اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
ہفتہ

11 نومبر 2023

11:20:43 PM
1410743

طوفان الاقصیٰ؛

غزہ کا واقعہ شرارت سے شرافت کا تقابل ہے۔۔۔ اسلامی ممالک کے سربراہوں کے ہنگامی اجلاس سے صدر رئیسی کا خطاب

صدر رئیسی نے امت مسلمہ کے مسائل کے حل کو اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے قابل حل قرار دیا اور کہا: آج غزہ کا واقعہ محور شرارت سے محور شرافت کا تقابل ہے، آج سب کو واضح کرنا پڑے گا کہ کس صف میں کھڑے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے ریاض میں اسلامی تعاون تنظیم کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:  سلام ہو میرا قدس شریف کو، سلام ہو میرا غزہ اور اس کے بچوں کو، سلام ہو میرا فلسطین کو اور ناحق بہائے گئے خون کو، سلام ہو میرا فلسطین اور لبنان کی باوقار مقاومت کو؛ آج ہم فلسطین کے واقعات کے لئے ایک تاریخی اور تقدیر ساز فیصلہ کرنا چاہئے ہیں، اسلامی تعاون تنظیم کو ایسا صحیح کردار ادا کرنا چاہئے جو وحدت و یکجہتی کو نمایاں کرتا ہو، آج ہم یہاں امت مسلمہ کے نائب بن کر فلسطینی عوام کی مدد کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا: آج مسجد الاقصیٰ کے دفاع کا تاریخی دن ہے۔ غزہ محاصرے کی وجہ سے دنیا کے سب سے بڑے جیل خانے میں بدل دیا گیا۔

انھوں نے کہا: غاصب صہیونی ریاست نے غزہ پر ہمہ جہت حملہ کرکے بین الاقوامی قوانین کو پامال کر دیا ہے، اور دوسری طرف سے پوری دنیا میں کروڑوں انسانوں کے مظاہروں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ دفاع فلسطین کی جڑیں اقوام عالم کے دلوں میں پیوست ہیں۔

صدر اسلامی جمہوریہ ایران ڈآکٹر سید ابراہیم رئیسی نے کہا: فلسطین آج اسلامی اور انسانی شرافت کا معیار اور میزان ہے۔

انھوں نے سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا جس نے علاقائی حالات کے اس حساس مرحلے اور موجودہ خطرناک صورت حال میں اسلامی تعاون تنظیم کے چودہویں سربراہی اجلاس کی میزبانی قبول کی ہے۔

انھوں نے کہا: ہم یہاں آئے ہیں کہ ایک تاریخی اور تقدیر ساز فیصلہ کریں۔

صدر رئیسی نے کہا: غیر قانونی فاسفورس بموں کے ذریعے غزہ کی نصف سرزمین کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کیا گیا ہے، 11000 سے زاید افراد کا قتل عام کیا گیا اور 3000 افراد ہنوز ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور نشانہ بننے والوں کی غالب اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ بہت سارے لوگ ادویات تک عدم رسائی اور بیماریاں پھیلنے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، بِأيِّ ذنبٍ قُتِلَت؟

اسلامی کانفرنس تنظیم اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس میں صدر اسلامی جمہوریہ ایران کا خطاب درج ذیل ہے:

 

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمدلله رب العالمین

و الصّلاة و السّلام علی جمیع الأنبياء والمرسلين سيما أشرفهم وخاتمهم سیدنا ونبینا محمد وآله الطاهرین وصحبه المنتجبین

اُذِنَ لِلَّذین یُقاتَلونَ بِأنَّهُم ظُلِموا وَإنَّ اللهَ عَلی نَصرِهِم لََقََدِیرً

میرا سلام ہو قدس شریف پر

سلام ہو غزہ اور اس کے بچوں پر

سلام ہو فلسطین پر اور اس کے بہائے گئے ناحق خون پر

سلام ہو فلسطین اور لبنان کی سربلند مقاومت پر

آج فلسطین اسلامی اور انسانی شرافت کی کسوٹی اور معیار ہے

جناب صدر!

ابتداء میں سعودی عرب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے علاقائی صورت حال کے اس حساس مرحلے اور موجودہ خطرناک صورت حال میں اسلامی تعاون کونسل اور عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کی۔

آج ہم اس ہنگامی اجلاس میں اکٹھے ہوئے، تاکہ عالم اسلام کے سب سے بنیادی مسئلے ـ یعنی مسئلۂ فلسطین ـ اور اس سرزمین اور بہادر غزہ میں جاری ایک المناک ترین جرم کے بارے میں ایک تقدیر ساز تاریخی فیصلہ کریں۔

عالم اسلام کے تمام مسائل اتحاد اور یکجہتی کی روشنی میں قابل حل ہیں۔ خدائے متعال اور اس کی لازوال قوت کا سہارا لینا اور عالم اسلام کے سرمایوں پر اعتماد، امت مسلمہ کی نجات کا راستہ ہے؛ نہ کہ تسلط پسند قوتوں پر اعتماد۔ اور یہ کہ یہ تنظیم اپنے صحیح کردار سے، امت مسلمہ کی وحدت و یکجہتی کے مظاہر میں سے ایک ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہوئے ہمسائیگی اور یکجہتی کی پالیسی پر کاربند ہے اور اسلامی ممالک کے لئے دوستی اور اخوت کا ہاتھ بڑھایا ہے۔

ہم آج رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی امت کی نمائندے بن کر یہاں اکٹھے ہوئے ہیں تا کہ مظلوم مسلمانوں کے حلق سے نکلنے والی "يا للمسلمين" (1) کی فریاد کو لبیک کہیں۔ آج رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) فلسطین کے لئے عزادار اور سوگوار ہیں۔ [ارشاد ربانی ہے:] " لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ"، (2) دیکھنا یہ ہے کہ اسلام کے مکرم پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) آج اپنی امت سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ اور آج امت مسلمہ اپنے راہنماؤں اور حکومت سے کیا چاہتی ہے۔

یا إخوانی فی الدّین [اے میرے دینی بھائیو!]

آج اقدام کا دن ہے، آج مسجد الاقصیٰ کے شجاعانہ دفاع کا تاریخی دن ہے۔

آج باطل کے خلاف حق کے معرکے کا دن ہے۔ آج جعلی اسرائیلی ریاست، فرعونِ زمانہ ہے اور إفساد في الآرض کی علامت اور بے گناہوں کا خون بہانے کا عامل و سبب ہے۔ پوری دنیا میں کروڑوں انسانوں کے مظاہروں سے اہر ہوتا ہے کہ دفاع فلسطین کی جڑیں اقوام عالم کے دلوں میں پیوست ہو چکی ہیں۔ چنانچہ آج تلوار پر خون کے غلبے کا دن ہے۔

جو کچھ حالیہ پانچ ہفتوں میں غزہ نیز مغربی پٹی کے بعض حصوں پر گذرا ہے، وہ اخلاقیات، قانون اور انسانیت کے لئے باعث شرم ہے۔ غزہ نے ـ جو مظلوم مگر بہادر ہے، غزہ خون میں ڈوبا ہؤا مگر سربلند و سرفراز ہے، جو گذشتہ دو ہفتوں سے مکمل بحری، زمینی اور ہوائی محاصرے میں گھرا ہؤا ہے، دنیا کی سب سے بڑے کھلے جیلخانے کے طور پر جانا گیا ہے ـ فرعونیوں کے قلعے کو توڑ کر رکھ دیا اور خالی ہاتھوں سے ثابت قدمی کے ساتھ جم کر استقامت کی اور انتہائی خوبصورتی سے چمک گیا۔ جی ہاں! "كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ" (3)

غاصب ریاست نے بین الاقوامی قواعد و ضوابط کو پامال کرکے پوری غزہ پٹی پر پر ہمہ جہت جنگ مسلط کر دی۔ نسل کُشی کی غرض سے وسیع پیمانے پر اندھادھند بمباریوں، بالخصوص فاسفورس بموں سمیت دوسرے ممنوعہ ہتھیاروں سے حملوں کے نتیجے میں غزہ کا نصف حصہ مٹی کا ڈھیر بن گیا ہے، اور اب تک 11000 سے زیادہ افراد کا قتل عام کیا ہے، جبکہ 3000 سے زائد افراد ہنوز ملبے تلے مدفون ہیں۔ غاصب اسرائیل کی یلغار کا نشانہ بننے والوں کی اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ امدانی اور طبی عملے اور نامہ نگاروں کا قتل عام، اسپتالوں پر بمباری اس بھیانک جرم کا دوسرا حصہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ المناک یہ کہ بہت سارے لوگ، محاصرے کی بنا پر، ادویات تک رسائی نہ ہونے اور بیماریاں پھیلنے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

"وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ * بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ" (4)

یہ سب ہمارے بچے اور ہمارے خاندان ہیں اور ہمیں اللہ کی بارگاہ میں جواب دینا پڑے گا۔ اور ہاں! اتنے سارے بچوں کا گناہ کیا تھا کہ انہیں قتل کیا گیا؟ آج غزہ کا مسئلہ دو محوروں (اور محاذوں) کا ایک دوسرے سے تقابل ہے، ایک طرف شرافت کا محور ہے اور دوسری طرف شرارت کا محور۔ آج سب کو واضح کرنا پڑے گا کہ وہ کس صف میں کھڑے ہیں: مجاہدین کی صف میں ہیں "كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ"، (5) یا پھر أَلَدُّ الْخِصَامِ (سب سے زیادہ جھگڑالو اور کینہ ور) اور حرث و نسل بشر کو تباہ کرنے والوں کی صف میں۔ (6)

اسلامی اور عرب ممالک کے محترم سربراہان، اور تنظیموں کے محترم سیکریٹری جنرلز!

بلا شبہ امریکی انتظامیہ اس جرم کا حکم دینا والا اور اس کی بنیادی شریک ہے۔ اسرائیل امریکہ کی ناجائز اولاد ہے۔ امریکہ ہی ہے جس نے اس جرائم پیشہ ریاست کو ہزاروں فلسطینی بچوں کی حیات مبارکہ پر ترجیح دی ہے۔ امریکہ نے مقبوضہ سرزمین میں فوری طور پر اپنی سیکورٹی کابینہ تشکیل دے کر غاصب صہیونی ریاست کو غزہ کے نہتے عوام کے قتل عام کی ترغیب دلائی اور اس درندکی کو جائز دفاع کا نام دیا؛ فلسطینیوں کے حقوق مسلسل پامال کرنے والی اور ان پر مسلسل جارحیت کرنے والی افواج کے غاصبانہ اور جارحانہ اقدامات کو جائز دفاع کا عنوان دہرانا، تاریخ کا تلخ طنز ہے جو کسی بھی بین الاقوامی قاعدہ اور معیار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ 

اسی اثناء میں امریکہ جنگی بیڑے بھیج کر عملی طور پر اسرائیل کے حق میں، میدان جنگ میں اتر آیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کی ہمہ جہت حمایت کی اور فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرنے کی قراردادوں کو ویٹو کر دیا، یہ امریکہ کی جانب سے جارح صہیونیوں کی دوسری بڑی خدمت ہے، امریکہ جارح کی حمایت کرکے اس کو پہلے سے زیادہ وسیع پیمانے پر جنگی جرائم کا موقع فراہم کرتا ہے۔

امریکہ کا دوسرا اقدام صہیونی ریاست کو ہلاکت خیز ہتھیاروں سے لیس کرنے، اور غاصب اسرائیل کے ہتھیاروں کے ذخائر کو پر کرنے اور اس کے جنگی بجٹ کو اربوں ڈالر فراہم کرنے سے عبارت ہے۔ چنانچہ صہیونی غاصبوں کی جنگ مشین بھی امریکی ہے اور اس مشین کا ایندھن بھی امریکہ فراہم کر رہا ہے؛ ہر روز بھاری ہتھیاروں کے کھیپ بھیج رہا ہے اور صہیونی دشمن اب تک ہیروشیما کے خلاف امریکی جنگی جرم سے بڑھ کر جرائم کا ارتکاب کر چکا ہے اور اس نے امریکی ایٹم بم سے سات گنا زیادہ بم غزہ پر گرائے ہیں۔ یہ جرم صہیونی جرائم میں براہ راست شراکت ہے اور بین الاقوامی فورموں میں اس کی سنجیدہ پیروی کا اہتمام ہونا چاہئے۔

سب سے تباہ کن کردار امریکہ ہے، تمام برائیاں امریکہ سے جنم لیتی ہیں، امریکہ نے افغانستان، عراق، شام اور دوسرے اسلامی ممالک میں کئی ملین انسانوں کا قتل عام کیا ہے۔ امریکہ دنیا کو معاہدوں اور قراردادوں پر مصروف کرتا ہے، بین الاقوامی تنظیموں کو ناکارہ بناتا ہے اور اس جنگ کا آغاز بھی امریکیوں کا کام ہے۔

محترم اسلامی حکومتو!

آج فریب کاری، دھوکہ بازی اور انسانی حقوق جیسے اوزاروں کی حقیقت عیاں ہو چکی ہے اور غاصب اسرائیل عالمی نفرت کے گھیرے میں ہے اور سب بہ وضوح دیکھ رہے ہیں کہ عالم اسلام کے قلب میں اس سفاک ریاست کی تاسیس کا مقصد خطے پر مستکبر مغرب کے تسلط قائم رکھنا اور اس سے بھی زیادہ اہم، اس کا مقصد اسلام عزیز کو تباہ و برباد کرنا تھا۔

کرنا کیا چاہئے؟

 اب جبکہ عالمی فورم امریکی اثر و رسوخ کی وجہ سے اپنا اثر کھو چکے ہیں، ہمیں میدان اپنے ہاتھ میں لینا چاہئے۔

میں نے اس جارحیت کے آغاز ہی سے اسلامی ممالک کے سربراہوں سے بات چیت کی اور زور دیا کہ ایک ہنگامی اجلاس جلد از جلد منعقد کیا جائے، کاش یہ اجلاس ایک ماہ قبل منعقد ہوتا کیونکہ اسلامی تعاون تنظیم کے وجود کا فلسفہ یہی ہے۔ اب جبکہ یہ اجلاس تاخیر سے منعقد ہو رہا ہے تو اسے فلسطینیوں کے حق میں ایک فیصلہ کن اور فوری اقدام کرنا چاہئے۔

1۔ سب سے پہلا اقدام غزہ کے عوام کا قتل عام فورا بند کرنا اور غیر فوجی عوام، اسپتالوں، اسکولوں، کیمپوں اور امدادی مراکز پر اندھادھند بمباریوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ ہمیں "انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفہ" جیسے عناوین کے تحت، صہیونی ریاست کے حامیوں کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئے۔ وہ رائے عامہ کے دباؤ سے بچنے اور صہیونیوں کو مزید جرائم کے ارتکاب کے لئے موقع فراہم کرنے کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔ امریکہ اور صہیونی دشمن کو عوامی قتل عام کی مشین بند کرنے پر مجبور کرنے کے لئے تمام اوزاروں سے استفادہ کرنا چاہئے۔ ہمیں اسلامی ممالک کے طور پر جاننا چاہئے کہ اگر صہیونی ریاست کے جرائم اور غصب و قبضے کے خلاف غزہ اور مغربی کنارے کی مقاومت نہ ہوتی اور اگر لبنانی مقاومت نہ ہوتی، آج بہت سے اسلامی اور عرب ممالک اپنی سرحدوں کے اندر صہیونیوں سے لڑ رہے ہوتے۔

2۔ غزہ کا انسانی محاصرہ فوری طور پر اٹھانا اور مصری برادران کے تعاون سے رفح کی گذرگاہ کو غیر مشروط طور پر کھولنا اور غزہ کو اشیائے خورد و نوش اور ادویات کی فوری ترسیل۔  اس اجلاس میں شریک اسلامی سربراہوں کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل سے اتفاق کرنا چاہئے اور عملی اقدام کے لئے ایک انتظآمی کمیٹی قائم کرنا چاہئے۔ ذرہ ذرہ امداد کی ترسیل ناقابل قبول ہے۔ غزہ کی طرف جانے والے راستوں کو فوری طور پر کھولنا چاہئے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کا دباؤ سرحدوں کی بندش کا جواز فراہم نہیں کرتا۔

3۔ غزہ سے صہیونی فوجیوں کا فوری انخلاء۔ غزہ کی زمین اور حکومت فلسطینوں کی ملکیت اور اس کی حکمرانی فلسطینی عوام کی منتخب حکومت کے ہاتھ میں ہے، اور امریکہ اور صہیونیوں کے مقرر کردہ گماشتوں کو غزہ پر حکمرانی  کا حق حاصل نہیں ہے۔ میں یہاں ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلامی ممالک سمیت دنیا کے تمام ممالک وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور غزہ کے درمیان کی سرحدوں پر سلامتی کے سلسلسلے میں کسی بھی امریکی منصوبے سے ہوشیار رہیں کیونکہ اس کا مقصد صرف صہیونیوں کی حمایت اور غصب اور قبضے کا جواز فراہم کرنا ہے۔  

4۔ اسلامی ممالک کا صہیونی ریاست کے ساتھ کسی بھی قسم کا سیاسی اور معاشی تعلق منقطع کرنا۔ اس سلسلے میں توانائی کے شعبے میں صہیونی ریاست کے تجارتی بائیکاٹ کو ترجیح حاصل ہے۔ نیز صہیونی مصنوعات کے بائیکاٹ کے سلسلے میں عوامی تحریکوں کی حمایت کرنا چاہئے۔

5۔ اسلامی حکومتوں کو چاہئے کہ جارح اور غاصب صہیونی فوج کو دہشت گرد تنظیم قرار دیں۔

6۔ صہیونی اور امریکی مجرم حکمرانوں کا تعاقب کرنے اور انہیں سزا دینے کے لئے ایک بین الاقوامی عدالت قائم کی جائے؛ حالیہ جنگ میں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب پر مقدمہ چلانے کو ترجیح دی جائے۔

7۔ غزہ کی فوری تعمیر نو کے لئے ایک خصوصی فنڈ قائم کیا جائے، اس اجلاس کے شرکاء اخراجات قبول کریں۔

8۔ مختلف اسلامی ممالک کی طرف سے انسانی بنیادوں پر امدادی قافلے غزہ کی طرف روانہ کئے جائیں۔

9۔ صہیونیوں کے عظیم جنگی جرم اور المعمدانی اسپتال پر صہیونیوں کی بمباری کے دن کو "نسل کُشی اور انسانیت کے خلاف جرم" کا عالمی دن قرار دیا جائے۔

10۔ دسواں نکتہ یہ ہے کہ صہیونی ریاست کے جنگی جرائم بند نہ ہونے اور اس غیر منصفانہ جنگ کے امریکی انتظآم کا خامتہ نہ ہونے کی صورت میں، اسلامی ممالک فلسطین کو مسلح کریں اور ان کو جنگ کے شعلے بھڑکانے والے غاصبوں کے خلاف جنگ میں امداد فراہم کریں۔

یہ سب فوری اور قلیل مدتی حکمت عملیاں ہیں۔ اور ایک پائیدار حل کا راستہ وہی ہے جو اسلامی انقلاب کے رہبر حکیم امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے پیش کیا اور آج یہ راہ حل اقوام متحدہ میں بھی ثبت ہے، اور وہ یہ ہے کہ بحر [بحیرہ روم] سے نہر [دریائے اردن] تک واحد فلسطینی ریاست تشکیل دی جائے، اور جمہوری اصولوں کی بنیاد پر ہر فلسطینی ـ خواہ وہ مسلمان ہو، خواہ عیسائی ہو خواہ یہودی ـ ایک ووٹ دے؛ اسلامی جمہوریہ ایران اس منصوبے کی ہمہ جہت حمایت کرے گا۔

 اسلامی ممالک کے سربراہان!

گذشتہ 70 برسوں میں مختلف نام نہاد امن پسندانہ نسخے سامنے آئے ہیں جو اپنے باطن میں فریب کے سوا کچھ بھی نہ تھے۔ صہیونی ریاست نے ان ہتھکنڈوں کے سائے میں مظلوم فلسطینیوں کو تسلسل کے ساتھ ان کے گھروں سے نکال باہر کیا ہے اور نوآباد بستیاں اور قصبے تعمیر کئے ہیں اور فلسطینیوں کے غصب شدہ گھروں میں غاصب فوجیوں کو بسایا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے ابتداء ہی سے صہیونی ریاست کو غاصب، جعلی اور ناجائز سمجھتا رہا ہے، دیکھ لیجئے، وقت کا گذرنا غصب کے جائز ہونے اور مالکیت کا سبب نہیں بنتا۔ 75 سال تو کیا، اگر یہ غصب اور قبضہ اس سے بھی زیادہ جاری رہے، پھر بھی غاصب صہیونی اپاتھائیڈ اور جارح ریاست ہے۔ اس جارح کو فلسطین سے نکال باہر کرنا چاہئے، اسے سزا دینا ہوگی، اور اس کو تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف غصب اور قبضے کے مقابلے میں مقاومت و مزاحمت جائز دفاع ہے اور مقدس امر۔ بنیادی راہ حل مقاومت ہے؛ صہیونی دشمن کے مقابلے میں کئی عشروں سے جاری مقاومت، بالخصوص صہیونیوں کے بے مثل جرائم کے مقابلے میں حالیہ 35 روزہ مقاومت ایک عدیم المثال ریکارڈ ہے۔ تجربے سے ثابت ہے کہ قابض کو پسپائی پر مجبور کرنے کے لئے مقاومت کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اسی بنا پر ہم بہادر اور ہیرو تحریک "حماس" اور مقاومت کی تمام بہادر اور شجاعت تحریکوں کے ہاتھوں اور بازوؤں کو چومتے ہیں عالم اسلام فخر ہیں؛ اور غزہ کے عوام کے فولادی عزم کو سلام کرتے ہیں۔

میں یہاں دو ٹوک الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطینی مقاومت کو ایک حریت پسند تحریک سمجھتا ہے، غزہ کے عوام کی جبری نقل مکانی کو جارحیت اور جنگی جرم سمجھتا ہے اور مسجد الاقصیٰ اور مقدس مقامات کی حفاظت کو بنیادی ضرورت سمجھتا ہے۔

جس بات پر ہم برسوں سے زور دیتے آئے ہیں آج وہی بات یورپی اور امریکی اقوام کی زبانوں سے سنائی دے رہی ہے۔ میں یہیں سے ان تمام اقوام کا دلی شکریہ اداکرتا ہوں جنہوں نے غزہ کے عوام سے ہمدردی کا اظہار کیا اور ان کا دفاع کیا۔ آج غزہ میں اسرائیلی جرائم نے دنیا کے عوام کو بیدار کر دیا ہے؛ اس بیداری کی قیمت 14000 عزیز جانوں کا نذرانہ تھا۔ آج غزہ میں اس آگ اور ملبہ گرنے کی آوازوں کے ساتھ ، ایک دوسرے مسئلے نے بھی دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے: ایٹمی اسرائیل۔

دنیا کی واحد اپارتھائیڈ ریاست جو بنی آدم کو انسان نما حیوان کا نام دیتی ہے، حتیٰ کہ بچوں کے قتل کو جائز سمجھتی ہے، جوہری اور کیمیاوی ہتھیاروں کی خفیہ تیاری اور پھیلاؤ کے لئے کوشاں رہنے کے باوجود، کسی بھی بین الاقوامی بین الاقوامی فورم کے زیر نگرانی نہیں ہے، اور دنیا والوں کی آنکھوں کے سامنے اپنے زیر قبضہ ملک میں انسانوں کو ایٹمی حملے کی دھمکی دیتی ہے۔ کتنی قیمت مزید ادا کرنا پڑے گی، کونسا المیہ رونما ہونا چاہئے کہ دنیا کے ممالک اس خطرے سے ہوشیار ہو جائیں۔

"اسلامی مقاومت" جس نے آج فلسطین کے دفاع میں عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں، امت مسلمہ کی بیداری اور صہیونی دشمن اور اس کی حامی استکباری ممالک کی جارحیت اور تسلط پسندی کے خلاف 70 سالہ جدوجہد کا ثمرہ ہے۔

معزز بھائیو اور محترم بہنو!

مسلم اقوام اس مسئلے کو اپنے لئے شرم کا سبب سمجھتی ہیں کہ جب غزہ میں ان کے بھائیوں کا خون بہایا جا رہا ہے، حکومتیں معاشی مفادات کی خاطر، اسرائیل کی جنگی مشین کی ضروریات پوری کریں۔

اس وقت امت مسلمانوں کا خون ابل اٹھا ہے اور معاشروں کے مختلف طبقے جوش میں آئے ہیں۔ سب کو جان لینا چاہئے کہ آج ان کو خدا کی طرف کی آزمائش کا سامنا ہے اور اگر اسلامی ممالک کے سربراہان آج کے اجلاس میں فلسطینی عوام کی نجات کے لئے کوئی دوٹوک قیصلہ کرنے میں ناکام رہیں، تو حکومتوں پر اقوام کے بداعتمادی میں مزید اضافہ ہوگا، اور عین ممکن ہے کہ وہ خود ہی راست اقدام کے لئے اٹھ کھڑی ہوں۔

اسلامی ممالک کے محترم سربراہان، جناب صدر!

مجھے اپنا کلام چند سلاموں پر ختم کرنے دیجئے:

میرا سلام ہو غزہ کے مظلوم اور شہید بچوں پر

میرا سلام ہو ان بچوں پر جو غزہ کے کھنڈرات کے سامنے قرآن کی پناہ لئے ہوئے ہیں اور قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں

میرا سلام ہو ان بچوں پر جو ظلم کے خوف سے کانپ رہے ہیں

میرا سلام ہو غزہ میں میرے عزیز بچوں پر۔

سلام ہو میرا آپ پر کہ دنیا کی مسلح ترین افواج اور روئے زمین کے رذیل ترین افراد کے مقابلے میں جم کر استقامت کرتے ہیں اور ہمارے لئے استقامت کی تشریح کر رہے ہیں۔

سلام ہو میرا آپ پر جو اپنے چھوٹے ہاتھوں اور کمزور جسموں سے غاصب صہیونیوں کی درندگی اور خونخواری کی تصویر کشی کر رہے ہیں۔

سلام ہو آپ پر کہ آپ کے خون میں لتھڑے چہرے اور آپ کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے جسم اور امریکی بموں کے بپا کردہ ملبوں تلے آپ کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں نعرہ زں ہیں کہ "ہم ابھی کھڑے ہیں"۔

بے شک مستقبل مقاومت و استقامت کا ہے۔ حقیقی ہیرو آپ ہیں اے با استقامت فلسطینیو! ہم آپ کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ فلسطین حتمی طور پر فاتح ہے۔

"إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيداً وَنَراهُ قَرِيباً". (7)

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ یا للمسلمین سے مراد اے مسلمانو! مدد کو پہنچو۔

2۔ بے شک تمہارے پاس تم میں سے وہ پیغمبر آئے ہیں کہ جب تم کو زحمت و تکلیف ہوتی ہے تو آپ کو بہت صدمہ ہوتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے بہت زیادہ چاہتے ہیں، ایمان لانے والوں پر بہت شفیق اور نہایت مہربان ہیں"۔ (سورہ توبہ، آیت 128)

3۔ کتنی چھوٹی جماعتیں ہیں جو بڑی جماعتوں پر غالب آ جا تی ہیں، اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر کر نے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورہ بقرہ، آیت 249)۔

4۔ اورجب زندہ زمین میں دفن کی جانے والی لڑکی سے پوچھا جائے گا ٭ کہ کس گناہ میں اس کو قتل کیا گیا۔ (سورہ تکویر، آیات 7-8)

5۔ گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ (سورہ صف، آیت 4)

6۔ سورہ بقرہکی آیات 204 اور 205 کا حوالہ۔

7. بیشک یہ اس کو دور سمجھ رہے ہیں * اور ہم اسے قریب ہی دیکھتے ہیں۔ (سورہ معارج، آیات 6۔7)     

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110