اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

14 نومبر 2023

4:20:18 AM
1411327

طوفان الاقصی؛

یہودیوں کے ساتھ جنگ کی قرآنی حکمت عملی: ان کے قلعوں میں گھس جاؤ

یہ کبھی بھی آپ کے سامنے نہیں آئیں گے۔ چنانچہ وہ "بھاری ہتھیاروں کے پیچھے" بیٹھ کر لڑتے ہیں۔ وہ مورچوں کے پیچھے رہ کر ہی سرگرم رہ سکتے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

لَا یُقَاتِلُونَکُمْ جَمِیعًا إِلَّا فِی قُرًى مُّحَصَّنَةٍ أَوْ مِن وَرَاءِ جُدُرٍ ‌بَأْسُهُم بَیْنَهُمْ شَدِیدٌ ‌تَحْسَبُهُمْ جَمِیعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ ‌ذَلِکَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُونَ

[اے میرے رسول(ص)!] یہ سب کبھی بھی مل کر آپ سے جنگ نہیں کریں گے مگر ایسی بستیوں میں جو قلعہ بند ہوں یا دیواروں کے پیچھے سے، ان کا اختلاف خود آپس میں بہت سخت ہے۔ آپ انہیں سب اکٹھا دیکھتے ہیں، حالانکہ دل ان کے الگ الگ ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے"۔ (سورہ حشر، آیت 14)

یعنی یہ کبھی بھی آپ کے سامنے نہیں آئیں گے۔ چنانچہ وہ "بھاری ہتھیاروں کے پیچھے" بیٹھ کر لڑتے ہیں۔ وہ مورچوں کے پیچھے رہ کر ہی سرگرم رہ سکتے ہیں۔

یہودی (صہیونی) کبھی بھی آپ کے سامنے نہیں آ سکتے، کبھی بھی اپنے مورچوں اور قلعوں سے باہر نہیں آ سکتے، وہ "قُرًى مُّحَصَّنَة" یعنی قلعہ بند بستیوں میں ہی رہتے ہیں۔ قرآن اس کو ایک جنگجو شخص یا ایک لشکر کا نقص سمجھتا ہے، ایسا جنگجو اور لشکر جو "قُرًى مُّحَصَّنَة" میں اور دیواروں یا پتھر کے قلعوں میں تعینات نہ ہو تو نہیں لڑ سکتا۔ یہ بہت بڑا نقص و عیب ہے۔ قرآن کریم اسی کو صہیونی دشمن کی زد پذیری کی علامت اور شکست کا سبب گردانتا ہے۔

اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ "ان کا قلعہ توڑ دو، ان کے حصار میں داخل ہو جاؤ! کہ وہ اپنے ہاتھ اٹھا دے، اس کی ڈھال اس سے چھین لو، تو اس صورت میں وہ خود کے تمہاری تحویل میں دے گا؛ محال ہے کہ وہ قتال اور جنگ کرے، سوا اس کے کہ دیواروں کے پیچھے بیٹھا ہو۔ تو اس دیوار کو گرا دو، اس صورت میں وہ تمہاری تحویل میں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: آیت اللہ حائری شیرازی (رح)

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110