اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب گاہ
بدھ

9 اگست 2023

4:35:30 PM
1385838

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین؛

عاشورا طرز زندگی کا معیار / دیکھنا چاہئے کہ ہم حسینی ہیں یا ۔۔۔

عاشورا کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھنا چاہئے کہ ہم نے زندگی کا جو طرز اپنایا ہے وہ ہمیں کس کیمپ کی طرف لے جاتا ہے؟ حق کے کیمپ کی طرف یا باطل کے کیمپ کی طرف؟ ہم جس کیمپ کی طرف جا رہے ہیں کیا وہ اللہ کا کیمپ ہے یا ابلیس کا؟ حق و حقیقت اور خالص محمدی اسلام کا کیمپ ہے یا تسلط پسند نظام اور عالمی استکبار کا کیمپ؟ طرز زندگی ہی متعین کرتا ہے کہ کیا عالم عُقبیٰ کی طرف ہمارا انتقال امام حسین (علیہ السلام) کے انتقال کی مانند ہے یا نہیں؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

حوزہ و جامعہ کے استاد جناب حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر نجف لک زائی نے محرم کی مناسبت سے اپنے سلسلہ وار مضامین کی ایک کڑی کے طور مضمون بعنوان “عاشورا طرز زندگی کا معیار” میں لکھا:

عاشورا کے ساتھ موازنہ کرانے کے قابل موضوعات میں سے ایک، ہمارا طرز حیات ہے۔ ہم زیارت عاشورا میں اللہ سے التجا کرتے ہیں: “اللّهُمَّ اجعَل مَحیایَ مَحیا محمد وآل محمد ومَماتی مَماتَ محمد وآل محمد؛ اے اللہ ہماری زندگی کو محمد و آل محمد کی زندگی قرار دے، اور ہماری موت کو محمد و آل محمد (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کی موت قرار دے”۔

ان دنوں یہ بحث طرز زندگی کے ادب (Lifestyle literature) کی صورت میں اٹھائی جاتی ہے۔ طرز زندگی بہت وسیع اور بے شمار جہتوں کا حامل ہے۔ طرز زندگی فردی اور اجتماعی میدانوں میں عمل اور رد عمل کا ڈھانچہ بناتا ہے۔ ہماری زندگی کے تمام شعبے طرز زندگی سے متاثر ہوتے ہیں، حتیٰ کہ موت کے بارے میں ہمارے تصورات اور تاثرات اور دنیا اور آخرت کے درمیان رابطے کی نوعیت کے تعین میں کردار ادا کرتا ہے۔

طرز زندگی ہی متعین کرتا ہے کہ کیا عالم عُقبیٰ کی طرف ہمارا انتقال امام حسین (علیہ السلام) کے انتقال کی مانند ہے یا نہیں؟

اگر روز قیامت ہم اللہ کے حضور حاضر ہو جائیں، تو کیا سر اٹھانے کے قابل ہونگے یا نہیں؟ کیا ہم کہہ سکیں گے کہ ہمارا طرز زندگی حسینی تھا یا نہیں؟

ہم اس مسائل کا ادراک کیونکر کر سکیں گے؟ کیونکہ کوئی بھی دعوے کی حد تک کہہ سکتا ہے کہ ہمارا طرز زندگی حسینی ہے، اور یہ دعویٰ کرنے کے لئے انہیں کچھ زیادہ قیمت ادا نہیں کرنا پڑتی۔

لیکن یہ نکتہ بہت اہم کہ ہمارا دعویٰ ہمارے عمل کے موافق ہے یا نہیں؟ سنہ 61ھ میں ہمپ مسلمہ کی آبادی بہت کم نہیں اور اسلام سے متعلق جغرافیائی قلمرو بہت وسیع تھی؛ لیکن حسینی طرز زندگی کا انتخاب کرنے والوں کی تعداد بہت قلیل تھی۔ یعنی ان لوگوں کی تعداد بہت کم تھی جو اپنے طرز زندگی کی روشنی میں، عاشورا کے خونی انقلاب میں، امام حسین (علیہ السلام) کا ساتھ دے سکتے تھے۔

یہ وہ مسئلہ ہے جس کو عاشورا کی کسوٹی پر عینی طور پر پرکھا جا سکتا ہے؛ یعنی اگر ہم عاشورا سے رجوع کریں، اور اپنا طرز زندگی عاشورا کی کسوٹی پر پرکھ لیں تو عاشورا کی میزان پر یہ سمجھنے کے قابل ہونگے کہ کیا ہمارا طرز زندگی حسینی ہے یا نہیں؟ ہمارا طرز زندگی الٰہی ہے یا نہیں؟ ہمارا طرز زندگی محمد و آل محمد (صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین) کے طرز زندگی کے مطابق و موافق ہے یا نہیں؟

دیکھنا چاہئے کہ امام حسین (علیہ السلام) کا قیام کس چیز پر استوار تھا۔ یقیناً حسین (علیہ السلام) کا قیام دنیا پر آخرت کو مقدم رکھنے سے عبارت تھا، امام کا قیام اللہ کے احکامات کو طاغوت ـ یعنی یزید بن معاویہ بن ابی سفیان ـ کے احکامات پر ترجیح دینے سے عبارت تھا۔

دیکھنا چاہئے کہ زندگی میں ہمارا معیار کیا ہے؟ کیا ہمارے فیصلوں، ارادوں، اقدامات، ہماری باتوں اور اعمال میں دنیا پر آخرت کو مقدم رکھنا بھی شامل ہے یا نہیں؟ کیا زندگی کی دشواریاں اور دباؤ نے ہمیں استکبار اور طاغوت کے آگے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کیا ہے یا نہیں بلکہ ہم جم کر کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اپنی حیات کے آخری لمحے تک اپنے دین و مذہب کا دفاع کریں گے؟ کیا ہمارا طرز زندگی دنیا پر مسلط طاغوتی نظام اور اس سے وابستہ ابلاغی نیٹ ورک کی تشہیر کردہ قاعدوں کی ترویج کرتا ہے یا نہیں بلکہ ہمارا طرز زندگی ایک اہل بیتی طرز زندگی ہے؟

بطور مثال، کیا ہم بات چیت کرنے میں سچے ہیں؟ کیا ہم دیانت دار اور امین ہیں؟ کیا ہم اپنی خاندانی، سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی فرائض کی انجام دہی میں سنجیدہ اور محنتی ہیں؟ کیا لباس پہننے اور بدن ڈھانپنے میں ہم نے اہل بیت (علیہم السلام) کو اپنا اسوہ اور نمونہ قرار دیا ہے؟

اگر کسی کا طرز زندگی امام حسین (علیہ السلام) کے نزدیک پسندیدہ نہ ہو، تو وہ ـ حتیٰ اگر امام حسین (علیہ السلام) کے لئے عزاداری بھی کرے، یہ عزاداری اس کے لئے باعث و خیر و برکت نہيں ہو سکے گی؛ کیا یہ عزاداری یزید کی عزاداری سے زیادہ مشابہت نہیں رکھتی؟ یزید نے بھی جب دیکھا کہ اس نے کن کن جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اور کس عظیم المیے کے اسباب فراہم کئے ہیں اور دیکھا کہ ان جرائم کے نتیجے میں اس کا اقتدار خطرے میں پڑ گیا ہے تو ظاہری طور پر بالکل بدل گیا، اور اس المیے کی ذمہ داری ابن زیاد پر ڈالنے کی کوشش کی، اور یہ ذمہ داری اپنے کندھے سے اٹھانے کی سعی کی۔ چنانچہ اس نے ریاکاری اور منافقت کا سہارا لے کر اپنے آپ کو عزادار اور مغموم جتانے کی کوشش کی۔

چنانچہ یا تو ہمارا طرز زندگی اللہ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور ائمۂ اطہار اور امام حسین (علیہم السلام) کے ہاں پسندیدہ اور مطلوب ہے یا شیطان کے لئے پسندیدہ اور عالمی تسلط پسند نظام کے نمونوں ان کے متعارف کردہ فیشن اور ان کی تشہیری مشینری کی متعارف کردہ [نام نہاد] اقدار سے متآثر ہے۔

وہ طرز زندگی، جس کی تشہیر شب و روز استکباری اور صہیونی پروپیگنڈا مشینریوں کے ذریعے سے ہو رہی ہے، یقینی طور پر اہل بیت (علیہم السلام) کے طرز زندگی سے بالکل مختلف ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کو عاشورا کی میزان پر تولا جا سکتا ہے۔

اگر ہمارے طرز زندگی کو امام حسین (علیہ السلام) پسند کریں، تو معلوم ہوگا کہ ہم عاشورائی اور عاشورا والے ہیں، اور اگر ایسا نہ ہو تو ہمیں بہت دیر ہو جانے سے پہلے ہی، ـ نظری لحاظ سے بھی، عملی لحاظ سے بھی، جذباتی لحاظ سے بھی اور محرکات کے لحاظ سے بھی، اپنا طرز زندگی بدلنا پڑے گا۔

ہمیں عاشورا کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھنا ہوگا کہ زندگی کا جو طرز ہم نے اپنایا ہے وہ ہمیں کس کیمپ کی طرف لے جا رہا ہے؟ حق کے کیمپ کی طرف یا باطل کے کیمپ کی طرف؟ اللہ کے کیمپ کی طرف یا ابلیس کے کیمپ کی طرف؟ حق و حقیقت اور خالص محمدی اسلام کے کیمپ کی طرف یا یا تسلط پسند نظام اور عالمی استکبار کے کیمپ کی طرف؟

اے اللہ ہم تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ ہمارا طرز زندگی محمدی اور حسینی ہو۔

اے اللہ تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ ہماری موت کو حسینی موت قرار دیا،

اے اللہ ہم سب کو با عزت زندگی عطا فرما۔

اے اللہ تو انجام کار کو اس طرح سے قرار دے کہ تو خوشنود رہے اور ہم فلاح یافتہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر نجف لک زائی

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110