اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

20 نومبر 2023

11:04:29 AM
1413411

طوفان الاقصیٰ؛

غزہ، اطفال اور خواتین کا مقتل اور مغربی تہذیب کا مدفن

غزہ ہی نے مغربی عوام کو اپنی جھوٹی حاکمیتوں کے سامنے لا کھڑا کیا، اور غزہ ہی نے مغرب کو بدنام اور رسوائے تاریخ کر دیا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

کہا جا سکتا ہے کہ غزہ میں فلسطینی خواتین اور بچوں کے قتل عام کے بغیر، کوئی بھی چیز مغرب کو اس قدر بے نقاب نہيں کر سکتی تھی۔ اگر اسلامی جمہوریہ ایران اربوں ڈالر خرچ کرتا پھر بھی مغرب کا ظاہری تراشا خراشا ہوئے دلفریب چہرہ بے نقاب کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا جس قدر کہ غزہ کے عوام نے اپنے خون سے انہیں رسوا کر دیا۔ کوئی بھی چیز فلسطینی خون کے بغیر، دنیا کے بے شمار شہروں میں کروڑوں انسانوں کو سڑکوں پر نہیں لا سکتی تھی اور انہیں اپنی حاکمیت کے مد مقابل نہیں لا سکتی تھی۔ فلسطینی مقاومت کی تاریخی کاروائی طوفان الاقصی کے بغیر کوئی بھی چیز تمام مغربی حکمرانوں کو سراسیمگی سے دوچار کرکے ایک ہی نقطے "تل ابیب" کی طرف رخت سفر باندھنے پر آمادہ نہیں کر سکتی تھی۔ اگر دنیا کی پہلی [امریکی] فوج ـ حماس کے مجاہدین اور غزہ کے بچوں کے قتل عام کے لئے ـ دنیا کی چوتھی [صہیونی] فوج کو دی ہوئی فوجی امداد یوکرین کو دے دیتی تو شاید روس مشرقی جمہوریاؤں کے الحاق سے چشم پوشی کرتا۔

دنیا بھر کے ممالک میں کروڑوں انسانوں نے غزہ کی حمایت میں سڑکوں پر آکر مغربی لبرلزم کے نعروں اور دعوؤں کے بے اعتبار کر دیا؛ وہی مغرب جس نے سلامتی کونسل کا گلا دبایا ہؤا ہے؛ وہی مغرب جس نے سلوبوڈان ملاشووِچ (Slobodan Milošević) کو کوسووَہ اور بوسنیا کی وجہ سے نیست و نابود کیا، وہی مغرب آج طفل کُشی کا علمبردار بن بیٹھا ہے۔

ایک ہی ہفتے کے دوران، امریکی صدر، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع، برطانوی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ، جرمن چانسلر اور بحریہ کے کمانڈر، اور فرانسیسی صدر سات دورہ مقبوضہ فلسطین کس چیز کی علامت ہے؟ وجہ یہ تھی کہ طوفان الاقصی نے مغرب کے اس فوجی اڈے کی زدپذیری اور کمزوری کو آشکار کر دیا ہے، چنانچہ مغرب نے انہیں ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام کا لائسنس دے دیا! حماس کے عسکری شعبے کے ہاتھوں غاصب صہیونی ریاست کی عبرتناک شکست نے انسانی حقوق، امن و آشتی، صحت عامہ اور "بچوں کے حقوق" کی نام نہاد طاقت کو چیلنج کر دیا ہے۔ چنانچہ مغرب نے غزہ میں بچوں اور خواتین کے قتل عام پر خاموشی ہی اختیار نہیں کی بلکہ اس قتل عام میں شریک ہؤا، اور اس قتل عام میں مغرب کی شراکت پس پردہ نہیں تھی بلکہ بالکل اعلانیہ تھی۔ 13000 بچوں، خواتین، طبی عملے، اقوام متحدہ کے کارکنوں، نامہ نگاروں اور صحافیوں کو قتل کیا گیا؛ یہ قتل عام ہنوز جاری ہے اور اس میں مغرب اعلانیہ طور پر صہیونیوں کی صف میں کھڑا نظر آ رہا ہے۔

مغرب کی یہ حمایت ہتھیاروں اور فوجی سازو سامان کی ترسیل اور فوجی مشیروں کی تعیناتی کی صورت میں بھی تھی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا گلا دبائے رکھنے کی صورت میں بھی؛ تاکہ وہ غزہ میں قتل عام، اجتماعی سزا اور نسل کشی کا سلسلہ نہ روک سکے۔

غزہ آج ایک یونیورسٹی ہے جہاں دنیا والے مغربی دنیا کو بخوبی پہچان سکتے ہیں؛ مغربی اور مشرقی دنیا میں عوامی اٹھان در حقیقت مغرب کے خلاف اٹھان ہے؛ مغربی نے یہ تاریخی بدنامی کما لی؛ تاکہ صہیونیت کے تئیں اپنے تاریخی عہد کو عملی جامہ پہچان سکے! مشرقی مغرب نوازوں کی حمایت کے لئے مغربی "آزادی" کا نعرہ، غزہ کے واقعات کی وجہ سے چیلنجوں سے دوچار ہؤا۔

فرانس نے ـ جو مبینہ طور پر مغربی تہذیب کی علامت سمجھا جاتا ہے ـ فلسطین کی حمایت کرنے والوں کے لئے 75000 یورو جرمانہ متعین کیا اور جب دیکھا کہ عوام کو فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے اظہار سے باز نہیں رکھا جا سکتا، تو سزا میں اضآفہ کیا اور فرانسیسی وزیر قانون نے کہا:

"میں تمام فرانسیسیوں سے کہتا ہوں کہ جو بھی حماس یا جہاد اسلامی اور فلسطینی مقاومت سے ہمدردی کا اظہار کرے، اس کو پانچ سال قید کی سزا دی جائے گی"۔

تو کیا مغربی تمدن کی نرم حصول یابیوں (Soft achievements) [اور فکری، فلسفی اور نظریاتی ترقی] کو دفن کرنے اور آزآدی اظہار کے جھوٹے مغربی نعرے کے دھؤاں ہو جانے کے لئے اس سے بہتر کوئی جملہ مل سکتا ہے؟ غزہ کے واقعات اور نہتے عوام کے قتل عام نے ثابت کیا کہ مغرب کے نزدیک صہیونیوں کی منزلت کیا ہے؟ اور عوامی ریلیوں اور مظاہروں سے ثابت ہؤا کہ مغربی اقوام کس حد تک صہیونیوں سے نفرت کرتے ہیں؟

یہ جو آج مغربی جمہوریت کے گہوارے میں عوام اورحکومتوں کے درمیان فاصلہ نظر آنے لگا ہے، یہ خود ایک تاریخی موڑ ہے۔ غزہ نے ایک تہذیب کے دعوؤں کو چیلنج کر دیا ہے اور مستقبل کی انسانی تبدیلیوں میں مغرب کی بالادستی کو سنجیدہ چیلنجوں سے دوچار کر دیا ہے۔

غزہ مرکز ثقل ہے جس نے مغرب کا اعتبار فنا کر دیا۔ داعش کی حمایت اور یمنی بچوں کے قتل عام کے پیچھے بھی مغرب دکھائی دے رہا تھا گو کہ اس نے دنیا کے سامنے اپنی کارکردگی کا جواز پیش کرنے کے لئے کئی نقاب پہن لئے تھے؛ لیکن غزہ کی جہان مختلف ہے۔ مغربی عوام آج دنیا کے سامنے شرمسار ہیں، کیونکہ وہ اپنی حکومتوں کو انسانی دائرے میں متعارف کرنے سے بے بس ہیں؛ کیونکہ جس قدر کہ مغرب سے ہتھیاروں، جنگی طیاروں، گولہ بارود اور کارگو اور جنگی بحری جہاز کا سیلاب مغرب سے غزہ غاصب ریاست کی مدد کے لئے جاری ہؤا، اتنا ہی مغرب کی مبینہ اقدار کی قدر و قیمت گھٹ گئی۔ اسپتالوں، اسکولوں، مساجد، گرجا کھروں، خیراتی اداروں، یونیورسٹیوں اور رہائشی علاقوں کو مغربی ارادے اور مغربی ہتھیاروں سے تباہ کر دیا ہے اور یہ امت مسلمہ کے لئے بھی ایک عظیم کامیابی ہے کیونکہ آج مغرب کا کریہ چہرہ مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔

اب دنیا والوں کو اصولی طور پر اپنی ثقافت میں اس حقیقت کو نمایاں کرنا چاہئے کہ کوٹ، پتلون، ٹائی، استری، اسپرے اور تراش خراش مغرب کی ظاہری صورت ہے، اور اس کی سیرت وہی ہے جو مقتول بچوں اور خواتین کے ساتھ غزہ میں دفن ہو گئی۔ غزہ بچوں اور خواتین کی قتل گاہ اور مغربی تہذیب کا قبرستان ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: عبداللہ گنجی

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110