اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

28 جولائی 2023

8:24:19 PM
1382930

حضرت ہاجر کا فرزند اسماعیل پانی نہ ہونے کی وجہ سے، پانے سے باہر گری ہوئی نکلی ہوئی مچھلی کی مانند تڑپ رہا تھا؛ ایک سراب دوسری جانب سے نمایاں تھا، ایک بار پھر بچے کو چھوڑ کر روانہ ہوئيں اور دوسری جانب دوسری بلندی پر پہنچیں؛ لیکن پانی نہ پایا! اسماعیل کی پیاس نے ہوش و حواس اڑا دیا تھا ماں کا!

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، 

منقول ہے کہ سارہ خاتون نے اپنے شوہر ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا: اب جبکہ میں ماں نہیں بن سکتی، آپ ہاجر سے نکاح کریں؛ شاید اس سے صاحب اولاد ہوسکیں! تھوڑا عرصہ بعد چھیاسی سالہ ابراہیم (علیہ السلام)، کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہؤا جن کا ذائقہ گویا پیاس سے آشنا تھا۔

جناب ابراہیم (علیہ السلام) اپنی زوجہ ہاجر اور بیٹے اسماعیل (علیہما السلام) کو لے کر "بنو جرہم" (1) کی سرزمین کی جانب روانہ ہوئے اور "بکہ" (2) کی بے آب و گیاہ سرزمین میں پہنچے۔

عرض کیا: اے میرے پروردگار میں نے بسایا ہے اپنے بال بچوں میں سے کچھ کو بغیر کھیتی والے ایک چٹیل میدان میں تیرے محترم گھر کے پاس، اے ہمارے مالک! اس غرض سے کہ وہ نماز کی بنیاد قائم کریں۔ (3)

ابراہیم (علیہ السلام) فلسطین کی جانب پلٹ گئے اور اللہ کے فرمان پر ہاجر و اسماعیل کو ایک پراسرار اور بے شمار سوالات ابھارنے والی سرزمین پر چھوڑ دیا۔

اب یہ ہاجر ہیں اور معصوم طفل کی تشنگی، جو ابھی شیرخوار ہے اور بے انتہا گرم و تفتیدہ اور ناہموار وادی!

خدایا! غریب الوطنی کا کیا چارہ کروں؟ آگ و عطش کا کیا علاج کروں؟

سورج کی تپش کی اذیت ناکیاں بڑھ رہی تھیں اور ابراہیم (علیہ السلام) کا طفل ماں کی آغوش میں! ۔۔۔ سینے میں دودھ سوکھ گیا ہے اور طفل قریب الموت، اپنی ایڑیاں زمین پر رگڑتا ہے۔

ماں بچے کو چھوڑ کر چلي گئیں کہ شاید اسے پیاس سے نجات دلائے، پانی کے خیال سے ایک بلندی پر چلی گئیں لیکن پانی نہ پایا؛ اسماعیل کی تنہائی نے فکرمند کردیا تھا، ناچار ہوکر بیٹے کی طرف لوٹ گئیں۔

جان لیوا صورت حال تھی، بچہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے نکلی ہوئی مچھلی کی مانند تڑپ رہا تھا؛ ایک سراب دوسری جانب سے نمایاں تھا، ایک بار پھر بچے کو چھوڑ کر روانہ ہوئيں اور دوسری جانب دوسری بلندی پر پہنچیں؛ لیکن پانی نہ پایا! اسماعیل کی پیاس نے ہوش و حواس اڑا دیا تھا ماں کا!

صفا کی طرف لوٹیں! پانی نہیں ملا! وہاں سے واپس مروہ کی طرف، شاید ایک گھونٹ ملے پانی کا ہاجر و ابراہیم کے ننھے اسماعیل کے سوکھے گلے کی تسکین کو! لیکن بے سود! ایک قطرے کی حسرت دل پر نقش ہوگئی!

ہاجر تھک ہار گئی تھیں! شرمندگی کے پھولوں نے چہرے پر تصویرگری کا کام مکمل کرلیا تھا اور اسماعیل ان کا، اب بس "تلظی" (4) کررہا تھا۔

اچانک بچے کے پہلو میں زمین سے پانی کے تھکے ہوئے حباب پھوٹنے لگے جو ماں کی آنکھوں کو روشن کررہے تھے، ہاجر نہیں سمجھ پارہی تھیں کہ سوتے میں پانی کا دیدار ہورہا تھا یا جاگتے میں! لیکن اس بار حقیقتاً پانی ہی تھا، اسماعیل نے اپنی ننھی ایڑیاں مزید زمین پر رگڑ لیں اور حباب پھٹ گئے چشمہ جاری ہؤا اور گویا نشئۂِ اُولیٰ (5) (یا نشأت اولیٰ) کا ایک نیا نشئہ نمودار ہؤا تھا!! ہاجر خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھیں؛ سینہ پُرشیر ہوگیا اور اسماعیل نے پیاس کی سختیوں سے نجات پائی۔ دور دور سے پرندے اڑ اڑ کر زمزم کی جانب آنے لگے اور قبیلۂ جُرهُم بھی پرندوں کے پیچھے پیچھے صفا اور زمزم کی جانب آئے اور اس سرزمین کو اپنا مسکن بنایا؛ یوں اس طرح کرہ ارضی کے مرکز میں زندگی کا آغاز ہوگیا۔

تشنگی کی تاریخ میں مذکور ہے کہ یہ داستان ایک بار پھر زمین کے ایک دوسرے مرکز پر دہرائی گئی! لیکن اس بار قافلہ سالارِ تشنگان ابراہیم نہیں، حسین شہید (علیہ السلام) تھے!

اہراہیم (علیہ السلام) فلسطین اور مسجد الاقصی سے مکہ کی طرف آئے تھے لیکن حسین (علیہ السلام) مکہ، خدا کے حرمِ امن سے دوسرے کعبے کی جانب عزیمت کرگئے۔ گویا پیاس کی تاریخ ایک تسلسل ہے وقت کی اتہاہ گہرائیوں سے وصالِ یار کے کعبۂ شوق تک۔

اور پانی! پانی کا چہرہ ہمیشۂ تاریخ تک شرم کے مارے کبود و نیلگوں رہ گیا۔

ایک پیاسا قافلہ؛ بڑے آرام سے؛ صحرا کے قلب میں

محرم سنہ 61 ہجری کی دوسری تاریخ کی شام کو سورج ایک عجیب انداز سے غبار آلود افق میں ڈوب گیا اور ایک جانی پہچانی مگر موت کا پیغام لانے والی خاموشی قافلے پر چھا گئی، آہستہ آہستہ ایک ولولہ پڑ گیا قافلے کے دل میں۔

غروب اور غربت

عطش اور آگ

خیمہ اور فراق

کیا چاند کا چہرہ بھی نیلا پڑ جائے گا؟

کیا سورج سرنگوں ہوگا؟

کیا [سیارہ] زہرہ کی چادر سر سے گر جائے گی؟

کیکروں کے کانٹے اور قافلے کی اسیری؟! [مروی ہے کہ شب عاشورا امام حسین(ع) صحرا سے کانٹے صاف کرتے رہے تھے کہ روز عاشورا کی شام کو بچے صحرا میں ننگے پاؤں آئیں گے!]

اور اچانک؛ ایک دلنشیں صدا خدائی انداز سے گونج اٹھی!

شہیدوں کے قافلہ سالار نے؛ خاموشی کو؛ ہاں خاموشی کو؛ ہمیشہ کے لئے توڑ دیا اور فرمایا: اے اہل قافلہ! اپنا ساز و سامان کھول دو یہیں کربلا ہے!

اسی مقام پر ہماری سواریوں کو پے کیا جائے گا،

جہاں وہ ہمارے خون سے ہولی کھیلیں گے

ہماری حرمت توڑ دیں گے

ہمارے مَردوں کو قتل کردیں گے

ہمارے اطفال کے سر قلم کر دیں گے

یہ وہی مقام ہے جہاں شیدائی دل ہماری قبروں کی زیارت کو آئیں گے اور ۔۔۔

قافلہ آہستہ آہستہ اترا؛ شہیدوں کے قافلے نے پڑاؤ ڈال دیا اور خیمے بپا ہوگئے۔

ایک خیمہ اِس پار، پیاسوں کے قافلہ سالار کے لئے

ایک خیمہ اُس پار اسیروں کی قافلہ سالار کے لئے

اور دوسرے خیمے اصحاب و انصار اور لشکر کے دلیروں کے لئے

دور سے سواروں کا سایہ سا نمودار ہؤا؛ قافلے کی آنکھیں سواروں پر جم گئی تھیں۔

قافلہ سالار نے ان سے پوچھا: ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف؟

سواروں نے کہا: ہم تمہارے دشمن ہیں، یہیں رہو، ابن مرجانہ نے مجھ پر جاسوس مقرر کئے ہیں کہ اس کے فرمان سے باہر نہ نکلوں، ہم تم پر پانی بند کرتے ہیں تا کہ پانی تشنگی سے خجل ہوجائے۔

اور یوں حادثۂ کربلا کی بنیاد پڑی۔

راتوں کے بعد دن آتے رہے اور جاتے رہے حتی کہ عاشورا کا سورج طلوع ہؤا، انصار و اعوان مردانگی کا مظاہرہ اور ظلم کے سامنے سر تسلیم کئے بغیر، یکے بعد دیگرے میدان رزم میں اترے اور سوکھے ہونٹوں اور پیاسی زبانوں کے ساتھ فیض شہادت پر فائز ہوئے۔

یزید کے گماشتوں کی قساوت و سنگدلی اپنے عروج پر تھی؛ یہ وہی تھے جنہوں نے امام کو مدینہ سے آنے کی دعوت دی اور آپ کی جانب قاصد روانہ کئے تھے لیکن اب وہ یزید کی صف میں کھڑے ہوکر پیمان شکنی کے ثبوت فراہم کررہے تھے [ناکثین کی کہانی دہرا رہے تھے] اور اب ان کی شمشیریں امام کی طرف اٹھ رہی تھی۔

گھمسان کی جنگ ہے، تھکاوٹ کی دھول رُخِ امام  پر بیٹھ گئی ہے، کبھی خیام کی طرف جا کر صورت حال کی نگرانی کرتے ہیں اور کبھی میدان کارزار کی طرف آ کر دشمنان دین کو اپنی شمشیر کی دھار سے آشنا کرتے ہیں، حرم رسول (ص) کے بچے، پیاس کی شدت سے اپنا پیٹ زمین کی رطوبت پر رکھے ہوئے تھے، اور سیدالشہداء (ع) کے لئے بچوں کی اس حالت کا مشاہدہ بہت دشوار ہے۔

پیاسوں کی تاریخ میں ہے کہ عاشورا کے واقعات کے طوفاں میں امام حسین (علیہ السلام) کے فرزندوں میں سے ایک طفلِ شیرخوار پیاس کی شدت سے پانی سے نکالی گئی مچھلی کی مانند تلظّی (6) کر رہا تھا، [کوہ صفا کے دامن میں اسماعیل کی طرح]

حرم کی بیبیوں نے طفلِ عطشان کو ابن رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے سپرد کیا تا کہ اگر ممکن ہؤا تو طفل کو سیراب کریں۔ اربابِ مَقاتِل نے لکھا ہے کہ امام نے اس شیرخوار کو سپاہ یزید پر اللہ کی حجت قرار دیا اور فرمایا:

اب جبکہ تم مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہو اور مجھ پر رحم نہیں کرتے ہو اس شیرخوار طفل پر رحم کرو۔

لشکر یزید کے اشقیاء نے امام کے جواب میں ایک تیر پھینکا اور شیرخوار بچے کا گلا ایک کان سے دوسرے کان تک کٹ گیا۔ [کیا سکھایا تھا رسول اللہ (صلی اللہ کے جانشین بن بیٹھنے والوں نے اس امت کو؟!]

امام نے طفل شیرخوار کا خون اپنے ہاتھوں میں بھر دیا اور آسمان کی طرف اچھالا تا کہ حجت ہو آپ کے دشمنوں کے لئے اور یہ وعدہ الٰہی ہے جس کا آغاز زمزمِ اسماعیل سے ہؤا اور علی اصغرِ حسین کی شہادت پر مکمل ہوگیا ہے تا کہ علی اصغر کا زمزم ہر پیاسے کو سیراب کرے [بشرطیکہ وہ اس زمزم سے سیراب ہونا چاہے]۔

اقبال کہتے ہیں:

غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم

نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسماعیل

یہاں مِنیٰ ہے اور یہ ہیں اسماعیل؛ چودہ سال گذر گئے ہیں؛ حتیٰ کہ اسماعیل جوان جہاں ہوگئے؛ جب ابراہیم (علیہ السلام) کی نگاہ اپنے فرزند پر پڑتی تو سرور و شادمانی محسوس کرتے۔ محرم کی آمد آمد تھی کہ اہراہیم (ع) نے اسماعیل سے کہا:

میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں؛ اب تم غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟

اسماعیل نے عرض کیا: اے بابا! کیجئے جو آپ کو حکم ہو رہا ہے، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے؛  قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ"۔ (صافات، 102)۔

ابراہیم (علیہ السلام) کو مختلف اور جاں فرسا آزمائشوں اور ابلیس کے ساتھ دشوار جنگوں میں بارہا آزمائشوں پر بھی اور ابلیس لعین پر بھی، غالب آگئے ہیں مگر یہ آزمائش بہت سخت اور دشوار ہے؛ لیکن ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کا وہی بندہ ہے جس کے لئے خدا نے خود ہی ارشاد فرمایا ہے کہ "سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ" (صافات، 109) یا یہ کہ "یقینا ابراہیم بڑی قوت برداشت رکھنے والے، ہمدردی رکھنے والے، خدا سے لو لگانے والے تھے؛ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ"۔ (ہود، 75)

چنانچہ بے سبب نہ ہوگا اگر ابراہیم (علیہ السلام) اس بار بھی ابلیس پر فتح پالیں اور اس دھتکارے ہوئے اور راندہ درگاہ کو سنگسار کر دیں اور اسماعیل کو ذبح کرنے کا فیصلہ کر ہی لیں تا کہ ابد تک اپنے اس فرزند دلبند کے غم میں محزون ہوں [وہ فرزند جو ابراہیم (علیہ السلام) کو 86 سال کی عمر میں عطا کیا گیا تھا]۔

چنانچہ ابراہیم (علیہ السلام) اٹھ کر اسماعیل کو قربانگاہ کی طرف لے جاتے ہیں اور خنجر اپنے دلبند کے گلے پر پھیرتے ہیں لیکن کوششیں بے سود ہیں اور خنجر گلا کاٹنے سے عاجز۔ خنجر کو ایک پتھر مارتے ہیں تو پتھر کٹ جاتا ہے اور اسی اثناء میں وحی نازل ہوتی ہے اور خطاب ہوتا ہے "ہم نے تمہاری قربانی قبول کرلی۔ ابراہیم (علیہ السلام) بہت دلگیر اور محزون ہوجاتے ہیں! کہ "خدا کی راہ میں اپنے فرزند کی مصیبت میں غمگینی کے فیض سے محروم ہو گئے ہیں۔

جبرائیل (علیہ السلام) حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں: کیا اپنے فرزند کے غم میں ہمیشہ گریہ و بکاء میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں؟

اہراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا: ہاں!

اے ابراہیم! آپ برتر و افضل ہیں یا نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ و آلہ)؟

جواب دیتے ہیں: یقیناً نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ و آلہ)۔

پوچھا: آپ کے اسماعیل افضل ہیں یا پیغمبرِ خاتَم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے فرزند؟

جواب دیتے ہیں: یقیناً پیغمبرِ خاتَم (صلی اللہ علیہ) کے فرزند۔

پس سن لیجئے کہ ہم نے آپ کے اسماعیل کو آپ کے فرزند حسین (علیہ السلام) کے عوض قبول کیا جن کا غم و اندوہ آپ کے لئے زیادہ سخت ہے اور آپ کے اسماعیل ہو ہم نے اس طرح ذبح عظیم کے عوض آزاد کیا۔ (7)

اور کہا گیا ہے کہ اس کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) کو کسی نے "بسیم" (مسکراتا ہؤا)  نہیں پایا۔ اور ایک حزن و غم ان کے چہرے پر نقش ہوگیا جو آخرِ عمر تک ان کے چہرے سے الگ نہ ہؤا کیونکہ پروردگار عالم کے ہاں طے پایا کہ اسماعیل کی جگہ عالم وجود کا عزيزترین پھول یعنی حسین (علیہ السلام) یار کے مِنیٰ میں قربان ہوجائے۔

اور اب اس کربلا پر ایک نظر دوڑایئے، یہ ہے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) آئینۂ قد نما، میدان کی طرف جارہا ہے۔

مروی ہے کہ فرزندان ابوطالب (علیہ السلام) میں سب سے پہلے مجاہد جو میدان جنگ میں اترے، جناب علی اکبر (علیہ السلام) تھے۔ والد ماجد سے اجازت مانگی اور والد نے انہیں شیطان کے روسیاہ لشکر کے مقابلے کے لئے روانہ کیا اور بارگاہ حق میں عرض کیا: بار خدایا! تو اس قوم پر گواہ رہنا، میں نے ایسا نوجوان ان کے سامنے بھیجا ہے جو سیرت و اخلاق اور صورت و کلام میں تیرے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا شبیہ ترین ہے۔ ہم جب بھی تیرے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دیدار کے لئے بے چین ہو جاتے تھے تو اس کا دیدار کرتے تھے"؛ اور پھر عمر بن سعد بن ابی وقاص سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: "وائے ہو تجھ پر، اللہ تیرا رَحِم منقطع کردے، اور اللہ تیرے معاملات میں برکت نہ دے، اور مسلط کر دے تم پر اس کو جو میرے بعد تجھے تیرے بستر میں ذبح کر دے، جیسا کہ تو نے میرے رَحِم  اور میری منقطع کر دیا، اور تو نے رسول اللہ (صلی للہ علیہ و آلہ کے ساتھ میری قرابت کا تحفظ نہیں کیا؛ مالَكَ؟ قَطَعَ اللّهُ رَحِمَكَ! وَلا بارَكَ اللّهُ لَكَ فِي أَمْرِكَ، وَسَلَّطَ عَلَيْكَ مَنْ يَذْبَحُكَ بَعْدي عَلى فِراشِكَ، كَما قَطَعْتَ رَحِمي وَلَمْ تَحْفَظْ قَرابَتي مِنْ رَسُولِ اللّهِ (صلى الله عليه وآله)"۔

اور پھر ان آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی:

"بلاشبہ اللہ نے منتخب کیا [اور برتری عطا کی] آدم، نوح، خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہانوں پر *  ایک مسلسل نسل کی صورت میں جن کے بعض [پاکیزگی، تقویٰ اور فضیلت کے لحاظ] بعض سے ہیں اور اللہ سننے والا ہے، بڑا جاننے والا؛ إِنَّ اللهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحاً وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ * ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْض وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ"۔ (آل عمران، 33-34) ۔

علی اکبر میدان کارزار میں اترے اور گھمسان کی جنگ لڑنے اور مردانگی کے جوہر جگانے کے بعد واپس لوٹے اپنے بابا کی خدمت میں، اور عرض کیا: "بابا جان! پیاس نے مار دیا مجھے! اور زرہ کی سنگینی نے مجھے بے تاب کردیا ہے ۔۔۔ کیا ایک گھونٹ پانی مل سکے گا، کہ پی کر پی لوں اور دشمنوں کے خلاف جنگ جاری رکھوں؛ يا أبَهْ! ألْعَطَشُ قَدْ قَتَلَني، وَثِقْلُ الْحَديدِ أَجْهَدَني، فَهَلْ إِلى شَرْبَة مِنْ ماء سَبِيلٌ أَتَقَوّى بِها عَلَى الاْعْداءِ"۔

مروی ہے کہ مولا نے اپنی زبان اپنے فرزند کے منہ میں رکھا [تو علی اکبر (ع) پیچھے ہٹ گئے اور عرض کیا بابا! آپ تو مجھ سے بھی زیادہ پیاسے ہیں]۔ امام (ع) نے فرمایا: عنقریب اپنے جد امجد کے دست مبارک سے سیراب ہوجاؤگے! تھوڑا سا انتظار کرنا پڑے گا!

دوبارہ میدان کی طرف لوٹے اور خوب لڑے حتی کہ ایک بزدل شقی "منقذ بن مرہ عبدی" نے گھات لگا کر اپنی تلوار سے شبیہ پیغمبر کی جبین کو نشانہ بنایا جس سے علی اکبر (علیہ السلام) کا سر پھٹ گیا اور علی اکبر عرش زین سے فرش زمین پر آرہے۔ لشکر شیطان کے سپاہی ہر طرف سے زخمی جسم پر ٹوٹ پڑے "فقطعوه إرباً إرباً" اور بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔

جب علی اکبر (ع) گھوڑے کے زين سے سے گر کر اپنے خون میں غوطہ زن ہوئے تو اپنے والد ماجد کو صدا دی: اے بابا  اور اے میرے آقا! خدا کا درود و سلام ہو آپ پر؛ ہاں! میں نے اپنے جد کے ہاتھ سے پانی نوش کیا ایسا کہ کبھی بھی پیاس مجھ پر مسلط نہ ہوسکے گی؛ اور اسی اثناء میں مولا اپنے اسماعیل کے بالیں پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: يَا بُنَيَّ! [اے میرے ننھے بیٹے]! تمہارے بعد یہ دنیا کتنی کریہ المنظر ہوگی میرے لئے!

رفتہ رفتہ اللہ کا وعدہ قریب اور قریب تر ہو رہا تھا اور حسین (علیہ السلام) گودال قتگاہ کی جانب رواں دواں تھے، تاکہ تاریخ کا اسماعیل مِنائے یار میں قربان ہو جائے؛ اور یوں تھا کہ حسین (علیہ السلام) ولایت الٰہیہ کے برسوں کا جلوہ تمام قد بن گئے، تمام عصروں اور نسلوں کے لئے چراغ نور بخش بن گئے، خدا کی راہ پر گامزن ہونے کے لئے؛ اور کشتی نجات بن گئے پوری انسانیت اور بندگی کے بے کراں سمندروں کے لئے۔

...........

مآخذ:

1. بنی جرہم ایک یمنی قبیلہ تھا جو اُس زمانے میں جزیرة العرب میں آیا اور حضرت اسماعیل نے اسی قبیلے سے زوجہ اختیار کرلی۔

2. مکہ کا دوسرا نام جو قرآن کی سورت آل عمران کی آیت 96 میں بھی مذکور ہے۔

3. سوره ابراهیم آیه 27.

4. تلظی قرآن کی سورةاللیل کی آیت14 میں بھڑکتی ہوئی آگ کے معنی میں آیا ہے اور مرنے سے قبل ہانپنے اور سانس اکھڑنے کے معنی میں بھی آیا ہے۔

5. نشئۂ اولیٰ (یا نشأتِ اولیٰ) یعنی دنیا کی زندگی۔

6. تلظی قرآن کی سورةاللیل کی آیت14 میں بھڑکتی ہوئی آگ کے معنی میں آیا ہے اور جانکنی کے وقت ہانپنے اور سانس اکھڑنے کے معنی میں بھی آیا ہے۔

7. عیون اخبار الرضا و خصال شیخ صدوق

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تحریر میں علقمہ و عباس کا تذکرہ نہیں ہؤا ہے۔ اس کمی کو پورا کیا جائے گا ان شاء اللہ

بقلم: سیدمحمدرضا آقامیری

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110