اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

20 اکتوبر 2023

11:27:41 AM
1403015

طوفان الاقصٰی؛

طوفان الاقصٰی کاروائی اور غزہ کے نہتے عوام پر صہیونی ریاست کے وحشیانہ حملوں کے بارے میں پاکستان کی میڈیا کارکن سائرہ فاطمہ عابدی سے انٹرویو

ابنا خبر ایجنسی نے میڈیا کے میدان میں سرگرم محترمہ ذاکرہ سیدہ سا‏‏ئرہ فاطمہ عابدی کے ساتھ فلسطین کی مجاہد تحریکوں کی طرف سے غاصب صہیونی ریاست کے خلاف ہونے والی عظیم تاریخی کاروائی طوفان الاقصٰی اور غزہ کے رہائشی علاقوں پر غاصب ریاست کی بمباریوں اور اس علاقے کے ظالمانہ محاصرے، اور اس کے پس منظر پر، ایک مکالمہ ترتیب دیا۔

اہل بیت(ع) ایجنسی ـ ابنا ـ کے ساتھ پاکستانی میڈیا کارکن ذاکرہ سیدہ سائرہ فاطمہ عابدی کا انٹرویو، پیش خدمت ہے:

سؤال: فلسطینی بحران کے سلسلے میں مسلم صحافیوں کی کیا ذمہ داری ہے جس میں راکٹوں سے معصوم بچوں اور خواتین کا قتل عام کیا جا رہا ہے، مسلمان صحافیوں کی ذمہ داری کیا ہے؟

جواب: السلام علیکم

میں آپ کے چینل کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے مجھے دعوت دی۔

ہر وہ باضمیر، باشعور، عقلمند اور صاحب ادراک انسان آج غزہ پر ظالمانہ بمباریوں اور بچوں اور خواتین سمیت نہتے عوام کے قتل عام کے واقعے کی وجہ سے مغموم ہے۔ دیکھنا چاہئے کہ اگر حماس نے یہ بمباری کی اور یہ میزائل داغے تو اس سے پہلے اس کے پیچھے کیا ہو رہا تھا، اس پر روشنی ڈآلنے کے لئے میڈیا کا بڑا کردار ہونا چاہئے، کیونکہ میڈیا کا فریضہ یہ ہے کہ حق اور سچ کو سامنے لائے اور حقائق کو نمایاں کر دے۔ میڈیا پر بحیثیت مجموعی لازم ہے کہ اس مسئلے کو آشکار کر دے حماس کے حملے سے پہلے، اس کے پیچھے کیا ہو رہا تھا؛ یعنی ایسا کیا ہو رہا تھا کہ حماس کو یہ حملہ کرنا پڑا، ہم دیکھتے ہیں کہ بی بی سی نیوز اور کچھ بھارتی نیوز چینل حماس کو دہشت گرد اور عسکریت پسند کہہ رہے ہیں۔ اور اس کو فلسطین کی عسکریت پسند تنظیم قرار دے رہے ہیں۔ چنانچہ میڈیا کی ذمہ داری یہ واضح کرنا ہے کہ حماس نے یہ قدم کیوں اٹھایا اور اس کے پیچھے کیا عوامل تھےا؟ اگر آپ کسی جگہ ایک قوم کو اس پیمانے پر اذیتیں پہنچائیں تو وہ مشتعل ہوجائے گی اور راست اقدام کرے گی۔

فلسطین کے بارے میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ انبیاء کی عبادت گاہ ہے؛ یہ تینوں الٰہی ادیان یعنی یہودیت، عیسائیت اور مسلمانوں کے لئے بہت مقدس اور لائق تعظیم ہے۔ تو [یہاں کے مقامی] تینوں ادیان کے پیروکاروں کو اپنے اپنے نظریئے کے مطابق رہنے کا امکان فراہم کیا جائے۔ علاوہ ازیں میڈیا کی بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ لوگوں کو مطلع کریں کہ دہشت گرد کون ہے، اور زیادتی کس نے کی ہے، اور کون کس کی زیادتی کا خمیازہ بھگت رہا ہے؟ زمین کس کی تھی اور اب کون یہاں رہ رہا ہے؟

سنہ 1948 سے اس سرزمین پر قبضے سے لے کر 60 لاکھ فلسطینیوں کو اپنے آباء و اجداد کی سرزمین سے نقل مکانی کرنا پڑی۔ میڈیا واضح کردے کہ کون یہاں سے نقل مکانی کر رہا ہے اور اس سرزمین پر کس نے ناجائز قبضہ جمایا ہے؟ میڈیا کو چاہئے کہ وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرکے سامنے لائے اور لوگوں کو بتائے کہ زمین کس کی تھی، اور کس کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے اور کیا جا رہا ہے اور کس نے اس سرزمین پر  ناحق قبضہ کیا ہے؟ کس کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہو رہا اور کس کی وجہ سے فلسطین کی معیشت گر رہی ہے؟ اور کس کی وجہ سے یہ خونریزی ہو رہی ہے؟ کس کی وجہ سے معصوم بچے بلک بلک کے رو رہے ہیں اور مر رہے ہیں؟ بھوک پیاس کو ان پر کس نے مسلط کیا ہے؟ جن کے سروں پر چھت نہیں ہے وہ کن مشکلوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟ آج صورت حال ہے کہ غزہ کو ایک وسیع و عریض اور کھلے جیل خانے کا نام دیا جا رہا ہے۔ کھانے کا کوئی انتظام نہيں ہے، پینے کے لئے صاف پانی نہیں ہے، جینے کے لئے وسائل نہیں ہیں۔ اور رہنے کے لئے سر پہ چھت نہیں ہے۔ اور غاصب لوگ ان کی نسل کُشی کر رہے ہیں۔

میڈیا کو چاہئے کہ نسل کُشی کے ساتھ ساتھ ناجائز اور قابض حکومت کے وجود کے سلسلے میں حقائق واضح کر دے، نہ صرف اس کی صحیح تاریخ کو سامنے لائے، بلکہ اس کو عالمی سطح پر بھی اس حقیقت کو بھی سامنے لائے کہ حماس کا نظریہ کیا ہے اور کردار کیا ہے؛ ایران نے حماس کی مدد کی تو سبب کیا تھا؟ اور اگر ایران قرآن و سنت کی رو سے ایک ملک کے مسلمانوں کی پکار پر مدد کے لئے آگے بڑھا، اردن، اور مصر جیسے ممالک ہیں اور جن کی سرحدیں فلسطین سے ملتی ہیں وہ کیوں آگے نہیں بڑھ رہے ہیں اور ان کی مدد کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ زیادہ عجیب یہ  کہ یہ سارے اسرائیل کے ساتھ ہیں! کئی حکومتیں اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں؛ اور امریکہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی ہر قسم کی مدد کر لئے تیار ہے۔ تو اصل بات یہ بات جاننا ہے کہ دہشت گرد کون ہے، کون ناحق کر رہا ہے اور کون حق پرست ہے؟

سوال: اس بارے میں دنیا کے تمام آزاد سوچ رکھنے والوں کا کیا فرض ہے؟

جواب: کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کسی کو غلط دیکھیں، تو آپ اسے ہاتھ سے روکیں، اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکیں، زبان سے نہیں روک سکتے تو دل میں رکھیں کہ ہاں یہ غلط ہے۔ لہٰذا اگر کوئی یہاں بیٹھ کر، فلسطینیوں کی مدد نہیں کر سکتا، وہاں جا کر جہاد نہیں کر سکتا تو کم از کم کم از کم ان سے اظہار یکجہتی تو کر سکتا ہے، اس جارحیت کی مذمت تو کر سکتا ہے۔

کہ چند میزائل جو حماس کی طرف سے اسرائیل پر داغے گئے وہ فقط و فقط اسرائیلی فوج کو نشانہ بنانے کے لئے تھے، اسرائیل کی ظالم اور غاصب فوج کو مارنے کے لئے تھے، جنہوں نے فلسطین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، نہ کہ کسی معصوم بچے یا کسی بے گناہ انسان جان لینا مقصود تھا۔ آپ دیکھ لیں کہ حماس کے کمانڈوز بڑے منظم اور قاعدے کے مطابق، اترے اور 180 اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کیا، جو اب ان کی قید میں ہیں۔ انھوں نے مقبوضہ علاقوں میں قتل و غارت نہیں کیا۔ یہ انسانیت کا سبق ہے۔ دوسری طرف دیکھیں تو غاصب فوج اب غصہ نکالنے کے لئے شہری آبادی پر جارحیت کرتی ہے اور اسرائیل اپنے آپ کو سوپر پاور منوانے کے لئے معصوم بچوں اور بے گناہ لوگوں کو ـ جن میں بڑے بوڑھے بھی شامل ہیں ـ بمباری کا نشانہ بنا رہا ہے۔

اسی صورت حال کے حوالے سے، میں بی بی سی کی ایک رپورٹ دیکھ رہی تھی جس میں ہندو شخص کو بھی بلایا گیا تھا، جو کہہ رہا تھا کہ "میں بیت المقدس سے صرف 10 منٹ کے فاصلے پر رہتا ہوں اور میں دیکھ رہا ہوں، کہ لوگ جا رہے ہیں، آ رہے ہیں، لیکن بمباری بھی ہو رہی ہے اور جو کچھ ہؤا ایک دہشت گرد گروپ "حماس" نے کیا"۔

تو میں سوچنے لگی کہ اس شخص کا بیان کتنا نادانی، نافہمی اور کند ذہنی پر مبنی تھا۔ وہ تقریبا 55 سالہ آدمی تھا، اور بی بی سی اردو نیوز پہ یہ بیان دے رہا تھا، اور کہہ رہا تھا کہ حماس دہشت گرد ہے، اور حماس نے غلط کیا، تو اس نے حقائق سے چشم پوشی کیوں کی اور یہ کیوں نہیں بتایا کہ اس تمام قصے کا پس منظر کیا تھا اور حماس نے ایسا کیوں کیا؟  

چنانچہ جتنے بھی آزاد اور حریت پسند اور آزاد سوچ رکھنے والے لوگ ہیں، چاہے وہ فلسطینی ہوں، چاہے غیر فلسطینی ہوں، مسلمان ہوں یا غیر مسلم ہوں، چاہے وہ مسلم حکومت کے اندر ہوں جیسے مصر، سعودیہ، یمن، عمان، قطر، اردن وغرہ میں رہتے ہوں، یا کہیں اور، شام کے رہنے والے ہوں، یا عراق، امارت اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے کسی ملک کے، سب یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس کے ساتھ غلط ہؤا، کس کا خون بہایا جا رہا ہے، کس کی نسل کُشی کی جا رہی ہے۔ کس کو اذیتیں دی جا رہی ہیں؟ غیر انسانی سلوک کس کے ساتھ ہو رہا ہے؟ کس کو غیر اخلاقی افعال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟ آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں تو کم از کم اظہار یکجہتی تو کر سکتے ہیں، ان مظالم کی مذمت تو کر سکتے ہیں۔ آپ میڈیا کے سامنے آکر حق کو باطل اور باطل کو حق بنا رہے ہیں۔

البتہ مجھے خوشی ہوئی کہ ایک بھارتی چینل پر ایک پنڈت جو اپنے مخصوص بھگتی لباس پہنے ہوئے تھے، اور انھوں نے کہا کہ "فلسطینیوں کا تو یہ ملک تھا یہ سرزمین اسرائیلیوں کی تو تھی ہی نہیں، اسرائیلی تو نقل مکانی کرکے یہاں آئے ہیں؛ یہ انبیاء کی زمین تھی یہ تمام الٰہی ادیان کی زمین تھی، یہ ان کی زمین تھی کہ جنہوں نے یہاں رہنے کی تائید تھی: جناب موسی(ع)۔ یہ ان کی زمین تھی جن کا یہاں محراب ہے: جناب زکریا(ع)؛ یہ ان کی زمین تھی جن کا تابوت سکینہ آج بھی بیت المقدس میں مدفون ہے"۔

انھوں نے یہ بات بھی واضح کرکے کہہ دی کہ یہ سب کچھ اسرائیلی اس لئے کر رہے ہیں کہ ان کو تابوت سکینہ مل جائے؛ یہ سب کچھ اسرائیلی اس لئے کر رہے ہیں کہ وہ بیت المقدس کی حرمت کو پامال کریں، یہ سب کچھ اسرائیلی اس لئے کر رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو عبادت سے روکیں، بیت المقدس میں جانے سے روکیں۔

یقینا اس بھارتی پنڈت کی طرح اور بھی لاکھوں لوگ ہیں جو یقینا فلسطین کے لئے درد رکھتے ہیں، فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتے ہیں، فلسطین کی آواز پر لبیک کہنا چاہتے ہیں لیکن وہ ان کو وہاں جانے کا امکان فراہم نہیں ہے؛ اور جہاں تک ہمارا اپنا تعلق ہے تو ہمارے پاس آیت اللہ سیستانی کا فتویٰ ہے، اور ہمارے پاس ہمارے مراجع کے فتاویٰ ہیں، کہ جتنی بھی اسرائیل مصنوعات ہیں، ان کا بائیکاٹ کریں اور ہمیں انہیں خرید و فروخت نہیں کرنا چاہئے، ہمیں ان کے ہاتھوں کو مضبوط نہیں بنانا چاہئے۔

اسی لئے میں آزاد سوچ رکھنے والوں سے، خواہ شیعہ ہوں، خواہ سنی ہوں، خواہ سکھ یا عیسائی، میں ان تمام تر لوگوں سے کہنا چاہوں گی، خاص طور پر امت مسلمہ سے، کہ یہ وہ وقت ہے کہ ہم سب کو ایک ہونا چاہئے۔ آپ دیکھیں کہ حماس ایک سنی تحریک ہے لیکن ایران اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا، ان کی پکار پر لبیک کہا اور ان کی مدد و نصرت کی، تو دیکھئے کہ حماس کے سنی ہوتے ہوئے بھی سعودی عرب، امارت، قطر اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک نے حماس اور فلسطین نے مدد نہیں کی۔ ایران نے ان کی مدد کی، ایران نے جرات، ہمت اور جوانمردی دکھائی، یہ ہم لوگوں میں سے ہماری حکومتوں میں سے کسی نہیں کیوں نہیں دکھائی ہے، گو کہ ہم اس وقت یہ ہمت دکھا سکتے ہیں جب ہم آزاد ہوں گے۔

سوال: ہم صہیونیت کی حقیقی تصویر دنیا کے آزاد لوگوں کے سامنے کیسے پیش کر سکتے ہیں جو حکومتوں کے سیاسی اور معاشی مفادات سے قطع نظر ہر انسان کے انسانی حقوق کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں؟

جواب: چونکہ عام لوگ سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے چنانچہ انہیں بتانا پڑے گا کہ یہودی اور صہیونی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ یہودیت ایک مذہبی تصور اور عقیدہ ہے، اور ایک مذہب کا نام ہے، جبکہ صہیونیت ایک نظریئے کا نام ہے، یہ نظریہ یہودیت سے ہی نکلا ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج اس میں عیسائی بھی شامل ہیں، مال و دولت کی خاطر کچھ مسلمان بھی اس میں شامل ہیں، جنہوں نے اپنا دین و مذہب بیچ دیا ہے۔ ہمیں لوگوں کو یہ بتانا ضروری ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ صہیونیوں نے انیسویں صدی میں "صہیون کے بزرگوں کے پروٹوکول" (The Protocols of the Elders of Zion) کے نام سے کتاب لکھ دی جو سنہ 1903ع‍ میں روسی زبان میں چھپی اور اس کا ابتدائی عنوان "دنیا کو فتح کرنے کا یہودی پروگرام"  تھا۔ بعد میں یہ مختلف یورپی زبانوں میں بھی شائع ہوئی۔ اس کتاب کو سنہ 2005ع‍ میں لبنان میں بھی شائع کیا گیا۔ اگر یہ کتاب کہیں سے ملتی ہے تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں واضح طور پر گیارہ ستمبر کے واقعے اور بہت سے غیر اخلاقی کاموں کے منصوبے پیش کئے گئے ہیں۔ وہ تمام منصوبے جو انیسویں صدی میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس میں درج کئے گئے تھے، انہیں آہستہ آہستہ عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے، جیسے لوگوں میں غیر اخلاقی بیماریاں اور بری عادات پھیلانا، یہ سب صہیونیت ہی کا نظریہ تھا، اور آج یہ فکر لوگوں میں پھیلائی جا رہی ہے، لوگوں کے ذہنوں کو اپنے منصوبے مطابق چلانا،  معاشروں اور ملکوں کے زر مبادلہ کی قدر گرانا اور معیشت گرانا؛ یہاں تک کہ عورت کا گھر سے نکلنا یقینی بن جائے تاکہ مرد اور عورت دونوں باہر جاکر اخراجات کی تکمیل کے لئے کمائی حاصل کر سکیں، اور یوں بے حیائی عام ہو سکے۔ بہرحال یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی، جس کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ فرانس نے اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا اور اسرائیل پر ہونے والے حملے روکنے پر زور دیا؛ جرمنی کی طرف سے روکنے کی بات کی گئی۔ اور پھر امریکہ کا وزیر دفاع لائیڈ آسٹن (Lloyd Austin) اسرائیل کی حمایت کے لئے کھڑا نظر آیا۔ تو یہ وہ لوگ ہیں جو آج بھی اس نظریئے کو اسے فروغ دے رہے ہیں۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ کسی طرح بھی، اتنی زیادہ خرابیاں پیدا کی جائیں کہ لوگوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت باقی نہ رہے۔

لوگوں کو بتانا پڑے گا کہ طوفان الاقصٰی میں کتنے لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، حماس کے کتنے لوگ شہید ہو گئے ہیں، امت مسلمہ کے کتنے لوگ شہید ہو گئے ہیں؛ اور غزہ کی پٹی پر 17 برسوں کے محاصرے کے دوران وہاں کے عوام کے ساتھ کیسا سلوک رکھا رکھا گیا ہے، لوگوں کو یہ سب کچھ نہیں دکھایا جاتا۔ لوگوں کو صرف ایک تصویر دکھائی جا رہی ہے کہ حماس نے یہ کیا حماس نے وہ کیا۔ ان کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ پس پشت کیا کچھ ہو رہا تھا، چنانچہ ان کو حقیقی چہرہ دکھانا پڑے گا۔ میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے۔  اور طلباء کا بھی اس حوالے سے کردار ہے، اور جو تحریک بچوں سے شروع ہوتی ہے وہ دیرپا اور طویل المدت ہوتی ہے۔

چنانچہ ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ ہمیں اسکولوں کے نصاب میں فلسطین کے حوالے سے مواد شامل کرنا پڑے گا۔ کشمیر کے حوالے سے ہمارے ملک پاکستان کے نصاب میں مواد شامل ہوتا ہے۔ ایران اور عراق کے اسکولوں کے نصاب میں یقینا کربلا کی تاریخ درج ہوتی ہے، تو فلسطین اور غزہ بھی ایک قسم کی کربلا ہے، ان نہتے فلسطینیوں کے اوپر؛ یہ بھی ایک قیامت صغریٰ ہے ان کے لئے۔

لوگوں کو بتانا پڑے گا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینیوں کی بڑی آبادی موجود ہے، اور تنظیم آزادی فلسطین (PLO) کے مطابق، ان فلسطینیوں کی ابادی کئی ملین ہے!! پی ایل او کے مطابق فلسطینیوں کی نصف تعداد کو اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ کرایا گیا ہے۔ مختلف ممالک میں ایسے بھی بہت سارے فلسطینی ہیں جو [مختلف وجوہات کی بنا پر] اپنی پہچان نہیں کرایا کرتے۔

بہرحال فلسطینیوں کے سلسلے میں ان چیزوں کو سامنے لانا ضروری ہے، اور میری یہ تجویز یقینا بہت کارآمد ہوگی کہ مسئلۂ فلسطین کو نصاب میں شامل کیا جائے، طلباء کی تحریک چلائی جائے، سوشل میڈیا پر اور ہر پلیٹ فارم پر فلسطین کا تذکرہ ہو اور ان حقائق کو نمایاں کیا جائے، کہ کیا ہو رہا ہے؛ اور اس کو آگے بڑھایا جائے، یہ بربریت پر مبنی جو اقدام ہؤا ہے۔ اس بربریت کے خلاف رد عمل ہونا چاہئے، صرف حماس اور ایران کی جانب سے نہیں بلکہ وہ سب جو درد رکھتے ہیں انسانیت کا اور علمبردار ہیں انسانیت کے، ان میں سے ہر انسان کی طرف سے ایک اقدام ہونا چاہئے، یقینا یہ تحریک ضرور رنگ لائے گی۔۔

شکریہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110