اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
اتوار

12 نومبر 2023

5:30:28 AM
1410767

طوفان الاقصیٰ؛

غزہ میں جنگ بندی نہ ہوگی، تو امریکی اڈوں پر حملے جاری رہیں گے/ باتوں پر نہیں میدان پر نظر رکھو ۔۔۔ سید حسن نصر اللہ

صہیونی دشمن پر دباؤ جاری رہنا چاہئے، ہماری آنکھیں بدستور افق پر لگی ہوئی ہیں جس میں فلسطینی قوم کامیاب ہوگی اور دشمن اپنا کوئی بھی مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا، ان شاء اللہ فتح و نصرت حاصل ہوگی، اور آپ سب قدس شریف کی آزادی اور مسجد الاقصیٰ میں نماز کی برپائی کو دیکھ لیں گے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، سیکریٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ نے یم الشہید کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر غزہ میں جنگ بندی نہ ہوئی تو خطے میں امریکی اڈوں پر حملے جاری رہیں گے۔

حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے سینیچر (11 نومبر 2023ع‍) کو یوم الشہید کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فلسطینی قوم کے خلاف جاری جرائم اور خطے کی تازہ ترین صورت حال پر روشنی ڈالی۔ 

سیکریٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ نے یوم الشہید کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا:

یہ محفل ہمارے ایک شہید کی یاد منانے کے عنوان سے منائی جاتی ہے جس نے ایک بڑی کاروائی کرکے 100 صہیونی افسروں اور سپاہیوں کو ہلاک کر دیا اور صہیونی ریاست میں تین دن سوگ منایا گیا۔

آج تمام شہداء کے ایام ہمارے راستے میں واقع ہیں، شہادت فتح و کامیابی بنا دیتی ہے۔ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے بھی فرمایا کہ کربلا میں خون تلوار پر غالب آیا، آج بھی امریکہ کی تلوار ہمارے علاقے اور ہمارے لوگوں کی گردن پر رکھی ہوئی ہے۔

شہداء کا خون دشمن کو جارحیت سے روکتا ہے، ہمارے شہداء بصیرت کے مالک ہیں، وہ دوست اور دشمن اور صحیح اور غلط راستے کو پہچانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک مناسب مقام اور مناسب موقع پر انہیں کیا کرنا چاہئے۔ وہ ذمہ دار، اہل عمل، اور اہل صبر و جہاد ہیں۔

فلسطینی عوام پر صہیونی ریاست کی جارحیت عشروں سے جاری ہے، صہیونی ریاست اعلانیہ اور رسوا کن انداز سے غزہ کی پٹی پر حملہ کرتی ہے، غزہ میں بھی اسرائیل کی درندگی میں کوئی کمی نہیں آئي ہے، بلکہ اس میں ہر روز بڑھ رہی ہے۔ یہ حملے صہیونیوں کی وحشیانہ انتقامی خصلت کو عیاں کرتے ہیں جس کی کوئی حد نہیں ہے۔

اس سال کا یوم الشہید خطے میں تاریخی واقعات کے موقع پرمنایا جارہا ہے۔غزہ میں صہیونی خواتین، بچوں، بڑوں اور تمام نہتے شہریوں پر حملہ کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ صہیونی دشمن کے مقابلے میں فلسطینی مقاومت مثالی اور شجاعانہ استقامت کر رہی ہے۔ صہیونیوں کے حملے خطے اور دنیا میں بے مثل اور بہت خطرناک ہیں۔

غزہ میں 20 لاکھ فلسطینی شب و روز غاصب صہیونیوں کی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں، وہ مساجد، گرجا گھروں، اسکولوں اور اسپتالوں کی حرمت کا پاس نہیں رکھتے۔ اس جارحیت میں سب سے زیادہ عجیب نکتہ یہ ہے کہ غاصب صہیونی ریاست بے بنیاد بہانوں کی بنیاد پر اسپتالوں پر اعلانیہ حملے کرتی ہے؛ اس جارحیت میں مسلسل اضافہ ہؤا ہے۔

صہیونیوں کے حملوں کا مقصد لوگوں کو مقاومت کا راستہ اپنانے سے مایوس کرنا ہے

صہیونیوں کی دہشتگردی اور درندگی با مقصد ہے وہ صرف فلسطینیوں سے انتقام نہيں لے رہے ہیں بلکہ ان کا ایک مقصد یہ ہے کہ مقاومت اور خطے کی اقوام کو سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد جائز حقوق کے مطالبات کو دبانا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ لوگ مقاومت راہ اپنانے سے مایوس ہو جائیں اور سرتسلیم خم کرنے کی ثقافت مستحکم ہو جائے اور کہنا چاہتے ہیں کہ مقاومت کے عوض بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے اور آپ کو مقاومت سے دستبردار ہونا چاہئے۔

صہیونی ریاست غزہ کے عوام کو قتل کرتی ہے، اور یوں لبنانی عوام سے کہنا چاہتی ہے کہ تمہارا انجام بھی یہی ہوگا۔ اسرائیلیوں کا دعوی ہے کہ وہ حماس اور اسلامی جہاد کے ہزاروں ٹھکانوں پر بمباری کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام تر مکانات اور فلسطینی عوام کو اپنے حملوں کا اصل نشانہ سمجھتی ہے، تاکہ اپنامقصد حاصل کرنا چاہتی ہے، جس میں وہ ناکام رہے گی۔

ناامید ہونا ہے تواسرائیل کو ناامید ہونا چاہئے

صہیونیوں نے فلسطینیوں کے قتل عام، انہیں گھربار چھوڑنے پر مجبور کرنے اور ان کے گھر مسمار کرنے کی اپنی 75 سالہ پالیسی سے ابھی تک کچھ بھی نہیں سیکھا ہے۔ دیکھ لیں ان تمام اقدامات کا نتیجہ کیا ہؤا؟ کیا فلسطینی مزاحمت سے دستبردار ہوئے؟ نہیں بلکہ مقاومت و مزاحمت، عزم و ارادہ اور مقاومت کی ثقافت کو نسل در نسل تقویت ملی، یہاں تک کہ اس سال عروج تک پہنچی اور طوفان الاقصیٰ کے مرحلے تک جا پہنچی۔ لبنان میں بھی صورت حال یہی ہے۔ لبنانی عوام بھی صہیونیوں کے ہاتھوں اپنے قتل عام کے باوجود مقاومت سے دستبردار نہيں ہوئے۔

صہیونی دشمن ایک بار پھر اپنے اندازوں میں غلطی سے دوچار ہؤا؛ لبنانی عوام مقاومت و مزاحمت کے زیادہ پابند ہوئے۔ بدقسمتی سے بعض مغربی اور عرب ذرائع بھی ارادی یا غیر ارادی طور پر اسی صہیونی مقصد کی راہ میں قدم اٹھا رہے ہیں۔ حالانکہ جس کو ناامید ہونا چاہئے وہ اسرائیل ہے؛ اسرائیل کو جاننا چاہئے کہ غزہ اور لبنان کے شہیدوں کے پیکر سے مقاومت کی نسلیں سر اٹھاتی رہیں گی، جو اس غاصب دشمن کے خلاف جہاد اور اس کی نابودی اور بربادی پر کے لئے زیادہ پر عزم ہونگی۔

غزہ پر حملے سے صہیونی ریاست کی درندہ خوئی نمایاں ہوئی

صہیونی دشمن نے اس حملے میں اپنے آپ کو بڑا نقصان پہنچایا، ان نقصانات میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے خطے اور دنیا کی سطح پر اپنی درندہ خوئی کو زیادہ نمایاں کیا۔ وہ ماضی میں اپنے ذرائع کے ذریعے یوں جتاتے تھے کہ گویا وہ بہت اچھے اور امن پسند ہیں مگر غزہ پر جارحیت کے بعد اس کی یہ تصویر مٹ گئی۔ ہماری قومیں اس کے بعد صہیونیوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو زیادہ قوت سے مسترد کریں گی۔

مختلف اسلامی ممالک میں غزہ کے عوام کی حمایت میں نکلنے والی ریلیاں بہت اہم ہیں؛ اس سے بھی زیادہ ہم وہ مظاہرے ہیں جو واشنگٹن، لندن، پیرس، برلن اور دوسرے مغربی ممالک میں ہو رہے ہیں۔ کیونکہ یہ مظآہرے مغربی حکومتوں پر دباؤ کا باعث بنیں گے۔ اس وقت دنیا میں کوئی بھی غزہ پر صہیونی حملے کا حامی نہیں ہے، سوا امریکی حکومت اور اس کے پیچھے چلنے والوں کے، امریکہ اب اس مسئلے میں تنہا ہو گیا ہے۔

اس وقت سعودی عرب میں اسلامی-عربی ممالک کے سربراہوں کا ہنگامی اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ ملت فلسطین کی آنکھیں اس اجلاس پر لگی ہوئی ہیں۔ آج فلسطینی عوام اس اجلاس کے شرکاء سے فلسطین کی آزادی اور غزہ کا محاصرہ اٹھانے کے لئے فوجیں روانہ کرنے کی توقع نہیں رکھتے، بلکہ ان کا مطالبہ بہت معمولی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تمام عرب ممالک متحد ہو کر امریکہ کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور ملت فلسطین کے حقوق کی بحالی اور موجودہ جارحیت روکنے کا پرزور مطالبہ کریں، اور اس کو دھمکی دیں کہ جنگ بند نہ ہونے کی صورت میں عملی اقدامات عمل میں لائیں گے۔ کیا 57 اسلامی ممالک ایک گذرگاہ کھولنے کی سکت بھی نہیں رکھتے کہ غزہ کے لئے انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل ممکن ہو سکے؟

غزہ میں اعلیٰ فوجی افسران کی موجودگی، اسرائیل کی کمزوری کو عیاں کرتی ہے

ہم غزہ میں فلسطینی مقاومتی تحریکوں کی کارکردگی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، یہ مجاہدین انتہائی مشکل حالات میں جنگ لڑ رہے ہیں۔ آج اسرائیلیوں کی انتہائی ماہر رینجر فورسز غزہ میں ہیں، اور یہ امر اسرائیل کی بے بسی کا ثبوت ہے۔ غزہ کا میدان آج بہت تقدیر ساز ہو گیا ہے، اور پورا فیصلہ میدان کے سپرد ہے۔ مغربی کنارے کی صورت حال بھی یہ ہے کہ صہیونی ریاست کو اپنی فوجی قوت شمال اور جنوب سے نکال کر مغربی پٹی میں جاری مقاومت کے خلاف لڑانے کے لئے منتقل کر رہی ہے۔ 

غزہ میں جنگ بند نہ ہونے کی صورت میں خطے میں امریکی اڈوں پر حملے جاری رہیں گے

یمن نے غزہ کے حوالے سے انتہائی دلیرانہ، شجاعانہ اور اعلانیہ و باضابطہ موقف اختیار کیا ہے اور کئی میزائل اور ڈرون طیارے مقبوضہ فلسطین کی طرف داغے ہیں۔ یمن کے حملوں نے فلسطینی مقاومت کے حوصلے بلند کر دیئے۔ یمن کی طرف کے خطرے نے اسرائیلی دشمن کو مجبور کیا کہ اپنے بہت سے طیارہ شکن نظامات کو شمال اور جنوب سے ایلات منتقل کر دے۔ یمن کی دھمکیوں نے ایلات کے پرامن ہونے کے دعوؤں کو باطل کرکے رکھ دیا، اور یمن کا اقدام ایلات سے اسرائیلیوں کے فرار کا باعث بنے گا اور صہیونی کابینہ پر دباؤ بڑھ جائے گا۔

فلسطین کی حمایت میں یمنی عوام کی موجودگی اور کردار، عدیم المثال ہے، عراق اور شام میں امریکی اڈوں پر حملے بھی غزہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہے، عراق اور شام میں مقاومت کی کاروائیاں ان ممالک میں امریکی اڈوں کے خاتمے کے لئے ہو رہی ہیں، اگرچہ افسوس ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے بعض حکام نے ان کاروائیوں کے فلسطینی سے تعلق کا انکار کیا ہے! لیکن طوفان الاقصٰی سے پہلے یہ محاذ پرسکون تھے؛ یہی نہیں بلکہ بعض مقاومتی تحریکوں نے کہا کہ "غزہ پر جارحیت بند کرو تاکہ امریکی اڈوں کے خلاف کاروائیاں بند ہوجائیں"۔

امریکیوں نے کہا ہے کہ ان حملوں میں 50 سے زائد امریکی فوجی زخمی ہوئے ہیں؛ وہ ہم پر اور یمنی اور عراقی برادران پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور کوئی بھی مغربی، عری اور لبنانی چینل نہ تھا جس نے آکر ہمیں امریکیوں کی دھمکیاں نہ پہنچائی ہوں۔ البتہ یہ دھمکیاں ہماری اور یمنیوں اور عراقی بھائیوں کی کاروائیوں کو بند نہیں کرسکیں گی۔ اگر امریکی عراق اور شام میں اپنے اڈوں پر حملے رکوانا اور خطے کو جنگ کے پھیلاؤ سے بچانے میں سچے ہیں تو غزہ پر مسلط کردہ جنگ کو بند کر دے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف فلسطینی مقاومت کی مسلسل سیاسی، عسکری اور مادی امداد پر مبنی ہے اور یہ مسئلہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ایران مقاومت کی حمایت پر مبنی پالیسی کو کبھی نہیں بدلے گا، بلکہ وہ مقاومت کا حامی رہے گا۔  

لبنان کی مقاومت غزہ کی حمایت کرتی ہے۔ لبنان کے محاذ میں آٹھ اکتوبر سے شروع ہونے والی کاروائیاں آج تک جاری ہیں اور تمام تر رکاوٹوں کے دشمن کے تحفظاتی اقدامات کے باوجود، ہم اپنی کاروائیاں جاری رکھیں گے۔ گذشہ ہفتے کے دوران ہماری کاروائیوں میں اضافہ ہؤا اور ہتھیاروں کے لحاظ کاروائیوں کی نوعیت میں شدت لائی گئی۔ ہم نے مقاومت کی تاریخ میں پہلی بار حملہ آور ڈرون طیارے استعمال کئے۔

بُرکان میزائل؛ صہیونیوں کے لئے وبال جان

گذشتہ چند دنوں کے دوران ہم نے بُرکان میزائل استعمال کئے ہیں۔ ان میزائلوں کا وزن 300 سے 500 کلوگرام ہے۔ تصور کیجئے کہ جب 500 کلوگرام دھماکہ خیز مادہ کسی اسرائیلی چھاؤنی پر گرتا ہے تو اس کا کیا اثر ہوگا۔ ہم نے پہلی بار عیناتا میں صہیونیوں کے بہیمانہ جرم کے جواب میں کاتیوشا (Katyusha) راکٹوں کو بروئے کار لایا گیا۔ غاصب ریاست کے اندرونی علاقوں پر حملوں میں کئی پیشرفت ہوئی۔

الجلیل کے علاقے میں 350 صہیونی فوجی اور زمین چور صہیونی شدید زخمی ہوئے اور اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ ہمیں گذشتہ ہفتے نہتے اور غیر فوجی لبنانیوں پر صہیونیوں کے حملے کا سامنا کرنا پڑا اور فوری طرف جوابی حملہ کیا۔ ہم نے صہیونیوں سے کہا کہ کسی طورت میں بھی اپنے نہتے عوام پر حملہ نہیں کرنے دیں گے۔ آج ہم کہتے ہیں کہ ہمارے جاسوس ڈرون طیارے شمالی فلسطین کی فضاؤں میں پرواز کرتے ہیں اور ان میں سے بعض تو حیفا، عکا اور صفد تک بھی جاتے ہیں۔

غزہ کی جنگ؛ حرف آخر میدان کے سپرد ہے

ان دنوں لبنان کے خلاف صہیونیوں کی دھمکیوں میں اضافہ ہؤا ہے جس سے مقاومت کی کاروائیوں سے صہیونی ریاست کی تشویش کا پتہ چلتا ہے۔ لبنان کے عوام اور لبنانی سیاستدانوں کا موقف ملت فلسطین کی حمایت پر مبنی ہے اور یہ موقف لبنانی مقاومت کی افادیت کا باعث ہے اور ہماری پالیسی یہ ہے کہ "آخری بات میدان جنگ میں کہی جائے"۔ ہم میدانی اقدامات کی اجازت دیں گے، اور بعدازاں وضاحت کرتے ہیں کہ کیا واقعات رونما ہوئے۔ چنانچہ آنکھوں کو میدان پر لگنا چاہئے، نہ باتوں پر جو ہم بولتے ہیں۔ [ہمارا موقف وہی ہے جو میدان جنگ میں دکھائی دے رہا ہے]۔

صہیونی دشمن پر دباؤ جاری رہنا چاہئے، ہماری آنکھیں بدستور افق پر لگی ہوئی ہیں جس میں فلسطینی قوم کامیاب ہوگی اور دشمن اپنا کوئی بھی مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا، ان شاء اللہ فتح و نصرت حاصل ہوگی، اور آپ سب قدس شریف کی آزادی اور مسجد الاقصیٰ میں نماز کی برپائی کو دیکھ لیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110