوال رائج الوقت تھا کہ عرب ممالک 1948، 1967 [اور 1973ع‍] میں کئی بڑے عرب ممالک مل کر بھی صہیونیوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیوں نہیں کر سکے، اور خود ہاتھ اٹھانے [یا ہینڈز اپ ہونے] پر آمادہ ہو گئے اور اپنی اراضی پر صہیونیوں کا قبضہ تسلیم کر لیا؟ اور آج طوفان الاقصٰی نے ان کے اس سوال کا اطمینان بخش جواب دے دیا ہے۔

جواب یہ تھا کہ عربی نیشنلزم کی منطق سے، بعثی سوشلزم کی منطق سے اور اردنی یا سعودی طرز کی بادشاہی منطق سے اس فوج سے لڑنا ممکن نہیں ہے جس کو نیٹو کی پشت پناہی حاصل ہے اور پورا مغربی نظام اس کی سیاسی حمایت کر رہا ہے۔

3۔ جس دن طوفان الاقصٰی آپریشن کی کامیابی اور اس کی حیرت انگیز حصول یابیوں کی خبر اللہ اکبر کے نعرے کے ساتھ دنیا میں گونج اٹھی اور حماس کے راہنماؤں نے سجدہ شکر بجا لایا تو معلوم ہؤا کہ اسلام کی منطق سے، اور قرآن کی منطق سے، اور حق و باطل، خیر و شر اور نور و ظلمت کی جنگ کے دائرے میں داخل ہوکر میدان میں داخل ہو کر قطعی طور پر فاتح و کامیاب ہؤا جا سکتا ہے۔ اسلام کی منطق غزوہ بدر کی منطق ہے، جب ایک متناسب جنگ (Symmetric warfare) میں ـ دشمن کی اسلامی لشکر سے تین گنا زیادہ تھی ـ اسلام کے سپاہی اللہ کی مدد سے فاتح ہو گئے۔

4-  جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح شرک کے خلاف ایک آشکار حجت اور توحید و اسلام کی حقانیت کی واضح دلیل تھی۔

مروی ہے کہ جنگ بدر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے فرمایا کہ "مٹھی بھر مٹی اور ریت اٹھا کر دے دو"، امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے دعا کرتے ہوئے مٹی دشمن کی طرف پھینک دی جس سے معجزانہ طور پر طوفان اٹھا جس نے دشمن کو خائف و مرعوب کر دیا۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) دست بہ دعا ہئے اور بارگاہ حق میں عرض کیا: "اے میرے معبود اگر مسلمانوں کی اس جماعت کو قتل کیا جائے، تو تیری بندگی زمین سے اٹھ جائے گی"۔

چنانچہ خدائے بزرگ و برتر نے مسلمانوں کی مختصر سی جماعت کو مشرکین پر غلبہ عطا کیا۔ مجھے یقین ہے کہ طوفان الاقصٰی آپریشن کے منصوبہ ساز "محمد ضیف" پوری باریک بینی سے القسام بریگیڈز کی زمینی، فضائی اور سمندری کاروائی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، تو انہیں امید تھی کہ خدائے متعال جنگ بدر کی طرح، اس جنگ میں ان کی اور ان کے قلیل ساتھیوں کی مدد فرمائے گا۔

5-  اللہ نے بارہا قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے: "

لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا ... بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى...؛

یہ سب مل کر کبھی تم سے جنگ نہیں کریں گے ۔۔۔ ان کا اختلاف خود آپس میں بہت سخت ہے۔ تم انہیں سب اکٹھا دیکھتے ہو، حالانکہ دل ان کے الگ الگ ہیں۔۔۔"۔ (حشر-14)

دنیا کی تاریخ ہمیں ایک نمونہ بھی نہیں دکھا سکتی کہ ایک غیر متناسب جنگ (Asymmetric warfare) میں القسام بریگیڈز جتنا چھوٹا سا لشکر ایک پیشگی جنگ (Preemptive war) ایک کیل کانٹے سے لیس فوج کو ـ جس کے اسلحے اور گولہ بارود کے گودام نیٹو کے گوداموں سے متصل ہوں ـ 50 دن سے بھی کم عرصے میں دشمن کی جنگی مشین کو ناکارہ بنا دے، دشمن کو گھٹنے ٹیکنے اور جنگ بندی کی بھیک مانگنے پر مجبور کرے۔

6۔ اس غیر منصفانہ جنگ میں مقاومت اسلامی نے غزہ اور مغربی کنارے میں جانفشانی کے ساتھ، بڑی قیمت ادا کی، اور فتح و کامرانی کو گلے لگا سکے۔ 15 سے 20 ہزار شہید، جو اس وقت بہشت بریں میں رسول اللہ اور اولیاء اللہ (علیہم الصلوٰۃ و السلام) کے پہلو بہ پہلو، اللہ کے فضل سے، زندہ ہیں اور روزی پاتے ہیں، چنانچہ یہ خرچ نہیں بلکہ منافع ہے۔ یہ ہم نہیں کہتے بلکہ اسلام کی منطق کہتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عرب راہنما ـ جو قوم پرستی، سوشلزم اور بادشاہتوں کی منطق سے غاصب اسرائیل کے سامنے کھڑا ہونا چاہتے تھے، اس قرآنی اور اسلامی منطق سے بیگانہ تھے، چنانچہ مسلسل ناکامیوں سے دوچار ہوئے۔

بلا شبہ غاصب صہیونی ریاست نے امریکہ اور یورپ کی مدد سے غزہ کے 50 سے 60 فیصد حصے کو کھنڈر بنا دیا ہے لیکن غزہ کے پرعزم فلسطینی، مسلمانوں اور احرارِ عالم کی مدد سے غزہ کو دوبارہ بنا دیں گے؛ حماس کی فوج اس نئے تجربے کی رو سے پہلے سے زیادہ آمادہ اور طاقتور ہو جائے گی اگلی جنگ کے لئے! حماس کی عوامی حکومت پہلے سے زیادہ طاقت سے غزہ کا انتظام و انصرام سنبھالے رہے گی اور پوری طاقت سے غزہ کی پٹی کے ناقابل تسخیر قلعے کی تعمیر نو کا اہتمام کرے گی۔

آج غزہ کے عوام کے چہروں پر فتح و نصرت کی شادابی دکھائی دے رہی ہے، اور شکست، خفت، ذلت، حقارت اور ناکامی کی پژمردگی صہیونی اور امریکی ریاستوں کے چہرے پر بخوبی عیاں ہے۔

7۔ جنگ ختم نہیں ہوئی ہے، غاصب ریاست کو ـ بدستور ـ شمال کی طرف سے حزب اللہ، جنوب کی طرف سے یمن اور انصار اللہ، نیز شام اور عراق میں اسلامی مقاومت اور مقبوضہ سرزمین کے اندر فلسطینی مقاومت کی طرف سے شدید ترین دباؤ کا سامنا ہے، اور وہ سب کہتے ہیں کہ جب تک کہ غزہ پر جارحیت کا مکمل خاتمہ نہیں ہوگا ان سب کی انگلی ٹریگر پر رہے گی اور وہ ہر دم تیار باش کی حالت میں ہونگے۔ اندرون خانہ بھی نیتن یاہو کا گراف تیزی سے گر گیا ہے اور غاصب صہیونی، طوفان الاقصٰی میں اپنی تاریخی ذلت کی ذمہ داری موجودہ کابینہ پر ڈال رہے ہیں۔

8- صہیونی ریاست کی شکست اظہر من الشمس ہے۔ خونخوار صہیونی غزہ کی ایک انچ زمین پر بھی قابض نہیں ہو سکے اور خفت و ذلت کے ساتھ پسپا ہو گئے، ان کی بکتربند یونٹوں کے متعدد افسران غزہ کے سپورٹس ٹراوزرز اور چپل پہنے مجاہدین کو دیکھ کر بھاگ جانے کی پاداش میں برطرف کئے گئے ہیں۔ وہ حتی اپنے ایک قیدی کو فوجی دباؤ کی مدد سے رہا نہیں کروا سکے، اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ حماس کے مجاہدین کو تھکا بھی نہ سکے اور جنگ ایسے حال میں جنگ بندی کے مرحلے میں داخل ہوئی کہ حماس کی 90 فیصد [یا اس سے بھی زیادہ] فوجی قوت محفوظ ہے، اور تھوڑے بہت نقصانات کا ازالہ کرنے کا موقع بھی حاصل کر سکی ہے۔

حماس آج روئے زمین پر سب سے زیادہ عوامی حکومت ہے۔ یہاں کے عوام اپنے خون کے آخری قطرے تک اپنے حکام کی حمایت کرتے ہیں۔ حماس آج دنیا کی قانونی ترین اور جائز ترین حکومت ہے کیونکہ گذشتہ 50 دنوں کے دوران 5 براعظم کے عوام سڑکوں پر آئے اور معرکۂ طوفان الاقصٰی کی حقانیت کی تصدیق و توثیق کر دی۔

اسرائیل کے بعد کا دور خطے میں بھی اور دنیا بھی قابل دید ہے۔ مغربی ایشیا میں طاقت کے حوالے سے  مقاومت کی بات ہی حرف آخر ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: محمد کاظم انبارلوئی، سینئر صحافی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110