اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

31 جولائی 2023

2:10:50 PM
1383868

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین؛

واقعۂ عاشورا کا جمالیاتی جائزہ / ما رأیت إلا جمیلاً

یہ واقعۂ عاشورا کی خصوصیت ہے، کہ اس نے ثابت کرکے دکھایا کہ مظلومیت کی انتہا پر بھی فتح حاصل کرنا ممکن ہے؛ اور منصف، سچے اور باضمیر مؤرخین اسے فتح و کامیابی کے طور پر ثبت کریں گے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، محمد کاظم انبارلوئی نے فارس نیوز ایجنسی کی ویب گاہ پر "واقعۂ عاشورا کا جمالیاتی جائزہ" کس عنوان سے ایک مضمون شائع کیا جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:

1۔ عاشورا کے تلخ واقعے کے بعد، اسیران آل رسول(ص) کوفہ میں داخل ہو رہے تھے  تو ابن زیاد نے ظاہری کامیابی سے بدمست ہو کر سیدہ زینب (سلام اللہ علیہا) سے طعنہ آمیز لب و لہجے میں پوچھا: "آپ کے بھائی اور خاندان کے ساتھ اللہ کا برتاؤ کیسا رہا؟ (1)

سیدہ زینب بن امیرالمؤمنین (علیہما السلام) کا مختصر، دو ٹوک، واضح اور منہ توڑ جواب یہ تھا: "مَا رَأَیتُ إِلَّا جَمِیلاً؛ میں نے خوبصورتی کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھا!

خوبصورتی کیا ہے؟ جم ہم کہتے ہیں کہ ایک "مصوری" ایک "خوش خطی" خوبصورت ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟

اس خوبصورتی کا ادراک کیونکر ممکن ہے؟

خوبصورتی کو عقل کی روشنی سے دیکھا جا سکتا ہے، حس اور خیال کے ذریعے نہیں، خوبصورتی ایک ایسی چیز ہے حس کی توصیف نہیں کی جا سکتی، اسے  سمجھا جاتا ہے، اور اس کا ادراک کیا جاتا ہے۔

جمال اور خوبصوری بھونڈے پن کا اور حسن قبح کا متضاد ہے، قرآن کریم میں خوبصورتی کو جمال اور جمیل سے تعبیر کیا گیا ہے۔

2۔ زینب (سلام اللہ علیہا) ایک خاتون ہیں جنہوں نے چھ بھائیوں، دو بیٹوں اور دسوں اعزہ و اقارب اور بھائی اور والد کے کئی باوفا اصحاب کی شہادت کا عینی مشاہدہ کر چکی ہیں، اور اسیر ہوکر کوفہ و شام جا رہی ہیں؛ روداد گوئیوں کی جنگ (War of narratives) میں شیرنی کی طرح دھاڑتی ہیں، طوفان کی طرح گرجتی ہیں، کوفہ و شام میں آپ کے ـ دشمن کا دل دہلا دینے والے ـ خطبے کربلا کے الميے کے حیرت انگیزہ پہلوؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ماں سیدہ زہراء بنت رسول اللہ(ص) کی طرح ایک "یک رکنی فوج" کی طرح منافقین اور دشمنان اسلام کے خلاف میدان جنگ میں اتریں اور اس میدان کی فاتح بنیں۔ انھوں نے شجاعانہ انداز سے یزید کو چلا کر مورد خطاب قرار دیا، اور فرمایا: "تو جو چاہے کر لے، لیکن جان لے کہ تم ہمارا "نور" نہيں بھجا سکتا، اور تو ہماری یاد اور ہمارے ذکر کو لوگ کے دلوں اور ذہنوں سے نہیں مٹا سکے گا؛ سیدہ زینب نے ثابت کرکے دکھایا کہ "نور" کو "نار" کے ذریعے نہیں بجھایا جا سکتا۔ "نور" کو تشکیل دینے والا عنصر "آگاہی [شعور ـ جانکاری]" ہے اور کوی بھی "ناری" عنصر "شعور و آگاہی" کے "نور" (اور روشنی) پر غلبہ نہیں پا سکتا۔ 

"مَا رَأَیتُ إِلَّا جَمِیلاً" کی حکمت عملی نے تلواروں کی جھَنْکار اور نیزے اور پتھر پھینکنے سے پیدا ہونے والی سنسناہٹ، اور حرامیوں کی شادمانیوں کو خاموش کر دیا۔

یہ حکمت عملی، حماسۂ عاشورا کی خوبصورتیوں کا ایک کارزار تھا جس نے جنگ میں فتح کے تصور کی ایک نئی تعریف پیش کر دی۔ اس وقت تک سب فتح کو فوجی غلبہ سمجھتے تھے لیکن زینب (سلام اللہ علیہا) نے اپنی روایت کو یذیدیت اور یزیدیوں پر غلبہ دے کے، واضح کیا کہ مظلومیت اور شہادت ایک فتح و کامیابی ہے۔

حماسۂ عاشورا نے دکھا دیا کہ مظلومیت کی انتہا پر بھی فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔ اور منصف، سچے اور باضمیر مؤرخین اسے فتح و کامیابی کے طور پر ثبت کریں گے۔

3۔ واقعۂ کربلا اور المیۂ عاشورا انسانی کمال و ادب، رضائے الٰہی، وفائے عہد، اخلاص، شجاعت، شہادت، ‏عزت نفس، علم و معرفت کی شان، صبر، مقاومت و استقامت، ظلم کا مقابلہ اور الٰہی اور انسانی اقدار نیز معنویت و اخلاق کے خونی دفاع کا مظہر ہے۔

اتنا سارا حسن ـ جس کی مصوری اور خطاطی ایک ہی فریم میں انجام کو پہنچی ہے ـ انسانی تاریخ کے کسی بھی مرحلے میں دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ زینب (سلام اللہ علیہا) نے پوری مہارت سے، منہ میں زبان علی(ع) کے ساتھ، 1383 سال قبل، شجاعت و دلیری سے حقائق کا چہرہ عیاں کیا، ظلم و ظالم کو بے نقاب کیا؛ اور حقائق کو اس انداز سے بیان کیا کہ ہم آج انہیں سمجھ رہے ہیں اور اس واقعے کی خوبصورتیوں کا ادراک کر رہے ہیں، اور یہ زینب(س) کا امام حسین(ع) کے ساتھ کربلا آنے اور کربلا اور شام تک جانے کا ثمرہ ہے کہ آج تک کوئی بھی قوت شہید اور جلاد کی جگہ نہیں بدل سکی ہے اور نہیں بدل سکے گی اور آج ہم شہید کو شہید اور جلاد کو جلاد کے طور پر جانتے ہیں۔

4۔ واقعۂ کربلا سے یزیدی والی کوفہ عبیداللہ بن زیادہ بن ابیہ کی روایت اور روداد گوئی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ وہ ان سب المیوں اور جرائم کی ذمہ داری امام حسین اور آپ کے اہل بیت (علیہم السلام) نیز اللہ کی مشیت پر عائد کرنا چاہتا تھا جس کا خود اس نے اور اس کے گماشتوں نے ارتکاب کیا تھا۔ آج پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں مغرب کے بہائے ہوئے خون کے دریا سے جنم والی مغربی تہذیب کے علمبردار ـ امریکہ اور تین شرپسند یورپی ممالک [برطانیہ، فرانس اور جرمنی] اور ان کی ابلاغیاتی فوج اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ابن زیاد کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں؛ اور پورے مغرب اور صہیونی مشینری نے اپنی پوری صلاحیتیں ایران میں انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد کے امریکی جرائم چھپانے پر مرکوز کر دی ہیں؛ ان کا اصرار ہے کہ ان تمام مظالم، دہشت گردیوں، حملوں، پابندیوں، دھمکیوں اور بے شمار جرائم کا ذمہ دار ایران ہے جو امریکی بالادستی کو مسترد کر رہا ہے۔ البتہ ایرانی قوم ہوشیار اور بیدار ہے اور کروڑوں انسانوں کی شرکت سے عظیم ترین ریلیاں منعقد کرکے ان کی جھوٹی روایتوں اور حکایتوں (False narratives) کا جواب دے رہی ہے۔

5۔ محرم الحرام کا پہلے عشرے کے دوران امام حسین (علیہ السلام) کی یاد نہایت شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوئی اور آپ کے نام کی گونج پانچ براعظموں میں سنائی دی، یہی نہیں بلکہ احرار عالم نے سنہ 61ھ میں نہیں بلکہ آج کے ہمارے اس عہد میں امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کے کردار کا نظارہ کیا۔

ایرانیوں نے امام حسین (علیہ السلام) اور ان کے وفادار ساتھیوں کی تعظیم، تعریف اور تحسین کی غرض سے سب سے زیادہ پر ہجوم، سب سے زیادہ حماسی، ست سے زیادہ پُرشوق و پُرجوش اجتماعات اور جلوسوں کا انعقاد کیا۔

اس سال کے ایام تاسوعا و عاشورا کے مراسمات، ایران کے گوشے گوشے میں بھی اور دنیا بھر میں بھی، ہمیشہ سے زیادہ پرجوش انداز سے منعقد کئے گئے اور ایرانی عوام نے شہید الحاج قاسم سلیمانی کا مشہور نعرہ دہرایا: "ما ملت امام حسینیم؛ ہم امام حسین کی ملت ہیں"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1- علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص115۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110