اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

29 نومبر 2023

10:32:42 PM
1416118

طوفان الاقصیٰ؛

جرائم پیشہ صہیونی ریاست نے مغربی تہذیب و ثقافت کو بے آبرو کر دیا / طوفان الاقصیٰ نے امریکہ کو حذف کر دیا۔۔۔ امام خامنہ ای

رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: غزہ میں صہیونی ریاست کے جرائم نے مغربی تہذیب و ثقافت کو بے آبرو کر دیا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے آج [بروز بدھ 29 نومبر 2023ع‍] حسینیۂ امام خمینی(رح) میں پورے ملک کے ہزاروں بسیجی فورسز سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: بسیج ہمارے ملک کے لئے امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی بیش قیمت یادگار ہے؛ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) ہی بسیج کے خالق اور اس کے بابا ہیں۔

آپ نے فرمایا: بسیج کی تشکیل کے سلسلے میں امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی منطق یہ تھی کہ آپ ایران کو دھمکیوں کو خطروں اور دھمکیوں کے مقابلے میں مضبوط اور ناقابل تسخیر بنانا چاہتے تھے۔ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے دنیا بھر میں عالمی مقاومتی تحریکوں کی تشکیل کی خوشخبری دی تھی جو آج عملی صورت میں نمایاں ہو چکی ہے اور الاقصیٰ کا نہ تھمنے والے طوفان نے خطے میں جدید سیاسی جغرافیے کی تشکیل کو آسان بنا دیا ہے، [یعنی] امریکہ کو حذف کر دیا ہے، اور جعلی اور مسلط کردہ حکمت عملیوں کے بجائے، محاذ آرائی آج "مقاومت اور سر تسلیم خم کرنے" کے درمیان ہے، مسئلہ فلسطین کے حل کے عمل کی رفتار میں اضآفہ ہؤا ہے، اور یہ نئے سیاسی جغرافیے کی خصوصیات ہیں۔

بسیج کے بارے میں امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) کے خطاب کے اہم نکات:

- بسیج امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی بیش قیمت یادگار ہے، اور امام نے بسیجی ہونے پر فخر کرکے بسیج کی عظمت کو عیاں کر دیا۔

- جس وقت ملک کو ایک عظیم قوت کی ضرورت تھی تو امام نے اپنی دوراندیشی سے بسیج معرض وجود میں آئی اور اس کی تشکیل کی منطق یہ تھی کہ ملک میں زیادہ سے زیادہ مقاومت و استقامت کی صلاحیت پیدا ہو، اور ملک کو دھمکیوں اور خطروں کے سامنے ناقابل تسخیر بنایا جائے، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ "قومی تشخص کا ہمہ جہت مادی اور اخلاقی دفاع اور ملت ایران کے مفادات کا تحفظ" جو ضروری ہے۔

- بسیج امام کی نگاہ میں اللہ کا مخلص لشکر اور مدرسۂ عشق ہے۔

- امام کا یہ جملہ کہ "بسیج اللہ کا مخلص لشکر ہے"، جس کا مطلب یہ ہے کہ بسیج اور بسیجی واقعا صرف اللہ کے لئے لڑتا ہے اور جنگ میں اشدّاء علی الکفار کا مظہر ہے۔ اور یہ کہ امام نے فرمایا کہ "بسیج مدرسۂ عشق ہے"، کا مطلب یہ ہے کہ بسیج عشق اللہ اور اخلاق اور روحانیت کے ساتھ عوام کے ساتھ مل کر آگے بڑھتی ہے اور لوگوں کو حقیقی عشق کی تعلیم دیتی ہے۔

- بسیجیوں نے دفاع مقدس کے دوران جنرل سلیمانی، جنرل صیاد شیرازی، ابراہیم ہمت، بابائی، شیرودی، ہمدانی اور سینکڑوں جرنیلوں جیسی چوٹیوں کے ساتھ عظیم کارنامے رقم کئے اور دفاع حرم، اور دوسرے میدانوں میں ان کے کارنامے جاری رہے۔

-۔۔۔۔

مقاومتی تحریکیں اور امریکہ کی ناکامیاں

رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے فرمایا:

بسیج ایک علاقائی اور عالمی فورس کی خصوصیت رکھتی ہے اور امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے "عالمی مقاومتی تحریکوں کی تشکیل" کی خوشخبری سنائی تھی اور اس خوشخبری نے آج عملی جامہ پہن لیا ہے اور مقاومتی تحریکیں خطے کی تقدیر بدل رہی ہیں، جس کا ایک نمونہ طوفان الاقصیٰ آپریشن ہے۔

مغربی ایشیا کا سیاسی جغرافیہ بدلنے کا امریکی منصوبہ ناکام ہو چکا ہے؛ انھوں نے سنہ 2006ع‍ میں [33 روزہ جنگ کے دوران] کہا تھا کہ "ہم <جدید مشرق وسطیٰ> کی تشکیل کے درپے ہیں" وہ اپنے ناجائز عزائم اور مفادات کی خاطر اس منصوبے کے درپے تھے لیکن ناکام رہے۔

خطے کے نئے نقشے کے سلسلے میں امریکیوں کو کئی جہتوں سے شکست ہوئی، وہ حزب اللہ کا خاتمہ چاہتے تھے مگر حزب اللہ 33 روزہ جنگ کے بعد 10 گنا زیادہ طاقتور ہو گئی ہے۔

امریکیوں نے عراق پر قبضہ کیا، اور عراق کو نگلنا چاہا، وہاں امریکی حکومت قائم کی اور ایک غیر فوجی امریکی کو حکمران بنایا اور پھر امریکہ سے وابستہ شخص کو حکومت سونپ دی اور وہ اس عمل کو جدید مشرق وسطیٰ کی تشکیل کے مراحل سمحھتے تھے، لیکن جس عراق کو وہ نگلنا چاہتے تھے، وہ آج عراق کی مقاومتی تحریکیں فلسطین کے قضیے میں میدن جنگ میں اتری ہوئی ہیں۔

امریکہ داعش اور جبہۃ النصرہ جیسے پراکسی گروپوں کے ذریعے شام پر بھی مسلط ہونا چاہتا تھا لیکن اسے وہاں بھی شکست ہوئی اور یہ ان کی ناکامیوں کی ایک اور کڑی تھی؛ اور ایک بڑا نمونہ یہ ہے کہ وہ فلسطین کا مسئلہ غاصب صہیونی ریاست کے حق میں ختم کرنا چاہتا تھا، یہاں تک کہ فلسطین کے نام سے کوئی چیز بھی باقی نہ رہے، لیکن وہی "دو حکومتی حل" کا خائنانہ منصوبہ ـ جسے اس نے پہلے ہی منظور کر لیا تھا ـ کامیاب نہیں ہو سکا، اور فلسطین، حماس، اسلامی جہاد اور مقاومت کی دوسری تحریکوں کی پوزیشن اور پیشرفت، آج سے 20 سال پہلے سے قابل قیاس نہیں ہے۔

آج علاقے کا سیاسی جغرافیہ بدل رہا ہے لیکن امریکہ کے حق میں نہیں بلکہ محور مقاومت کے حق میں۔

۔۔۔۔۔

طوفان الاقصیٰ

امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے نئے منصوبے کی خصوصیات اور خطے میں تشکیل پانے والے نقشے کے بارے میں فرمایا:

جدید مغربی ایشیا کی پہلی خصوصیت "خطے سے امریکہ کے حذف ہونے" سے عبارت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خطے پر امریکی تسلط اور بالادستی کا خاتمہ ہو رہا ہے، جس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ خطے کے ممالک اپنے سیاسی تعلقات امریکہ سے توڑ دیں گے، بلکہ اس کا مطلب امریکہ کی طاقت اور تسلط و بالادستی کا خاتمہ اور جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں جو ممالک 100 فیصد امریکہ کے تابع ہیں، وہ بھی امریکہ سے منحرف ہونے  لگے ہیں۔

امریکیوں نے ماضی قریب اور ماضی بعید میں خطے پر تسلط جمانے کے لئے صہیونی ریاست کو تقویب پہنچائی اور خطے کے ممالک کو اس ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ترغیب دلائی؛ چنانچہ طوفان الاقصیٰ کا واقعہ انتہائی تاریخ ساز واقعہ ہے جو اگرچہ صہیونی ریاست کے خلاف تھا لیکن یہ [خطے سے] امریکہ کے مٹ جانے پر منتج ہؤا، کیونکہ اس نے خطے میں امریکی پالیسی ٹیبل کو درہم برہم کر دیا اور طوفان الاقصیٰ جاری رہے گا تو امریکی پالیسی ٹیبل اس خطے میں مٹ کر رہ جائے گا۔

"علاقے پر جعلی اور مسلط کردہ کا درہم برہم ہونا" جدید مغربی ایشیا کی اگلی خصوصیت ہے، "عرب اور غیرعرب" اختلافات، "شیعہ اور سنی" اختلافات، اور من گھڑت "شیعہ ہلال" جیسے افسانے پھیکے پڑے گئے ہیں، جس کی ایک واضح مثال فلسطین کا مسئلہ ہے کیونکہ طوفان الاقصیٰ سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی، فلسطین کو سب سے زیادہ امداد عرب اور غیر عرب شیعوں نے فراہم کی ہے۔

ان جعلی اور مسلط کردہ اختلافات اور جھوٹی محاذ آرائیوں کے مقابلے میں "مقاومت اور تسلیم" کی نئی محآذ آرائی خطے پر حکمرانی کر رہی ہے، اور آح مقاومت ـ یعنی جبر، توسیع پسندی اور امریکی مداخلتوں کے مقابلے میں سر تسلیم خم نہ کرنے ـ کا دھارا اس خطے کا ایک واضح دھارا ہے۔

جدید مغربی ایشیا کی تشکیل کی ایک خصوصیت "مسئلۂ فلسطین کا حل" ہے، مسئلۂ فلسطین آج اللہ کے فضل سے حل ہونے اور پوری فلسطینی سرزمین میں واحد فلسطینی حکمرانی کی تشکیل کی طرف رواں دواں ہے۔

فلسطین کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کا مقبول عالم اور انتہائی متمدنانہ منصوبہ یہ ہے کہ فلسطین میں رائے شماری (Referendum) کا اہتمام کیا جائے، اور قابضوں کو الگ کرکے فلسطین کے مقامی باشندے ـ خواہ وہ جو پڑوسی ممالک اور کیمپوں میں مقیم ہیں خواہ وہ جو دوسرے علاقوں مین رہنے پر مجبور ہیں ـ آکر فلسطین کے انتظام کی روش کے تعین کے لئے اپنی رائے دیں۔ گوکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ غاصب ریاست اس منصوبے کو قبول نہیں کرتی، لیکن یہ ارادہ ان پر مسلط کرنا پڑے گا، اور اگر اس منصوبے کی پیروی کی جائے ـ اور ان شاء اللہ اس کی پیروی ہوگی ـ اور اگر مقاومتی تحریکیوں اپنے عزم و ارادے پر سنجیدگی سے ثابت قدم رہیں تو یہ مقصد حاصل ہو ہی جائے گا۔

کچھ لوگ کچھ افراد کے زبانی کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران چاہتا ہے کہ مسئلۂ فلسطین کے حل کے لئے یہودیوں اور صہیونیوں کو سمندر میں پھینکنا چاہتا ہے، جو کہ ایک جھوٹا الزام ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کی رائے کسی کو سمندر میں پھینکنے پر مبنی نہیں ہے بلکہ ہماری رائے یہ ہے کہ فلسطین میں فلسطین ہی کے عوام کی رائے سے ایک حکومت قائم کی جائے، اور صہیونیوں اور غاصبوں کے بارے میں وہی منتخب حکومت فیصلہ کرے۔

طوفان الاقصیٰ کے انتہائی اہم اور بے مثال واقعے کی وجہ سے مقاصد کا حصول قریب تر اور راستہ پہلے سے آسان تر ہو گیا ہے، صہیونیوں کے اعصاب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے تو انھوں نے تلافی کی غرض سے اسپتالوں، اسکولوں، عوامی آبادیوں پر بمباری اور بچوں کے قتل عام کا آغاز کیا، لیکن یہ سارے جرائم بھی طوفان الاقصیٰ کا خاتمہ نہیں کر سکے ہیں اور نہیں کرسکیں گے۔

صہیونی ریاست کو اس جنگ میں اپنے تمام مقاصد کے حصول مین ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے، اس شکست کا ازالہ غیظ و غضب اور درندگی سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس طرح کے اقدامات غاصب ریاست اور امریکہ کی زیادہ سے زیادہ آبرو ریزی اور بدنامی کا سبب، اور اس سے بھی بڑھ کر مغربی تہذیب و ثقافت کے بے ابرو ہونے کا باعث  بنے ہوئے ہیں۔

مغربی حکمران صہیونی ریاست کے جرائم کو "اپنے دفاع" کے عنوان سے جواز فراہم کرتے ہیں جو قابل مذمت ہے۔ یہ ہے مغربی ثقافت و تہذیب، جو 5000 فلسطینی بچوں کے قتل عام، ان نہتے عوام پر فاسفورس بموں کے استعمال کو "اپنا دفاع" کا نام دیتے ہیں، لہٰذا اس مسئلے میں مغربی تہذیب و ثقافت بھی بے آبرو ہو گئی۔

حالیہ 50 دنوں کے المیئے فلسطین میں صہیونیوں کے 75 سالہ جرائم کا نچوڑ ہے۔ فلسطینی عوام کا قتل عام، بچوں اور خواتین سمیت فلسطینی عوام کو بے گھر کرنا، لوگوں کی کھیتیوں اور گھروں کو ویران کرکے صہیونیوں کے لئے بستیاں تعمیر کرنا ان 75 برسوں میں صہیونیوں کے جاری ساری جرائم میں شامل تھا، اور یہ سب انھوں نے گذشتہ 50 دنوں میں یکجا انجام دیا۔

بے شک طوفان الاقصیٰ تھمنے والا نہیں ہے اور ان شاء یہ حرکت جاری رہے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110