اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

30 نومبر 2023

11:44:46 PM
1416297

طوفان الاقصی؛

فلسطینیوں اور اسرائیل کا باہم تعلق قابض اور مقبوض کا تعلق ہے / حماس اور جہاد اسلامی کی جڑیں فلسطینی قوم کے رگ و پے میں پیوست ہیں

ایک فلسطینی صحافی خاتون، کہا: میں سمجھتی ہوں کہ حتی نیتن یاہو بھی اس حقیقت کا ادراک رکھتا ہے کہ فوجی کاروائی حماس کو ختم نہیں کرتی، کیونکہ حماس ایک سماجی تحریک ہے، جو حاضر و موجود ہے اور سرگرم عمل ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، پارسین ٹی وی نے ایک فلسطینی صحافی خاتون، نور عودہ سے بات چیت کی ہے جس کا متن صارفین و قارئین کے پیش خدمت ہے:

 اینکر: کیا اسرائیل فوجی کاروائی کے ذریعے حماس کو ختم کر سکتا ہے یا نہیں؟

نور عودہ: میں سمجھتی ہوں کہ حتی نیتن یاہو بھی اس حقیقت کا ادراک رکھتا ہے کہ فوجی کاروائی حماس کو ختم نہیں کرتی، کیونکہ حماس ایک سماجی تحریک ہے، جو حاضر و موجود ہے اور سرگرم عمل ہے، صرف غزہ ہی میں نہیں بلکہ پوری مقبوضہ سرزمین میں اور بیرون ملک رہنے والے فلسطینی پناہ گزینوں کے درمیان، اور ان علاقوں میں جہاں بیرون ملک کثیر تعداد میں فلسطینی رہتے ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے ایسی باتیں، درحقیقت اس لئے ہیں کہ نیتن یاہو اپنی سماجی حیثیت کو تقویت پہنچانا چاہتا ہے، اور یہ اس مقصد کے حصول کےحوالے سے اس کی صلاحیت کو ثابت نہیں کرتیں۔ وہ حماس کے کئی اعلی افسروں کو قتل کر سکتا ہے لیکن اس کا مطلب حماس کا خاتمہ نہیں ہے۔

اینکر: کیا حماس اور جہاد اسلامی کے حامی مغربی کنارے کے دوسرے علاقوں میں بھی موجود ہیں؟ ان کی پوزیشن وہاں کتنی ہے؟

نور عودہ: وہ ہر جگہ موجود ہیں، وہ ایسی تحریکیں ہیں جو معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہیں۔ وہ پورے فلسطینی معاشرے میں گھل مل گئے ہیں۔ یہ کوئی بیرونی گروپ نہیں ہیں جنہوں نے حملہ کرکے فلسطین پر قبضہ کیا ہو۔ یہ وہ فلسطینی ہیں جو فلسطینی خاندانوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اور پوری غزہ پٹی اور مغربی کنارے میں موجود ہیں۔ اسرائیل نے مغربی کنارے کے عوام کے خلاف تشدد کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ اس نے سات اکتوبر کے آغاز سے اب 60 سے زائد بچوں کو مغربی کنارے میں قتل کیا ہے، اور اسی علاقے میں 220 فلسطینیوں کو سات اکتوبر سے اب تک قتل کیا ہے۔ یہودی بستی نشین مغربی کنارے کے عوام کے خلاف تشدد آمیز کاروائیاں کر رہے ہیں۔ اس قدر تشدد اور اس تشدد کی کیفیت اس تشدد کے برابر ہے جو غزہ میں کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی شہری ـ خواہ وہ کسی بھی سیاسی گروہ یا تحریک سے وابستہ ہوں ـ محسوس کررہے ہیں کہ ان تشدد آمیز اقدامات کا نشانہ بن رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ اب جبکہ سات اکتوبر کا واقعہ رونما ہؤا تو صہیونیوں کو یاد آیا ہے کہ اس واقعے کے بہانے فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ صہیونی برسہا برس سے فلسطینیوں پر فوجی طاقت کی مدد سے حکومت کر رہے ہیں۔ 50 سال یا 60 سال ہوئے کہ وہ مغربی کنارے اور غزہ میں فوجی حکمرانی کر رہے ہیں۔ جو کچھ فلسطینی چاہتے ہیں وہ آزادی ہے، فلسطینیوں اور اسرائیل کا باہم تعلق قابض اور مقبوض کا تعلق ہے، یہ دو پڑوسی ممالک کا تعلق نہیں ہے، اسرائیل نے فلسطینی سرزمینوں کو غصب کر لیا ہے، اس نے ان اراضی کو چوری کر لیا ہے، اسرائیلی اپنے قبضے اور غصب کے پابند ہیں اور یہی بات ہے جو سبب بنی ہے کہ آج اس طرح کی تحریکیں معرض وجود میں آئی ہیں۔ بہت سارے مسلح فلسطینی گروپوں کا فلسفہ یہیں سے جنم لیتا ہے؛ اس لئے نہیں کہ وہ خونریزی اور انتقام کے درپے ہیں، بلکہ ایک وسیع تر اور زیادہ بڑی تصویر بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110